• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَعَقَرُ‌وهَا فَقَالَ تَمَتَّعُوا فِي دَارِ‌كُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ ۖ ذَٰلِكَ وَعْدٌ غَيْرُ‌ مَكْذُوبٍ ﴿٦٥﴾
پھر بھی ان لوگوں نے اس اونٹنی کے پاؤں کاٹ ڈالے، اس پر صالح نے کہا کہ اچھا تم اپنے گھروں میں تین تین دن تو رہ سہ لو، یہ وعدہ جھوٹا نہیں ہے۔ (١)
٦٥۔١ لیکن ان ظالموں نے اس زبردست معجزے کے باوجود نہ صرف ایمان لانے سے گریز کیا بلکہ حکم الٰہی سے صریح سرتابی کرتے ہوئے اسے مار ڈالا، جس کے بعد انہیں تین دن کی مہلت دے دی گئی کہ تین دن کے بعد تمہیں عذاب کے ذریعے سے ہلاک کر دیا جائے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَلَمَّا جَاءَ أَمْرُ‌نَا نَجَّيْنَا صَالِحًا وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ بِرَ‌حْمَةٍ مِّنَّا وَمِنْ خِزْيِ يَوْمِئِذٍ ۗ إِنَّ رَ‌بَّكَ هُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيزُ ﴿٦٦﴾
پھر جب ہمارا فرمان آ پہنچا، (١) ہم نے صالح کو اور ان پر ایمان لانے والوں کو اپنی رحمت سے اس سے بھی بچا لیا اور اس دن کی رسوائی سے بھی۔ یقیناً تیرا رب نہایت توانا اور غالب ہے۔
٦٦۔ ا اس سے مراد وہی عذاب ہے جو وعدے کے مطابق چوتھے دن آیا اور حضرت صالح عليہ السلام اور ان پر ایمان لانے والوں کے سوا، سب کو ہلاک کر دیا گیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَأَخَذَ الَّذِينَ ظَلَمُوا الصَّيْحَةُ فَأَصْبَحُوا فِي دِيَارِ‌هِمْ جَاثِمِينَ ﴿٦٧﴾
اور ظالموں کو بڑے زور کی چنگھاڑ نے آ دبوچا، (١) پھر تو وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے ہوئے رہ گئے۔ (٢)
٦٧۔١ یہ عذاب صَيْحَةٌ (چیخ زور کی کڑک) کی صورت میں آیا، بعض کے نزدیک یہ حضرت جبرائیل عليہ السلام کی چیخ تھی اور بعض کے نزدیک آسمان سے آئی تھی۔ جس سے ان کے دل پارہ پارہ ہو گئے اور ان کی موت واقعہ ہو گئی، اس کے بعد یا اس کے ساتھ ہی بھونچال (رَجْفَةٌ) بھی آیا، جس نے سب کچھ تہ بالا کر دیا۔ جیسا کہ سورہ اعراف 78 میں ﴿فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ﴾ کے الفاظ ہیں۔
٦٧۔٢ جس طرح پرندہ مرنے کے بعد زمین پر مٹی کے ساتھ پڑا ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ موت سے ہم کنار ہو کر منہ کے بل زمین پر پڑے رہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
كَأَن لَّمْ يَغْنَوْا فِيهَا ۗ أَلَا إِنَّ ثَمُودَ كَفَرُ‌وا رَ‌بَّهُمْ ۗ أَلَا بُعْدًا لِّثَمُودَ ﴿٦٨﴾
ایسے کہ گویا وہ وہاں کبھی آباد ہی نہ تھے، (١) آگاہ رہو کہ قوم ثمود نے اپنے رب سے کفر کیا۔ سن لو! ان ثمودیوں پر پھٹکار ہے۔
٦٨۔١ ان کی بستی یا خود یہ لوگ یا دونوں ہی، اس طرح حرف غلط کی طرح مٹا دیئے گئے، گویا وہ کبھی وہاں آباد ہی نہ تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَلَقَدْ جَاءَتْ رُ‌سُلُنَا إِبْرَ‌اهِيمَ بِالْبُشْرَ‌ىٰ قَالُوا سَلَامًا ۖ قَالَ سَلَامٌ ۖ فَمَا لَبِثَ أَن جَاءَ بِعِجْلٍ حَنِيذٍ ﴿٦٩﴾
اور ہمارے بھیجے ہوئے پیغامبر ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کر پہنچے (١) اور سلام کہا، (٢) انہوں نے بھی جواب میں سلام دیا (٣) اور بغیر کسی تاخیر کے گائے کا بھنا ہوا بچھڑا لے آئے۔ (٤)
٦٩۔١ یہ دراصل حضرت لوط عليہ السلام اور ان کی قوم کے قصے کا ایک حصہ ہے۔ حضرت لوط علیہ السلام، حضرت ابراہیم عليہ السلام کے چچا زاد بھائی تھے۔ حضرت لوط عليہ السلام کی بستی بحیرہ، میت کے جنوب مشرق میں تھی، جبکہ حضرت ابراہیم عليہ السلام فلسطین میں مقیم تھے۔ جب حضرت لوط عليہ السلام کی قوم کو ہلاک کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ تو ان کی طرف سے فرشتے بھیجے گئے۔ یہ فرشتے قوم لوط کی طرف جاتے ہوئے راستے میں حضرت ابراہیم عليہ السلام کے پاس ٹھہرے اور انہیں بیٹے کی بشارت دی۔
٦٩۔٢ یعنی سَلَّمْنَا عَلَيْكَ سَلامًا ”ہم آپ کو سلام عرض کرتے ہیں“۔
٦٩۔٣ جس طرح پہلا سلام ایک فعل مقدر کے ساتھ منصوب تھا۔ اس طرح یہ سلام مبتدا یا خبر ہونے کی بنا پر مرفوع ہے عبارت ہو گی: أَمْرُكُمْ سَلامٌ یا عَلَيْكُمْ سَلامٌ۔
٦٩۔٤ حضرت ابراہیم عليہ السلام بڑے مہمان نواز تھے وہ یہ نہیں سمجھ پائے کہ یہ فرشتے ہیں جو انسانی صورت میں آئے ہیں اور کھانے پینے سے معذور ہیں، بلکہ انہوں نے انہیں مہمان سمجھا اور فورا مہمانوں کی خاطر تواضع کے لیے بھنا ہوا بچھڑا لا کر ان کی خدمت میں پیش کر دیا۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مہمان سے پوچھنے کی ضرورت نہیں بلکہ جو موجود ہو حاضر خدمت کر دیا جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَلَمَّا رَ‌أَىٰ أَيْدِيَهُمْ لَا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَ‌هُمْ وَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً ۚ قَالُوا لَا تَخَفْ إِنَّا أُرْ‌سِلْنَا إِلَىٰ قَوْمِ لُوطٍ ﴿٧٠﴾
اب جو دیکھا کہ ان کے تو ہاتھ بھی اس کی طرف نہیں پہنچ رہے تو ان سے اجنبیت محسوس کر کے دل ہی دل میں ان سے خوف کرنے لگے، (١) انہوں نے کہا ڈرو نہیں ہم تو قوم لوط کی طرف بھیجے ہوئے آئے ہیں۔ (٢)
٧٠۔١ حضرت ابرا ہیم عليہ السلام نے جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں بڑھ رہے تو انہیں خوف محسوس ہوا۔ کہتے ہیں کہ ان کے ہاں یہ چیز معروف تھی کہ آئے ہوئے مہمان اگر ضیافت سے فائدہ نہ اٹھاتے تو سمجھا جاتا تھا کی آنے والے مہمان کسی اچھی نیت سے نہیں آئے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ کے پیغمبروں کو غیب کا علم نہیں ہوتا۔ اگر ابراہیم عليہ السلام غیب دان ہوتے تو بھنا ہوا بچھڑا بھی نہ لاتے اور ان سے خوف بھی محسوس نہ کرتے۔
٧٠۔٢ اس خوف کو فرشتوں نے محسوس کیا، یا ان کے آثار سے جو ایسے موقع پر انسان کے چہرے پر ظاہر ہوتے ہیں یا اپنی گفتگو میں حضرت ابراہیم عليہ السلام نے اظہار فرمایا، جیسا کہ دوسرے مقام پر وضاحت ہے ﴿إِنَّا مِنْكُمْ وَجِلُونَ﴾ (الحجر:52) ”ہمیں تو تم سے ڈر لگتا ہے“، چنانچہ فرشتوں نے کہا ڈرو نہیں، آپ جو سمجھ رہے ہیں، ہم وہ نہیں ہیں بلکہ اللہ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں اور ہم قوم لوط عليہ السلام کی طرف جا رہے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَامْرَ‌أَتُهُ قَائِمَةٌ فَضَحِكَتْ فَبَشَّرْ‌نَاهَا بِإِسْحَاقَ وَمِن وَرَ‌اءِ إِسْحَاقَ يَعْقُوبَ ﴿٧١﴾
اس کی بیوی جو کھڑی ہوئی تھی وہ ہنس پڑی، (١) تو ہم نے اسے اسحاق کی اور اسحاق کے پیچھے یعقوب کی خوشخبری دی۔
٧١۔١ حضرت ابراہیم کی اہلیہ کیوں ہنسیں؟ بعض کہتے ہیں کہ قوم لوط عليہ السلام کی فساد انگیزیوں سے وہ بھی آگاہ تھیں، ان کی ہلاکت کی خبر سے انہوں نے مسرت کی۔ بعض کہتے ہیں اس لیے ہنسی آئی کہ دیکھو آسمانوں سے ان کی ہلاکت کا فیصلہ ہو چکا ہے اور یہ قوم غفلت کا شکار ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ تقدیم و تاخیر ہے۔ اور اس ہنسنے کا تعلق اس بشارت سے ہے جو فرشتوں نے بوڑھے جوڑے کو دی۔ واللہ اعلم۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قَالَتْ يَا وَيْلَتَىٰ أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ وَهَـٰذَا بَعْلِي شَيْخًا ۖ إِنَّ هَـٰذَا لَشَيْءٌ عَجِيبٌ ﴿٧٢﴾
وہ کہنے لگی ہائے میری کم بختی! میرے ہاں اولاد کیسے ہو سکتی ہے میں خود بڑھیا اور یہ میرے خاوند بھی بہت بڑی عمر کے ہیں یہ تو یقیناً بڑی عجیب بات ہے! (١)
٧٢۔١ یہ اہلیہ حضرت سارہ تھیں، جو خود بھی بوڑھی تھیں اور ان کا شوہر حضرت ابراہیم عليہ السلام بھی بوڑھے تھے۔ اس لیے تعجب ایک فطری امر تھا، جس کا اظہار ان سے ہوا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قَالُوا أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ‌ اللَّـهِ ۖ رَ‌حْمَتُ اللَّـهِ وَبَرَ‌كَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ ۚ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ ﴿٧٣﴾
فرشتوں نے کہا کیا تو اللہ کی قدرت سے تعجب کر رہی (١) ہے؟ تم پر اے اس گھر کے لوگو اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں، (٢) بیشک اللہ حمد و ثنا کا سزاوار اور بڑی شان والا ہے۔
٧٣۔١ یہ استفہام انکار کے لیے ہے۔ یعنی تو اللہ تعالیٰ کے قضا و قدر پر کس طرح تعجب کا اظہار کرتی ہے جبکہ اس کے لیے کوئی چیز مشکل نہیں۔ اور نہ وہ اسباب عادیہ ہی کا محتاج ہے، وہ تو جو چاہے، اس کے لفظ كُنْ (ہو جا) سے معرض وجود میں آ جاتا ہے۔
٧٣۔٢ حضرت ابراہیم عليہ السلام کی اہلیہ محترمہ کو یہاں فرشتوں نے 'اہل بیت' سے یاد کیا اور دوسرے ان کے لیے جمع مذکر مخاطب (عَلَيْكُمْ) کا صیغہ استعمال کیا۔ جس سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ 'اہل بیت' کے لیے جمع مذکر کے صیغے کا استعمال بھی جائز ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب 33 میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ کی ازواج مطہرات کو بھی اہل بیت کہا ہے اور انہیں جمع مذکر کے صیغے سے مخاطب بھی کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ إِبْرَ‌اهِيمَ الرَّ‌وْعُ وَجَاءَتْهُ الْبُشْرَ‌ىٰ يُجَادِلُنَا فِي قَوْمِ لُوطٍ ﴿٧٤﴾
جب ابراہیم کا ڈر خوف جاتا رہا اور اسے بشارت بھی پہنچ چکی تو ہم سے قوم لوط کے بارے میں کہنے سننے لگے۔ (١)
٧٤۔١ اس مجادلہ سے مراد یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عليہ السلام نے فرشتوں سے کہا کہ جس بستی کو تم ہلاک کرنے جا رہے ہو، اسی میں حضرت لوط عليہ السلام بھی موجود ہیں۔ جس پر فرشتوں نے کہا ہم جانتے ہیں کہ لوط عليہ السلام بھی وہاں رہتے ہیں۔ لیکن ہم ان کو اور ان کے گھر والوں کو سوائے ان کی بیوی کے بچا لیں گے۔ (العنکبوت:32)
 
Top