- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللَّـهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ﴿١٦٤﴾
آسمانوں اور زمین کی پیدائش، رات دن کا ہیر پھیر، کشتیوں کا لوگوں کو نفع دینے والی چیزیں کو لیے ہوئے سمندروں میں چلنا، آسمان سے پانی اتار کر، مردہ زمین کو زندہ کر دینا، (١) اس میں ہر قسم کے جانوروں کو پھیلا دینا، ہواؤں کے رخ بدلنا، اور بادل، جو آسمان اور زمین کے درمیان مسخر ہیں، ان میں عقلمندوں کے لیے قدرت الٰہی کی نشانیاں ہیں۔
١٦٤۔١ یہ آیت اس لحاظ سے بڑی جامع ہے کہ کائنات کی تخلیق اور اس کے نظم وتدبیر کے متعلق سات اہم امور کا اس میں یکجا تذکرہ ہے، جو کسی اور آیت میں نہیں۔
١- آسمان اور زمین کی پیدائش، جن کی وسعت و عظمت محتاج بیان ہی نہیں۔
٢- رات اور دن کا یکے بعد دیگرے آنا، دن کو روشنی اور رات کو اندھیرا کر دینا تاکہ کاروبار معاش بھی ہو سکے اور آرام بھی۔ پھر رات کا لمبا اور دن کا چھوٹا ہونا اور پھر اس کے برعکس دن کا لمبا اور رات کا چھوٹا ہونا۔
٣- سمندر میں کشتیوں اور جہازوں کا چلنا، جن کے ذریعے سے تجارتی سفر بھی ہوتے ہیں اور ٹنوں کے حساب سے سامان رزق و آسائش بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا ہے۔
٤- بارش جو زمین کی شادابی و روئیدگی کے لیے نہایت ضروری ہے۔
٥- ہر قسم کے جانوروں کی پیدائش، جو نقل و حمل، کھیتی باڑی اور جنگ میں بھی کام آتے ہیں اور انسانی خوراک کی بھی ایک بڑی مقدار ان سے پوری ہوتی ہے۔
٦- ہر قسم کی ہوائیں ٹھنڈی بھی، گرم بھی، بارآور بھی اورغیربارآور بھی، شرقی غربی بھی اور شمالی جنوبی بھی۔ انسانی زندگی اور ان کی ضروریات کے مطابق۔
٧- بادل جنہیں اللہ تعالیٰ جہاں چاہتا ہے، برساتا ہے۔ یہ سارے امور کیا اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی وحدانیت پر دلالت نہیں کرتے؟ یقیناً کرتے ہیں۔ کیا اس تخلیق میں اور اس نظم و تدبیر میں اس کا کوئی شریک ہے؟ نہیں۔ یقیناً نہیں۔ تو پھر اس کو چھوڑ کر دوسروں کو معبود اور حاجت روا سمجھنا کہاں کی عقل مندی ہے؟
آسمانوں اور زمین کی پیدائش، رات دن کا ہیر پھیر، کشتیوں کا لوگوں کو نفع دینے والی چیزیں کو لیے ہوئے سمندروں میں چلنا، آسمان سے پانی اتار کر، مردہ زمین کو زندہ کر دینا، (١) اس میں ہر قسم کے جانوروں کو پھیلا دینا، ہواؤں کے رخ بدلنا، اور بادل، جو آسمان اور زمین کے درمیان مسخر ہیں، ان میں عقلمندوں کے لیے قدرت الٰہی کی نشانیاں ہیں۔
١٦٤۔١ یہ آیت اس لحاظ سے بڑی جامع ہے کہ کائنات کی تخلیق اور اس کے نظم وتدبیر کے متعلق سات اہم امور کا اس میں یکجا تذکرہ ہے، جو کسی اور آیت میں نہیں۔
١- آسمان اور زمین کی پیدائش، جن کی وسعت و عظمت محتاج بیان ہی نہیں۔
٢- رات اور دن کا یکے بعد دیگرے آنا، دن کو روشنی اور رات کو اندھیرا کر دینا تاکہ کاروبار معاش بھی ہو سکے اور آرام بھی۔ پھر رات کا لمبا اور دن کا چھوٹا ہونا اور پھر اس کے برعکس دن کا لمبا اور رات کا چھوٹا ہونا۔
٣- سمندر میں کشتیوں اور جہازوں کا چلنا، جن کے ذریعے سے تجارتی سفر بھی ہوتے ہیں اور ٹنوں کے حساب سے سامان رزق و آسائش بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا ہے۔
٤- بارش جو زمین کی شادابی و روئیدگی کے لیے نہایت ضروری ہے۔
٥- ہر قسم کے جانوروں کی پیدائش، جو نقل و حمل، کھیتی باڑی اور جنگ میں بھی کام آتے ہیں اور انسانی خوراک کی بھی ایک بڑی مقدار ان سے پوری ہوتی ہے۔
٦- ہر قسم کی ہوائیں ٹھنڈی بھی، گرم بھی، بارآور بھی اورغیربارآور بھی، شرقی غربی بھی اور شمالی جنوبی بھی۔ انسانی زندگی اور ان کی ضروریات کے مطابق۔
٧- بادل جنہیں اللہ تعالیٰ جہاں چاہتا ہے، برساتا ہے۔ یہ سارے امور کیا اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی وحدانیت پر دلالت نہیں کرتے؟ یقیناً کرتے ہیں۔ کیا اس تخلیق میں اور اس نظم و تدبیر میں اس کا کوئی شریک ہے؟ نہیں۔ یقیناً نہیں۔ تو پھر اس کو چھوڑ کر دوسروں کو معبود اور حاجت روا سمجھنا کہاں کی عقل مندی ہے؟