ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
قرآن مجید کے حفظ کا ایک خاص انداز ہے، جس میں ایک آیت کو حفظ کرکے، آگے منتقل کرنے کے لیے استاد اور شاگرد کا جو اسلوب ہوتا ہے، وہ حدیث یا دنیا میں کسی علم کے طریقۂ روایت میں دیکھانا ممکن نہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید کو حفظ کرنے کے لیے ایک ایک لفظ کو ایک طالب علم یاد کرنے کے لیے بسا اوقات دو دو گھنٹوں میں بیسیوں دفعہ تکرار کے بعد یاد کرتا ہے۔ اس کے بالمقابل حدیث کے حفظ کا حلقوں کی صورت میں کوئی اہتمام ہے اورنہ حدیث کو بطور الفاظ یاد کرنے کی کوئی مثال پیش کی جاسکتی ہے، جس طرح کہ قرآن مجید میں اہتمام کے ساتھ ایک معجزانہ صورت میں یہ موجود ہے۔ قرآن کریم کے طریقۂ ضبط کے حفظ ِحدیث سے فرق سمجھنے کے لیے اگر غور کیا جائے تو مشاہدہ یہ ہے کہ جن طلبہ کے حافظے کمزور ہیں، جب وہ قرآن مجید کو یاد کرتے ہیں تو حفظ کرتے وقت ان کو عام ذہین بچوں کے بالمقابل ۵۰ کے بجائے دو دو سو بار ایک آیت کو دہرانا پڑتا ہے اورعام طور پر قرآن کا نقش ان کے ذہن پر جب جاگزیں ہوتا ہے تو وہ نقش اس قدر دیرپا ہوتا ہے کہ تیز حافظے والے بچوں کے ذہن پر اِس کا اثر اس قدر قوی نہیں ہوتا۔ عام مشاہدہ ہے کہ جو بچے قوی حافظے کی بنا پر جلد حفظ کرلیتے ہیں وہ عموما جلد بھول بھی جاتے ہیں۔ عام طور پر وہ لوگ جومختلف انسانی قویٰ میں کسی نہ کسی پہلو سے محرومی رکھتے ہوں، مثلاً نابینا حضرات یاوہ لوگ جو ذہنی طور پر کمزور ہوں، بلکہ مدارس میں تو آج ایسے بچوں کو ہی حفظ کے لیے بھیجا جاتا ہے، یہ لوگ جب قرآن مجید کو حفظ کرتے ہیں تو ان کو حفظ کرنے میں چھ چھ ، آٹھ آٹھ سال کاعرصہ لگ جاتا ہے۔ اسی وجہ سے حفظ قرآن میں ان کی طبعی کمزوریاں یوں زائل ہوجاتی ہیں کہ شمار تکرار کی وجہ سے قلوب واذہان پر قرآن کریم کانقش زیادہ گہرا ہو جاتا ہے۔