• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
جَهَنَّمَ يَصْلَوْنَهَا ۖ وَبِئْسَ الْقَرَ‌ارُ‌ ﴿٢٩﴾
یعنی دوزخ میں جس میں یہ سب جائیں گے، جو بدترین ٹھکانا ہے۔

وَجَعَلُوا لِلَّـهِ أَندَادًا لِّيُضِلُّوا عَن سَبِيلِهِ ۗ قُلْ تَمَتَّعُوا فَإِنَّ مَصِيرَ‌كُمْ إِلَى النَّارِ‌ ﴿٣٠﴾
انہوں نے اللہ کے ہمسر بنا لیے کہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ خیر مزے کر لو تمہاری بازگشت تو آخر جہنم ہی ہے۔ (١)
٣٠۔١ یہ تہدید و توبیخ ہے کہ دنیا میں تم جو کچھ چاہو کر لو، مگر کب تک؟ بالآخر تمہارا ٹھکانا جہنم ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قُل لِّعِبَادِيَ الَّذِينَ آمَنُوا يُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُنفِقُوا مِمَّا رَ‌زَقْنَاهُمْ سِرًّ‌ا وَعَلَانِيَةً مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خِلَالٌ ﴿٣١﴾
میرے ایمان والے بندوں سے کہہ دیجئے کہ نمازوں کو قائم رکھیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے کچھ نہ کچھ پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے رہیں اس سے پہلے کہ وہ دن آ جائے جس میں نہ خرید و فروخت ہو گی اور نہ دوستی اور محبت۔ (١)
٣١۔١ نماز کو قائم کرنے کا مطلب ہے کہ اسے اپنے وقت پر اور نماز کو ٹھیک طریقہ کے ساتھ اور خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کیا جائے، جس طرح کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ انفاق کا مطلب ہے زکوۃ ادا کی جائے، اقارب کے ساتھ صلہ رحمی کی جائے اور دیگر ضرورت مندوں پر احسان کیا جائے یہ نہیں کہ صرف اپنی ذات اور اپنی ضروریات پر تو بلا دریغ خوب خرچ کیا جائے۔ اور اللہ تعالٰی کی بتلائی ہوئی جگہوں پر خرچ کرنے سے گریز کیا جائے۔ قیامت کا دن ایسا ہو گا کہ جہاں نہ خرید و فروخت ممکن ہو گی نہ کوئی دوستی ہی کسی کام آئے گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
اللَّـهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَ‌جَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَ‌اتِ رِ‌زْقًا لَّكُمْ ۖ وَسَخَّرَ‌ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِ‌يَ فِي الْبَحْرِ‌ بِأَمْرِ‌هِ ۖ وَسَخَّرَ‌ لَكُمُ الْأَنْهَارَ‌ ﴿٣٢﴾
اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمانوں سے بارش برسا کر اس کے ذریعے تمہاری روزی کے لیے پھل نکالے ہیں اور کشتیوں کو تمہارے بس میں کر دیا کہ دریاؤں میں اس کے حکم سے چلیں پھریں۔ اسی نے ندیاں اور نہریں تمہارے اختیار میں کر دی ہیں۔ (١)
٣٢۔١ اللہ تعالیٰ نے مخلوقات پر جو انعامات کیے ہیں، ان میں بعض کا تذکرہ یہاں کیا جا رہا ہے۔ فرمایا آسمان کو چھت اور زمین کو بچھونا بنایا۔ آسمان سے بارش نازل فرما کر مختلف قسم کے درخت اور فصلیں اگائیں جن میں لذت و قوت کے لئے میوے اور فروٹ بھی ہیں اور انواع و اقسام کے غلے بھی جن کے رنگ اور شکلیں بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور ذائقے اور خوشبو اور فوائد بھی مختلف ہیں۔ کشتیوں اور جہازوں کو خدمت میں لگا دیا کہ وہ تلاطم خیز موجوں پر چلتے ہیں، انسانوں کو بھی ایک ملک سے دوسرے ملک میں پہنچاتے ہیں اور سامان تجارت بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے ہیں۔ زمینوں اور پہاڑوں سے چشمے اور نہریں جاری کر دیں تاکہ تم بھی سیراب ہو اور اپنے کھیتوں کو بھی سیراب کرو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَسَخَّرَ‌ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ‌ دَائِبَيْنِ ۖ وَسَخَّرَ‌ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ‌ ﴿٣٣﴾
اسی نے تمہارے لیے سورج چاند کو مسخر کر دیا ہے کہ برابر ہی چل رہے ہیں (١) اور رات دن کو بھی تمہارے کام میں لگا رکھا ہے۔ (٢)
٣٣۔١ یعنی مسلسل چلتے رہتے ہیں، کبھی ٹھہرتے نہیں رات کو، نہ دن کو۔ علاوہ ازیں ایک دوسرے کے پیچھے چلتے ہیں لیکن کبھی ان کا باہمی تصادم اور ٹکراؤ نہیں ہوتا۔
٣٣۔٢ رات اور دن، ان کا باہمی تفاوت جاری رہتا ہے، کبھی رات، دن کا کچھ حصہ لے کر لمبی ہو جاتی ہے اور کبھی دن، رات کا کچھ حصہ لے کر لمبا ہو جاتا ہے۔ اور یہ سلسلہ ابتدائے کائنات سے چل رہا ہے، اس میں یک سر مو فرق نہیں آیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَآتَاكُم مِّن كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ ۚ وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّـهِ لَا تُحْصُوهَا ۗ إِنَّ الْإِنسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ‌ ﴿٣٤﴾
اسی نے تمہیں تمہاری منہ مانگی کل چیزوں میں سے دے رکھا ہے۔ (١) اگر تم اللہ کے احسان گننا چاہو تو انہیں پورے گن بھی نہیں سکتے۔ (٢) یقیناً انسان بڑا ہی بے انصاف اور ناشکرا ہے۔
٣٤۔١ یعنی اس نے تمہاری ضرورت کی تمام چیزیں مہیا کیں جو تم اس سے طلب کرتے ہو، اور بعض کہتے ہیں جسے تم طلب کرتے ہو وہ بھی دیتا ہے اور جسے نہیں مانگتے، لیکن اسے پتہ ہے کہ وہ تمہاری ضرورت ہے، وہ بھی دے دیتا ہے۔ غرض تمہیں زندگی گزارنے کی تمام سہولتیں فراہم کرتا ہے۔
٣٤۔٢ یعنی اللہ کی نعمتیں ان گنت ہیں انہیں کوئی شمار میں نہیں لا سکتا۔ چہ‌ جائیکہ کوئی ان نعمتوں کے شکر کا حق ادا کر سکے۔ ایک اثر میں حضرت داؤد عليہ السلام کا قول نقل کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا 'اے رب! میں تیرا شکر کس طرح ادا کروں؟ جب کہ شکر بجائے خود تیری طرف سے مجھ پر ایک نعمت ہے' اللہ تعالیٰ نے فرمایا "اے داؤد اب تو نے میرا شکر ادا کر دیا جب کہ تو نے اعتراف کر لیا کہ یا اللہ میں تیری نعمتوں کا شکر ادا کرنے سے قاصر ہوں" (تفسیر ابن کثیر)
٣٤۔٣ اللہ کی نعمتوں پر شکر ادا کرنے سے غفلت کی وجہ سے انسان اپنے نفس کے ساتھ ظلم اور بے انصافی کرتا ہے۔ بالخصوص کافر، جو بالکل ہی اللہ سے غافل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَإِذْ قَالَ إِبْرَ‌اهِيمُ رَ‌بِّ اجْعَلْ هَـٰذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَن نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ ﴿٣٥﴾
(ابراہیم کی یہ دعا بھی یاد کرو) جب انہوں نے کہا اے میرے پروردگار! اس شہر کو امن والا بنا دے، (١) اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے پناہ دے۔
٣٥۔١ ”اس شہر“ سے مراد مکہ ہے۔ دیگر دعاؤں سے قبل یہ دعا کی کہ اسے امن والا بنا دے، اس لیے کہ امن ہو گا تو لوگ دوسری نعمتوں سے بھی صحیح معنوں میں فائدہ اٹھا سکیں گے، ورنہ امن و سکون کے بغیر تمام آسائشوں اور سہولتوں کے باوجود، خوف اور دہشت کے سائے انسان کو مضطرب اور پریشان رکھتے ہیں۔ جیسے آج کل کے عام معاشروں کا حال ہے۔ سوائے سعودی عرب کے۔ وہاں اس دعا کی برکت سے اور اسلامی حدود کے نفاذ سے آج بھی ایک مثالی امن قائم ہے۔ صَانَهَا اللهُ عَنِ الشُّرُورِ وَالْفِتَنِ۔ یہاں انعامات الٰہیہ کے ضمن میں اسے بیان فرما کر اشارہ کر دیا کہ قریش جہاں اللہ کے دیگر انعامات سے غافل ہیں اس خصوصی انعام سے بھی غافل ہیں کہ اس نے انہیں مکہ جیسے امن والے شہر کا باشندہ بنایا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
رَ‌بِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرً‌ا مِّنَ النَّاسِ ۖ فَمَن تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي ۖ وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿٣٦﴾
اے میرے پالنے والے معبود! انہوں نے بہت سے لوگوں کو راہ سے بھٹکا دیا ہے۔ (١) پس میری تابعداری کرنے والا میرا ہے اور جو میری نافرمانی کرے تو، تو بہت ہی معاف اور کرم کرنے والا ہے۔
٣٦۔١ گمراہ کرنے کی نسبت ان پتھروں کی مورتیوں کی طرف کی جن کی مشرکین عبادت کرتے تھے، باوجود اس بات کے کہ وہ غیر عاقل ہیں، کیونکہ وہ گمراہی کا باعث تھیں اور ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
رَّ‌بَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّ‌يَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ‌ ذِي زَرْ‌عٍ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّ‌مِ رَ‌بَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْ‌زُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَ‌اتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُ‌ونَ ﴿٣٧﴾
اے میرے پروردگار! میں نے اپنی کچھ اولاد (١) اس بے کھیتی کی وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسائی ہے۔ اے ہمارے پروردگار! یہ اس لیے کہ وہ نماز قائم رکھیں، (٢) پس تو کچھ لوگوں (٣) کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے۔ اور انہیں پھلوں کی روزیاں عنایت فرما (٤) تاکہ یہ شکر گزاری کریں۔
٣٧۔١ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ میں مِن اولاد کے لیے ہے۔ یعنی بعض کہتے ہیں حضرت ابراہیم عليہ السلام کے آٹھ صلبی بیٹے تھے، جن میں سے صرف حضرت اسماعیل عليہ السلام کو یہاں بسایا (فتح القدیر)
٣٧۔٢ عبادت میں صرف نماز کا ذکر کیا، جس سے نماز کی اہمیت واضح ہے۔
٣٧۔٣ یہاں بھی من تبعیض کے لیے ہے ۔ کہ کچھ لوگ، مراد اس سے مسلمان ہیں۔ چنانچہ دیکھ لیجئے کہ کس طرح دنیا بھر کے مسلمان مکہ مکرمہ میں جمع ہوتے ہیں اور حج کے علاوہ بھی سارا سال یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اگر حضرت ابراہیم عليہ السلام أَفْئِدَةَ النَّاسِ (لوگوں کے دلوں) کہتے تو عیسائی، یہودی، مجوسی اور دیگر تمام لوگ مکہ پہنچتے۔ مِنَ النَّاسِ کے مِنْ نے اس دعا کو مسلمانوں تک محدود کر دیا (ابن کثیر)
٣٧۔٤ اس دعا کی تاثیر بھی دیکھ لی جائے کہ مکہ جیسی بے آب و گیاہ سرزمین میں جہاں کوئی پھلدار درخت نہیں، دنیا بھر کے پھل اور میوے نہایت فراوانی کے ساتھ مہیا ہیں حج کے موقع پر بھی، جب لاکھوں افراد مزید وہاں پہنچ جاتے ہیں، پھلوں کی فراوانی میں کوئی کمی نہیں آتی، وَهَذَا مِنْ لُطْفِ اللهِ تَعَالَى وَكَرَمِهِ وَرَحْمَتِه وَبَرَكَتِهِ، اسْتِجَابَةً لِخَلِيلِهِ إِبْرَاهِيمَ (عليہ السلام)۔ کہا جاتا ہے کہ یہ دعا خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد مانگی۔ جب کہ پہلی دعا اس وقت مانگی، جب اپنی اہلیہ اور شیر خوار بچے اسماعیل کو اللہ تعالیٰ کے حکم پر وہاں چھوڑ کر چلے گئے (ابن کثیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
رَ‌بَّنَا إِنَّكَ تَعْلَمُ مَا نُخْفِي وَمَا نُعْلِنُ ۗ وَمَا يَخْفَىٰ عَلَى اللَّـهِ مِن شَيْءٍ فِي الْأَرْ‌ضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ ﴿٣٨﴾
اے ہمارے پروردگار! تو خوب جانتا ہے جو ہم چھپائیں اور جو ظاہر کریں۔ زمین و آسمان کی کوئی چیز اللہ پر پوشیدہ نہیں۔ (١)
٣٨۔١ مطلب یہ ہے کہ میری دعا کے مقصد کو تو بخوبی جانتا ہے، اس شہر کے لیے دعا سے اصل مقصد تیری رضا ہے تو تو ہر چیز کی حقیقت کو خوب جانتا ہے، آسمان و زمین کی کوئی چیز تجھ سے پوشیدہ نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
الْحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ‌ إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ ۚ إِنَّ رَ‌بِّي لَسَمِيعُ الدُّعَاءِ ﴿٣٩﴾
اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے اس بڑھاپے میں اسماعیل و اسحاق (علیہما السلام) عطا فرمائے۔ کچھ شک نہیں کہ میرا پالنے والا اللہ دعاؤں کا سننے والا ہے۔

رَ‌بِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِن ذُرِّ‌يَّتِي ۚ رَ‌بَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ ﴿٤٠﴾
اے میرے پالنے والے! مجھے نماز کا پابند رکھ اور میری اولاد سے بھی، (١) اے ہمارے رب میری دعا قبول فرما۔
٤٠۔١ اپنے ساتھ اپنی اولاد کے لیے بھی دعا مانگی، جیسے اس سے قبل بھی اپنے ساتھ اپنی اولاد کے لیے بھی دعا مانگی کہ انہیں پتھر کی مورتیوں کو پوجنے سے بچا رکھنا۔ جس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے دین کے داعیوں کو اپنے گھر والوں کی ہدایت اور ان کی دینی تعلیم و تربیت سے غافل نہیں رہنا چاہیے تبلیغ و دعوت میں انہیں اولیت دینی چاہیے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حکم دیا ﴿وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ﴾ (الشعراء:214) ”اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے“۔
 
Top