• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تعداد رکعات تراویح پر ایک کتاب

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
اس کے حاشیہ میں مشہور حنفی عالم علامہ عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
قوله: إحدى عشر ركعة، روى ابن أبي شيبة وعبد بن حميد والبغوي والبيهقي والطبراني، عن ابن عباس: أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يصلي بعشرين ركعة والوتر في رمضان. وفي سنده إبراهيم بن عثمان أبو شيبة جد ابن أبي شيبة صاحب المصنف، وهو مقدوح فيه، وقد ذكرت كلام الأئمة عليه في "تحفة الأخيار". وقال جماعة من العلماء - منهم الزيلعي وابن الهمام والسيوطي والزرقاني -: إن هذا الحديث مع ضعفه معارض بحديث عائشة الصحيح في عدم الزيادة على إحدى عشرة ركعة، فيقبل الصحيح ويطرح غيره،
آپ نے پھر سے آدھی ادھوری عبارت نقل کرے اپنے امانت ودیانت کی مزید ایک مثال پیش کردی ہے،ویسے میرا خیال ہے کہ یہ اقتباس بھی کاپی پیسٹ کا ہی کمال ہے، آپ نے خود سے اصل مرجع سے رجوع نہیں کیاہے،اگر اصل مرجع سے رجوع کیاہوتاتو اس عبارت کو نقل نہ کرتے کیونکہ پوری عبارت نقل کرنے سے مولانا عبدالحی کا حوالہ دینے کا مقصد ہی فوت ہوسکتاتھا،مولانا عبدالحی کی پوری عبارت یہ ہے:
قوله: إحدى عشر ركعة، روى ابن أبي شيبة وعبد بن حميد والبغوي والبيهقي والطبراني، عن ابن عباس: أن النبيَّ صلّى الله عليه وسلّم كان يصلي بعشرين ركعة والوتر في رمضان. وفي سنده إبراهيم بن عثمان أبو شيبة جد ابن أبي شيبة صاحب المصنَّف، وهو مقدوح فيه، وقد ذكرت كلام الأئمة عليه في "تحفة الأخيار". وقال جماعة من العلماء - منهم الزيلعي وابن الهمام والسيوطي والزرقاني -: إن هذا الحديث مع ضعفه معارض بحديث عائشة الصحيح في عدم الزيادة على إحدى عشرة ركعة، فيُقبل الصحيح ويُطرح غيره، وفيه نظر: إذ لا شكّ في صحة حديث عائشة وضعف حديث ابن عباس، لكن الأخذ بالراجح وترك المرجوح إنما يتعيَّن إذا تعارضا تعارضاً لا يمكن الجمع، وههنا الجمع ممكن بأن يُحمل حديث عائشة على أنه إخبار عن حاله الغالب كما صرَّح به الباجيّ في "شرح الموطأ" وغيره، ويُحمل حديث ابن عباس على أنه كان ذلك أحياناً(قلت: قد يُعمل بالضعيف لتقويته بالتعامل وغيره، يؤيِّد حديث ابن عباس عملُ الفاروق فقد تلقّته الأمة بالقبول، واستقر أمر التراويح في السنة الثانية من خلافته كما في طبقات ابن سعد 3/202) .
التعليق الممجد على موطأ محمد (1/ 621)

اگرہم اس کو خیانت کہیں کہ آپ نے مصنف کی منشا اور مراد کے برخلاف آدھی ادھوری عبارت نقل کی جس عبارت کو نقل کرکے مصنف ’’فیہ نظر‘‘کہہ رہاہے،اسی عبارت کو آپ مصنف کی مراد بتاناچاہتے ہیں، یہ علمی امانت کی کون سی قسم آپ متعارف کرارہے ہیں،یاکس سے آپ نے یہ سیکھاہے کہ مصنف جس عبارت پر تنقید کرے ،وہی عبارت مصنف کی مراد سمجھ لی جائے؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
اگرہم اس کو خیانت کہیں کہ آپ نے مصنف کی منشا اور مراد کے برخلاف آدھی ادھوری عبارت نقل کی
شکر ہے آپ کو مؤطا امام محمد کا حوالہ نظر تو آیا ،
ورنہ آپ تو مان کر نہیں دے رہے تھے کہ " گیارہ تراویح " کا ذکراسلاف علماء نے کیا ہے اور بڑے اہتمام سے کیا ہے، خیر ہماری محنت کا اتنا صلہ تو ملا :
جو ہم گزری سو گزری شب ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے
اور میری امانت و خیانت کی حقیقت تو تب ہی سامنے آسکتی ہے جب آپ "اپنی دیانت " کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس عبارت کا اردو ترجمہ ساتھ پیش کریں ، ورنہ تو یہ نرا واویلا ہے ،
لہذا آپ بلا پس و پیش اپنی پیش کردہ عبارت کا ترجمہ کریں ،
 
Last edited:

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
اور اس روایت میں گیارہ رکعت تراویح مع الوتر کا ثبوت ہے ، جبکہ مصنف ابن ابی شیبہؒ اور عبد بن حمید ،بغوی ؒ اور طبرانی
وغیرہ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی بیس رکعات تراویح کی روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کا راوی ابراہیم بن عثمانابو شیبہ ضعیف ہے ، اور ہمارے جلیل القدرعلماء جیسے امام زیلعیؒ ،ابن الھمامؒ ،امام سیوطیؒ ، علامہ الزرقانیؒ کا کہنا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی بیس رکعات تراویح کی یہ روایت ضعیف ہونے کے ساتھ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول صحیح حدیث کے معارض ہے جس میں گیارہ رکعت تراویح کا ثبوت، اور گیارہ سے زائد کی نفی ہے ،
تو اس تعارض میں صحیح حدیث کو قبول کیا جائے گا اور ضعیف کو چھوڑ دیا جائےگا ۔
آپ نے جو خلاصہ کیاہے،اس میں گھوڑے کاخلاصہ گدھاکردیاہے،ملون یاہائی لائٹ کردہ جملہ کس لفظ کا ترجمہ یاخلاصہ ہے؟جبکہ مصنف کے الفاظ فقط اسی قدر ہیں۔ قوله: إحدى عشر ركعةاس کا ترجمہ کس لغت کی رو سےآپ نے کردیا:
اور اس روایت میں گیارہ رکعت تراویح مع الوتر کا ثبوت ہے
بہرحال آگے کا ترجمہ یہ ہے
وفيه نظر: إذ لا شكّ في صحة حديث عائشة وضعف حديث ابن عباس، لكن الأخذ بالراجح وترك المرجوح إنما يتعيَّن إذا تعارضا تعارضاً لا يمكن الجمع، وههنا الجمع ممكن بأن يُحمل حديث عائشة على أنه إخبار عن حاله الغالب كما صرَّح به الباجيّ في "شرح الموطأ" وغيره، ويُحمل حديث ابن عباس على أنه كان ذلك أحياناً(قلت: قد يُعمل بالضعيف لتقويته بالتعامل وغيره، يؤيِّد حديث ابن عباس عملُ الفاروق فقد تلقّته الأمة بالقبول، واستقر أمر التراويح في السنة الثانية من خلافته كما في طبقات ابن سعد 3/202) .

[FONT=KFGQPC Uthman Taha Naskh, Trad Arabic Bold Unicode, Tahoma]بہرحال آپ ہی کی طرٓح خلاصہ یہ ہے کہ مولانا عبدالحی مزید فرماتے ہیں:
اوران حضرات یعنی زیلعی زرقانی سیوطی وغیرہ کی یہ بات کہ حدیث عائشہ وحدیث ابن عباس میں تعارض ہے،محل نظر ہے،حدیث عائشہ کی صحت اور حدیث ابن عباس کے ضعف میں کوئی شک نہیں ہے لیکن راجح کو اخذ کرنا اورمرجوح کو ترک کرنا اس وقت متعین ہوتاہے جب ایسا تعارض ہو کہ دونوں کو جمع کرنا ممکن نہ ہو،اور یہاں دونوں کو جمع کیاجاسکتاہے اس طورپر کہ حدیث عائشہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بیشتر احوال پر محمول کیاجائے جیساکہ باجی نے موطا کی شرح میں اوردیگر حضرات نے اس کی وضاحت کی ہے اورحدیث ابن عباس کو کبھی کبھار کے معمول پر محمول کیاجائے۔

ویسے میری بات یاد رکھیں
[/FONT]
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
ابن نجیم مصری (متوفی 970؁ھ) نے ابن ہمام حنفی کو بطور اقرار نقل کیا کہ
فإذن يكون المسنون على أصول مشايخنا ثمانية منها والمستحب اثنا عشرا
”پس اس طرح ہمارے مشائخ کے اصول پر ان میں سے آٹھ (رکعتیں) مسنون اور بارہ (رکعتیں) مستحب ہوجاتی ہیں۔“ [البحرالرائق ج 2 ص 67]
غنیمت ہےکہ اس کو نقل قراردیاورنہ کہیں اس کو حسب سابق ابن نجیم کا قول ہی نہ بنادیتے،ویسے یہ بطور اقرار کہاں سے اورکس دلیل سے اخذکیاہے ذرا اس کی وضاحت فرمائیے گا،مجھے توکہیں بھی بطور اقرارمعلوم نہیں ہوا بلکہ صرف یہ ایک قول کا نقل کرنا ہی معلوم ہواہے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
آپ نے جو خلاصہ کیاہے،اس میں گھوڑے کاخلاصہ گدھاکردیاہے،ملون یاہائی لائٹ کردہ جملہ کس لفظ کا ترجمہ یاخلاصہ ہے؟جبکہ مصنف کے الفاظ فقط اسی قدر ہیں۔ قوله: إحدى عشر ركعةاس کا ترجمہ کس لغت کی رو سےآپ نے کردیا:
اور اس روایت میں گیارہ رکعت تراویح مع الوتر کا ثبوت ہے
ہم نے تو مؤطا امام محمد کے گیارہ رکعت تراویح والے باب کا ترجمہ و مفہوم پیش کیا تھا ، افسوس آپ کو گھوڑے ،گدھے نظر آنے لگے ، آپ کے ہمسائے میں کسی مقلد نے گدھوں کا فارم تو نہیں کھول رکھا ،
اور رہا عبارت کے ترجمہ کا معاملہ تو اس میں بھی پوری عبارت کا ترجمہ لکھنے سے ڈر گئے ،
اتنا بھی کیا ڈرنا ،اور شرمانا ؟؟؟؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بہرحال ایک مرتبہ پھر مؤطا کے گیارہ رکعت تراویح والے باب کا ترجمہ و شرح پیش خدمت ہے

امام ابوحنیفہ کے شاگرد امام محمدؒ بن الحسن الشیبانی مؤطا میں روایت کرتے ہیں :
(باب قيام شهر رمضان وما فيه من الفضل )
أخبرنا مالك، حدثنا سعيد المقبري، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن: أنه سأل عائشة كيف كانت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان؟ قالت: ما كان (1) رسول الله صلى الله عليه وسلم يزيد في رمضان ولا غيره على إحدى (2) عشرة ركعة (1) ، يصلي أربعا، فلا تسأل عن حسنهن (2) وطولهن، ثم يصلي أربعا (3) فلا تسأل عن حسنهن وطولهن ثم يصلي ثلاثا (4) ، قالت: فقلت: يا رسول الله أتنام (5) قبل أن توتر؟ فقال: يا عائشة عيناي تنامان (1) ولا ينام قلبي (2)

https://archive.org/stream/moumjad/moumjad01#page/n617/mode/2up

یعنی ماہ رمضان کا قیام اور اس کی فضیلت ( اس کی توضیح میں علامہ عبدالحیی لکھتے ہیں " ويسمى التراويح " اس قیام سے مراد تراویح ہے :
جناب ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا:
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان میں (رات کی) نماز (تراویح) کیسی ہوتی تھی ؟ تو ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا :ما كان يزيد فى رمضان ولا فى غيره على إحدي عشرة ركعة إلخ ”رمضان ہو یا غیر رمضان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی چار رکعت ایسی باکمال پڑھتے، کہ تم ان کے حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، پھر چار رکعت پڑھتے، ان کے بھی حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، آخر میں تین رکعت (وتر) پڑھتے تھے۔ میں نے ایک بار پوچھا، یا رسول اللہ! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔ “
_____________________
اس کے حاشیہ میں مشہور حنفی عالم علامہ عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
(2) قوله: إحدى عشر ركعة، روى ابن أبي شيبة وعبد بن حميد والبغوي والبيهقي والطبراني، عن ابن عباس: أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يصلي بعشرين ركعة والوتر في رمضان. وفي سنده إبراهيم بن عثمان أبو شيبة جد ابن أبي شيبة صاحب المصنف، وهو مقدوح فيه، وقد ذكرت كلام الأئمة عليه في "تحفة الأخيار". وقال جماعة من العلماء - منهم الزيلعي وابن الهمام والسيوطي والزرقاني -: إن هذا الحديث مع ضعفه معارض بحديث عائشة الصحيح في عدم الزيادة على إحدى عشرة ركعة، فيقبل الصحيح ويطرح غيره، وفيه نظر: إذ لا شك في صحة حديث عائشة وضعف حديث ابن عباس، لكن الأخذ بالراجح وترك المرجوح إنما يتعين إذا تعارضا تعارضا لا يمكن الجمع، وههنا الجمع ممكن بأن يحمل حديث عائشة على أنه إخبار عن حاله الغالب كما صرح به الباجي في "شرح الموطأ" وغيره، ويحمل حديث ابن عباس على أنه كان ذلك أحيانا
https://archive.org/stream/moumjad/moumjad01#page/n619/mode/2up
یعنی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث شریف میں گیارہ رکعات تراویح کے قیام بتایا ہے ،جبکہ مصنف ابن ابی شیبہؒ اور عبد بن حمید ،بغوی ؒ اور طبرانی وغیرہ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی روایت بیس رکعات تراویح اور وتر منقول ہیں ،لیکن بیس والی یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کا راوی ابراہیم بن عثما ن ابو شیبہ ضعیف ہے ، اور اس راوی پر ائمہ فن کا کلام میں نے تحفۃ الاخیار میں ذکر کردیا (وہاں اس کی تفصیل دیکھ لی جائے ) اور جلیل القدرعلماء کی ایک جماعت جیسے امام زیلعیؒ ،ابن الھمامؒ ،امام سیوطیؒ ، علامہ الزرقانیؒ کا کہنا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی بیس رکعات تراویح کی یہ روایت ضعیف ہونے کے ساتھ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول صحیح حدیث کے معارض ہے جس میں گیارہ رکعت تراویح کا ثبوت، اور گیارہ سے زائد کی نفی ہے ،
تو اس تعارض میں صحیح حدیث کو قبول کیا جائے گا اور ضعیف کو چھوڑ دیا جائےگا ۔
آگے علامہ عبدالحی کہتے ہیں : اس میں نظر ہے ،ام المومنین سیدہ عائشہ کی حدیث کے صحیح ہونے اور حدیث ابن عباس کے ضعیف ہونے میں تو کوئی شک نہیں ہے ، لیکن مرجوح کو چھوڑ کر راجح کو اپنانا تب ہوتا ہے جب دو متضاد روایات کو جمع کرنا ممکن نہ ہو ،جب کہ یہاں جمع ممکن ہے ،اور وہ اس طرح کہ : سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی صحیح حدیث کو غالب احوال پر محمول کیا جائے ، جیسا علامہ باجیؒ نے شرح مؤطا میں کہا ہے ، اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی (بیس رکعات والی ) روایت کو کبھی کبھار پر محمول کیا جائے ،
اس کلام کا خلاصہ یہ کہ :
(1) ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کا تعلق رمضان میں ادا کی جانے والی تراویح سے ہے
(2) اور اس روایت میں گیارہ رکعت تراویح مع الوتر کا ثبوت ہے ،
(3)سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت واقعی صحیح ہے ،
(4) جب کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت بالکل ضعیف ہے ، اور ائمہ فقہ وحدیث کے نزدیک سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی صحیح حدیث کے معارض ہے ،
(5) علامہ عبدالحی کو اس ضعیف ہونے کا برملا اعتراف ہے ،
(6) سیدہ عائشہ کی حدیث کا تعلق واقعی رمضان کی تراویح سے ہے ،(یعنی جو لوگ کہتے ہیں کہ اس حدیث کا رمضان کی تراویح سے تعلق نہیں ، ان بے چاروں خیال میں امام زیلعیؒ ،امام ابن الھمامؒ ،امام سیوطیؒ اور علامہ زرقانیؒ جیسے عظیم علماء کو بھی اس حدیث کے مقصود کی سمجھ نہ آئی )
ـــــــــــــــــــــــ

اس تفصیل سے واضح ہوا کہ :
نماز وتر کے علاوہ آٹھ رکعات تراویح کی بحث کسی ایک گروہ نے شروع نہیں کی ، بلکہ صحیح احادیث کے پیش نظر حنفی علماء و فقہاء نے بڑے اہتمام سے پیش کی ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290

اس تفصیل سے واضح ہوا کہ :
نماز وتر کے علاوہ آٹھ رکعات تراویح کی بحث کسی ایک گروہ نے شروع نہیں کی ، بلکہ صحیح احادیث کے پیش نظر حنفی علماء و فقہاء نے بڑے اہتمام سے پیش کی ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔[/RIGHT][/QUOTE]

متفق تماما
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
ویسے یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ حنفی حضرات کی اکثریت 8 رکعات تراویح بمع از خود تین وتر پڑھ کر مسجد سے جلد رخصت ہو جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن میں سمجھتاہوں کہ اہلِ حدیث حضرات کی 8 رکعات تراویح حنفی قراءکی بیس رکعات تراویح پر بھاری ہیں کیونکہ اہلِ حدیث حضرات ” معیار“ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ترتیل کے ساتھ تلاوتِ قرآن کرتے ہیں جبکہ حنفی قراء” مقدار“ کو ملحوظ ِ خاطر رکھتے ہوئے قرآن مجید کی ترتیل کے بغیرتلاوت کو ایک مشقت سمجھ کر 20 رکعات کی تعداد جبراًمکمل کرتے ہیں۔ اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کون قیام اللیل کے لیے ” محبین“ اور کون ” مستعجلین“ میں شمار ہوتا ہے؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
رکعات تراویح پر ایک مفصل کتاب شیخ کفایت اللہ صاحب کی بھی آئی ہے، رمضان سے کچھ دیر قبل۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
ویسے یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ حنفی حضرات کی اکثریت 8 رکعات تراویح بمع از خود تین وتر پڑھ کر مسجد سے جلد رخصت ہو جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن میں سمجھتاہوں کہ اہلِ حدیث حضرات کی 8 رکعات تراویح حنفی قراءکی بیس رکعات تراویح پر بھاری ہیں کیونکہ اہلِ حدیث حضرات ” معیار“ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ترتیل کے ساتھ تلاوتِ قرآن کرتے ہیں جبکہ حنفی قراء” مقدار“ کو ملحوظ ِ خاطر رکھتے ہوئے قرآن مجید کی ترتیل کے بغیرتلاوت کو ایک مشقت سمجھ کر 20 رکعات کی تعداد جبراًمکمل کرتے ہیں۔ اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کون قیام اللیل کے لیے ” محبین“ اور کون ” مستعجلین“ میں شمار ہوتا ہے؟
پتہ نہیں کہاں آپ نے ایسا دیکھ لیا،بہرحال کچھ مثالوں سے پوری جماعت کا اندازہ نہیں لگایاجاسکتا،ورنہ ہم بھی جواباکچھ مثال پیش کرتے،کون کس پر بھاری ہے،یہ تو بعد کی بات ہے،بظاہر تو بیس آٹھ پر بھاری ہے(ابتسامہ)،اور عملابھی بھاری ہے کہ پوری دنیامیں ابتدائی صدیوں سے لے کر آج تک اسی بیس کا رواج رہاہے،آپ تاریخ کھنگال کر دیکھےدیجئے کہ کہیں آٹھ کارواج رہاہو؟فان لم تفعلوا ولن تفعلواالخ
ویسے یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ بیس میں آٹھ شامل ہے لیکن آٹھ میں بیس شامل نہیں ہےفتدبروا،ویسے تو اس پر تفصیلی طور پرلکھنےارادہ ہے،دعاکریں کہ ارادہ عمل میں تبدیل ہوجائے۔
 
Top