محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
کیا امت محمدیہ میں اب شرک داخل نهیں هو سکتا ؟؟؟؟؟؟؟
قاری صہیب میر محمدی حفظہ اللہ
ضرور سنیں اور اپنی اصلاح کریں
ویڈیو
لنک
میرے بھائی کیا یہ ایک انفرادی شخص کا عقیدہ ہے یا پورے ایک فرقہ کا عقیدہ ہے - اور یہ جو عقائد ہے اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں کیا یہ شرک نہیں ؟؟؟جتنی بھی آیات پیش کی جاتیں ہیں ان میں امکان اور انفرادی شرک کی بات جبکہ آپ لوگ وقوع اور اکثر امت کو مشرک کہتے ہو اس پر ھاتو برھانکم ان کنتم صادقین
قبلہ میں نے کہا تھا کہ آپ حضرات امت کی اکثریت کو مشرک مانتے ہیں اس پہ قرآن و حدیث سے کوئی دلیل مگر ایک حوالہ بھی نہ دے سکے۔۔اور استعانت و استمداد وغیرہ کو آپ کے شرک کہنے سے اس کو شرک نہیں کہا جائے گا۔۔۔باقی ان تمام اعتراضات کا اصولی جواب یہی ہے کہ استعانت و استمداد کے ضمن میں یہ نسبتیں مجازی ہیں حقیقی نہیں ۔اور مراد اس سے وسیلہ ہی ہےمیرے بھائی کیا یہ ایک انفرادی شخص کا عقیدہ ہے یا پورے ایک فرقہ کا عقیدہ ہے - اور یہ جو عقائد ہے اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں کیا یہ شرک نہیں ؟؟؟
بریلوی حضرات اسلام کے عطا کردہ تصور توحید کے برعکس غیر اللہ سے فریاد طلبی کو اپنے عقائد کا حصہ سمجھتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے :
اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حاجت روائی خلق کے لیے خاص فرمایا ہے۔ لوگ گھبرائے ہوئے ان کے پاس اپنی حاجتیں لاتے ہیں۔،، 1
احمد رضا لکھتے ہیں :
"اولیاء سے مدد مانگنا اور انہیں پکارنا اور ان کے ساتھ توسل کرنا امر مشروع و شی مرغوب ہے جس کا انکار نہ کرے گا مگر ہٹ دھرم یا دشمن انصاف!2مدد مانگنے کے لیے ضروری نہیں کہ صرف زندہ اولیاء کو ہی پکارا جائے، بلکہ ان حضرات کے نزدیک اس سلسلہ میں کوئی تمیز نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نبی و رسول، ولی و صالح، خواہ زندہ ہو یا فوت شدہ، اسے مدد کے لیے پکارا جا سکتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیونکہ وہی تمام اختیارات کے مالک، نظام کائنات کی تدبیر کرنے والے اور مشکلات و مصائب سے نجات دینے والے ہیں۔
چنانچہ جناب بریلوی کہتے ہیں :
"انبیاء و مرسلین علیہم السلام، اولیاء،علماء،صالحین سے ان کے وصال کے بعد بھی استعانت و استمداد جائز ہے،
اولیاء بعد انتقال بھی دنیا میں تصرف کرتے ہیں۔ 3"
دوسری جگہ لکھتے ہیں :
"حضور ہی ہر مصیبت میں کام آتے ہیں، حضور علیہ السلام ہی بہتر عطا کرنے والے ہیں، عاجزی و تذلل کے ساتھ حضور کو ندا کرو، حضور ہی ہر بلا سے پناہ ہیں۔ 4"
مزید لکھتے ہیں :
"جبریل علیہ السلام حاجت روا ہیں، پھر حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کو حاجت روا، مشکل کشا، دافع البلاء ماننے میں کس کو تامل ہو سکتا ہے؟ وہ تو جبریل علیہ السلام کے بھی حاجت روا ہیں۔ 5"
صرف حضور کریم صلی اللہ علیہ و سلم ہی نہیں، بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی ان خدائی صفات کے حامل ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جناب بریلوی عربی اشعار سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
تجدہ عونا لّک فی النوائب
بولایتک یا علی یا علی
ناد علیّا مظھر العجائب
کلّ ھمّ و غمّ سینجلی!
شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ علیہ بھی انہی صفات کے ساتھ متصف ہیں۔ بریلوی حضرات کذب و افتراء سے کام لیتے ہوئے آپ کی روایت نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:
ترجمہ:
"پکار علی مرتضی کو کہ مظہر عجائب ہیں تو انہیں مددگار پائے گا مصیبتوں میں، سب پریشانی و غم اب دور ہو جائیں گے، تیری ولایت سے یا علی یا علی!6
"جو کوئی رنج و غم میں مجھ سے مدد مانگے، اس کا رنج و غم دور ہو گا۔ اور جو سختی کے وقت میرا نام لے کر مجھے پکارے، تو وہ شدت رفع ہو گی۔ اور جو کسی حاجت میں رب کی طرف مجھے وسیلہ بنائے، اس کی حاجت پوری ہو گئی۔ 7"
ان کے نزدیک قضائے حاجات کے لیے نماز غوثیہ بھی ہے جس کی ترکیب یہ ہے :
"ہر رکعت میں 11،،11بار سورت اخلاص پڑھے، 11 بار صلوٰۃ وسلام پڑھے، پھر بغداد کی طرف "جانب شمالی" 11قدم چلے، ہر قدم پر میرا نام لے کر اپنی حاجت عرض کرے اور یہ شعر پڑھے
واظلم فی الدنیا وانت نصیری
ایدرکنی ضیم وانت ذخیرتی
" کیا مجھے کوئی تکلیف پہنچ سکتی ہے، جب کہ آپ میرے لیے باعث حوصلہ ہوں؟ اور کیا مجھ پر دنیا میں ظلم ہو سکتا ہے جب کہ آپ میرے مددگار ہیں؟8"
اسے بیان کرنے کے بعد جناب احمد یار گجراتی لکھتے ہیں کہ : معلوم ہوا کہ بزرگوں سے بعد وفات مدد مانگنا جائز اور فائدہ مند ہے۔ "
جناب بریلوی اکثر یہ اشعار پڑھا کرتے تھے
شیئ ا للہ شیخ عبدالقادر
اصرف عنّا الصّروف عبدالقادر
اے بندہ پناہ شیخ عبدالقادر
شیئا للہ شیخ عبدالقادر
رؤفاء رارؤف عبدالقادر
امور اصرف عنّا الصرف عبدالقادر
اے پناہ گاہ بندگان شیخ عبدالقادر
اللہ کے نام پر کچھ عطا کر دیجئے
یاظل الٰہ شیخ عبدالقادر
عطفا عطفا عطوف عبدالقادر
اے ظل الٰہ شیخ عبدالقادر
محتاج و گدائم تو ذوالتّاج و کریم
عطفا عطفا عطوف عبدالقادر
اے آنکہ بدست قست تصرف
اے ظل خدا شیخ عبدالقادر
میں محتاج و گدا ہوں تو سخی و کریم ہے
"اے شفت کرنے والے عبدالقادر مجھ پر شفقت فرمائیے اور میرے ساتھ مہربانی کا سلوک کیجئے۔ تیرے ہاتھ میں تمام اختیارات و تصرفات ہیں میرے مصائب و مشکلات دور کیجئے۔ 9"
اسی طرح وہ لکھتے ہیں :
"اہل دین رامغیث عبدالقادر۔ 10"
جناب بریلوی رقمطراز ہیں :
میں نے جب بھی مدد طلب کی، یا غوث ہی کہا۔ ایک مرتبہ میں نے ایک دوسرے ولی (حضرت محبوب الٰہی) سے مدد مانگنی چاہی، مگر میری زبان سے ان کا نام ہی نہ نکلا۔ بلکہ یا غوث ہی نکلا!11
یعنی اللہ تعالیٰ سے بھی کبھی مدد نہ مانگی۔ "یا اللہ مدد فرما" نہیں، بلکہ ہمیشہ کہتے "یا غوث مدد فرما۔ "
احمد زروق بھی مصائب دور کرنے والے ہیں۔ چنانچہ بریلوی علماء اپنی کتب میں ان سے عربی اشعار نقل کرتے ہیں۔
انا ما سطا جورا الزّمان بنکبتہترجمہ:
فناد یازروق ات یسرعتہ
انا لمریدی جا مع لشتاتہ
وان کنت فی ضیق و کرب ووحشتہ
"میں اپنے مرید کی پراگندگیوں کو جمع کرنے والا ہوں، جب کہ زمانہ کی مصیبتیں اس کو تکلیف دیں۔ اگر تو تنگی یا مصیبت میں پکارے، اے زروق! میں فوراً آؤں گا۔ 12"
اسی طرح ابن علوان بھی ان اختیارات کے مالک ہیں۔ چنانچہ منقول ہے :
جس کسی کی کوئی چیز گم ہو جائے اور وہ چاہے کہ خدا وہ چیز واپس ملا دے، تو کسی اونچی جگہ پر قبلہ کو منہ کر کے کھڑا ہو اور سورہ فاتحہ پڑھ کر اس کا ثواب نبی علیہ السلام کو ہدیہ کرے، پھر سیدی احمد بن علوان کو پکارے اور پھر یہ دعا پڑھے اے میرے آقا احمد بن علوان، اگر آپ نے میری چیز نہ دی تو میں آپ کو دفتر اولیاء سے نکال دوں گا۔ 13"
سید محمد حنفی بھی مشکلات کو دور کرنے والے ہیں۔ جناب بریلوی لکھتے ہیں :
"سیدی محمد شمس الدین محمد حنفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے حجرہ خلوت میں وضو فرما رہے تھے، ناگاہ ایک کھڑاؤں ہوا پر پھینکی کہ غائب ہو گئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حالانکہ حجرے میں کوئی راہ اس کے ہوا پر جانے کی نہ تھی۔ دوسری کھڑاؤں اپنے خادم کو عطا فرمائی کہ اسے اپنے پاس رہنے دے، جب تک وہ پہلی واپس آئے۔ ایک مدت کے بعد ملک شام سے ایک شخص وہ کھڑاؤں مع ہدایا لے کر حاضر ہوا اور عرض کی کہ اللہ تعالیٰ حضرت کو جزائے خیر دے جب چور میرے سینے پر ذبح کرنے بیٹھا میں نے اپنے دل میں کہا "یا سیدی محمد حنفی" اسی وقت یہ کھڑاؤں غیب سے آ کر اس کے سینے پر لگی کہ غش کھا کر الٹا ہو گیا۔ 14"
سید بدوی بھی مصائب و مشکلات میں بندوں کی مدد کرتے ہیں :
"جب بھی کوئی مصیبت پیش آئے تو وہ یہ کہے :"یا سیدی احمد بدوی خاطر معی!" "اے میرے آقا احمد بدوی میرا ساتھ دیجئے۔ 15"
سید احمد بدوی سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:
"جسے کوئی حاجت ہو تو وہ میری قبر پر حاضر ہو کر اپنی حاجت مانگے تو میں اس کی حاجت کو پورا کروں گا۔ 16
ابو عمران موسی بھی:
"جب ان کا مرید جہاں کہیں سے انہیں ندا کرتا، جواب دیتے اگرچہ سال بھر کی راہ پر ہوتا یا اس سے زائد۔ 17"
پھر جناب بریلوی اس مسئلے میں اپنے عقیدہ کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
"جو شخص بھی کسی نبی یا رسول یا کسی ولی سے وابستہ ہو گا، تو وہ اس کے پکارنے پر حاضر ہو گا اور مشکلات میں اس کی دستگیری کرے گا۔ 18"
سلسلہ تصوف سے متعلق مشائخ بھی اپنے مریدوں کو مشکلات سے رہائی عطا کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ جناب احمد رضا لکھتے ہیں :
"صوفیہ کے مشائخ سختی کے وقت اپنے پیروکاروں اور مریدوں کی نگہبانی فرماتے ہیں 19"
اہل قبور سے استعانت کے عقیدے کا ذکر کرتے ہوئے جناب بریلوی رقم طراز ہیں :
"جب تم کاموں میں متحیر ہو تو مزارات اولیاء سے مدد مانگو۔ 20"
قبروں کی زیارت کے فوائد بیان کرتے ہوئے جناب احمد رضا کے ایک پیروکار کہتے ہیں :
"قبروں کی زیارت سے نفع حاصل ہوتا ہے نیک مردوں سے مدد ملتی ہے۔ 21"
مزید کہتے ہیں :
"زیارت سے مقصود یہ ہے کہ اہل قبور سے نفع حاصل کیا جائے۔ 22"
جناب موسیٰ کاظم کی قبر سے متعلق فرماتے ہیں
"حضرت موسیٰ کاظم کی قبر تریاق اکبر ہے۔ 23"
خود جناب بریلوی محمد بن فرغل سے نقل کرتے ہیں کہ وہ کہا کرتے تھے :
"میں ان میں سے ہوں جو اپنی قبور میں تصرف فرماتے ہیں۔ جسے کوئی حاجت ہو تو میرے پاس چہرے کے سامنے حاضر ہو کر مجھ سے اپنی حاجت کہے، میں روا فرما دوں گا۔ 24"
سید بدوی سے یہی مقولہ نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
انہوں نے کہا"مجھ میں اور تم میں یہ ہاتھ بھر مٹی ہی تو حائل ہے۔ اور جس مرد کو اتنی مٹی اپنے اصحاب سے حجاب میں کر دے تو وہ مرد ہی کاہے کاہے۔ 25"
ایک طرف تو بریلوی حضرات کے یہ عقائد ہیں اور دوسری طرف قرآنی تعلیمات و ارشادات ہیں۔ ذرا ان کا تقابل کیجئے، تاکہ حقیقت کھل کر سامنے آ سکے کہ قرآن کریم کے نزدیک توحید باری تعالیٰ کا تصور کیا ہے، اور ان کے عقائد کیا ہیں؟
چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ نیک بندے اپنے رب سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں :
اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِینُ
(تجھی کی ہم بندگی کریں اور تجھی سے ہم مدد چاہیں ) اور پھر اللہ مشرکین کے عقیدے کو ردّ کرتے ہوئے اور اس پر ان کو ڈانٹتے ہوئے فرماتے ہیں :
قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اﷲِ لا یَمْلِکُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَ لا فِی الْاَرْضِ وَ مَا لَہُمْ فِیْہِمَا مِنْ شِرْکٍ وَّ مَا لَہ مِنْہُمْ مِّنْ ظَہِیْر (سورہ سبا)
"آپ کہیں، تم انہیں پکارو تو جنہیں تم اللہ کے سوا (شریک خدائی) سمجھ رہے ہو، وہ ذرہ برابر بھی اختیار نہیں رکھتے۔ نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں اور نہ ان کی ان دونوں میں کوئی شرکت ہے اور نہ ان میں سے کوئی بھی اللہ کا مددگار ہے۔ "
اور اللہ کا فرمان ہے :
ذٰلِکُمُ اﷲُ رَبُّکُمْ لَہُ الْمُلْکُط وَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہ مَا یَمْلِکُوْنَ مِنْ قِطْمِیْرٍ اِنْ تَدْعُوْہُمْ لا یَسْمَعُوْا دُعَآئَکُمْ وَ لَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَکُمْ وَ یَوْمَ القِيمَةِیَکْفُرُوْنَ بِشِرْکِکُمْ وَ لا یُنَبِّئُکَ مِثْلُ خَبِیْرٍ (فاطر )
"یہی اللہ تمہارا پروردگار ہے، اسی کی حکومت ہے !۔ اور جنہیں تم اس کے علاوہ پکارتے ہو، وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے برابر بھی اختیار نہیں رکھتے۔ اگر تم ان کو پکارو تو وہ تمہاری سنیں گے بھی نہیں، اور اگر سن بھی لیں تو تمہارا کہا نہ کر سکیں۔ اور قیامت کے دن وہ تمہارے شرک کرنے ہی سے منکر ہوں اور تجھ کو (خدائے ) خبیر کا سا کوئی نہ بتائے گا۔ "
نیز:قُلْ اَرَئَیْتُمْ شُرَکَائَکُمُ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ اَرُوْنِیْ مَاذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ اَمْ لَہُمْ شِرْکٌ فِی السَّمٰوٰتِ اَمْٰاتَیْنہُمْاٰ کِتَابًا فَہُمْ عَلیٰ بَیِّنَتٍ مِّنْہُ بَلْ اِنْ یَّعِدُ الظّٰلِمُوْنَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا اِلَّا غُرُوْرًا (فاطر )
"آپ کہہ دیجئے، تم نے اپنے خدائی شریکوں کے حال پر بھی نظر کی ہے، جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو؟ ذرا مجھے بھی تو بتاؤ کہ انہوں نے زمین کا کون سا جزو بنایا ہے، یا ان کا آسمان میں کچھ ساجھا ہے، یا ہم نے انہیں کوئی کتاب دی ہے کہ یہ اس پر قائم ہیں؟ اصل یہ ہے کہ ظالم ایک دوسرے سے نرے دھوکہ (کی باتوں ) کا وعدہ کرتے آئے ہیں۔ "
اور مزید فرمایا:
وَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہ لااَا یَسْتَطِیْعُوْنَ نَصْرَکُمْ وَ لااَآ اَنْفُسَہُمْ یَنْصُرُوْن (اعراف)
"اور جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ نہ تو تمہاری مدد کر سکتے ہیں اور نہ اپنی ہی مدد کر سکتے ہیں۔ "
اور فرمایا:
وَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہ لااَا یَسْتَجِیْبُوْنَ لَہُمْ بِشَیْئٍ (الرعد )
،اور جن کو (یہ لوگ)، اس کے سوا پکارتے ہیں وہ ان کا کچھ جواب نہیں دے سکتے۔ "
وَ مَا لَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اﷲِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لا نَصِیْرٍ (شوریٰ )
"اور تمہارا اللہ کے سوا کوئی بھی نہ کارساز ہے اور نہ مددگار !"
اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے فرمایا کہ وہ مشرکین اور ان لوگوں سے سوال کریں، جو اللہ کے سوا کسی اور سے مدد مانگتے ہیں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو جواب دیں :
قُلْ اَفَرَئَیْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ اِنْ اَرَادَنِیَ اﷲُ بِضُرٍّ ہَلْ ہُنَّ کٰشِفٰتُ ضُرِّہ اَوْ اَرَادَنِیْ بِرَحْمَۃٍ ہَلْ ہُنَّ مُمْسِکٰتُ رَحْمَتِہِ (الزمر)
کہ "بھلا یہ تو بتاؤ کہ اللہ کے سوا تم جنہیں پکارتے ہو، اگر اللہ مجھے کوئی تکلیف پہنچانا چاہے تو کیا یہ اس کی دی ہوئی تکلیف کو دور کر سکتے ہیں؟ یا اللہ مجھ پر عنایت کرنا چاہے، تو یہ اس کی عنایت کو روک سکتے ہیں؟"
اَ اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَ یَکْشِفُ السُّوء وَ یَجْعَلُکُمْ خُلَفَآئَ الْاَرْضِ ئَاِٰلہٌ مَّعَ اﷲِ قَلِیْلامَّا تَذَکَّرُوْن (نمل)
"وہ کون ہے جو بے قرار کی فریاد سنتا ہے، جب وہ اسے پکارتا ہے؟ اور مصیبت کو دور کرتا ہے اور تم کو زمین میں خلفاء بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہے؟ تم لوگ بہت ہی کم غور کرتے ہو۔ "
پھر ان کو سمجھاتے ہوئے فرمایا:
اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ عِبَادٌ اَمْثَالُکُمْ فَادْعُوْہُمْ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
"بے شک جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ تمہارے جیسے ہی بندے ہیں۔ سو اگر تم سچے ہو تو تم انہیں پکارو! پھر ان کو چاہیے کہ تمہیں جواب دیں۔ "
اور مزید فرمایا:
قُلْ اَفَاتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِہ اَوْلِیَآئَ لا یَمْلِکُوْنَ لِاَنْفُسِہِمْ نَفْعًا وَّ لااَا ضَرًّا (الرعد)
" کہہ دیجئے تو کیا تم نے پھر بھی اس کے سوا اور کارساز قرار دے لیے ہیں، جو اپنی ذات کے لیے بھی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے؟"
مزید فرمایا:
اِنْ یَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہ اِلَّاآ اشِٰنثًا وَ اِنْ یَّدْعُوْنَ اِلَّا شَیْطٰنًا مَّرِیْدًا (النساء)
"یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر پکارتے بھی ہیں تو بس زنانی چیزوں کو! اور یہ لوگ پکارتے بھی ہیں تو بس شیطان سرکش کو۔ "
نیز:
وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوا مِنْ دُوْنِ اﷲِ مَنْ لَّا یَسْتَجِیْبُ لَہ اِلیٰ یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ وَ ہُمْ عَنْ دُعَآئِہِمْ غٰفِلُوْن (احقاف)
"اور اس سے بڑھ کر گمراہ اور کون ہو گا جو اللہ کے سوا اور کسی کو پکارے؟ جو قیامت تک بھی اس کی بات نہ سنے، بلکہ انہیں ان کے پکارنے کی خبر تک نہ ہو؟"
ان آیات کریمہ سے یہ بات صاف طور پر واضح ہو جاتی ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی مصائب و مشکلات میں بندوں کی مدد کر سکتا ہے، اور ان کے کام آ سکتا اور ان کے دکھ درد دور کر سکتا ہے۔ اختیار و تصرف کا دائرہ فقط اسی کی ذات تک محدود ہے اور ساری کائنات کا نظام اسی کے قبضہ و اختیار میں ہے۔ اور تمام انبیاء و رسل علیہم السلام نے بھی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لیے فقط اسی کا دامن تھاما اور صرف اسی کے سامنے سر نیاز خم کیا۔ ۔ ۔ ان کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ شدائد و مشکلات میں ان سے استمداد و استعانت جائز ہے، قرآن کریم کی صریح، صاف اور واضح آیات سے متصادم ہے۔
حضرت آدم علیہ السلام کا اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرنا، حضرت نوح علیہ السلام کا اپنے غرق ہونے والے بیٹے کے لیے رب کائنات سے سے نجات طلب کرنا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کا صرف اسی سے اپنے لیے بیٹا مانگنا، مشکلات و مصائب میں گھرے ہوئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا صرف اپنے رب کو پکارنا، حضرت یونس علیہ السلام کا مچھلی کے پیٹ سے نجات حاصل کرنے کے لیے صرف اللہ تعالیٰ کے سامنے عجز و نیاز کرنا، اور حضرت ایوب علیہ السلام کا صرف ذات باری تعالیٰ سے شفا طلب کرنا، یہ سارے واقعات اس بات کی واضح اور بین دلیل ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی مالک ذی اختیار نہیں ہے جو مصیبت رفع کر سکتا ہو!
لیکن ان تمام شواہد و دلائل کے برعکس بریلوی حضرات کا عقیدہ یہ ہے کہ جو کسی نبی یا رسول یا ولی سے وابستہ ہوتا ہے، وہ مصائب و مشکلات میں اس کی دستگیری کرتا ہے۔39
احمد رضا بریلوی کے ایک پیروکار یوں رقمطراز ہیں :
اولیائے کرام ایک ہی جگہ رہ کر تمام عالم کو اپنے کف دست کی طرح دیکھتے ہیں۔ اور بعید و قریب کی آوازیں سنتے، یا ایک آن میں تمام عالم کی سیر کرتے اور صدہا کوس پر حاجت مندوں کی حاجت روائی کرتے ہیں۔ 40"
ایک طرف ان حضرات کا یہ عقیدہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور دوسری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے چچازاد بھائی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ فرما رہے ہیں کہ "اپنی حاجت صرف خدا سے طلب کر، فقط اسی سے کر! قلم کی سیاہی خشک ہو چکی ہے ساری کائنات مل کر بھی تجھے نہ نفع دے سکتی ہے اور نہ نقصان!41"
لیکن جناب بریلوی کہتے ہیں :
"جب تمہیں پریشانی کا سامنا ہو تو اہل قبور سے مدد مانگو!42"
پھر ستم بالائے ستم یہ کہ جناب بریلوی نہ صرف یہ کہ خود قرآنی آیات کی مخالفت کرتے ہیں، بلکہ جو لوگ شرک و بدعت کے خلاف سچے اور مجاہدانہ جذبے کے ساتھ صف آراء ہیں اور ان صریح آیات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ صرف رب کائنات ہی مضطر اور مصیبت زدہ لوگوں کی التجا سنتا ہے اور اس کو شرف قبولیت بخشتا ہے اور صرف وہی مصائب و مشکلات کو دور کرنے والا ہے، بریلی کے یہ خاں صاحب ان کے خلاف طعن و تشنیع اور اظہار کدورت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
"ہمارے زمانے میں معدودے چند ایسے پیدا ہوئے ہیں کہ حضرات اولیاء سے مدد کے منکر ہیں اور کہتے ہیں جو کچھ کہتے ہیں انہیں اس پر کچھ علم نہیں، یوں ہی اپنے سے اٹکلی لڑاتے ہیں۔ 43"
ان جیسے لوگوں کے متعلق ہی اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَ اِذَا قِیْلَ لَہُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اﷲُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَآ اَلْفَیْنَا عَلَیْہِٰابَآئَنَااَوَ لَوْ کَانَٰابَآؤُہُمْ لا یَعْقِلُوْنَ شَیْئًا وَّ لا یَہْتَدُوْنًَ (البقرہ)
"اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ اللہ نے اتارا ہے اس کی پیروی کرو! تو کہتے ہیں کہ نہیں ہم تو اس کی پیروی کریں گے، جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا ہے۔ ۔ ۔ ۔ خواہ ان کے باپ دادا نہ ذرا عقل رکھتے ہوں اور نہ ہدایت رکھتے ہوں؟"
اللہ رب العزت کا ارشاد ہے :
وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُوْنَ [البقرہ ]
"اور جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں، تو میں تو قریب ہی ہوں دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھ سے دعا کرتا ہے پس لوگوں کو چاہئے کہ میرے احکام قبول کریں اور مجھ پر ایمان لائیں عجب نہیں کہ ہدایت پا جائیں۔"
نیز:وَ قَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِی اَسْتَجِبْ لَکُم (غافر)
"اور تمہارے پروردگار نے فرمایا ہے کہ مجھے پکارو، میں تمہاری درخواست قبول کروں گا۔ "
لیکن
ہے مریدوں کو تو حق بات گوارا لیکنحوالہ جات :
شیخ و ملا کو بری لگتی ہے درویش کی بات
1الامن والعلی از احمد رضا بریلوی ص 29 ط دارالتبلیغ لاہور۔
2،،رسالۃ حیات الموات،، از احمد رضا بریلوی درج فتاویٰ رضویہ 3ایضاً۔
4۔،،الامن والعلی،،از بریلوی ص 10۔
5ملفوظات ص 99 ط لاہور۔
6الامن والعلی ص 13۔
7برکات الاستمداد از بریلوی درج در رسالہ رضویہ ج1ص 181،اور فتاویٰ افریقہ از بریلوی ص 62، جاء الحق از احمد یار ص 200۔
8جاء الحق از مفتی بریلوی احمد یارص 200۔
9حدائق بخشش ص 186۔
10ایضاً ص 181۔
11ملفوظات ص 307۔
12حیات الممات از بریلوی درج در فتاویٰ رضویہ ج 4 ص 200 و جاء الحق ص 199۔
13جاء الحق ص 199۔
14انوار الانتباہ فی حل نداء یا رسول اللہ،مندرج در مجموعہ رسائل رضویہ جلداول ص 180 مطبوعہ کراچی۔
15ایضاً۔
16انوار الانتباہ فی حل نداء یا رسول اللہ مندرج در مجموعہ رسائل رضویہ جلد اول ص 181۔
17مجموعہ رسائل رضویہ از بریلوی ج1 ص182 ط کراچی۔
18فتاویٰ افریقہ از بریلوی ص 135۔
19حیات الموات درج در فتاویٰ ج4 ص 289۔
20الامن والعلی ص 44۔
21کشف فیوض از محمد عثمان بریلوی ص 39۔
22ایضاً ص 43۔
23ایضاً ص5۔
24انوار الانتباہ ص 182۔
25ایضاً ص 181۔