- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنكُمْ وَالسَّعَةِ أَن يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ۖ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا ۗ أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ اللَّـهُ لَكُمْ ۗ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٢٢﴾
تم میں سے جو برزگی اور کشادگی والے ہیں انہیں اپنے قرابت داروں اور مسکینوں اور مہاجروں کو فی سبیل اللہ دینے سے قسم نہ کھالینی چاہیئے۔ کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالٰی تمہارے قصور معاف فرما دے؟ (١) اللہ قصوروں کو معاف فرمانے والا ہے۔
٢٢۔١ حضرت مسطح، جو واقعہ افک میں ملوث ہوگئے تھے، فقرائے مہاجرین میں سے تھے، رشتے میں حضرت ابو بکر صدیق کے خالہ زاد تھے، اسی لئے ابو بکر ان کے کفیل اور معاش کے ذمے دار تھے، جب یہ بھی حضرت عائشہ ' کے خلاف مہم میں شریک ہوگئے تو ابو بکر صدیق کو سخت صدمہ پہنچا، جو ایک فطری عمل تھا چنانچہ نزول براءت کے بعد غصہ میں انہوں نے قسم کھا لی کہ وہ آئندہ مسطح کو کوئی فائدہ نہیں پہنچائیں گے۔ ابو بکر صدیق کی یہ قسم، جو اگرچہ انسانی فطرت کے مطابق ہی تھی، تاہم مقام صدیق تم اس سے بلند تر کردار کا متقاضی تھا، اللہ تعالٰی کو پسند نہیں آئی اور یہ آیت نازل فرمائی، جس میں بڑے پیار سے ان کی اس عاجلانہ بشری اقدام پر انہیں متنبہ فرمایا کہ تم سے بھی غلطیاں ہوتی رہتی ہیں اور تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ تعالٰی تمہاری غلطیاں معاف فرماتا رہے۔ تو پھر تم بھی دوسروں کے ساتھ اسی طرح معافی اور درگزر کا معاملہ کیوں نہیں کرتے؟ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تعالٰی تمہاری غلطیاں معاف فرما دے؟ یہاں انداز بیان اتنا موثر تھا کہ اسے سنتے ہی ابو بکر صدیق بےساختہ پکار اٹھے ' کیوں نہیں اے ہمارے رب! ہم ضرور یہ چاہتے ہیں کہ تو ہمیں معاف فرما دے ' اس کے بعد انہوں نے اپنی قسم کا کفارہ ادا کر کے حسب سابق مسطح کی مالی سر پرستی شروع فرما دی (فتح القدیر)، ابن کثیر)
تم میں سے جو برزگی اور کشادگی والے ہیں انہیں اپنے قرابت داروں اور مسکینوں اور مہاجروں کو فی سبیل اللہ دینے سے قسم نہ کھالینی چاہیئے۔ کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالٰی تمہارے قصور معاف فرما دے؟ (١) اللہ قصوروں کو معاف فرمانے والا ہے۔
٢٢۔١ حضرت مسطح، جو واقعہ افک میں ملوث ہوگئے تھے، فقرائے مہاجرین میں سے تھے، رشتے میں حضرت ابو بکر صدیق کے خالہ زاد تھے، اسی لئے ابو بکر ان کے کفیل اور معاش کے ذمے دار تھے، جب یہ بھی حضرت عائشہ ' کے خلاف مہم میں شریک ہوگئے تو ابو بکر صدیق کو سخت صدمہ پہنچا، جو ایک فطری عمل تھا چنانچہ نزول براءت کے بعد غصہ میں انہوں نے قسم کھا لی کہ وہ آئندہ مسطح کو کوئی فائدہ نہیں پہنچائیں گے۔ ابو بکر صدیق کی یہ قسم، جو اگرچہ انسانی فطرت کے مطابق ہی تھی، تاہم مقام صدیق تم اس سے بلند تر کردار کا متقاضی تھا، اللہ تعالٰی کو پسند نہیں آئی اور یہ آیت نازل فرمائی، جس میں بڑے پیار سے ان کی اس عاجلانہ بشری اقدام پر انہیں متنبہ فرمایا کہ تم سے بھی غلطیاں ہوتی رہتی ہیں اور تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ تعالٰی تمہاری غلطیاں معاف فرماتا رہے۔ تو پھر تم بھی دوسروں کے ساتھ اسی طرح معافی اور درگزر کا معاملہ کیوں نہیں کرتے؟ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تعالٰی تمہاری غلطیاں معاف فرما دے؟ یہاں انداز بیان اتنا موثر تھا کہ اسے سنتے ہی ابو بکر صدیق بےساختہ پکار اٹھے ' کیوں نہیں اے ہمارے رب! ہم ضرور یہ چاہتے ہیں کہ تو ہمیں معاف فرما دے ' اس کے بعد انہوں نے اپنی قسم کا کفارہ ادا کر کے حسب سابق مسطح کی مالی سر پرستی شروع فرما دی (فتح القدیر)، ابن کثیر)