ہم نے تو مؤطا امام محمد کے گیارہ رکعت تراویح والے باب کا ترجمہ و مفہوم پیش کیا تھا ، افسوس آپ کو گھوڑے ،گدھے نظر آنے لگے ، آپ کے ہمسائے میں کسی مقلد نے گدھوں کا فارم تو نہیں کھول رکھا ،
اور رہا عبارت کے ترجمہ کا معاملہ تو اس میں بھی پوری عبارت کا ترجمہ لکھنے سے ڈر گئے ،
بہرحال ایک مرتبہ پھر مؤطا کے گیارہ رکعت تراویح والے باب کا ترجمہ و شرح پیش خدمت ہے
امام ابوحنیفہ کے شاگرد امام محمدؒ بن الحسن الشیبانی
مؤطا میں روایت کرتے ہیں :
(باب قيام شهر رمضان وما فيه من الفضل )
أخبرنا مالك، حدثنا سعيد المقبري، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن: أنه سأل عائشة كيف كانت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان؟ قالت: ما كان (1) رسول الله صلى الله عليه وسلم يزيد في رمضان ولا غيره على إحدى (2) عشرة ركعة (1) ، يصلي أربعا، فلا تسأل عن حسنهن (2) وطولهن، ثم يصلي أربعا (3) فلا تسأل عن حسنهن وطولهن ثم يصلي ثلاثا (4) ، قالت: فقلت: يا رسول الله أتنام (5) قبل أن توتر؟ فقال: يا عائشة عيناي تنامان (1) ولا ينام قلبي (2)
https://archive.org/stream/moumjad/moumjad01#page/n617/mode/2up
یعنی ماہ رمضان کا قیام اور اس کی فضیلت ( اس کی توضیح میں علامہ عبدالحیی لکھتے ہیں " ويسمى التراويح " اس قیام سے مراد تراویح ہے :
❀جناب ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا:
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان میں (رات کی) نماز (تراویح) کیسی ہوتی تھی ؟ تو ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا :
ما كان يزيد فى رمضان ولا فى غيره على إحدي عشرة ركعة إلخ ”رمضان ہو یا غیر رمضان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی چار رکعت ایسی باکمال پڑھتے، کہ تم ان کے حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، پھر چار رکعت پڑھتے، ان کے بھی حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، آخر میں تین رکعت (وتر) پڑھتے تھے۔ میں نے ایک بار پوچھا، یا رسول اللہ! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔ “
_____________________
اس کے حاشیہ میں مشہور حنفی عالم علامہ عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
(2)
قوله: إحدى عشر ركعة، روى ابن أبي شيبة وعبد بن حميد والبغوي والبيهقي والطبراني، عن ابن عباس: أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يصلي بعشرين ركعة والوتر في رمضان. وفي سنده إبراهيم بن عثمان أبو شيبة جد ابن أبي شيبة صاحب المصنف، وهو مقدوح فيه، وقد ذكرت كلام الأئمة عليه في "تحفة الأخيار". وقال جماعة من العلماء - منهم الزيلعي وابن الهمام والسيوطي والزرقاني -: إن هذا الحديث مع ضعفه معارض بحديث عائشة الصحيح في عدم الزيادة على إحدى عشرة ركعة، فيقبل الصحيح ويطرح غيره، وفيه نظر: إذ لا شك في صحة حديث عائشة وضعف حديث ابن عباس، لكن الأخذ بالراجح وترك المرجوح إنما يتعين إذا تعارضا تعارضا لا يمكن الجمع، وههنا الجمع ممكن بأن يحمل حديث عائشة على أنه إخبار عن حاله الغالب كما صرح به الباجي في "شرح الموطأ" وغيره، ويحمل حديث ابن عباس على أنه كان ذلك أحيانا
https://archive.org/stream/moumjad/moumjad01#page/n619/mode/2up
یعنی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث شریف میں گیارہ رکعات تراویح کے قیام بتایا ہے ،جبکہ مصنف ابن ابی شیبہؒ اور عبد بن حمید ،بغوی ؒ اور طبرانی وغیرہ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی روایت بیس رکعات تراویح اور وتر منقول ہیں ،لیکن بیس والی یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کا راوی ابراہیم بن عثما ن ابو شیبہ ضعیف ہے ، اور اس راوی پر ائمہ فن کا کلام میں نے تحفۃ الاخیار میں ذکر کردیا (وہاں اس کی تفصیل دیکھ لی جائے ) اور جلیل القدرعلماء کی ایک جماعت جیسے امام زیلعیؒ ،ابن الھمامؒ ،امام سیوطیؒ ، علامہ الزرقانیؒ کا کہنا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی بیس رکعات تراویح کی یہ روایت ضعیف ہونے کے ساتھ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول صحیح حدیث کے معارض ہے جس میں گیارہ رکعت تراویح کا ثبوت، اور گیارہ سے زائد کی نفی ہے ،
تو اس تعارض میں صحیح حدیث کو قبول کیا جائے گا اور ضعیف کو چھوڑ دیا جائےگا ۔
آگے علامہ عبدالحی کہتے ہیں : اس میں نظر ہے ،ام المومنین سیدہ عائشہ کی حدیث کے صحیح ہونے اور حدیث ابن عباس کے ضعیف ہونے میں تو کوئی شک نہیں ہے ، لیکن مرجوح کو چھوڑ کر راجح کو اپنانا تب ہوتا ہے جب دو متضاد روایات کو جمع کرنا ممکن نہ ہو ،جب کہ یہاں جمع ممکن ہے ،اور وہ اس طرح کہ : سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی صحیح حدیث کو غالب احوال پر محمول کیا جائے ، جیسا علامہ باجیؒ نے شرح مؤطا میں کہا ہے ، اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی (بیس رکعات والی ) روایت کو کبھی کبھار پر محمول کیا جائے ،
اس کلام کا خلاصہ یہ کہ :
(1) ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کا تعلق رمضان میں ادا کی جانے والی تراویح سے ہے
(2) اور اس روایت میں گیارہ رکعت تراویح مع الوتر کا ثبوت ہے ،
(3)سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت واقعی صحیح ہے ،
(4) جب کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت بالکل ضعیف ہے ، اور ائمہ فقہ وحدیث کے نزدیک سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی صحیح حدیث کے معارض ہے ،
(5) علامہ عبدالحی کو اس ضعیف ہونے کا برملا اعتراف ہے ،
(6) سیدہ عائشہ کی حدیث کا تعلق واقعی رمضان کی تراویح سے ہے ،(یعنی جو لوگ کہتے ہیں کہ اس حدیث کا رمضان کی تراویح سے تعلق نہیں ، ان بے چاروں خیال میں امام زیلعیؒ ،امام ابن الھمامؒ ،امام سیوطیؒ اور علامہ زرقانیؒ جیسے عظیم علماء کو بھی اس حدیث کے مقصود کی سمجھ نہ آئی )
ـــــــــــــــــــــــ
❀
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ :
نماز وتر کے علاوہ آٹھ رکعات تراویح کی بحث کسی ایک گروہ نے شروع نہیں کی ، بلکہ صحیح احادیث کے پیش نظر حنفی علماء و فقہاء نے بڑے اہتمام سے پیش کی ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔