ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
اب ’تابوت ‘ کی’تا‘ کے سلسلہ میں واضح ہونا چاہیے کہ ابتدائی ہدایت کے مطابق تو اجتہاد کرتے ہوئے اسے لغت قریش کے مطابق لکھ دیاگیا تھا،لیکن بعد ازاں بعض روایات میں یہ وضاحت بھی ملتی ہے کہ اسی کمیٹی کو لفظ ’تابوت‘ بعض صحابہ کے پاس باقاعدہ طور پر لمبی تاء کے ساتھ لکھا ہوا بھی مل گیاتھا،جس کی وجہ سے ہم برملا کہہ سکتے ہیں کہ کلمہ ’تابوت‘ میں اجتہاد کے ذریعے جو رسم الخط اختیار کیا گیا تھا،بعد ازاں اسے بھی روایات کی موافقت ملنے کی وجہ سے’ توقیفی‘ حیثیت مل گئی۔ اس قسم کی بعض دیگر تفصیلات ماہنامہ رشد’ قراء ات نمبر‘ حصہ اوّل میں قاری محمد مصطفی راسخ ﷾ کے مضمون میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔ موصوف نے اس قسم کے تمام اشکالات کو رفع کیا ہے اور ان روایات کی تخریج بھی کردی ہے ، جن میں تابوت کی’تا‘ بعض دیگر صحابہ سے مل گئی تھی۔
اس ضمن میں تفصیلی دلائل کے شائقین کو جناب حافظ سمیع اللہ فراز﷾ کے ایم فل کی سطح پر لکھے گئے تحقیقی مقالے ’رسم عثمانی اور اس کی شرعی حیثیت‘، مطبوع شیخ زاید اسلامک سینٹر، پنجاب یونیورسٹی، لاہور کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے، جس سے کافی سارے سوالات واشکالات رفع ہوجانے کی امید کی جاسکتی ہے۔
اس ضمن میں تفصیلی دلائل کے شائقین کو جناب حافظ سمیع اللہ فراز﷾ کے ایم فل کی سطح پر لکھے گئے تحقیقی مقالے ’رسم عثمانی اور اس کی شرعی حیثیت‘، مطبوع شیخ زاید اسلامک سینٹر، پنجاب یونیورسٹی، لاہور کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے، جس سے کافی سارے سوالات واشکالات رفع ہوجانے کی امید کی جاسکتی ہے۔