• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَإِذَا دُعُوا إِلَى اللَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ إِذَا فَرِ‌يقٌ مِّنْهُم مُّعْرِ‌ضُونَ ﴿٤٨﴾
جب یہ اس بات کی طرف بلائے جاتے ہیں کہ اللہ اور اس کا رسول ان کے جھگڑے چکا دے تو بھی ان کی ایک جماعت منہ موڑنے والی بن جاتی ہے۔
وَإِن يَكُن لَّهُمُ الْحَقُّ يَأْتُوا إِلَيْهِ مُذْعِنِينَ ﴿٤٩﴾
ہاں اگر انہی کو حق پہنچتا ہو تو مطیع و فرماں بردار ہو کر اس کی طرف چلے آتے ہیں (١)
٤٩۔١ کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ عدالت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو فیصلہ صادر ہوگا، اس میں کسی کی رو رعایت نہیں ہوگی، اس لئے وہاں اپنا مقدمہ لے جانے سے ہی گریز کرتے ہیں۔ ہاں اگر وہ جانتے ہیں کہ مقدمے میں وہ حق پر ہیں اور ان ہی کے حق میں فیصلہ ہونے کا غالب امکان ہے تو پھر خوشی خوشی وہاں آتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
أَفِي قُلُوبِهِم مَّرَ‌ضٌ أَمِ ارْ‌تَابُوا أَمْ يَخَافُونَ أَن يَحِيفَ اللَّـهُ عَلَيْهِمْ وَرَ‌سُولُهُ ۚ بَلْ أُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴿٥٠﴾
کیا ان کے دلوں میں بیماری ہے؟ یا یہ شک و شبہ میں پڑے ہوئے ہیں؟ یا انہیں اس بات کا ڈر ہے کہ اللہ تعالٰی اور اس کا رسول ان کی حق تلفی نہ کریں؟ بات یہ ہے کہ یہ لوگ خود ہی بڑے ظالم ہیں (١)
٥٠۔١ جب فیصلہ ان کے خلاف ہونے کا امکان ہوتا ہے تو اس سے اعراض و گریز کی وجہ بیان کی جا رہی ہے کہ یا تو ان کے دلوں میں کفر و نفاق کا روگ ہے یا انہیں نبوت محمدی میں شک ہے یا انہیں اس بات کا اندیشہ ہے کہ ان پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ظلم کرے گا، حالانکہ ان کی طرف سے ظلم کا کوئی امکان ہی نہیں بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ خود ہی ظالم ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿٥١﴾
ایمان والوں کا قول تو یہ ہے کہ جب انہیں ٰ اس لئے بلایا جاتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ان میں فیصلہ کر دے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مان لیا (١) یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔
٥١۔١ یہ اہل کفر و نفاق کے مقابلے میں اہل ایمان کے کردار و عمل کا بیان ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَرَ‌سُولَهُ وَيَخْشَ اللَّـهَ وَيَتَّقْهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ ﴿٥٢﴾
جو بھی اللہ تعالٰی کی، اس کے رسول کی فرماں برداری کریں، خوف الٰہی رکھیں اور اس کے عذابوں سے ڈرتے رہیں، وہی نجات پانے والے ہیں (١)۔
٥٢۔١ یعنی فلاح و کامیابی کے مستحق صرف وہ لوگ ہوں گے جو اپنے تمام معاملات میں اللہ اور رسول کے فیصلے کو خوش دلی سے قبول کرتے اور انہی کی اطاعت کرتے ہیں اور خشیت الٰہی اور تقوٰی سے متصف ہیں، نہ کہ دوسرے لوگ، جو ان صفات سے محروم ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَأَقْسَمُوا بِاللَّـهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِنْ أَمَرْ‌تَهُمْ لَيَخْرُ‌جُنَّ ۖ قُل لَّا تُقْسِمُوا ۖ طَاعَةٌ مَّعْرُ‌وفَةٌ ۚ إِنَّ اللَّـهَ خَبِيرٌ‌ بِمَا تَعْمَلُونَ ﴿٥٣﴾
بڑی پختگی کے ساتھ اللہ تعالٰی کی قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ آپ کا حکم ہوتے ہی نکل کھڑے ہونگے۔ کہہ دیجئے کہ بس قسمیں نہ کھاؤ (تمہاری) اطاعت (کی حقیقت) معلوم ہے (١) جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ تعالٰی اس سے باخبر ہے۔
٥٣۔١ اور وہ یہ ہے کہ جس طرح تم قسمیں جھوٹی کھاتے ہو، تمہاری اطاعت بھی نفاق پر مبنی ہے۔ بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ تمہارا معاملہ اطاعت معروف ہونا چاہیئے۔ یعنی معروف میں بغیر کسی قسم کے حلف کے اطاعت، جس طرح مسلمان کرتے ہیں، پس تم بھی ان کی مثل ہو جاؤ۔ (ابن کثیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قُلْ أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّ‌سُولَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْكُم مَّا حُمِّلْتُمْ ۖ وَإِن تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا ۚ وَمَا عَلَى الرَّ‌سُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ ﴿٥٤﴾
کہہ دیجئے کہ اللہ کا حکم مانو، رسول اللہ کی اطاعت کرو، پھر بھی اگر تم نے روگردانی کی تو رسول کے ذمے تو صرف وہی ہے جو اس پر لازم کر دیا گیا ہے (١) اور تم پر اس کی جوابدہی ہے جو تم پر رکھا گیا ہے (٢) ہدایت تو تمہیں اس وقت ملے گی جب رسول کی ماتحتی کرو (٣) سنو رسول کے ذمے تو صرف صاف طور پر پہنچا دینا ہے۔
٥٤۔١ یعنی تبلیغ و دعوت، جو وہ ادا کر رہا ہے۔
٥٤۔٢ یعنی تبلیغ و دعوت کو قبول کر کے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا اور ان کی اطاعت کرنا۔
٥٤۔٣ اس لئے کہ صراط مستقیم کی طرف دعوت دیتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْ‌ضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْ‌تَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِ‌كُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ‌ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ﴿٥٥﴾
تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کئے ہیں اللہ تعالٰی وعدہ فرما چکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقیناً ان کے لئے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جما دے گا جسے ان کو وہ امن امان سے بدل دے گا (١) وہ میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں گے (٢) اس کے بعد بھی جو لوگ ناشکری اور کفر کریں وہ یقیناً فاسق ہیں (٣)۔
٥٥۔١ بعض نے اس وعدہ الٰہی کو صحابہ کرام کے ساتھ یا خلفائے راشدین کے ساتھ خاص قرار دیا ہے لیکن اس کی تخصیص کی کوئی دلیل نہیں۔ قرآن کے الفاظ عام ہیں اور ایمان اور عمل صالح کے ساتھ مشروط ہیں۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ عہد خلافت راشدہ اور عہد خیر القرون میں، اس وعدہ الٰہی کا ظہور ہوا، اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کو زمین میں غلبہ عطا فرمایا۔ اپنے پسندیدہ دین اسلام کو عروج دیا اور مسلمانوں کے خوف کو امن سے بدل دیا، پہلے مسلمان کفار عرب سے ڈرتے تھے، پھر اس کے برعکس معاملہ ہوگیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جو پیش گوئیاں فرمائی تھیں وہ بھی اس عہد میں پوری ہوئیں۔ مثلا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا حیرہ سے ایک عورت تن تنہا اکیلی چلے گی اور بیت اللہ کا آ کر طواف کرے گی، اسے کوئی خوف خطرہ نہیں ہوگا۔ کسریٰ کے خزانے تمہارے قدموں میں ڈھیر ہو جائیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا (صحیح بخاری) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا ((ان اللہ زوی لی الارض ، فرایت مشارقھا ومغاربھا ، وان امتی سیبلغ ملکھا ما زوی لی منھا )) (صحیح مسلم )"اللہ تعالٰی نے زمین کو میرے لیے سکیڑ دیا "پس میں نے اس کے مشرقی اور مغربی حصے دیکھے ، عنقریب میری امت کا دائرہ اقتدار وہاں تک پہنچے گا، جہاں تک میرے لیے زمین سکیڑ دی گئی "حکمرانی کی یہ وسعت بھی مسلمانوں کے حصے میں آئی ، اور فارس وشام اور مصر افریقہ اور دیگر دور دراز کے ممالک فتح ہوئے اور کفر وشرک کی جگہ توحید وسنت کی مشعلیں ہر جگہ روشن ہوگئیں اور اسلامی تہذیب وتمدن کا پھریرا چار دانگ عالم میں لہرا گیا۔ لیکن یہ وعدہ چونکہ مشروط تھا، جب مسلمان ایمان میں کمزور اور عمل صالح میں کوتاہی کے مرتکب ہوئے اور اللہ نے ان کی عزت کو ذلت میں ، ان کے اقتدار اور غلبے کو غلامی میں اور ان کے امن واستحکام کو خوف اور دہشت میں بدل دیا۔
٥٥۔٢ یہ بھی ایمان اور عمل صالح کے ساتھ ایک اور بنیادی شرط ہے جس کی وجہ سے مسلمان اللہ کی مدد کے مستحق اور اس وصف توحید سے عاری ہونے کے بعد وہ اللہ کی مدد سے محروم ہو جائیں گے۔
٥٥۔٣ اس کفر سے مراد، وہی ایمان، عمل صالح اور توحید سے محرومی ہے، جس کے بعد ایک انسان اللہ کی اطاعت سے نکل جاتا اور کفر فسق کے دائرے میں داخل ہو جاتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا الرَّ‌سُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْ‌حَمُونَ ﴿٥٦﴾
نماز کی پابندی کرو زکوۃ ادا کرو اور اللہ تعالٰی کے رسول کی فرماں برداری میں لگے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے (١)
٥٦۔١ یہ گویا مسلمانوں کو تاکید کی گئی ہے کہ اللہ کی رحمت اور مدد حاصل کرنے کا طریقہ یہی ہے جس پر چل کر صحابہ کرام کو یہ رحمت اور مدد حاصل ہوئی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا مُعْجِزِينَ فِي الْأَرْ‌ضِ ۚ وَمَأْوَاهُمُ النَّارُ‌ ۖ وَلَبِئْسَ الْمَصِيرُ‌ ﴿٥٧﴾
یہ خیال آپ کبھی بھی نہ کرنا کہ منکر لوگ زمین میں (ادھر ادھر بھاگ کر) ہمیں ہرا دینے والے ہیں (١) ان کا اصلی ٹھکانا تو جہنم ہے جو یقیناً بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔
٥٧۔١ یعنی آپ کے مخالفین اور مکذبین اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے، بلکہ اللہ تعالٰی ان کی گرفت کرنے پر ہر طرح قادر ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنكُمْ ثَلَاثَ مَرَّ‌اتٍ ۚ مِّن قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ‌ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ الظَّهِيرَ‌ةِ وَمِن بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ ۚ ثَلَاثُ عَوْرَ‌اتٍ لَّكُمْ ۚ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ ۚ طَوَّافُونَ عَلَيْكُم بَعْضُكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمُ الْآيَاتِ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴿٥٨﴾
ایمان والو! تم سے تمہاری ملکیت کے غلاموں کو اور انہیں بھی جو تم میں سے بلوغت کو نہ پہنچے ہوں (اپنے آنے کی) تین وقتوں میں اجازت حاصل کرنی ضروری ہے۔ نماز فجر سے پہلے اور ظہر کے وقت جب کہ تم اپنے کپڑے اتار رکھتے ہو اور عشا کی نماز کے بعد، یہ تینوں وقت تمہاری (خلوت) اور پردہ کے ہیں، ان وقتوں کے ماسوا نہ تم پر کوئی گناہ ہے اور نہ ان پر (١)، تم سب آپس میں ایک دوسرے کے پاس بکثرت آنے جانے والے ہو (ہی)، اللہ اس طرح کھول کھول کر اپنے احکام سے بیان فرما رہا ہے۔ اللہ تعالٰی پورے علم اور کامل حکمت والا ہے۔
٥٨۔١ یعنی ان اوقات ثلاثہ کے علاوہ گھر کے مذکورہ خدمت گزاروں کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ اجازت طلب کئے بغیر گھر کے اندر آ جا سکتے ہیں۔
 
Top