- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَىٰ ۖ قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن ۖ قَالَ بَلَىٰ وَلَـٰكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِي ۖ قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَىٰ كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًا ۚ وَاعْلَمْ أَنَّ اللَّـهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿٢٦٠﴾
اور جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا اے میرے پروردگار! مجھے دکھا تو مردوں کو کس طرح زندہ کرے گا؟ (١) (جناب باری تعالیٰ نے) فرمایا، کیا تمہیں ایمان نہیں؟ جواب دیا ایمان تو ہے لیکن میرے دل کی تسکین ہو جائے گی، فرمایا چار پرند لو، ان کے ٹکڑے کر ڈالو، پھر ہر پہاڑ پر ان کا ایک ایک ٹکڑا رکھ دو پھر انہیں پکارو، تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آ جائیں گے اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ غالب ہے حکمتوں والا ہے۔
٢٦٠۔١ یہ احیائے موتی کا دوسرا واقعہ ہے جو ایک نہایت جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم عليه السلام کی خواہش اور ان کے اطمینان قلب کے لیے دکھایا گیا۔ یہ چار پرندے کون کون سے تھے؟ مفسرین نے مختلف نام ذکر کیے ہیں لیکن ناموں کی تعیین کا کوئی فائدہ نہیں، اس لیے اللہ نے بھی ان کے نام ذکر نہیں کیے۔ بس یہ چار مختلف پرندے تھے۔ فَصُرْهُنَّ کے ایک معنی أَمِلْهُنَّ کئے گئے ہیں یعنی ان کو ”ہلا لے“ (مانوس کر لے) تاکہ زندہ ہونے کے بعد ان کو آسانی سے پہچان لے کہ یہ وہی پرندے ہیں اور کسی قسم کا شک باقی نہ رہے۔ اس معنی کے اعتبار سے پھر اس کے بعد ثم قَطِّعْهُنَّ (پھر ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر لے) محذوف ماننا پڑے گا۔ دوسرے معنی قطعھن (ٹکڑے ٹکڑے کرلے) کیے گئے ہیں۔ اس صورت میں کچھ محذوف مانے بغیر معنی ہو جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ٹکڑے ٹکڑے کر کے مختلف پہاڑوں پر ان کے اجزا باہم ملا کر رکھ دے، پھر تو آواز دے تو وہ زندہ ہو کر تیرے پاس آ جائیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ بعض جدید و قدیم مفسرین نے (جو صحابہ و تابعین کی تفسیر اور سلف کے منہج و مسلک کو اہمیت نہیں دیتے) فَصُرْهُنَّ کا ترجمہ صرف (ہلا لے) کا کیا ہے۔ اور ان کے ٹکڑے کرنے اور پہاڑوں پر ان کے اجزا بکھیرنے اور پھر اللہ کی قدرت سے ان کے جڑنے کو وہ تسلیم نہیں کرتے۔ لیکن یہ تفسیر صحیح نہیں، اس سے واقعے کی ساری اعجازی حیثیت ختم ہو جاتی ہے اور مردے کو زندہ کر دکھانے کا سوال جوں کا توں قائم رہتا ہے۔ حالانکہ اس واقعہ کے ذکر سے مقصود اللہ تعالیٰ کی صفت احیائے موتی اور اس کی قدرت کاملہ کا اثبات ہے۔ ایک حدیث میں ہےنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابراہیم عليه السلام کے اس واقعے کا تذکرہ کرکے فرمایا: نَحْنُ أَحَقُّ بِالشَّكِّ مِنْ إِبْرَاهِيمَ (صحيح بخاري، كتاب التفسير) ”ہم ابراہیم عليه السلام سے زیادہ شک کرنے کے حق دار ہیں“۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ابراہیم عليه السلام نے شک کیا، لہذا ہمیں ان سے زیادہ شک کرنے کا حق پہنچتا ہے۔ بلکہ مطلب حضرت ابراہیم عليه السلام سے شک کی نفی ہے۔ یعنی ابراہیم عليه السلام نے احیائے موتی کے مسئلے میں شک نہیں کیا اگر انہوں نے شک کا اظہار کیا ہوتا تو ہم یقیناً شک کرنے میں ان سے زیادہ حق دار ہوتے۔ (مزید وضاحت کے لیے دیکھیے فتح القدیر۔ للشوکانی )
اور جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا اے میرے پروردگار! مجھے دکھا تو مردوں کو کس طرح زندہ کرے گا؟ (١) (جناب باری تعالیٰ نے) فرمایا، کیا تمہیں ایمان نہیں؟ جواب دیا ایمان تو ہے لیکن میرے دل کی تسکین ہو جائے گی، فرمایا چار پرند لو، ان کے ٹکڑے کر ڈالو، پھر ہر پہاڑ پر ان کا ایک ایک ٹکڑا رکھ دو پھر انہیں پکارو، تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آ جائیں گے اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ غالب ہے حکمتوں والا ہے۔
٢٦٠۔١ یہ احیائے موتی کا دوسرا واقعہ ہے جو ایک نہایت جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم عليه السلام کی خواہش اور ان کے اطمینان قلب کے لیے دکھایا گیا۔ یہ چار پرندے کون کون سے تھے؟ مفسرین نے مختلف نام ذکر کیے ہیں لیکن ناموں کی تعیین کا کوئی فائدہ نہیں، اس لیے اللہ نے بھی ان کے نام ذکر نہیں کیے۔ بس یہ چار مختلف پرندے تھے۔ فَصُرْهُنَّ کے ایک معنی أَمِلْهُنَّ کئے گئے ہیں یعنی ان کو ”ہلا لے“ (مانوس کر لے) تاکہ زندہ ہونے کے بعد ان کو آسانی سے پہچان لے کہ یہ وہی پرندے ہیں اور کسی قسم کا شک باقی نہ رہے۔ اس معنی کے اعتبار سے پھر اس کے بعد ثم قَطِّعْهُنَّ (پھر ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر لے) محذوف ماننا پڑے گا۔ دوسرے معنی قطعھن (ٹکڑے ٹکڑے کرلے) کیے گئے ہیں۔ اس صورت میں کچھ محذوف مانے بغیر معنی ہو جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ٹکڑے ٹکڑے کر کے مختلف پہاڑوں پر ان کے اجزا باہم ملا کر رکھ دے، پھر تو آواز دے تو وہ زندہ ہو کر تیرے پاس آ جائیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ بعض جدید و قدیم مفسرین نے (جو صحابہ و تابعین کی تفسیر اور سلف کے منہج و مسلک کو اہمیت نہیں دیتے) فَصُرْهُنَّ کا ترجمہ صرف (ہلا لے) کا کیا ہے۔ اور ان کے ٹکڑے کرنے اور پہاڑوں پر ان کے اجزا بکھیرنے اور پھر اللہ کی قدرت سے ان کے جڑنے کو وہ تسلیم نہیں کرتے۔ لیکن یہ تفسیر صحیح نہیں، اس سے واقعے کی ساری اعجازی حیثیت ختم ہو جاتی ہے اور مردے کو زندہ کر دکھانے کا سوال جوں کا توں قائم رہتا ہے۔ حالانکہ اس واقعہ کے ذکر سے مقصود اللہ تعالیٰ کی صفت احیائے موتی اور اس کی قدرت کاملہ کا اثبات ہے۔ ایک حدیث میں ہےنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابراہیم عليه السلام کے اس واقعے کا تذکرہ کرکے فرمایا: نَحْنُ أَحَقُّ بِالشَّكِّ مِنْ إِبْرَاهِيمَ (صحيح بخاري، كتاب التفسير) ”ہم ابراہیم عليه السلام سے زیادہ شک کرنے کے حق دار ہیں“۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ابراہیم عليه السلام نے شک کیا، لہذا ہمیں ان سے زیادہ شک کرنے کا حق پہنچتا ہے۔ بلکہ مطلب حضرت ابراہیم عليه السلام سے شک کی نفی ہے۔ یعنی ابراہیم عليه السلام نے احیائے موتی کے مسئلے میں شک نہیں کیا اگر انہوں نے شک کا اظہار کیا ہوتا تو ہم یقیناً شک کرنے میں ان سے زیادہ حق دار ہوتے۔ (مزید وضاحت کے لیے دیکھیے فتح القدیر۔ للشوکانی )