• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
يَتَجَرَّ‌عُهُ وَلَا يَكَادُ يُسِيغُهُ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِن كُلِّ مَكَانٍ وَمَا هُوَ بِمَيِّتٍ ۖ وَمِن وَرَ‌ائِهِ عَذَابٌ غَلِيظٌ ﴿١٧﴾
جسے بمشکل گھونٹ گھونٹ پئے گا۔ پھر بھی اسے گلے سے اتار نہ سکے گا اور اسے ہر جگہ سے موت آتی دکھائی دے گی لیکن وہ مرنے والا نہیں۔ (١) اور پھر اس کے پیچھے بھی سخت عذاب ہے۔
١٧۔١ یعنی انواع و اقسام کے عذاب چکھ چکھ کر وہ موت کی آرزو کرے گا۔ لیکن، موت وہاں کہاں؟ وہاں تو اسی طرح دائمی عذاب ہو گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
مَّثَلُ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا بِرَ‌بِّهِمْ ۖ أَعْمَالُهُمْ كَرَ‌مَادٍ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّ‌يحُ فِي يَوْمٍ عَاصِفٍ ۖ لَّا يَقْدِرُ‌ونَ مِمَّا كَسَبُوا عَلَىٰ شَيْءٍ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الضَّلَالُ الْبَعِيدُ ﴿١٨﴾
ان لوگوں کی مثال جنہوں نے اپنے پالنے والے سے کفر کیا، ان کے اعمال مثل راکھ کے ہیں جس پر تیز ہوا آندھی والے دن چلے۔ (١) جو بھی انہوں نے کیا اس میں سے کسی چیز پر قادر نہ ہوں گے، یہی دور کی گمراہی ہے۔
١٨۔١ قیامت والے دن کافروں کے عملوں کا بھی یہی حال ہو گا کہ اس کا کوئی اجر و ثواب انہیں نہیں ملے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
أَلَمْ تَرَ‌ أَنَّ اللَّـهَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ بِالْحَقِّ ۚ إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيدٍ ﴿١٩﴾
کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو اور زمین کو بہترین تدبیر کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ اگر وہ چاہے تو تم سب کو فنا کر دے اور نئی مخلوق لائے۔

وَمَا ذَٰلِكَ عَلَى اللَّـهِ بِعَزِيزٍ ﴿٢٠﴾
اللہ پر یہ کام کچھ بھی مشکل نہیں۔ (١)
٢٠۔١ یعنی اگر تم نافرمانیوں سے باز نہ آئے تو اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ وہ تمہیں ہلاک کر کے، تمہاری جگہ نئی مخلوق پیدا کر دے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
وَبَرَ‌زُوا لِلَّـهِ جَمِيعًا فَقَالَ الضُّعَفَاءُ لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُ‌وا إِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ أَنتُم مُّغْنُونَ عَنَّا مِنْ عَذَابِ اللَّـهِ مِن شَيْءٍ ۚ قَالُوا لَوْ هَدَانَا اللَّـهُ لَهَدَيْنَاكُمْ ۖ سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْ‌نَا مَا لَنَا مِن مَّحِيصٍ ﴿٢١﴾
سب کے سب اللہ کے سامنے روبرو کھڑے ہوں گے۔ (١) اس وقت کمزور لوگ بڑائی والوں سے کہیں گے کہ ہم تو تمہارے تابعدار تھے، تو کیا تم اللہ کے عذابوں میں سے کچھ عذاب ہم سے دور کر سکنے والے ہو؟ وہ جواب دیں گے کہ اگر اللہ ہمیں ہدایت دیتا تو ہم بھی ضرور تمہاری رہنمائی کرتے، اب تو ہم پر بے قراری کرنا اور صبر کرنا دونوں ہی برابر ہے ہمارے لیے کوئی چھٹکارا نہیں۔ (٢)
٢١۔١ یعنی سب میدان محشر میں اللہ کے ربرو ہوں گے، کوئی کہیں چھپ نہ سکے گا۔
٢١۔٢ بعض کہتے ہیں کہ جہنمی آپس میں کہیں گے کہ جنتیوں کو جنت اس لیے ملی کہ وہ اللہ کے سامنے روتے اور گڑگڑاتے تھے، آؤ ہم بھی اللہ کی بارگاہ میں آہ و زاری کریں چنانچہ وہ روئیں گے اور خوب آہ و زاری کریں گے۔ لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا، پھر کہیں گے کہ جنتیوں کو جنت ان کے صبر کرنے کی وجہ سے ملی، چلو ہم بھی صبر کرتے ہیں، وہ صبر کا بھرپور مظاہرہ کریں گے، لیکن اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا، پس اس وقت کہیں گے ہم صبر کریں یا جزع و فزع، اب چھٹکارے کی کوئی صورت نہیں۔ یہ ان کی باہمی گفتگو جہنم کے اندر ہو گی۔ قرآن کریم میں اس کو اور بھی کئی جگہ بیان کیا گیا ہے مثلاً سورہ مؤمن (48-47) سورہ اعراف (39-38) سورہ الاحزاب (68-66) اس کے علاوہ آپس میں جھگڑیں گے بھی اور ایک دوسرے پر گمراہ کرنے کا الزام دھریں گے۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ جھگڑا میدان محشر میں ہو گا۔ اس کی مزید تفصیل اللہ تعالیٰ نے سورہ سبا (31 ۔ 33) میں بیان فرمائی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ‌ إِنَّ اللَّـهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ ۖ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُم مِّن سُلْطَانٍ إِلَّا أَن دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي ۖ فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنفُسَكُم ۖ مَّا أَنَا بِمُصْرِ‌خِكُمْ وَمَا أَنتُم بِمُصْرِ‌خِيَّ ۖ إِنِّي كَفَرْ‌تُ بِمَا أَشْرَ‌كْتُمُونِ مِن قَبْلُ ۗ إِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٢٢﴾
جب اور کام کا فیصلہ کر دیا جائے گا تو شیطان (١) کہے گا کہ اللہ نے تو تمہیں سچا وعدہ دیا تھا اور میں نے تم سے جو وعدے کیے تھے ان کے خلاف کیا، (٢) میرا تو تم پر کوئی دباؤ تو تھا ہی نہیں، (٣) ہاں میں نے تمہیں پکارا اور تم نے میری مان لی، (٤) پس تم مجھے الزام نہ لگاؤ بلکہ خود اپنے آپ کو ملامت کرو، (٤) نہ میں تمہارا فریاد رس اور نہ تم میری فریاد کو پہنچنے والے، (٥) میں تو سرے سے مانتا ہی نہیں کہ تم مجھے اس سے پہلے اللہ کا شریک مانتے رہے، (٦) یقیناً ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (٧)
٢٢۔١ یعنی اہل ایمان جنت میں اور اہل کفر و شرک جہنم میں چلے جائیں گے تو شیطان جہنمیوں سے کہے گا۔
٢٢۔٢ اللہ نے جو وعدے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے کیے تھے کہ نجات میرے پیغمبروں پر ایمان لانے میں ہے۔ وہ حق پر تھے ان کے مقابلے میں میرے وعدے تو سراسر دھوکا اور فریب تھے۔ جس طرح اللہ نے فرمایا ﴿يَعِدُهُمْ وَيُمَنِّيهِمْ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلا غُرُورًا﴾ (النساء:120) ”شیطان ان سے وعدے کرتا ہے اور آرزوئیں دلاتا ہے لیکن شیطان کے یہ وعدے محض دھوکا ہیں“۔
٢٢۔٣ دوسرا یہ کہ میری باتوں میں کوئی دلیل و حجت نہیں ہوتی تھی، نہ میرا کوئی دباؤ ہی تم پر تھا۔
٢٢۔٤ ہاں میری صرف دعوت اور پکار تھی، تم نے میری بے دلیل پکار کو مان لیا اور پیغمبروں کی دلیل و حجت سے بھرپور باتوں کو رد کر دیا۔
٢٢۔٥ اس لیے قصور سارا تمہارا اپنا ہی ہے تم نے عقل و شعور سے ذرا کام نہ لیا، دلائل واضحہ کو تم نے نظر انداز کر دیا، اور مجرد دعوے کے پیچھے لگے رہے، جس کی پشت پر کوئی دلیل نہیں۔
٢٢۔٦ یعنی نہ میں تمہیں عذاب سے نکلوا سکتا ہوں جس میں تم مبتلا ہو اور نہ تم اس قہر و غضب سے مجھے بچا سکتے ہو جو اللہ کی طرف سے مجھ پر ہے۔
٢٢۔٧ مجھے اس بات سے بھی انکار ہے کہ میں اللہ کا شریک ہوں، اگر تم مجھے یا کسے اور کو اللہ کا شریک گردانتے رہے تو تمہاری اپنی غلطی اور نادانی تھی، جس اللہ نے ساری کائنات بنائی تھی اور اس کی تدبیر بھی وہی کرتا رہا، بھلا اس کا کوئی شریک کیونکر ہو سکتا تھا۔
٢٢۔٨ بعض کہتے ہیں کہ یہ جملہ بھی شیطان ہی کا ہے اور یہ اس کے مذکورہ خطبے کا تتمہ ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ شیطان کا کلام مِنْ قَبْلُ پر ختم ہو گیا، یہ اللہ کا کلام ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
وَأُدْخِلَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِ‌ي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ‌ خَالِدِينَ فِيهَا بِإِذْنِ رَ‌بِّهِمْ ۖ تَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَامٌ ﴿٢٣﴾
جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے وہ ان جنتوں میں داخل کیے جائیں گے جن کے نیچے چشمے جاری ہیں جہاں انہیں ہمیشگی ہو گی اپنے رب کے حکم سے۔ (١) جہاں ان کا خیر مقدم سلام سے ہو گا۔ (٢)
٢٣۔١ یہ اہل شقاوت و اہل کفر کے مقابلے میں اہل سعادت اور اہل ایمان کا تذکرہ ہے۔ ان کا ذکر ان کے ساتھ اس لیے کیا گیا ہے تاکہ لوگوں کے اندر اہل ایمان والا کردار اپنانے کا شوق و رغبت پیدا ہو۔
٢٣۔٢ یعنی آپس میں ان کا تحفہ ایک دوسرے کو سلام کرنا ہو گا۔ علاوہ ازیں فرشتے بھی ہر ہر دروازے سے داخل ہو ہو کر انہیں سلام عرض کریں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
أَلَمْ تَرَ‌ كَيْفَ ضَرَ‌بَ اللَّـهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَ‌ةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْ‌عُهَا فِي السَّمَاءِ ﴿٢٤﴾
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے پاکیزہ بات کی مثال کس طرح بیان فرمائی، مثل ایک پاکیزہ درخت کے جس کی جڑ مضبوط ہے اور جس کی ٹہنیاں آسمان میں ہیں۔

تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَ‌بِّهَا ۗ وَيَضْرِ‌بُ اللَّـهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُ‌ونَ ﴿٢٥﴾
جو اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت اپنے پھل لاتا (١) ہے۔ اور اللہ تعالیٰ لوگوں کے سامنے مثالیں بیان فرماتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔
٢٥۔١ اس کا مطلب ہے کہ مومن کی مثال اس درخت کی طرح ہے، جو گرمی ہو یا سردی ہر وقت پھل دیتا ہے۔ اسی طرح مومن کے اعمال صالحہ شب و روز کے لمحات میں ہر آن اور ہر گھڑی آسمان کی طرف لے جائے جاتے ہیں، كَلِمَةٌ طَيِّبَةٌ سے اسلام، یا لا اِلٰہ الا اللہ اور شجرہ طیبہ سے کھجور کا درخت مراد ہے۔ جیسا کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ ( صحيح بخاری، كتاب العلم، باب الفهم في العلم، ومسلم، كتاب صفة القيامة، باب مثل المؤمن مثل النخلة)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَ‌ةٍ خَبِيثَةٍ اجْتُثَّتْ مِن فَوْقِ الْأَرْ‌ضِ مَا لَهَا مِن قَرَ‌ارٍ‌ ﴿٢٦﴾
اور ناپاک بات کی مثال گندے درخت جیسی ہے جو زمین کے کچھ ہی اوپر سے اکھاڑ لیا گیا۔ اسے کچھ ثبات تو ہے نہیں۔ (١)
٢٦۔١ کلمئہ خبیثہ سے مراد کفر اور شجرہ خبیثہ سے حنظل (اندرائن) کا درخت مراد ہے۔ جس کی جڑ زمین کے اوپر ہی ہوتی ہے اور ذرا سے اشارے سے اکھڑ جاتی ہے۔ یعنی کافر کے اعمال بالکل بے حیثیت۔ نہ وہ آسمان پر چڑھتے ہیں، نہ اللہ کی بارگاہ میں وہ قبولیت کا درجہ پاتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
يُثَبِّتُ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَ‌ةِ ۖ وَيُضِلُّ اللَّـهُ الظَّالِمِينَ ۚ وَيَفْعَلُ اللَّـهُ مَا يَشَاءُ ﴿٢٧﴾
ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ پکی بات کے ساتھ مضبوط رکھتا ہے، دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی، (١) ہاں نا انصاف لوگوں کو اللہ بہکا دیتا ہے اور اللہ جو چاہے کر گزرے۔
٢٧۔١ اس کی تفسیر حدیث میں اس طرح آتی ہے کہ ”موت کے بعد قبر میں جب مسلمان سے سوال کیا جاتا ہے، تو وہ جواب میں اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں“۔ پس یہی مطلب ہے اللہ کے فرمان، ﴿يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا﴾ کا (صحيح بخاری، تفسير سورة إبراهيم، وصحيح مسلم، كتاب الجنة وصفة نعيمها، باب عرض مقعد الميت عليه وإثبات عذاب القبر) ایک اور حدیث میں ہے کہ ”جب بندے کو قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی چلے جاتے ہیں اور وہ ان کے جوتوں کی آہٹ سنتا ہے۔ پھر اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے اٹھا کر اس سے پوچھتے ہیں کہ اس شخص کے بارے میں تیری کیا رائے ہے، وہ مومن ہوتا ہے تو جواب دیتا ہے کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ فرشتے اسے جہنم کا ٹھکانا دکھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ نے اس کی جگہ تیرے لیے جنت میں ٹھکانا بنا دیا ہے۔ پس وہ دونوں ٹھکانے دیکھتا ہے اور اس کی قبر ستر ہاتھ کشادہ کر دی جاتی ہے اور اس کی قبر کو قیامت تک نعمتوں سے بھر دیا جاتا ہے“۔ (صحیح مسلم، باب مذکور) ایک اثر میں ہے، اس سے پوچھا جاتا ہے مَنْ رَبُّكَ؟ مَا دِينُكَ ؟ مَنْ نَبِيُّكَ؟۔ ”تیرا رب کون ہے، تیرا دین کیا ہے اور تیرا پیغمبر کون ہے“؟ پس اللہ تعالیٰ اسے ثابت قدمی عطا فرماتا ہے اور وہ جواب دیتا ہے رَبِّی اللّٰہُ (میرا رب اللہ ہے)، وَدِیْنِیَ الاِسْلَامُ (میرا دین اسلام ہے) وَنَبِیِّی مُحَمَّد (اور میرے پیغمبر محمد ﷺ ہیں) (تفسیر ابن کثیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
أَلَمْ تَرَ‌ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُوا نِعْمَتَ اللَّـهِ كُفْرً‌ا وَأَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دَارَ‌ الْبَوَارِ‌ ﴿٢٨﴾
کیا آپ نے ان کی طرف نظر نہیں ڈالی جنہوں نے اللہ کی نعمت کے بدلے ناشکری کی اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر میں لا اتارا۔ (١)
٢٨۔١ اس کی تفسیر صحیح بخاری میں ہے کہ اس سے مراد کفار مکہ ہیں، جنہوں نے رسالت محمدیہ کا انکار کر کے اور جنگ بدر میں مسلمانوں سے لڑ کر اپنے لوگوں کو ہلاک کروایا، تاہم اپنے مفہوم کے اعتبار سے یہ عام ہے اور مطلب یہ ہو گا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے رحمۃ للعالمین اور لوگوں کے لیے نعمت الٰہیہ بنا کر بھیجا، پس جس نے اس نعمت کی قدر کی، اسے قبول کیا، اس نے شکر ادا کیا، وہ جنتی ہو گیا اور جس نے اس نعمت کو رد کر دیا اور کفر اختیار کیے رکھا، وہ جہنمی قرار پایا۔
 
Top