• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
مِن دُونِهِ ۖ فَكِيدُونِي جَمِيعًا ثُمَّ لَا تُنظِرُ‌ونِ ﴿٥٥﴾
اچھا تم سب مل کر میرے خلاف چالیں چل لو مجھے بالکل مہلت بھی نہ دو۔ (١)
٥٥۔١ اور اگر تمہیں میری بات پر یقین نہیں ہے بلکہ تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو کہ یہ بت کچھ کر سکتے ہیں تو لو میں حاضر ہوں، تم اور تمہارے معبود سب مل کر میرے خلاف کچھ کر کے دکھاؤ۔ مزید اس سے نبی کے انداز کا پتہ چلتا ہے کہ وہ اس قدر بصیر پر ہوتا ہے کہ اسے اپنے حق پر ہونے کا یقین ہوتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
إِنِّي تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّـهِ رَ‌بِّي وَرَ‌بِّكُم ۚ مَّا مِن دَابَّةٍ إِلَّا هُوَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهَا ۚ إِنَّ رَ‌بِّي عَلَىٰ صِرَ‌اطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴿٥٦﴾
میرا بھروسہ صرف اللہ تعالیٰ پر ہی ہے، جو میرا اور تم سب کا پروردگار ہے جتنے بھی پاؤں دھرنے والے ہیں سب کی پیشانی وہی تھامے ہوئے ہے۔ (١) یقیناً میرا رب بالکل صحیح راہ پر ہے۔ (٢)
٥٦۔١ یعنی جس ذات کے ہاتھ میں ہرچیز کا قبضہ و تصرف ہے، وہی ذات ہے جو میرا اور تمہارا رب ہے میرا توکل اسی پر ہے۔ مقصد ان الفاظ سے حضرت ہود عليہ السلام کا یہ ہے کہ جن کو تم نے اللہ کا شریک ٹھہرا رکھا ہے ان پر بھی اللہ ہی کا قبضہ و تصرف ہے، اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ جو چاہے کر سکتا ہے، وہ کسی کا کچھ نہیں کر سکتے۔
٥٦۔٢ یعنی وہ جو توحید کی دعوت دے رہا ہے یقیناً یہ دعوت ہی صراط مستقیم ہے اس پر چل کر نجات اور کامیابی سے ہمکنار ہو سکتے ہو اور اس صراط مستقیم سے اعراض انحراف تباہی و بربادی کا باعث ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَإِن تَوَلَّوْا فَقَدْ أَبْلَغْتُكُم مَّا أُرْ‌سِلْتُ بِهِ إِلَيْكُمْ ۚ وَيَسْتَخْلِفُ رَ‌بِّي قَوْمًا غَيْرَ‌كُمْ وَلَا تَضُرُّ‌ونَهُ شَيْئًا ۚ إِنَّ رَ‌بِّي عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ حَفِيظٌ ﴿٥٧﴾
پس اگر تم روگردانی کرو تو کرو میں تو تمہیں وہ پیغام پہنچا چکا جو دے کر مجھے تمہاری طرف بھیجا گیا تھا۔ (١) میرا رب تمہارے قائم مقام اور لوگوں کو کر دے گا اور تم اس کا کچھ بھی بگاڑ نہ سکو گے، (٢) یقیناً میرا پروردگار ہر چیز پر نگہبان ہے۔ (٣)
٥٧۔١ یعنی اس کے بعد میری ذمہ داری ختم اور تم پر حجت تمام ہو گی۔
٥٧۔٢ یعنی تمہیں تباہ کر کے تمہاری زمینوں اور املاک کا وہ دوسروں کو مالک بنا دے، تو وہ ایسا کرنے پر قادر ہے اور تم اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے بلکہ وہ اپنی مشیت و حکمت کے مطابق ایسا کرتا رہتا ہے۔
٥٧۔٣ یقیناً وہ مجھے تمہارے مکر و فریب اور سازشوں سے بھی محفوظ رکھے گا اور شیطانی چالوں سے بھی بچائے گا، علاوہ ازیں ہر نیک بد کو ان کے اعمال کے مطابق اچھی اور بری جزا دے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَلَمَّا جَاءَ أَمْرُ‌نَا نَجَّيْنَا هُودًا وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ بِرَ‌حْمَةٍ مِّنَّا وَنَجَّيْنَاهُم مِّنْ عَذَابٍ غَلِيظٍ ﴿٥٨﴾
اور جب ہمارا حکم آ پہنچا تو ہم نے ہود کو اور اس کے مسلمان ساتھیوں کو اپنی خاص رحمت سے نجات عطا فرمائی اور ہم نے ان سب کو سخت عذاب سے بچا لیا۔ (١)
٥٨۔١ سخت عذاب سے مراد وہی الرِّ یْحَ الْعَقِیْمَ تیز آندھی کا عذاب ہے جس کے ذریعے سے حضرت ہود عليہ السلام کی قوم عاد کو ہلاک کیا گیا جس سے حضرت ہود عليہ السلام اور ان پر ایمان لانے والوں کو بچا لیا گیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَتِلْكَ عَادٌ ۖ جَحَدُوا بِآيَاتِ رَ‌بِّهِمْ وَعَصَوْا رُ‌سُلَهُ وَاتَّبَعُوا أَمْرَ‌ كُلِّ جَبَّارٍ‌ عَنِيدٍ ﴿٥٩﴾
یہ تھی قوم عاد، جنہوں نے اپنے رب کی آیتوں کا انکار کیا اور اس کے رسولوں کی (١) نافرمانی کی اور ہر ایک سرکش نافرمان کے حکم کی تابعداری کی۔ (٢)
٥٩۔١ عاد کی طرف صرف ایک نبی حضرت ہود عليہ السلام ہی بھیجے گئے تھے، یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انہوں نے اللہ کے رسولوں کی نافرمانی کی۔ اس سے یا تو یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ ایک رسول کی تکذیب، یہ گویا تمام رسولوں کی تکذیب ہے۔ کیونکہ تمام رسولوں پر ایمان رکھنا ضروری ہے۔ یا مطلب یہ ہے کہ یہ قوم اپنے کفر اور انکار میں اتنی آگے بڑھ چکی تھی کہ حضرت ہود عليہ السلام کے بعد اگر ہم اس قوم میں متعدد رسول بھی بھیجتے، تو یہ قوم ان سب کی تکذیب ہی کرتی۔ اور اس سے قطعاً یہ امید نہ تھی کہ وہ کسی بھی رسول پر ایمان لے آتی۔ یا ہو سکتا ہے کہ اور بھی انبیاء بھیجے گئے ہوں اور اس قوم نے ہر ایک کی تکذیب کی۔
٥٩۔٢ یعنی اللہ کے پیغمبروں کی تکذیب کی لیکن جو لوگ اللہ کے حکموں سے سرکشی کرنے والے اور نافرمان تھے، ان کی اس قوم نے پیروی کی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَأُتْبِعُوا فِي هَـٰذِهِ الدُّنْيَا لَعْنَةً وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ أَلَا إِنَّ عَادًا كَفَرُ‌وا رَ‌بَّهُمْ ۗ أَلَا بُعْدًا لِّعَادٍ قَوْمِ هُودٍ ﴿٦٠﴾
دنیا میں بھی ان کے پیچھے لعنت لگا دی گئی اور قیامت کے دن بھی، (١) دیکھ لو قوم عاد نے اپنے رب سے کفر کیا، ہود کی قوم عاد پر دوری ہو۔ (٢)
٦٠۔١ لَعْنَہ کا مطلب اللہ کی رحمت سے دوری، امور خیر سے محرومی اور لوگوں کی طرف سے ملامت و بیزاری۔ دنیا میں یہ لعنت اس طرح کہ اہل ایمان میں ان کا ذکر ہمیشہ ملامت اور بیزاری کے انداز میں ہو گا اور قیامت میں اس طرح کہ وہاں علٰی رؤوس الاشہاد ذلت اور رسوائی سے دوچار اور عذاب الٰہی میں مبتلا ہوں گے۔
٦٠۔٢ بُعْد کا یہ لفظ رحمت سے دوری اور لعنت اور ہلاکت کے معنی کے لیے ہے، جیسا کہ اس سے قبل بھی وضاحت کی جا چکی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَإِلَىٰ ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ۚ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّـهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُ‌هُ ۖ هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ الْأَرْ‌ضِ وَاسْتَعْمَرَ‌كُمْ فِيهَا فَاسْتَغْفِرُ‌وهُ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ ۚ إِنَّ رَ‌بِّي قَرِ‌يبٌ مُّجِيبٌ ﴿٦١﴾
اور قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا، (١) اس نے کہا کہ اے میری قوم تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، (٢) اسی نے تمہیں زمین سے پیدا کیا ہے (٣) اور اسی نے اس زمین میں تمہیں بسایا ہے، (٤) پس تم اس سے معافی طلب کرو اور اس کی طرف رجوع کرو۔ بیشک میرا رب قریب اور دعاؤں کا قبول کرنے والا ہے۔
٦١۔١ وَاِلَیٰ ثَمُوْدَ عطف ہے ما قبل پر۔ یعنی وَ اَرْسَلنَا اِلَیٰ ثُمُوْدَ ہم نے ثمود کی طرف بھیجا۔ یہ قوم تبوک اور مدینہ کے درمیان مدائن (حجر) میں رہائش پذیر تھی اور یہ قوم عاد کے بعد ہوئی۔ حضرت صالح عليہ السلام کو یہاں بھی ثمود کا بھائی کہا۔ جس سے مراد انہی کے خاندان اور قبیلے کا ایک فرد ہے۔
٦١۔٢ حضرت صالح عليہ السلام نے بھی سب سے پہلے اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی، جس طرح کہ انبیاء کا طریق رہا ہے۔
٦١۔٣ یعنی ابتدا میں تمہیں زمین سے پیدا کیا اس طرح کہ تمہارے باپ آدم عليہ السلام کی تخلیق مٹی سے ہوئی اور تمام انسان صلب آدم عليہ السلام سے پیدا ہوئے یوں گویا تمام انسانوں کی پیدائش زمین سے ہوئی۔ یا یہ مطلب ہے کہ تم جو کچھ کھاتے ہو، سب زمین ہی سے پیدا ہوتا ہے اور اسی خوراک سے وہ نطفہ بنتا ہے۔ جو رحم مادر میں جا کر وجود انسانی کا باعث ہوتا ہے۔
٦١۔٤ یعنی تمہارے اندر زمین کو بسانے اور آباد کرنے کی استعداد اور صلاحیت پیدا کی، جس سے تم رہائش کے لیے مکان تعمیر کرتے، خوراک کے لیے کاشت کاری کرتے اور دیگر ضروریات زندگی مہیا کرنے کے لیے صنعت و حرفت سے کام لیتے ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قَالُوا يَا صَالِحُ قَدْ كُنتَ فِينَا مَرْ‌جُوًّا قَبْلَ هَـٰذَا ۖ أَتَنْهَانَا أَن نَّعْبُدَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا وَإِنَّنَا لَفِي شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ مُرِ‌يبٍ ﴿٦٢﴾
انہوں نے کہا اے صالح! اس سے پہلے تو ہم تجھ سے بہت کچھ امیدیں لگائے ہوئے تھے، کیا تو ہمیں ان کی عبادتوں سے روک رہا ہے جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے چلے آئے، ہمیں تو اس دین میں حیران کن شک ہے جس کی طرف تو ہمیں بلا رہا ہے۔ (١)
٦٢۔١ یعنی پیغمبر اپنی قوم میں چونکہ اخلاق و کردار اور امانت و دیانت میں ممتاز ہوتا ہے اس لیے قوم کی اس سے اچھی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔ اسی اعتبار سے حضرت صالح عليہ السلام کی قوم نے بھی ان سے یہ کہا۔ لیکن دعوت توحید دیتے ہی ان کی امیدوں کا یہ مرکز، ان کی آنکھوں کا کانٹا بن گیا اور اس دین میں شک کا اظہار کیا جس طرف حضرت صالح عليہ السلام انہیں بلا رہے تھے یعنی دین توحید۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قَالَ يَا قَوْمِ أَرَ‌أَيْتُمْ إِن كُنتُ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّ‌بِّي وَآتَانِي مِنْهُ رَ‌حْمَةً فَمَن يَنصُرُ‌نِي مِنَ اللَّـهِ إِنْ عَصَيْتُهُ ۖ فَمَا تَزِيدُونَنِي غَيْرَ‌ تَخْسِيرٍ‌ ﴿٦٣﴾
اس نے جواب دیا کہ اے میری قوم کے لوگو! ذرا بتاؤ تو اگر میں اپنے رب کی طرف سے کسی مضبوط دلیل پر ہوا اور اس نے مجھے اپنے پاس کی رحمت عطا کی ہو، (١) پھر اگر میں نے اس کی نافرمانی کر لی (٢) تو کون ہے جو اس کے مقابلے میں میری مدد کرے؟ تم تو میرا نقصان ہی بڑھا رہے ہو۔ (٣)
٦٣۔١ بِیْنَۃٍ سے مراد وہ ایمان و یقین ہے، جو اللہ تعالیٰ پیغمبر کو عطا فرماتا ہے اور رحمت سے نبوت، جیسا کہ پہلے وضاحت گزر چکی ہے۔
٦٣۔٢ نافرمانی سے مراد یہ ہے کہ اگر میں تمہیں حق کی طرف اور اللہ واحد کی عبادت کی طرف بلانا چھوڑ دوں، جیسا کہ تم چاہتے ہو۔
٦٣۔٣ یعنی اگر میں ایسا کروں تو مجھے کوئی فائدہ تو نہیں پہنچا سکتے، البتہ اس طرح تم میرے نقصان و خسارے میں ہی اضافہ کرو گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَيَا قَوْمِ هَـٰذِهِ نَاقَةُ اللَّـهِ لَكُمْ آيَةً فَذَرُ‌وهَا تَأْكُلْ فِي أَرْ‌ضِ اللَّـهِ وَلَا تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابٌ قَرِ‌يبٌ ﴿٦٤﴾
اور اے میری قوم والو! اللہ کی بھیجی ہوئی اونٹنی ہے جو تمہارے لیے ایک معجزہ ہے اب تم اسے اللہ کی زمین میں کھاتی ہوئی چھوڑ دو اور اسے کسی طرح کی ایذا نہ پہنچاؤ ورنہ فوری عذاب تمہیں پکڑ لے گا۔ (١)
٦٤۔١ یہ وہی اونٹنی جو اللہ تعالیٰ نے ان کے کہنے پر ان کی آنکھوں کے سامنے ایک پہاڑ یا ایک چٹان سے برآمد فرمائی اس لیے اسے ”نَاقَةُ اللهِ“ (اللہ کی اونٹنی) کہا گیا ہے کیونکہ یہ خالص اللہ کے حکم سے معجزانہ طور پر مذکورہ خلاف عادت طریقے سے ظاہر ہوئی تھی۔ اس کی بابت انہیں تاکید کر دی گئی تھی کہ اسے ایذا نہ پہنچانا ورنہ تم عذاب الٰہی کی گرفت میں آ جاؤ گے۔
 
Top