• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَمِنْ حَيْثُ خَرَ‌جْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ‌ الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ ۖ وَإِنَّهُ لَلْحَقُّ مِن رَّ‌بِّكَ ۗ وَمَا اللَّـهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ﴿١٤٩﴾
آپ جہاں سے نکلیں اپنا منہ (نماز کے لیے) مسجد حرام کی طرف کرلیا کریں، یعنی یہی حق ہے آپ کے رب کی طرف سے، جو کچھ تم کر رہے ہو اس سے اللہ تعالیٰ بے خبر نہیں۔

وَمِنْ حَيْثُ خَرَ‌جْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ‌ الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَ‌هُ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ﴿١٥٠﴾
اور جس جگہ سے آپ نکلیں اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں اور جہاں کہیں تم ہو اپنے چہرے اسی طرف کیا کرو (١) تاکہ لوگوں کی کوئی حجت تم پر باقی نہ رہ جائے (٢) سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے ان میں سے ظلم کیا ہے (٣) تم ان سے نہ ڈرو (٤) مجھ ہی سے ڈرو اور تاکہ میں اپنی نعمت تم پر پوری کروں اور اس لیے بھی کہ تم راہ راست پاؤ۔
١٥٠۔١ قبلہ کی طرف منہ پھیرنے کا حکم تین مرتبہ دہرایا گیا ہے، یا تو اس کی تاکید اور اہمیت واضح کرنے کے لیے، یا یہ چوں کہ نسخ حکم کا پہلا تجربہ تھا، اس لیے ذہنی خلجان دور کرنے کے لیے ضروری تھا کہ اسے بار بار دہرا کر دلوں میں راسخ کر دیا جائے، یا تعدد علت کی وجہ سے ایسا کیا گیا۔ ایک علت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی اور خواہش تھی، وہاں اسے بیان کیا۔ دوسری علت، ہر اہل ملت اور صاحب دعوت کے لیے ایک مستقل مرکز کا وجود ہے، وہاں اسے دہرایا۔ تیسری، علت مخالفین کے اعتراضات کا ازالہ ہے، وہاں اسے بیان کیا گیا ہے (فتح القدیر)
١٥٠۔٢ یعنی اہل کتاب یہ نہ کہہ سکیں کہ ہماری کتابوں میں تو ان کا قبلہ خانہ کعبہ ہے اور نماز یہ بیت المقدس کی طرف پڑھتے ہیں۔
١٥٠۔٣ یہاں ظَلَمُوا سے مراد معاندین (عناد رکھنے والے) ہیں یعنی اہل کتب میں سے جو معاندین ہیں، وہ یہ جاننے کے باوجود کہ پیغمبر آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا قبلہ خانہ کعبہ ہی ہو گا، وہ بطور عناد کہیں گے کہ بیت المقدس کے بجائے خانہ کعبہ کو اپنا قبلہ بنا کر یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم بالآخر اپنے آبائی دین ہی کی طرف مائل ہو گیا ہے اور بعض کے نزدیک اس سے مراد مشرکین مکہ ہیں۔
١٥٠۔٤ ظالموں سے نہ ڈرو۔ یعنی مشرکوں کی باتوں کی پروا مت کرو۔ انہوں نے کہا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارا قبلہ تو اختیار کر لیا ہے، عنقریب ہمارا دین بھی اپنا لیں گے۔ (مجھ ہی سے ڈرتے رہو)۔ جو حکم میں دیتا رہوں، اس پر بلا خوف عمل کرتے رہو۔ تحویل قبلہ کو اتمام نعمت اور ہدایت یافتگی سے تعبیر فرمایا کہ حکم الٰہی پر عمل کرنا یقیناً انسان کو انعام و اکرام کا مستحق بھی بناتا ہے اور ہدایت کی توفیق بھی اسے نصیب ہوتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
كَمَا أَرْ‌سَلْنَا فِيكُمْ رَ‌سُولًا مِّنكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ ﴿١٥١﴾
جس (١) طرح ہم نے تم میں تمہی سے رسول بھیجا جو ہماری آیتیں تمہارے سامنے تلاوت کرتا ہے اور تمہیں پاک کرتا ہے اور تمہیں کتاب و حکمت اور وہ چیزیں سکھاتا ہے جس سے تم بے علم تھے۔
١٥١۔١ كما (جس طرح) کا تعلق ماقبل کلام سے ہے، یعنی یہ اتمام نعمت اور توفیق ہدایت تمہیں اس طرح ملی جس طرح اس سے پہلے تمہارے اندر تمہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو تمہارا تزکیہ کرتا، کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا اور جن کا تمہیں علم نہیں، وہ سکھلاتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَاذْكُرُ‌ونِي أَذْكُرْ‌كُمْ وَاشْكُرُ‌وا لِي وَلَا تَكْفُرُ‌ونِ ﴿١٥٢﴾
اس لیے تم میرا ذکر کرو، میں بھی تمہیں یاد کروں گا، میری شکر گزاری کرو اور ناشکری سے بچو (١)
١٥٢۔١ پس ان نعمتوں پر تم میرا ذکر اور شکر کرو۔ کفران نعمت مت کرو۔ ذکر کا مطلب ہر وقت اللہ کو یاد کرنا ہے، یعنی اس کی تسبیح، تہلیل اور تکبیر بلند کرو اور شکر کا مطلب اللہ کی دی ہوئی قوتوں اور توانائیوں کو اس کی اطاعت میں صرف کرنا ہے۔ خداداد قوتوں کو اللہ کی نافرمانی میں صرف کرنا، یہ اللہ کی ناشکر گزاری (کفران نعمت) ہے۔ شکر کرنے پر مزید احسانات کی نوید اور ناشکری پر عذاب شدید کی وعید ہے ﴿لَئِنْ شَكَرْتُمْ لأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ﴾ (ابراھیم: 7)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ‌ وَالصَّلَاةِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ مَعَ الصَّابِرِ‌ينَ ﴿١٥٣﴾
اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعہ مدد چاہو، اللہ تعالیٰ صبر والوں کا ساتھ دیتا ہے۔ (١)
١٥٣۔١ انسان کی دو ہی حالتیں ہوتی ہیں: آرام و راحت (نعمت) یا تکلیف و پریشانی۔ نعمت میں شکر الٰہی کی تلقین اور تکلیف میں صبر اور اللہ سے استعانت کی تاکید ہے۔ حدیث میں ہے مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے، اسے خوشی پہنچتی ہے تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے۔ دونوں ہی حالتیں اس کے لیے خیر ہیں (صحيح مسلم، كتاب الزهد والرقائق، باب المؤمن أمره كله خير حدیث 2999) صبر کی دو قسمیں ہیں: ایک محرمات اور معاصی کے ترک اور اس سے بچنے پر اور لذتوں کے قربان اور عارضی فائدوں کے نقصان پر صبر۔ دوسرا، احکام الٰہیہ کے بجا لانے میں جو مشقتیں اور تکلیفیں آئیں، انہیں صبر و ضبط سے برداشت کرنا۔ بعض لوگوں نے اس کو اس طرح تعبیر کیا ہے۔ اللہ کی پسندیدہ باتوں پر عمل کرنا چاہے وہ نفس و بدن پر کتنی ہی گراں اور اللہ کی ناپسندیدہ باتوں سے بچنا، چاہے خواہشات و لذات اس کو اس کی طرف کتنا ہی کھینچیں۔ (ابن کثیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَـٰكِن لَّا تَشْعُرُ‌ونَ ﴿١٥٤﴾
اور اللہ تعالیٰ کی راہ کے شہیدوں کو مردہ مت کہو (١) وہ زندہ ہیں، لیکن تم نہیں سمجھتے۔
١٥٤۔١ شہدا کو مردہ نہ کہنا، ان کے اعزاز و تکریم کے لیے ہے، یہ زندگی برزخ کی زندگی ہے جسے ہم سمجھنے سے قاصر ہیں۔ یہ زندگی علیٰ قدر مراتب انبیاء و مومنین، حتیٰ کہ کفار کو بھی حاصل ہے۔ شہید کی روح اور بعض روایات میں مومن کی روح بھی ایک پرندے کے جوف (یا سینہ) میں جنت میں جہاں چاہتی ہیں پھرتی ہیں (ابن کثیر، نیز دیکھیے آل عمران۔ 169)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَ‌اتِ ۗ وَبَشِّرِ‌ الصَّابِرِ‌ينَ ﴿١٥٥﴾
اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے، دشمن کے ڈر سے، بھوک پیاس سے، مال و جان اور پھلوں کی کمی سے اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے۔

الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَ‌اجِعُونَ ﴿١٥٦﴾
جنہیں، جب کبھی کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔

أُولَـٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّ‌بِّهِمْ وَرَ‌حْمَةٌ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ ﴿١٥٧﴾
ان پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔
١٥٧۔١ ان آیات میں صبر کرنے والوں کے لیے خوش خبریاں ہیں۔ حدیث میں نقصان کے وقت إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ کے ساتھ اللَّهُمَّ آجِرْنِي فِي مُصِيبَتِي وَأَخْلِفْ لِي خَيْرًا مِّنْهَا پڑھنے کی بھی فضیلت اور تاکید آئی ہے۔ (صحيح مسلم، كتاب الجنائز باب ما يقال عند المصيبة، حديث 918)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْ‌وَةَ مِن شَعَائِرِ‌ اللَّـهِ ۖ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ‌ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا ۚ وَمَن تَطَوَّعَ خَيْرً‌ا فَإِنَّ اللَّـهَ شَاكِرٌ‌ عَلِيمٌ ﴿١٥٨﴾
صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں، (١) اس لیے بیت اللہ کا حج و عمرہ کرنے والے پر ان کا طواف کر لینے میں بھی بھی کوئی گناہ نہیں (٢) اپنی خوشی سے بھلائی کرنے والوں کا اللہ قدردان ہے اور انہیں خوب جاننے والا ہے۔
١٥٨۔١ شَعَائِرُ شَعِيرَةٌ کی جمع ہے، جس کے معنی علامت کے ہیں، یہاں حج کے وہ مناسک (مثلاً موقف، سعی، منحر، ہدی (قربانی) کو اشعار کرنا وغیرہ) مراد ہیں، جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں۔
١٥٨۔٢ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا، حج کا ایک رکن ہے۔ لیکن قرآن کے الفاظ (کوئی گناہ نہیں) سے بعض صحابہ رضی الله عنہم کو یہ شبہ ہوا کہ شاید یہ ضروری نہیں ہے۔ حضرت عائشہ رضی الله عنہا کے علم میں جب یہ بات آئی تو انہوں نے فرمایا: اگر اس کا یہ مطلب ہوتا تو پھر اللہ تعالیٰ یوں فرماتا: ﴿فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ لا يَطَّوَّفَ بِهمَا﴾ ”اگر ان کا طواف نہ کرے تو کوئی گناہ نہیں“ پھر اس کی شان نزول بیان فرمائی کہ انصار قبول اسلام سے قبل مناۃ طاغیہ (بت) کے نام کا تلبیہ پکارتے، جس کی وہ مشلل پہاڑی پر عبادت کرتے تھے اور پھر مکہ پہنچ کر ایسے لوگ صفا مروہ کے درمیان سعی کو گناہ سمجھتے تھے، مسلمان ہونے کے بعد انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو یہ آیت نازل ہوئی جس میں کہا گیا کہ صفا مروہ کے درمیان سعی گناہ نہیں۔ (صحيح بخاری، كتاب الحج باب وجوب الصفا والمروة) بعض حضرات نے اس کا پس منظر اس طرح بیان فرمایا ہے کہ جاہلیت میں مشرکوں نے صفا پہاڑی پر ایک بت (اساف) مروہ پہاڑی پر نائلہ بت رکھا ہوا تھا، جنہیں وہ سعی کے دوران بوسہ دیتے یا چھوتے۔ جب مسلمان ہوئے تو ان کے ذہن میں آیا کہ صفا مروہ کے درمیان سعی تو شاید گناہ ہو، کیوں کہ اسلام سے قبل دو بتوں کی وجہ سے سعی کرتے رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان کے اس وہم اور خلش کو دور فرما دیا۔ اب یہ سعی ضروری ہے جس کا آغاز صفا سے اور خاتمہ مروہ پر ہوتا ہے۔ (ایسر التفاسیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ ۙ أُولَـٰئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّـهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ ﴿١٥٩﴾
جو لوگ ہماری اتاری ہوئی دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں باوجودیکہ ہم اسے اپنی کتاب میں لوگوں کے لیے بیان کر چکے ہیں، ان لوگوں پر اللہ کی اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے۔
١٥٩۔١ اللہ تعالیٰ نے جو باتیں اپنی کتاب میں نازل فرمائی ہیں، انہیں چھپانا اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ کے علاوہ دیگر لعنت کرنے والے بھی اس پر لعنت کرتے ہیں۔ حدیث میں ہے : مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ فَكَتَمَهُ، أُلْجِمَ يَوْمَ القِيَامَةِ بِلِجَامٍ مِنْ نَارٍ (أبو داود، كتاب العلم باب كراهية منع العلم، وسنن ترمذي حديث 651 وقال حديث حسن) ”جس سے کوئی ایسی بات پوچھی گئی جس کا اس کو علم تھا اور اس نے اسے چھپایا تو قیامت والے دن آگ کی لگام اس کے منہ میں دی جائے گی۔“
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَبَيَّنُوا فَأُولَـٰئِكَ أَتُوبُ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّ‌حِيمُ ﴿١٦٠﴾
مگر وہ لوگ جو توبہ کر لیں اور اصلاح کر لیں اور بیان کر دیں تو میں ان کی توبہ قبول کر لیتا ہوں اور میں توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہوں۔

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ‌ أُولَـٰئِكَ عَلَيْهِمْ لَعْنَةُ اللَّـهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ﴿١٦١﴾
یقیْنًا جو کفار اپنے کفر میں ہی مر جائیں، ان پر اللہ تعالیٰ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ (١)
١٦١۔١ اس سے معلوم ہوا کہ جن کی بابت یقینی علم ہے کہ ان کا خاتمہ کفر پر ہوا ہے، ان پر لعنت جائز ہے، لیکن ان کے علاوہ کسی بھی بڑے سے بڑے گنہگار مسلمان پر لعنت کرنا جائز نہیں ہے۔ کیوں کہ ممکن ہے مرنے سے پہلے اس نے توبہ نصوح کر لی ہو یا اللہ نے اس کے دیگر نیک اعمال کی وجہ سے اس کی غلطیوں پر قلم عفو پھیر دیا ہو۔ جس کا علم ہمیں نہیں ہو سکتا۔ البتہ جن بعض معاصی پر لعنت کا لفظ آیا ہے، ان کے مرتکبین کی بابت کہا جا سکتا ہے کہ یہ لعنت والے کام کر رہے ہیں، ان سے اگر انہوں نے توبہ نہ کی تو یہ بارگاہ الٰہی میں ملعون قرار پا سکتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
خَالِدِينَ فِيهَا ۖ لَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنظَرُ‌ونَ ﴿١٦٢﴾
جس میں یہ ہمیشہ رہیں گے، نہ ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ انہیں ڈھیل دی جائے گی۔

وَإِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ ۖ لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الرَّ‌حْمَـٰنُ الرَّ‌حِيمُ ﴿١٦٣﴾
تم سب کا معبود ایک ہی معبود ہے، اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں (١) وہ بہت رحم کرنے والا اور بڑا مہربان ہے۔
١٦٣۔١ اس آیت میں پھر دعوت توحید دی گئی ہے۔ یہ دعوت توحید مشرکین مکہ کے لیے ناقابل فہم تھی، انہوں نے کہا : أَجَعَلَ الآلِهَةَ إِلَهًا وَاحِدًا إِنَّ هَذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ (سورة ص: 5) ”کیا اس نے اتنے معبودوں کی جگہ ایک ہی معبود بنا دیا یہ تو بڑی عجیب بات ہے!۔“ اس لیے اگلی آیت میں اس توحید کے دلائل بیان کیے جا رہے ہیں۔
 
Top