- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
لَّا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ أَوْ تَفْرِضُوا لَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ ﴿٢٣٦﴾
اگر تم عورتوں کو بغیر ہاتھ لگائے اور بغیر مہر مقرر کئے طلاق دے دو تو بھی تم پر کوئی گناہ نہیں، ہاں انہیں کچھ نہ کچھ فائدہ دو۔ خوش حال اپنے انداز سے اور تنگدست اپنی طاقت کے مطابق دستور کے مطابق اچھا فائدہ دے۔ بھلائی کرنے والوں پر یہ لازم ہے۔ (١)
٢٣٦۔١ یہ اس عورت کی بابت حکم ہے کہ نکاح کے وقت مہر مقرر نہیں ہوا تھا اور خاوند نے خلوت صحیحہ یعنی ہم بستری کے بغیر طلاق بھی دے دی تو اسے کچھ نہ کچھ فائدے دے کر رخصت کرو۔ یہ فائدہ (متعہ طلاق) ہر شخص کی طاقت کے مطابق ہونا چاہیے۔ خوش حال اپنی حیثیت اور تنگ دست اپنی طاقت کے مطابق دے۔ تاہم محسنین کے لیے ہے یہ ضروری۔ اس متعہ کی تعیین بھی کی گئی ہے، کسی نے کہا، خادم۔ کسی نے کہا 500 درہم۔ کسی نے کہا ایک یا چند سوٹ، وغیرہ۔ بہرحال یہ تعیین شریعت کی طرف سے نہیں ہے۔ ہر شخص کو اپنی طاقت کے مطابق دینے کا اختیار اور حکم ہے۔ اس میں بھی اختلاف ہے کہ یہ متعہ طلاق ہر قسم کی طلاق یافتہ عورت کو دینا ضروری ہے، یا خاص اسی عورت کی بابت حکم ہے جو اس آیت میں مذکور ہے۔ قرآن کریم کی بعض اور آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہر قسم کی طلاق یافتہ عورت کے لیے ہے، وَاللهُ أَعْلَمُ۔ اس حکم متعہ میں جو حکمت اور فوائد ہیں، وہ محتاج وضاحت نہیں۔ تلخی، کشیدگی اور اختلاف کے موقع پر، جو طلاق کا سبب ہوتا ہے، احسان کرنا اور عورت کی دلجوئی و دلداری کا اہتمام کرنا، مستقبل کی متوقع خصومتوں کے سد باب کا نہایت اہم ذریعہ ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں اس احسان و سلوک کے بجائے، مطلقہ کو ایسے برے طریقے سے رخصت کیا جاتا ہے کہ دونوں خاندانوں کے آپس کے تعلقات ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتے ہیں۔
اگر تم عورتوں کو بغیر ہاتھ لگائے اور بغیر مہر مقرر کئے طلاق دے دو تو بھی تم پر کوئی گناہ نہیں، ہاں انہیں کچھ نہ کچھ فائدہ دو۔ خوش حال اپنے انداز سے اور تنگدست اپنی طاقت کے مطابق دستور کے مطابق اچھا فائدہ دے۔ بھلائی کرنے والوں پر یہ لازم ہے۔ (١)
٢٣٦۔١ یہ اس عورت کی بابت حکم ہے کہ نکاح کے وقت مہر مقرر نہیں ہوا تھا اور خاوند نے خلوت صحیحہ یعنی ہم بستری کے بغیر طلاق بھی دے دی تو اسے کچھ نہ کچھ فائدے دے کر رخصت کرو۔ یہ فائدہ (متعہ طلاق) ہر شخص کی طاقت کے مطابق ہونا چاہیے۔ خوش حال اپنی حیثیت اور تنگ دست اپنی طاقت کے مطابق دے۔ تاہم محسنین کے لیے ہے یہ ضروری۔ اس متعہ کی تعیین بھی کی گئی ہے، کسی نے کہا، خادم۔ کسی نے کہا 500 درہم۔ کسی نے کہا ایک یا چند سوٹ، وغیرہ۔ بہرحال یہ تعیین شریعت کی طرف سے نہیں ہے۔ ہر شخص کو اپنی طاقت کے مطابق دینے کا اختیار اور حکم ہے۔ اس میں بھی اختلاف ہے کہ یہ متعہ طلاق ہر قسم کی طلاق یافتہ عورت کو دینا ضروری ہے، یا خاص اسی عورت کی بابت حکم ہے جو اس آیت میں مذکور ہے۔ قرآن کریم کی بعض اور آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہر قسم کی طلاق یافتہ عورت کے لیے ہے، وَاللهُ أَعْلَمُ۔ اس حکم متعہ میں جو حکمت اور فوائد ہیں، وہ محتاج وضاحت نہیں۔ تلخی، کشیدگی اور اختلاف کے موقع پر، جو طلاق کا سبب ہوتا ہے، احسان کرنا اور عورت کی دلجوئی و دلداری کا اہتمام کرنا، مستقبل کی متوقع خصومتوں کے سد باب کا نہایت اہم ذریعہ ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں اس احسان و سلوک کے بجائے، مطلقہ کو ایسے برے طریقے سے رخصت کیا جاتا ہے کہ دونوں خاندانوں کے آپس کے تعلقات ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتے ہیں۔