• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تعریف شرک پر ایک شبہ کا اذالہ

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
میں آپ کے تینوں جوابات کو اوپر پیش کردہ تینوں اشکالات کے سامنے رکھتا ہوں ، شاید کسی اور کو ان جوابات کی سمجھ آجائے
پہلا اشکال : اس تعریف میں توحید ربوبیت اور توحید أسماء و صفات کو نظر انداز کردیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی ان دو چیزوں کو نظر انداز کرے تو مشرک نہیں ہوگا حالانکہ یہ بات قرآن وسنت کی صریح نصوص کے خلاف ہے ، توحید کی ان دونوں اقسام پر کئی آیات دلالت کرتی ہیں ۔
1۔واجب الوجود کا مطلب ہوتا ہے جس کا وجود ذاتی ہو اور وہ اپنے وجود کے قائم رکھنے میں کسی کا محتاج نہ ہو۔(یہ تعریف مبشر ربانی صاحب نے کی ہے)
اب اس میں دو باتیں ہیں ایک وجود ذاتی اور ایک صمدیت ۔تو واجب الوجود کی زات کی صفات بھی ذاتی اور کسی کی محتاج نہیں۔لہذا کسی اور میں ایسی صفات ماننا شرک ہے
دوسر اشکال : اس تعریف کے مطابق تو حضور کے دور کے مشرکین بھی مشرک ثابت نہیں ہوتے حالانکہ قرآن مین جگہ جگہ اللہ نے ان کو مشرک قراردیا ہے ۔ کیونکہ وہ اپنے بتوں کو واجب الوجود یامستحق عبادت نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ تو ان کو اللہ تک پہنچنے کا ذریعہ مانتےتھے
چنانچہ قرآ ن مجید میں مشرکین کا موقف یوں بیان کیا گیا ہے :
ما نعبدہم إلا لیقربونا إلی اللہ زلفی
2۔دوسری بات کا جواب آپ کے مسلمہ لوگوں سے نقل کیا تھا مگر چلیں اس کے بعد فی الحال عر ض ہے اللہ نے مشرکیں کے عقیدے کو رد کرتے ہوئے بار بار کہا کہ کیا اللہ سوا بھی کوئی الہ ہے(سورت نمل)اس کا صاف مطلب ہے کہ انہوں نے اللہ کے سوا اور معبود بنائے ہوئے تھے۔
تیسرا اشکال : اس تعریف پر تیسرا اعتراض یہ وارد ہوتا ہے کہ اس تعریف کے ذریعے یہ بات ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ امت مسلمہ میں شرک پایا ہی نہیں جا سکتا ہے (کیونکہ بقول آپ حضرات کہ کوئی بھی مسلمان غیر اللہ کو واجب الوجود ، مستحق عبادت وغیرہ نہیں سمجھتا )
اور یہ بات قرآن وحدیث کی ان واضح نصوص کے خلاف ہے جن میں اس امت کے اندر وجود شرک پر واضح دلالت ہے ۔ ۔۔۔
3۔تیسری بات کا جواب گول مول نہیں بہت سیدھا تھا کہ اس حدیث کی تشریح صحیح مسلم کی دوسری حدیث کرتی ہے جو اوپر بیان ہو چکی ۔اور اس پر میں نے آپ پر ایک اعتراض کیا تھا کہ تقویۃ الایمان کے مطابق وہ ہوا چل چکی ہے تو کیا اب سارے لوگ مشرک ہیں بشمول اہلحدیث(المعروف وہابی غیر مقلدین)
ممکن ہے ، میں آپ کے جوابات مناسب طریقہ سے پیش نہ کرسکا ہوں ، لہذا آپ سے گزارش ہے کہ آپ بنفس نفیس میرے اشکال کا اقتباس لیں ، اور نیچے اس کا واضح جواب دیں ۔
پھر بات آگے بڑھائیں گے ، إن شاءاللہ ۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
شرک کی تعریف یہ ہے کہ شرک تب ہوگا جب کسی کو اللہ کے سوا واجب الوجود مانا جائے یا مستحق العبادت مانا جائے۔
یہ معیار الوہیت ہیں۔اس پر اعتراض کرتے ہوئے جناب عمر صدیق اور مبشر ربانی صاحب فرماتے ہیں کہ اس اصول پر تو مکے کے مشرک بھی مشرک نہیں رہتے کیوں کہ وہ بھی اپنے بتوں کو قدیم واجب الوجود نہیں مانتے تھے کیوں اپنے ہاتھ سے جو ان کو بناتے تھے۔
جواب اس کا یہ ہے کہ تعریف میں لفظ یا ہے۔اسے کا مطلب ہے دونوں یا دونوں میں سے ایک کام بھی پایا جائے تو شرک ثابت ہوگا۔دیکھو ایک آدمی کہے کہ اگر کوئی جماع کرے یا کھانا کھائے تو روزہ ٹوٹ جائے تو اس کا مطلب ہے کہ اگر دونوں میں سے ایک بھی کام کرے گا تو روزہ ٹوٹ جائے گا ایسے ہی اگر کوئی کسی کو واجب وجود مانے اور مستحق العبادت نہ جانے پھر بھی مشرک اور کسی کو واجب الوجود تو نہ مانے مگر مستحق العبادت جانے پھر بھی مشرک اور مشرکین کمہ اپنے بتوں کی عبادت کرتے تھے۔لہذا مشرک تھے۔
پیارے رانا صاحب پہلے تو یہ بتایا جائے کہ مانا کا لفظ جو تعریف میں آیا ہے وہ مندرجہ ذیل میں سے کون سا ماننا ہے
1۔دل میں ماننا
2۔زبان سے ماننا
3۔عمل سے ماننا

اگر پہلا کہتے ہیں تو پھر بھی مشرکین مکہ مشرک نہیں ہوتے کیونکہ دلوں کے حال تو اللہ جانتا ہے اور اس پہ ہمارے سامنے اسامہ رضی اللہ عنہ والی حدیث موجود ہے کہ کیا تم نے اسکا دل چیر کر دیکھ لیا تھا
پس کسی کے دل سے کسی کو مستحق العبادت ماننے یا نہ ماننے کا پتا ہم یا آپ کبھی نہیں چلا سکتے
پس یا تو اس تعریف میں زبان سے ماننا لکھیں یا عمل سے ماننا لکھیں پھر آگے بات کرتے ہیں
ویسے یہی بات دوسری طرف الوہیت کا مدار کس پہ ہے اس میں چل رہی ہے شکریہ
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
جلالی صاحب وغیرہ شرک کی جو تعریف بیان کرتے ہیں ، اس پر کئی ایک اشکالات ہیں ، آپ نے بھی وہی تعریف کی ہے

اس پر ہمارے اشکالات نوٹ فرمائیں :
پہلا اشکال : اس تعریف میں توحید ربوبیت اور توحید أسماء و صفات کو نظر انداز کردیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی ان دو چیزوں کو نظر انداز کرے تو مشرک نہیں ہوگا حالانکہ یہ بات قرآن وسنت کی صریح نصوص کے خلاف ہے ، توحید کی ان دونوں اقسام پر کئی آیات دلالت کرتی ہیں ۔
۔
1۔واجب الوجود کا مطلب ہوتا ہے جس کا وجود ذاتی ہو اور وہ اپنے وجود کے قائم رکھنے میں کسی کا محتاج نہ ہو۔(یہ تعریف مبشر ربانی صاحب نے کی ہے)
اب اس میں دو باتیں ہیں ایک وجود ذاتی اور ایک صمدیت ۔تو واجب الوجود کی زات کی صفات بھی ذاتی اور کسی کی محتاج نہیں۔لہذا کسی اور میں ایسی صفات ماننا شرک ہے
جہاں تک صفات کی بات تو اللہ کی تمام صفات ذاتی ہیں اور وہ اپنی صفات میں کسی کا محتاج نہیں۔اور واجب الوجود بھی وہی ہے جو اپنی ذات کو قائم رکھنے میں کسی کا محتاج نہ ہو۔جب اس کی ذات ذاتی ہے تو صفات بھی ذاتی ہیں ۔لہذا کسی میں اگر اللہ کی طرح اللہ کی صفات مانی جائیں تو شرک۔
دوسر اشکال : اس تعریف کے مطابق تو حضور کے دور کے مشرکین بھی مشرک ثابت نہیں ہوتے حالانکہ قرآن مین جگہ جگہ اللہ نے ان کو مشرک قراردیا ہے ۔ کیونکہ وہ اپنے بتوں کو واجب الوجود یامستحق عبادت نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ تو ان کو اللہ تک پہنچنے کا ذریعہ مانتےتھے
چنانچہ قرآ ن مجید میں مشرکین کا موقف یوں بیان کیا گیا ہے :
ما نعبدہم إلا لیقربونا إلی اللہ زلفی
حضرت آپ نے کہا کہ مشرکین اپنے بتوں کو مستحق العبادت نہیں مانتے تھے۔جناب اس سلسلہ میں عرض ہے کہ جو آیت آپ نے پیش کی اس میں یہ بات موجود ہے کہ وہ بتوں کی عبادت کرتے تھے ۔اب آپ کے حکیم صادق سیالکوٹی صاحب فرماتے ہیں جن کو ہم اس کی عبادت میں شریک کریں گے۔ان کو گویا ہم خدا کے مقابل اور معبود بنائیں گے،اگرچہ زبان سے ہم ان کے خدا اور معبود ہونے کا اقرار نہ کریں۔(انوارالتوحیدص141)
دوسری بات کا جواب آپ کے مسلمہ لوگوں سے نقل کیا تھا مگر چلیں اس کے بعد فی الحال عر ض ہے اللہ نے مشرکیں کے عقیدے کو رد کرتے ہوئے بار بار کہا کہ کیا اللہ سوا بھی کوئی الہ ہے(سورت نمل)اس کا صاف مطلب ہے کہ انہوں نے اللہ کے سوا اور معبود بنائے ہوئے تھے۔
تیسرا اشکال : اس تعریف پر تیسرا اعتراض یہ وارد ہوتا ہے کہ اس تعریف کے ذریعے یہ بات ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ امت مسلمہ میں شرک پایا ہی نہیں جا سکتا ہے (کیونکہ بقول آپ حضرات کہ کوئی بھی مسلمان غیر اللہ کو واجب الوجود ، مستحق عبادت وغیرہ نہیں سمجھتا )
اور یہ بات قرآن وحدیث کی ان واضح نصوص کے خلاف ہے جن میں اس امت کے اندر وجود شرک پر واضح دلالت ہے ۔
مثلا حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
«وإنما أخاف على أمتي الأئمة المضلمين وإذا وضع السيف في أمتي لم يرفع عنها إلىٰ يوم القيامة ولا تقوم الساعة حتى تلحق قبائل من أمتي بالمشركين وحتى يعبدوا الأوثان وانه سيكون في أمتي ثلاثون كذابون كلهم يزعم انه نبي وأنا خاتم النبيين لا نبي بعدي ولا تزال طائفة من أمتي على الحق»
''مجھے اپنی امت پر گمراہ کن ائمہ کا خوف ہے اور جب میری امت میں ایک بار تلوار چل پڑی تو قیامت تک اُٹھائی نہیں جائے گی، اور اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہو گی جب تک میری اُمت میں سے قبائل مشرکین کے ساتھ نہ مل جائیں اور یہاں تک کہ وہ بتوں کی عبادت نہ کرنے لگیں اور عنقریب میری اُمت میں تیس کذاب ہوں گے ان میں سے ہر ایک کا یہی گمان ہوگا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا اور میری اُمت میں سے ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا۔'' ( حوالہ )
جہاں تک آپ کی پیش کردہ حدیث کا تعلق ہے تو اس کی وضاحت مسلم شریف کی دوسری حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہ نے اس پر سوال کیا کہ میں وت یہ سمجھی ہوئی تھی کہ یہ دین آخر تک ہے ۔تو رسول اللہ نے فرمایا کہ اللہ جب تک چاہے گا اس کو عروج بخشے گا پھر ایک پاکیزہ ہوا بھیجے گا اور جس میں ارءی کے دانے برابر بھی ایمان ہوگا وہ فوت ہوجائیں گئے اور پیچھے برے لوگ رہ جائے گئے جو اپنے آبا کے دین کی طرف پھر جائیں گئے۔لہذا کوئی تعارض نہیں۔اور مزے کی بات یہ ہے کہ بقول اسماعیل دہلوی صاحب یہ ہوا چل چکی ہے
3۔تیسری بات کا جواب گول مول نہیں بہت سیدھا تھا کہ اس حدیث کی تشریح صحیح مسلم کی دوسری حدیث کرتی ہے جو اوپر بیان ہو چکی ۔اور اس پر میں نے آپ پر ایک اعتراض کیا تھا کہ تقویۃ الایمان کے مطابق وہ ہوا چل چکی ہے تو کیا اب سارے لوگ مشرک ہیں بشمول اہلحدیث(المعروف وہابی غیر مقلدین)
اب کوئی اور مسئلہ ہو تو وہ بھی عرض کیا جائے
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
پیارے رانا صاحب پہلے تو یہ بتایا جائے کہ مانا کا لفظ جو تعریف میں آیا ہے وہ مندرجہ ذیل میں سے کون سا ماننا ہے
1۔دل میں ماننا
2۔زبان سے ماننا
3۔عمل سے ماننا

اگر پہلا کہتے ہیں تو پھر بھی مشرکین مکہ مشرک نہیں ہوتے کیونکہ دلوں کے حال تو اللہ جانتا ہے اور اس پہ ہمارے سامنے اسامہ رضی اللہ عنہ والی حدیث موجود ہے کہ کیا تم نے اسکا دل چیر کر دیکھ لیا تھا
پس کسی کے دل سے کسی کو مستحق العبادت ماننے یا نہ ماننے کا پتا ہم یا آپ کبھی نہیں چلا سکتے
پس یا تو اس تعریف میں زبان سے ماننا لکھیں یا عمل سے ماننا لکھیں پھر آگے بات کرتے ہیں
ویسے یہی بات دوسری طرف الوہیت کا مدار کس پہ ہے اس میں چل رہی ہے شکریہ
حضرت دل کے اندر عقیدہ ہوتا ہے جس کا اظہار زبان اور عمل سے ہوتا ہے اور مشرکین الہ مانتے تھے جس کا اظہار زبان و عمل دونوں سے ہے عبدہ@ بھائی آپ واپس شروع کریں ہمارا موضوع تاکہ اس کوا ختتام تک پہنچایا جائے
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
جلالی صاحب وغیرہ شرک کی جو تعریف بیان کرتے ہیں ، اس پر کئی ایک اشکالات ہیں ، آپ نے بھی وہی تعریف کی ہے

اس پر ہمارے اشکالات نوٹ فرمائیں :
پہلا اشکال : اس تعریف میں توحید ربوبیت اور توحید أسماء و صفات کو نظر انداز کردیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی ان دو چیزوں کو نظر انداز کرے تو مشرک نہیں ہوگا حالانکہ یہ بات قرآن وسنت کی صریح نصوص کے خلاف ہے ، توحید کی ان دونوں اقسام پر کئی آیات دلالت کرتی ہیں ۔
دوسر اشکال : اس تعریف کے مطابق تو حضور کے دور کے مشرکین بھی مشرک ثابت نہیں ہوتے حالانکہ قرآن مین جگہ جگہ اللہ نے ان کو مشرک قراردیا ہے ۔ کیونکہ وہ اپنے بتوں کو واجب الوجود یامستحق عبادت نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ تو ان کو اللہ تک پہنچنے کا ذریعہ مانتےتھے
چنانچہ قرآ ن مجید میں مشرکین کا موقف یوں بیان کیا گیا ہے :
ما نعبدہم إلا لیقربونا إلی اللہ زلفی
تیسرا اشکال : اس تعریف پر تیسرا اعتراض یہ وارد ہوتا ہے کہ اس تعریف کے ذریعے یہ بات ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ امت مسلمہ میں شرک پایا ہی نہیں جا سکتا ہے (کیونکہ بقول آپ حضرات کہ کوئی بھی مسلمان غیر اللہ کو واجب الوجود ، مستحق عبادت وغیرہ نہیں سمجھتا )
اور یہ بات قرآن وحدیث کی ان واضح نصوص کے خلاف ہے جن میں اس امت کے اندر وجود شرک پر واضح دلالت ہے ۔
مثلا حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
«وإنما أخاف على أمتي الأئمة المضلمين وإذا وضع السيف في أمتي لم يرفع عنها إلىٰ يوم القيامة ولا تقوم الساعة حتى تلحق قبائل من أمتي بالمشركين وحتى يعبدوا الأوثان وانه سيكون في أمتي ثلاثون كذابون كلهم يزعم انه نبي وأنا خاتم النبيين لا نبي بعدي ولا تزال طائفة من أمتي على الحق»
''مجھے اپنی امت پر گمراہ کن ائمہ کا خوف ہے اور جب میری امت میں ایک بار تلوار چل پڑی تو قیامت تک اُٹھائی نہیں جائے گی، اور اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہو گی جب تک میری اُمت میں سے قبائل مشرکین کے ساتھ نہ مل جائیں اور یہاں تک کہ وہ بتوں کی عبادت نہ کرنے لگیں اور عنقریب میری اُمت میں تیس کذاب ہوں گے ان میں سے ہر ایک کا یہی گمان ہوگا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا اور میری اُمت میں سے ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا۔'' ( حوالہ )
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
حضرت ان کو دوبارہ پوسٹ کرنے کا مطلب ؟میں نے اوپر لطائف سنائے ہیں کہ گانے؟جس کے جواب میں دوبارہ پوسٹ کر دیا ہے۔میں جواب دیا ہے ان کا یا تو ان کو تسلیم کیا جائے یا ان کا جواب دیا جائے
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
میری نظر میں آپ نے اشکال نمبر 1 کا بالکل بھی جواب نہیں دیا ، دوسرے کا الزامی جواب دیا ہے ، تیسرے کا جواب گول مول کرگئے ہیں ۔
گزارش ہے کہ جس طرح اشکال بالکل واضح ہیں ، ان کے سامنے جواب بھی بالکل واضح انداز میں عنایت فرمادیں ۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
میں آپ کے تینوں جوابات کو اوپر پیش کردہ تینوں اشکالات کے سامنے رکھتا ہوں ، شاید کسی اور کو ان جوابات کی سمجھ آجائے






ممکن ہے ، میں آپ کے جوابات مناسب طریقہ سے پیش نہ کرسکا ہوں ، لہذا آپ سے گزارش ہے کہ آپ بنفس نفیس میرے اشکال کا اقتباس لیں ، اور نیچے اس کا واضح جواب دیں ۔
پھر بات آگے بڑھائیں گے ، إن شاءاللہ ۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
حضرت دل کے اندر عقیدہ ہوتا ہے جس کا اظہار زبان اور عمل سے ہوتا ہے اور مشرکین الہ مانتے تھے جس کا اظہار زبان و عمل دونوں سے ہے عبدہ@ بھائی آپ واپس شروع کریں ہمارا موضوع تاکہ اس کوا ختتام تک پہنچایا جائے
پیارے رانا صاحب آپکا بہت بہت شکریہ کہ مجھے یاد رکھا آپ سے اختلاف اپنی جگہ مگر گفتگو سلجھے انداز میں کرتے ہیں اسی لئے ہم بات کرنے کو تیار رہتے ہیں
اب آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ آپ کے نزدیک مشرکین مکہ اور عیسائی وغیرہ اپنے بزرگوں وغیرہ کو مستحق العبادت سمجھ کر عبادت کرتے تھے جبکہ ا صحابہ ایک دوسرے سے جب مافوق الاسباب مانگتے تھے تو وہ اس وقت مانگے جانے والی ہستی کو مستحق العبادت نہیں سمجھ رہے ہوتے تھے
تو اشکال یہ ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ اور صحابہ کو کیسے علم ہوتا تھا کہ کون بزرگوں سے انکو مستحق العبادت سمجھ کر مانگ رہا ہے اور کون اسکے برعکس
لازمی بات ہے یہ انکے قول سے یا عمل سے پتا چلتا ہو گا پس اسکی مثال قرآن و حدیث سے بتا دیں بہت بہت شکریہ

نوٹ: یہ مثالیں تو قرآن و حدیث میں بہت زیادہ ہونی چاہیں کیونکہ شرک ہی بنیادی مسئلہ تھا اور اس بنیادی مسئلہ کا انحصار آپ کی تعریف کے مطابق صرف اور صرف اس بات کے معلوم ہونے پہ تھا کہ کون مستحق العبادت سمجھ کر مانگ رہا ہے اور کون نہیں پس پورا زور ہی اسکی پہچان پہ قرآن و حدیث میں ہونا چاہئے پس اسکی مثال بتا دیں
 
Last edited:
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
حضرت جی آپ کے سوال کے جواب سے پہلے ایک سوال ہے کہ اگر ایک ہندو کہے کہ فصل ربیع نے اگائی اور ایک مسلمان کہے کہ فصل ربیع نے اگائی کیا ان دونوں میں کچھ فرق ہوگا یا نہیں؟اگر ہوگا تو کیا؟
اور اگلی بات ایک ہندو کہے رام نے مردہ کو زندہ کیا اور ایک مسلمان کہے کہ عیسی علیہ السلام نے مردے کو زندہ کیا تو ان میں کیا فرق ہے؟
اگر ایک ہندو کہے کہ میرے رام کی قمیص شفا دیتی ہےاور ایک مسلمان کہے کہ یوسف علیہ السلام کی قمیص سے یعقوب کی آنکھوں کوشفا ملی ؟ان دونوں میں کیا فرق ہے؟
ہم مافوق الاسباب مدد کے قائل ہی نہیں توبحث کیسی؟
اور ہم وسیلہ کو استعانت سے تعبیر کرتے ہیں۔جیسے پانی ہوتا تو سبب ہے مگر نسبت پیاس بھجانے کی اس کی طرف کی جاتی ہے لہذا ہم مانتے وسیلہ ہیں مگر نسبت وسیلہ کیطرف کرتے ہیں۔لیکن حقیقی فاعل اللہ کومانتے ہیں۔(ملاحظہ ہو سفید وسیاہ،الستمداد ازاعلی حضرت،گلشن توحید و رسالت ،عقائد ونظریات )
عقائد و نظریات اور توضیح البیان میں اس پر تفصیلی بحث ہے کہ ہم وسیلہ کے قائل ہیں اور یہ ہمارا عقیدہ کے کوئی بھی اللہ کے سوا بیٹا نہیں دیتا ۔ہاں بحث وسیلہ کی ہے اس پر اگر بات کر لیتے ہیں۔
 
Top