ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
گویا اس قسم کے اختلاف کا فیصلہ کتاب وسنت کی روشنی میں کیا جائے گا۔ جس طرف دلیل قوی ہوگی، اسی رائے کو ترجیح دی جائے گی۔ البتہ یاد رہے کہ قراء ات کے ضمن میں تو ایسا اختلاف پیش کرناچونکہ ممکن نہیں، اس لیے یہ رویہ دیگر اختلافی امور کے بارے میں اختیار کیا جائے ہے۔
بہرحال اس حقیقت کے بیان کے ساتھ کہ امت میں روایت حفص کے علاوہ روایت ورش، روایت قالون اور روایت دوری بھی بطور تعامل کے رائج ہیں اور سب سے زیادہ انتشار روایت حفص اور روایت ورش کو حاصل ہے، جبکہ روایت قالون آٹھ دس ممالک میں اور روایت دوری صومالیہ، سوڈان اور مصر وغیرہ میں رائج ہے، اب ہم بحث کرتے ہیں سوال مذکور کے جواب پر۔ پہلی بات یہ ہے کہ یہ بات صحیح نہیں کہ روایت حفص کو زیادہ شہرت کیوں ملی، صحیح یہ ہے کہ دنیا میں روایت ورش کو بھی تقریبا روایت حفص جتنی شہرت ومقبولیت حاصل ہے۔ ان چار روایات کی عوامی شہرت کے اسباب کیا ہیں اور ان کے بالمقابل باقی سولہ متواتر روایات زیادہ مشہورکیوں نہیں ہوئیں؟ اس کا جواب تاریخی اتار چڑھاؤ سے متعلق ہے، ورنہ بطور دین تو ’حروف سبعہ‘ اور ان کی جمیع ترمنقولات (قراء ات وروایات) کے مابین کوئی فرق نہیں۔ جو وجہ بظاہر ان چار روایات کے انتشار کی معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ چوتھی صدی ہجری سے فقہی تقلید کے آغاز کی وجہ سے عالم اسلام نے مختلف فقہوں سے جامد نسبت اختیار کر لی تھی۔ شروع میں بقول شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ایسے دسیوں آئمہ تھے جن سے عوامی عقیدت نے تقلید کا روپ دھار لیا تھا، جن میں امام ابو ثوررحمہ اللہ، امام ابن ابی لیلی رحمہ اللہ، امام حسن بصری رحمہ اللہ اور امام سفیان ثوری رحمہ اللہ وغیرہ جیسے اکابرین شامل ہیں۔ یہی وجہ کہ فقہ مقارن کی معروف کتب مثلا بدایۃ المجتہد وغیرہ میں جب متعدد مسائل میں فقہی مسالک کا ذکر ہوتا ہے تو آئمہ اربعہ کے علاوہ ان دیگر معروف شخصیات کے نام بھی پیش کیے جاتے ہیں۔
بہرحال اس حقیقت کے بیان کے ساتھ کہ امت میں روایت حفص کے علاوہ روایت ورش، روایت قالون اور روایت دوری بھی بطور تعامل کے رائج ہیں اور سب سے زیادہ انتشار روایت حفص اور روایت ورش کو حاصل ہے، جبکہ روایت قالون آٹھ دس ممالک میں اور روایت دوری صومالیہ، سوڈان اور مصر وغیرہ میں رائج ہے، اب ہم بحث کرتے ہیں سوال مذکور کے جواب پر۔ پہلی بات یہ ہے کہ یہ بات صحیح نہیں کہ روایت حفص کو زیادہ شہرت کیوں ملی، صحیح یہ ہے کہ دنیا میں روایت ورش کو بھی تقریبا روایت حفص جتنی شہرت ومقبولیت حاصل ہے۔ ان چار روایات کی عوامی شہرت کے اسباب کیا ہیں اور ان کے بالمقابل باقی سولہ متواتر روایات زیادہ مشہورکیوں نہیں ہوئیں؟ اس کا جواب تاریخی اتار چڑھاؤ سے متعلق ہے، ورنہ بطور دین تو ’حروف سبعہ‘ اور ان کی جمیع ترمنقولات (قراء ات وروایات) کے مابین کوئی فرق نہیں۔ جو وجہ بظاہر ان چار روایات کے انتشار کی معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ چوتھی صدی ہجری سے فقہی تقلید کے آغاز کی وجہ سے عالم اسلام نے مختلف فقہوں سے جامد نسبت اختیار کر لی تھی۔ شروع میں بقول شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ایسے دسیوں آئمہ تھے جن سے عوامی عقیدت نے تقلید کا روپ دھار لیا تھا، جن میں امام ابو ثوررحمہ اللہ، امام ابن ابی لیلی رحمہ اللہ، امام حسن بصری رحمہ اللہ اور امام سفیان ثوری رحمہ اللہ وغیرہ جیسے اکابرین شامل ہیں۔ یہی وجہ کہ فقہ مقارن کی معروف کتب مثلا بدایۃ المجتہد وغیرہ میں جب متعدد مسائل میں فقہی مسالک کا ذکر ہوتا ہے تو آئمہ اربعہ کے علاوہ ان دیگر معروف شخصیات کے نام بھی پیش کیے جاتے ہیں۔