• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ‎﴿١٧٩﴾
عقلمندو! قصاص میں تمہارے لیے زندگی ہے اس کے باعث تم (قتل ناحق سے) رکو گے۔ (١)
١٧٩۔١ جب قاتل کو یہ خوف ہو گا کہ میں بھی قصاص میں قتل کر دیا جاؤں گا تو پھر اسے کسی کو قتل کرنے کی جراءت نہیں ہو گی اور جس معاشرے میں یہ قانون قصاص نافذ ہو جاتا ہے، وہاں یہ خوف معاشرے کو قتل و خونریزی سے محفوظ رکھتا ہے، جس سے معاشرے میں نہایت امن اور سکون رہتا ہے، اس کا مشاہدہ آج بھی سعودی معاشرے میں کیا جا سکتا ہے جہاں اسلامی حدود کے نفاذ کی یہ برکات الحمد للہ موجود ہیں۔ کاش دوسرے اسلامی ممالک بھی اسلامی حدود کا نفاذ کر کے اپنے عوام کو یہ پرسکون زندگی مہیا کر سکیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ‌ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَ‌كَ خَيْرً‌ا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَ‌بِينَ بِالْمَعْرُ‌وفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ ﴿١٨٠﴾
تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کوئی مرنے لگے اور مال چھوڑ جاتا ہو تو اپنے ماں باپ اور قرابت داروں کے لیے اچھائی کے ساتھ وصیت کر جائے، (١) پرہیزگاروں پر یہ حق اور ثابت ہے۔
١٨٠۔١ وصیت کرنے کا یہ حکم آیت مواریث کے نزول سے پہلے دیا گیا تھا۔ اب یہ منسوخ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: إِنَّ اللهَ قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ ، فَلا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ (أخرجه السنن بحواله ابن كثير) "اللہ تعالیٰ نے ہر حق والے کو اس کا حق دے دیا ہے (یعنی ورثا کے حصے مقرر کر دیے ہیں) پس اب کسی وراث کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں" البتہ اب ایسے رشتہ داروں کے لیے وصیت کی جا سکتی ہے جو وارث نہ ہوں، یا راہ خیر میں خرچ کرنے کے لیے کی جا سکتی ہے اور اس کی زیادہ سے زیادہ حد ثلث (ایک تہائی) مال ہے، اس سے زیادہ کی وصیت نہیں کی جا سکتی (صحيح بخاری، كتاب الفرائض باب ميراث البنات)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَمَن بَدَّلَهُ بَعْدَ مَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى الَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿١٨١﴾
اب جو شخص اسے سننے کے بعد بدل دے اس کا گناہ بدلنے والے پر ہی ہو گا، واقعی اللہ تعالیٰ سننے والا اور جاننے والا ہے۔

فَمَنْ خَافَ مِن مُّوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿١٨٢﴾
ہاں جو شخص وصیت کرنے والے کی جانبداری یا گناہ کی وصیت کر دینے سے ڈرے (١) پس وہ ان میں آپس میں صلح کرا دے تو اس پر گناہ نہیں، اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔
١٨٢۔١ جَنَفًا (مائل ہونا) کا مطلب ہے غلطی یا بھول سے کسی ایک رشتے دار کی طرف زیادہ مائل ہو کر دوسروں کی حق تلفی کرے اور إِثْمًا سے مراد ہے جان بوجھ کر ایسا کرے (ایسرالتفاسیر) یا إِثْمًا سے مراد گناہ کی وصیت ہے جس کا بدلنا اور اس پر عمل نہ کرنا ضروری ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ وصیت میں عدل و انصاف کا اہتمام ضروری ہے، ورنہ دنیا سے جاتے جاتے بھی ظلم کا ارتکاب، اس کے اخروی نجات کے نقطۂ نظر سے سخت خطرناک ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴿١٨٣﴾
اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو (١)
١٨٣۔١ صِيَامٌ، صَوْمٌ (روزہ) کا مصدر ہے جس کے شرعی معنی ہیں، صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور بیوی سے ہم بستری کرنے سے، اللہ کی رضا کے لیے، رکے رہنا، یہ عبادت چوں کہ نفس کی طہارت اور تزکیہ کے لیے بہت اہم ہے، اس لیے اسے تم سے پہلی امتوں پر بھی فرض کیا گیا تھا۔ اس کا سب سے بڑا مقصد تقویٰ کا حصول ہے۔ اور تقویٰ انسان کے اخلاق و کردار کے سنوارنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ ۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِ‌يضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ‌ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ‌ ۚ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ ۖ فَمَن تَطَوَّعَ خَيْرً‌ا فَهُوَ خَيْرٌ‌ لَّهُ ۚ وَأَن تَصُومُوا خَيْرٌ‌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿١٨٤﴾
گنتی کے چند ہی دن ہیں لیکن تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اور دنوں میں گنتی پورا کر لے (١) اور اس کی طاقت رکھنے والے (٢) فدیہ میں ایک مسکین کو کھانا دیں، پھر جو شخص نیکی میں سبقت کرے وہ اسی کے لیے بہتر ہے (٣) لیکن تمہارے حق میں بہتر کام روزے رکھنا ہی ہے اگر تم باعلم ہو۔
١٨٤۔١ یہ بیمار اور مسافر کو رخصت دے دی گئی ہے کہ وہ بیماری یا سفر کی وجہ سے رمضان المبارک میں جتنے روزے نہ رکھ سکے ہوں، وہ بعد میں رکھ کر گنتی پوری کر لیں۔
١٨٤۔٢ يُطِيقُونَهُ کا ترجمہ يتَجَشَّمُونَهُ "نہایت مشقت سے روزہ رکھ سکیں" کیا گیا ہے (یہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے، امام بخاری نے بھی اسے پسند کیا ہے) یعنی جو شخص زیادہ بڑھاپے یا ایسی بیماری کی وجہ سے، جس سے شفایابی کی امید نہ ہو، روزہ رکھنے میں مشقت محسوس کرے، وہ ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ دے دے، لیکن جمہور مفسرین نے اس کا ترجمہ "طاقت رکھتے ہیں" ہی کیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ابتدائے اسلام میں روزے کی عادت نہ ہونے کی وجہ سے طاقت رکھنے والوں کو بھی رخصت دے دی گئی تھی کہ اگر وہ روزہ نہ رکھیں تو اس کے بدلے ایک مسکین کو کھانا دے دیا کریں۔ لیکن بعد میں ﴿فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ﴾ کے ذریعے اسے منسوخ کرکے ہر صاحب طاقت کے لیے روزہ فرض کر دیا گیا، تاہم زیادہ بوڑھے، دائمی مریض کے لیے اب بھی یہی حکم ہے کہ وہ فدیہ دے دیں اور ”حَامِلَةٌ“ (حمل والی) اور ”مُرْضِعَةٌ“ (دودھ پلانے والی) عورتیں اگر مشقت محسوس کریں تو وہ مریض کے حکم میں ہوں گی یعنی وہ روزہ نہ رکھیں اور بعد میں روزے کی قضا دیں (تحفة الأحوذي شرح ترمذي)
١٨٤۔٣ جو خوشی سے ایک مسکین کی بجائے دو یا تین مسکینوں کو کھانا کھلا دے تو اس کے لیے زیادہ بہتر ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
شَهْرُ‌ رَ‌مَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْ‌آنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْ‌قَانِ ۚ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ‌ فَلْيَصُمْهُ ۖ وَمَن كَانَ مَرِ‌يضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ‌ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ‌ ۗ يُرِ‌يدُ اللَّـهُ بِكُمُ الْيُسْرَ‌ وَلَا يُرِ‌يدُ بِكُمُ الْعُسْرَ‌ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُ‌وا اللَّـهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُ‌ونَ ﴿١٨٥﴾
ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا (١) جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اور جس میں ہدایت کی اور حق و باطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں، تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے اسے روزہ رکھنا چاہیے، ہاں جو بیمار ہو یا مسافر ہو اسے دوسرے دنوں یہ گنتی پوری کرنی چاہیے، اللہ تعالیٰ کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے، سختی کا نہیں، وہ چاہتا ہے تم گنتی پوری کر لو اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بڑائیاں بیان کرو اور اس کا شکر ادا کرو۔
١٨٥۔١ رمضان میں نزول قرآن کا یہ مطلب نہیں کہ مکمل قرآن کسی ایک رمضان میں نازل ہو گیا، بلکہ یہ ہے کہ رمضان کی شب قدر میں لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر اتار دیا گیا اور وہاں بَيْتُ الْعِزَّةِ میں رکھ گیا دیا۔ وہاں سے حسب حالات 23 سالوں تک اترتا رہا۔ (ابن کثیر) اس لیے یہ کہنا کہ قرآن رمضان میں، یا لیلۃ القدر، یا لیلۃ مبارکہ میں اترا۔ یہ سب صحیح ہے کیوں کہ لوح محفوظ سے تو رمضان میں ہی اترا ہے اور لیلۃ القدر اور لیلۃ مبارکہ یہ ایک ہی رات ہے یعنی قدر کی رات، جو رمضان میں ہی آتی ہے۔ بعض کے نزدیک اس کا مفہوم یہ ہے کہ رمضان میں نزول قرآن کا آغاز ہوا اور پہلی وحی، جو غار حرا میں آئی، وہ رمضان میں آئی۔ اس اعتبار سے قرآن مجید اور رمضان المبارک کا آپس میں نہایت گہرا تعلق ہے۔ اسی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ مبارک میں حضرت جبریل عليہ السلام سے قرآن کا دورہ کیا کرتے تھے اور جس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں جبریل عليہ السلام کے ساتھ دو مرتبہ دورہ کیا رمضان کی تین راتوں (23، 25 اور 27) میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی الله عنہم کو باجماعت قیام اللیل بھی کرایا، جس کو اب تراویح کہا جاتا ہے (صحیح ترمذی و صحیح ابن ماجہ، البانی) یہ تراویح آٹھ رکعات مع وتر گیارہ رکعات تھیں جس کی صراحت حضرت جابر رضی الله عنہ کی روایت (جو قیام اللیل مروزی وغیرہ میں ہے) اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت (صحیح بخاری) میں موجود ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا 20 رکعات تراویح پڑھنا کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ البتہ چونکہ بعض صحابہ کرام رضی الله عنہم سے گیارہ رکعت سے زیادہ پڑھنا ثابت ہے اس وجہ سے محض نفل کی نیت سے بیس رکعتیں یا اس سے کم یا زیادہ پڑھی جا سکتی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِ‌يبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْ‌شُدُونَ ﴿١٨٦﴾
جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب بھی وہ مجھے پکارے، قبول کرتا ہوں (١) اس لیے لوگوں کو بھی چاہیے وہ میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں، یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے۔
١٨٦۔١ رمضان المبارک کے احکام و مسائل کے درمیان دعا کا مسئلہ بیان کر کے یہ واضح کر دیا گیا کہ رمضان میں دعا کی بھی بڑی فضیلت ہے، جس کا خوب اہتمام کرنا چاہیے، خصوصاً افطاری کے وقت کو قبولیت دعا کا خاص وقت بتلایا گیا ہے (مسند أحمد، ترمذي ، نسائي، ابن ماجه بحواله ابن كثير) تاہم قبولیت دعا کے لیے ضروری ہے کہ ان آداب و شرائط کو ملحوظ رکھا جائے جو قرآن و حدیث میں بیان ہوئے ہیں۔ جن میں سے دو یہاں بیان کئے گئے ہیں: ایک اللہ پر صحیح معنوں میں ایمان اور دوسرا اس کی اطاعت و فرمانبرداری۔ اسی طرح احادیث میں حرام خوراک سے بچنے اور خشوع و خضوع کا اہتمام کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّ‌فَثُ إِلَىٰ نِسَائِكُمْ ۚ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ۗ عَلِمَ اللَّـهُ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَخْتَانُونَ أَنفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنكُمْ ۖ فَالْآنَ بَاشِرُ‌وهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّـهُ لَكُمْ ۚ وَكُلُوا وَاشْرَ‌بُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ‌ ۖ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ ۚ وَلَا تُبَاشِرُ‌وهُنَّ وَأَنتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ فَلَا تَقْرَ‌بُوهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ ﴿١٨٧﴾
روزوں کی راتوں میں اپنی بیویوں سے ملنا تمہارے لیے حلال کیا گیا، وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کے لباس ہو، تمہاری پوشیدہ خیانتوں کا اللہ تعالیٰ کو علم ہے، اس نے تمہاری توبہ قبول فرما کر تم سے درگزر فرما لیا، اب تمہیں ان سے مباشرت کی اور اللہ تعالیٰ کی لکھی ہوئی چیز کی تلاش کرنے کی اجازت ہے، تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے ظاہر ہو جائے۔ (١) پھر رات تک روزے کو پورا کرو (٢) اور عورتوں سے اس وقت مباشرت نہ کرو جب کہ تم مسجدوں میں اعتکاف میں ہو۔ (٣) یہ اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں، تم ان کے قریب بھی نہ جاؤ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنی آیتیں لوگوں کے لیے بیان فرماتا ہے تاکہ وہ بچیں۔
١٨٧۔١ ابتدائے اسلام میں ایک حکم یہ تھا کہ روزہ افطار کرنے کے بعد عشا کی نماز یا سونے تک کھانے پینے اور بیوی سے مباشرت کرنے کی اجازت تھی، سونے کے بعد ان میں سے کوئی کام نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ظاہر بات ہے یہ پابندی سخت تھی اور اس پر عمل مشکل تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ دونوں پابندیاں اٹھا لیں اور افطار سے لے کر صبح صادق تک کھانے پینے اور بیوی سے مباشرت کرنے کی اجازت مرحمت فرما دی۔ الرَّفَثُ سے مراد بیوی سے ہم بستری کرنا ہے الْخَيْطُ الأَبْيَضُ سے صبح صادق، اور الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ (سیاہ دھاری) سے مراد رات ہے (ابن کثیر)
مسئلہ : اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حالت جنابت میں روزہ رکھا جا سکتا ہے، کیوں کہ فجر تک اللہ تعالیٰ نے مذکورہ امور کی اجازت دی ہے اور صحیح بخاری و صحیح مسلم کی روایت سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ (ابن کثیر)
١٨٧۔٢ یعنی رات ہوتے ہی (غروب شمس کے فوراً بعد) روزہ افطار کر لو۔ تاخیر مت کرو، جیسا کہ حدیث میں بھی روزہ جلد افطار کرنے کی تاکید اور فضیلت آئی ہے۔ دوسرا یہ کہ وصال مت کرو۔ وصال کا مطلب ہے کہ ایک روزہ افطار کئے بغیر دوسرا روزہ رکھ لینا۔ اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت سختی سے منع فرمایا ہے۔ (کتب حدیث)
١٨٧۔٣ اعتکاف کی حالت میں بیوی سے مباشرت اور بوس و کنار کی اجازت نہیں ہے۔ البتہ ملاقات اور بات چیت جائز ہے۔ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ سے استدلال کیا گیا ہے کہ اعتکاف کے لیے مسجد ضروری ہے، چاہے مرد ہو یا عورت۔ ازواج مطہرات نے بھی مسجد میں اعتکاف کیا ہے۔ اس لیے عورتوں کا اپنے گھروں میں اعتکاف بیٹھنا صحیح نہیں۔ البتہ مسجد میں ان کے لیے ہر چیز کا مردوں سے الگ انتظام کرنا ضروری ہے، تاکہ مردوں سے کسی طرح کا اختلاط نہ ہو، جب تک مسجد میں معقول، محفوظ اور مردوں سے بالکل الگ انتظام نہ ہو، عورتوں کو مسجد میں اعتکاف بیٹھنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے اور عورتوں کو بھی اس پر اصرار نہیں کرنا چاہیے۔ یہ ایک نفلی عبادت ہی ہے، جب تک پوری طرح تحفظ نہ ہو، اس نفلی عبادت سے گریز بہتر ہے۔ فقہ کا اصول ہے: دَرْءُ المَفَاسِدِ يُقَدَّمُ عَلَى جَلْبِ الْمَصَالحِ ”مصالح کے حصول کے مقابلے میں مفاسد سے بچنا اور ان کو ٹالنا زیادہ ضروری ہے۔“
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِ‌يقًا مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿١٨٨﴾
اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھایا کرو، نہ حاکموں کو رشوت پہنچا کر کسی کا کچھ مال ظلم و ستم سے اپنا کر لیا کرو، حالانکہ تم جانتے ہو۔ (١)
١٨٨۔١ ایسے شخص کے بارے میں ہے جس کے پاس کسی کا حق ہو، لیکن حق والے کے پاس ثبوت نہ ہو، اس کمزوری سے فائدہ اٹھا کر وہ عدالت یا حاکم مجاز سے اپنے حق میں فیصلہ کروا لے اور اس طرح وہ دوسرے کا حق غصب کر لے۔ یہ ظلم ہے اور حرام ہے۔ عدالت کا فیصلہ ظلم اور حرام کو جائز اور حلال نہیں کر سکتا۔ یہ ظالم عند اللہ مجرم ہو گا۔ (ابن کثیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ ۖ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ۗ وَلَيْسَ الْبِرُّ‌ بِأَن تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِن ظُهُورِ‌هَا وَلَـٰكِنَّ الْبِرَّ‌ مَنِ اتَّقَىٰ ۗ وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿١٨٩﴾
لوگ آپ سے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ یہ لوگوں (کی عبادت) کے وقتوں اور حج کے موسم کے لیے ہے (احرام کی حالت میں ) اور گھروں کے پیچھے سے تمہارا آنا کچھ نیکی نہیں، بلکہ نیکی والا وہ ہے جو متقی ہو۔ اور گھروں میں تو دروازوں میں سے آیا کرو (٢) اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ
١٨٩۔١ انصار اور دوسرے عرب جاہلیت میں جب حج یا عمرہ کا احرام باندھ لیتے اور پھر کسی خاص ضرورت کے لیے گھر آنے کی ضرورت پڑ جاتی تو دروازے سے آنے کی بجائے پیچھے سے دیوار پھلانگ کر اندر آتے، اس کو وہ نیکی سمجھتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ نیکی نہیں ہے۔ (ایسرالتفاسیر)
 
Top