- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
لِّلَّـهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَإِن تُبْدُوا مَا فِي أَنفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُم بِهِ اللَّـهُ ۖ فَيَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿٢٨٤﴾
آسمانوں اور زمین کی ہر چیز اللہ تعالیٰ ہی کی ملکیت ہے۔ تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے اسے تم ظاہر کرو یا چھپاؤ، اللہ تعالیٰ اس کا حساب تم سے لے گا۔ (١) پھر جسے چاہے بخشے اور جسے چاہے سزا دے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔
٢٨٤۔١ احادیث میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام بڑے پریشان ہوئے۔ انہوں نے دربار رسالت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! نماز، روزہ، زکٰوۃ و جہاد وغیرہ یہ سارے اعمال، جن کا ہمیں حکم دیا گیا ہے، ہم بجا لاتے ہیں۔ کیونکہ یہ ہماری طاقت سے بالا نہیں ہیں۔ لیکن دل میں پیدا ہونے والے خیالات اور وسوسوں پر تو ہمارا اختیار ہی نہیں ہے اور وہ تو انسانی طاقت سے ہی ماورا ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان پر بھی محاسبہ کا اعلان فرما دیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فی الحال تم «سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا» ہی کہو۔ چنانچہ صحابہ رضی الله عنہم کے جذبہ سمع و طاعت کو دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اسے آیت ﴿لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلا وُسْعَهَا﴾ (اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا) سے منسوخ فرما دیا (ابن کثیر و فتح القدیر) صحیحین و سنن اربعہ کی یہ حدیث بھی اس کی تائید کرتی ہے: [إِنَّ اللهَ تَجَاوَزَ لِي عَنْ أُمَّتِي مَا وَسْوَسَتْ بِهِ صُدُورُهَا مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَتَكَلَّمْ]۔ (صحيح بخاري، كتاب العتق ، باب الخطأ والنسيان في العتاقة... ومسلم، كتاب الإيمان، باب تجوز أمته عن حديث النفس) "اللہ تعالیٰ نے میری امت سے جی میں آنے والی باتوں کو معاف کر دیا ہے۔ البتہ ان پر گرفت ہو گی جن پر عمل کیا جائے یا جن کا اظہار زبان سے کر دیا جائے" اس سے معلوم ہوا کہ دل میں گزرنے والے خیالات پر محاسبہ نہیں ہو گا، صرف ان پر محاسبہ ہو گا جو پختہ عزم و ارادہ میں ڈھل جائیں یا عمل کا قالب اختیار کر لیں۔ اس کے برعکس امام ابن جریر طبری کا خیال ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہے کیونکہ محاسبہ معاقبہ کو لازم نہیں ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کا بھی محاسبہ کرے، اس کو سزا بھی ضرور دے، بلکہ اللہ تعالیٰ محاسبہ تو ہر ایک کا کرے گا ، لیکن بہت سے لوگ ہوں گے کہ محاسبہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرما دے گا بلکہ بعض کے ساتھ تو یہ معاملہ فرمائے گا کہ اس کا ایک ایک گناہ یاد کرا کے ان کا اس سے اعتراف کروائے گا اور پھر فرمائے گا کہ میں نے دنیا میں ان پر پردہ ڈالے رکھا، جا آج میں ان کو معاف کرتا ہوں (یہ حدیث صحیح بخاری، مسلم وغیرہما میں ہے بحوالہ ابن کثیر) اور بعض علماء نے کہا ہے کہ یہاں نسخ اصطلاحی معنی میں نہیں ہے بلکہ بعض دفعہ اسے وضاحت کے معنی میں بھی استعمال کر لیا جاتا ہے۔ چنانچہ صحابہ کرام کے دل میں جو شبہ اس آیت سے پیدا ہوا تھا، اسے آیت ﴿لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا﴾ اور حدیث [إِنَّ اللهَ تَجَاوَزَ لِي عَنْ أُمَّتِي... ] وغیرہ سے دور کر دیا گیا۔ اس طرح ناسخ منسوخ ماننے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
آسمانوں اور زمین کی ہر چیز اللہ تعالیٰ ہی کی ملکیت ہے۔ تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے اسے تم ظاہر کرو یا چھپاؤ، اللہ تعالیٰ اس کا حساب تم سے لے گا۔ (١) پھر جسے چاہے بخشے اور جسے چاہے سزا دے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔
٢٨٤۔١ احادیث میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام بڑے پریشان ہوئے۔ انہوں نے دربار رسالت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! نماز، روزہ، زکٰوۃ و جہاد وغیرہ یہ سارے اعمال، جن کا ہمیں حکم دیا گیا ہے، ہم بجا لاتے ہیں۔ کیونکہ یہ ہماری طاقت سے بالا نہیں ہیں۔ لیکن دل میں پیدا ہونے والے خیالات اور وسوسوں پر تو ہمارا اختیار ہی نہیں ہے اور وہ تو انسانی طاقت سے ہی ماورا ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان پر بھی محاسبہ کا اعلان فرما دیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فی الحال تم «سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا» ہی کہو۔ چنانچہ صحابہ رضی الله عنہم کے جذبہ سمع و طاعت کو دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اسے آیت ﴿لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلا وُسْعَهَا﴾ (اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا) سے منسوخ فرما دیا (ابن کثیر و فتح القدیر) صحیحین و سنن اربعہ کی یہ حدیث بھی اس کی تائید کرتی ہے: [إِنَّ اللهَ تَجَاوَزَ لِي عَنْ أُمَّتِي مَا وَسْوَسَتْ بِهِ صُدُورُهَا مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَتَكَلَّمْ]۔ (صحيح بخاري، كتاب العتق ، باب الخطأ والنسيان في العتاقة... ومسلم، كتاب الإيمان، باب تجوز أمته عن حديث النفس) "اللہ تعالیٰ نے میری امت سے جی میں آنے والی باتوں کو معاف کر دیا ہے۔ البتہ ان پر گرفت ہو گی جن پر عمل کیا جائے یا جن کا اظہار زبان سے کر دیا جائے" اس سے معلوم ہوا کہ دل میں گزرنے والے خیالات پر محاسبہ نہیں ہو گا، صرف ان پر محاسبہ ہو گا جو پختہ عزم و ارادہ میں ڈھل جائیں یا عمل کا قالب اختیار کر لیں۔ اس کے برعکس امام ابن جریر طبری کا خیال ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہے کیونکہ محاسبہ معاقبہ کو لازم نہیں ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کا بھی محاسبہ کرے، اس کو سزا بھی ضرور دے، بلکہ اللہ تعالیٰ محاسبہ تو ہر ایک کا کرے گا ، لیکن بہت سے لوگ ہوں گے کہ محاسبہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرما دے گا بلکہ بعض کے ساتھ تو یہ معاملہ فرمائے گا کہ اس کا ایک ایک گناہ یاد کرا کے ان کا اس سے اعتراف کروائے گا اور پھر فرمائے گا کہ میں نے دنیا میں ان پر پردہ ڈالے رکھا، جا آج میں ان کو معاف کرتا ہوں (یہ حدیث صحیح بخاری، مسلم وغیرہما میں ہے بحوالہ ابن کثیر) اور بعض علماء نے کہا ہے کہ یہاں نسخ اصطلاحی معنی میں نہیں ہے بلکہ بعض دفعہ اسے وضاحت کے معنی میں بھی استعمال کر لیا جاتا ہے۔ چنانچہ صحابہ کرام کے دل میں جو شبہ اس آیت سے پیدا ہوا تھا، اسے آیت ﴿لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا﴾ اور حدیث [إِنَّ اللهَ تَجَاوَزَ لِي عَنْ أُمَّتِي... ] وغیرہ سے دور کر دیا گیا۔ اس طرح ناسخ منسوخ ماننے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔