• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
لَّقَدْ أَضَلَّنِي عَنِ الذِّكْرِ‌ بَعْدَ إِذْ جَاءَنِي ۗ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِلْإِنسَانِ خَذُولًا ﴿٢٩﴾
اس نے تو مجھے اس کے بعد گمراہ کر دیا کہ نصیحت میرے پاس آپہنچی تھی اور شیطان تو انسان کو (وقت پر) دغا دینے والا ہے۔
وَقَالَ الرَّ‌سُولُ يَا رَ‌بِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَـٰذَا الْقُرْ‌آنَ مَهْجُورً‌ا ﴿٣٠﴾
اور رسول کہے گا کہ اے میرے پروردگار! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا (١)
٣٠۔١ مشرکین قرآن پڑھے جانے کے وقت خوب شور کرتے تاکہ قرآن نہ سنا جا سکے، یہ بھی ہجران ہے، اس پر ایمان نہ لانا اور عمل نہ کرنا بھی ہجران ہے، اس پر غور و فکر کرنا اور اس کے اوامر پر عمل اور نواہی سے اجتناب نہ کرنا بھی ہجران ہے۔ اسی طرح اس کو چھوڑ کر کسی اور کتاب کو ترجیح دینا، یہ بھی ہجران ہے یعنی قرآن کا ترک اور اس کا چھوڑ دینا ہے، جس کے خلاف قیامت والے دن اللہ کے پیغمبر اللہ کی بارگاہ میں استغاثہ دائر فرمائیں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِ‌مِينَ ۗ وَكَفَىٰ بِرَ‌بِّكَ هَادِيًا وَنَصِيرً‌ا ﴿٣١﴾
اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن گناہگاروں کو بنا دیا ہے (١) اور تیرا رب ہی ہدایت کرنے والا کافی ہے۔
٣١۔١ یعنی جس طرح اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تیری قوم میں سے وہ لوگ تیرے دشمن ہیں جنہوں نے قرآن کو چھوڑ دیا، اسی طرح گزشتہ امتوں میں بھی تھا، یعنی ہر نبی کے دشمن وہ لوگ ہوتے تھے جو گناہگار تھے، وہ لوگوں کو گمراہی کی طرف بلاتے تھے (مَثَلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ اَعْمَالُهُمْ كَرَمَادِۨ اشْـتَدَّتْ بِهِ الرِّيْحُ فِيْ يَوْمٍ عَاصِفٍ ۭ لَا يَقْدِرُوْنَ مِمَّا كَسَبُوْا عَلٰي شَيْءٍ ۭ ذٰلِكَ هُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِيْدُ) 6۔ الانعام:112) میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے۔
۳۱۔۲ یعنی یہ کافر گو لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں لیکن تیرا رب جس کو ہدایت دے اس کو ہدایت سے کون روک سکتا ہے؟ اصل ہادی اور مددگار تو تیرا رب ہی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْ‌آنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً ۚ كَذَٰلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ ۖ وَرَ‌تَّلْنَاهُ تَرْ‌تِيلًا ﴿٣٢﴾
اور کافروں نے کہا اس پر قرآن سارا کا سارا ایک ساتھ ہی کیوں نہ اتارا گیا (١) اسی طرح ہم نے (تھوڑا تھوڑا) کرکے اتارا تاکہ اس سے ہم آپ کا دل قوی رکھیں، ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر ہی پڑھ سنایا ہے (٢)۔
٣٢۔١ جس طرح تورات، انجیل اور زبور وغیرہ کتابیں بیک مرتبہ نازل ہوئیں۔
٣٢۔٢ اللہ نے جواب میں فرمایا کہ ہم نے حالات و ضروریات کے مطابق اس قرآن کو ٢٣ سال میں تھوڑا تھوڑا کر کے اتارا تاکہ اے پیغمبر! تیرا اور اہل ایمان کا دل مضبوط ہو اور ان کے خوب ذہن نشین ہو جائے۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا (وَقُرْاٰنًا فَرَقْنٰهُ لِتَقْرَاَهٗ عَلَي النَّاسِ عَلٰي مُكْثٍ وَّنَزَّلْنٰهُ تَنْزِيْلًا) 17۔ الاسراء:106) ' اور قرآن، اس کو ہم نے جدا جدا کیا، تاکہ تو اسے لوگوں پر رک رک کر پڑھے اور ہم نے اس کو وقفے وقفے سے اتارا '۔ اس قران کی مثال بارش کی طرح ہے بارش جب بھی نازل ہوتی ہے مردہ زمین میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور یہ فائدہ بالعموم اسی وقت ہوتا ہے جب بارش وقتا فوقتا نازل ہو نہ کہ ایک ہی مرتبہ ساری بارش کے نزول سے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَلَا يَأْتُونَكَ بِمَثَلٍ إِلَّا جِئْنَاكَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِيرً‌ا ﴿٣٣﴾
یہ آپ کے پاس جو کوئی مثال لائیں گے ہم اس کا سچا جواب اور عمدہ دلیل آپ کو بتا دیں گے (١)
٣٣۔١ یہ قرآن کے وقفے وقفے سے اتارے جانے کی حکمت و علت بیان کی جا رہی ہے کہ یہ مشرکین جب بھی کوئی مثال یا اعتراض اور شبہ پیش کریں گے تو قرآن کے ذریعے سے ہم اس کا جواب یا وضاحت پیش کر دیں گے اور یوں انہیں لوگوں کو گمراہ کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
الَّذِينَ يُحْشَرُ‌ونَ عَلَىٰ وُجُوهِهِمْ إِلَىٰ جَهَنَّمَ أُولَـٰئِكَ شَرٌّ‌ مَّكَانًا وَأَضَلُّ سَبِيلًا ﴿٣٤﴾
جو لوگ اپنے منہ کے بل جہنم کی طرف جمع کئے جائیں گے وہی بدتر مکان والے اور گمراہ تر راستے والے ہیں۔
وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَجَعَلْنَا مَعَهُ أَخَاهُ هَارُ‌ونَ وَزِيرً‌ا ﴿٣٥﴾
اور بلاشبہ ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور ان کے ہمراہ ان کے بھائی ہارون کو ان کا وزیر بنا دیا۔
فَقُلْنَا اذْهَبَا إِلَى الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا فَدَمَّرْ‌نَاهُمْ تَدْمِيرً‌ا ﴿٣٦﴾
اور کہہ دیا کہ تم دونوں ان لوگوں کی طرف جاؤ جو ہماری آیتوں کو جھٹلا رہے ہیں۔ پھر ہم نے انہیں بالکل ہی پامال کر دیا۔
وَقَوْمَ نُوحٍ لَّمَّا كَذَّبُوا الرُّ‌سُلَ أَغْرَ‌قْنَاهُمْ وَجَعَلْنَاهُمْ لِلنَّاسِ آيَةً ۖ وَأَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ عَذَابًا أَلِيمًا ﴿٣٧﴾
اور قوم نوح نے بھی جب رسولوں کو جھوٹا کہا تو ہم نے انہیں غرق کر دیا اور لوگوں کے لئے انہیں نشان عبرت بنا دیا۔ اور ہم نے ظالموں کے لئے دردناک عذاب مہیا کر رکھا ہے۔
وَعَادًا وَثَمُودَ وَأَصْحَابَ الرَّ‌سِّ وَقُرُ‌ونًا بَيْنَ ذَٰلِكَ كَثِيرً‌ا ﴿٣٨﴾
اور عادیوں اور ثمودیوں اور کنوئیں والوں کو (١) اور ان کے درمیان کی بہت سی امتوں کو(٢) (ہلاک کر دیا)۔
٣٨۔١ رس کے معنی کنویں کے ہیں۔ اَصْحَابُ الرَّس کنوئیں والے۔ اس کی تعین میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے، امام ابن جریر طبری نے کہا کہ اس سے مراد اصحاب الاخدود ہیں جن کا ذکر سورۃ البروج میں ہے (ابن کثیر)
٣٨۔٢قرن کے صحیح معنی ہیں ہم عصر لوگوں کا ایک گروہ۔ جب ایک نسل کے لوگ ختم ہو جائیں تو دوسری نسل دوسرا قدیم زمانہ کہلائے گی۔ (ابن کثیر)، اس کے معنی ہیں ہر نبی کی امت بھی ایک زمانہ ہو سکتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَكُلًّا ضَرَ‌بْنَا لَهُ الْأَمْثَالَ ۖ وَكُلًّا تَبَّرْ‌نَا تَتْبِيرً‌ا ﴿٣٩﴾
اور ہم نے ان کے سامنے مثالیں بیان کیں (١) پھر ہر ایک کو بالکل ہی تباہ و برباد کر دیا (٢)۔
٣٩۔١ یعنی دلائل کے ذریعے سے ہم نے حجت قائم کر دی۔
٣٩۔٢ یعنی تمام حجت کے بعد۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَلَقَدْ أَتَوْا عَلَى الْقَرْ‌يَةِ الَّتِي أُمْطِرَ‌تْ مَطَرَ‌ السَّوْءِ ۚ أَفَلَمْ يَكُونُوا يَرَ‌وْنَهَا ۚ بَلْ كَانُوا لَا يَرْ‌جُونَ نُشُورً‌ا ﴿٤٠﴾
یہ لوگ اس بستی کے پاس سے بھی آتے جاتے ہیں جن پر بری طرح بارش برسائی گئی (١) کیا یہ پھر بھی اسے دیکھتے نہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ انہیں مر کر جی اٹھنے کی امید ہی نہیں (٢)۔
٤٠۔١ بستی سے، قوم لوط کی بستیاں سدوم اور عمورہ وغیرہ مراد ہیں اور بری بارش سے پتھروں کی بارش مراد ہے۔ ان بستیوں کو الٹ دیا گیا تھا اور اس کے بعد ان پر کھنگر پتھروں کی بارش کی گئی تھی جیسا کہ (فَلَمَّا جَاۗءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا وَاَمْطَرْنَا عَلَيْهَا حِجَارَةً مِّنْ سِجِّيْلٍ ڏ مَّنْضُوْدٍ) 11۔ہود:82) میں بیان ہے۔ یہ بستیاں شام فلسطین کے راستے میں پڑتی ہیں، جن سے گزر کر ہی اہل مکہ آتے جاتے تھے۔
٤٠۔٢ اس لئے ان تباہ شدہ بستیوں اور ان کے کھنڈرات دیکھنے کے باوجود عبرت نہیں پکڑتے۔ اور آیات الٰہی اور اللہ کے رسول کو جھٹلانے سے باز نہیں آتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَإِذَا رَ‌أَوْكَ إِن يَتَّخِذُونَكَ إِلَّا هُزُوًا أَهَـٰذَا الَّذِي بَعَثَ اللَّـهُ رَ‌سُولًا ﴿٤١﴾
اور تمہیں جب کبھی دیکھتے ہیں تو تم سے مسخر پن کرنے لگتے ہیں۔ کہ کیا یہی وہ شخص ہیں جنہیں اللہ تعالٰی نے رسول بنا کر بھیجا ہے (١)۔
٤١۔١ دوسرے مقام پر اس طرح فرمایا (اَھٰذَا الَّذِيْ يَذْكُرُ اٰلِهَتَكُمْ) 21۔ الانبیاء:36) کیا یہ وہ شخص ہے جو تمہارے معبودوں کا ذکر کرتا ہے؟ یعنی ان کی بابت کہتا ہے کہ وہ کچھ اختیار نہیں رکھتے۔ اس حقیقت کا اظہار ہی مشرکین کے نزدیک ان کے معبودوں کی توہین تھی۔ جیسے آج بھی قبر پرستوں کو کہا جائے کہ قبروں میں مدفون بزرگ کائنات میں تصرف کرنے کا اختیار نہیں رکھتے تو کہتے ہیں کہ یہ اولیاء اللہ کی شان میں گستاخی کر رہے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
إِن كَادَ لَيُضِلُّنَا عَنْ آلِهَتِنَا لَوْلَا أَن صَبَرْ‌نَا عَلَيْهَا ۚ وَسَوْفَ يَعْلَمُونَ حِينَ يَرَ‌وْنَ الْعَذَابَ مَنْ أَضَلُّ سَبِيلًا ﴿٤٢﴾
(وہ تو کہئے) کہ ہم اس پر جمے رہے ورنہ انہوں نے تو ہمیں ہمارے معبودوں سے بہکا دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی (١) اور یہ جب عذابوں کو دیکھیں گے تو انہیں صاف معلوم ہوجائے گا کہ پوری طرح راہ سے بھٹکا ہوا کون تھا؟ (۲)
٤٢۔١ یعنی ہم ہی اپنے آباؤ اجداد کی تقلید اور روایتی مذہب سے وابستگی کی وجہ سے غیر اللہ کی عبادت سے باز نہیں آئے ورنہ اس پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ہمیں گمراہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اللہ تعالٰی نے مشرکوں کا یہ قول نقل فرمایا کہ کس طرح وہ شرک پر جمے ہوئے ہیں کہ اس میں فخر کر رہے ہیں
٤۲۔۲ یعنی اس دنیا میں تو ان مشرکین اور غیر اللہ کے پجاریوں کو اہل توحید گمراہ نظر آتے ہیں لیکن جب یہ اللہ کی بارگاہ میں پہنچیں گے اور وہاں انہیں شرک کی وجہ سے عذاب الہی سے دوچار ہونا پڑے گا تو پتہ لگے گا کہ گمراہ کون تھا؟ ایک اللہ کی عبادت کرنے والے یا در در پر اپنی جبینیں جھکانے والے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
أَرَ‌أَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَـٰهَهُ هَوَاهُ أَفَأَنتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَكِيلًا ﴿٤٣﴾
کیا آپ نے اسے بھی دیکھا جو اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہے کیا آپ اس کے ذمہ دار ہوسکتے ہیں؟ (۱)
٤۳۔۱ یعنی جو چیز اس کے نفس کو اچھی لگی اسی کو اپنا دین ومذہب بنا لیا کیا ایسے شخص کو تو راہ یاب کر سکتا ہے یا اللہ کے عذاب سے چھڑا سکے گا؟ اس کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا کیا وہ شخص جس کے لیے اس کا برا عمل مزین کر دیا گیا پس وہ اسے اچھا سمجھتا ہے پس اللہ تعالٰی ہی جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہ یاب پس تو ان پر حسرت و افسوس نہ کر۔ فاطر۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں زمانہ جاہلیت میں آدمی ایک عرصے تک سفید پتھر کی عبادت کرتا رہتا جب اسے اس سے اچھا پتھر نظر آ جاتا تو وہ پہلے پتھر کو چھوڑ کر دوسرے پتھر کی پوجا شروع کر دیتا ابن کثیر۔ مطلب یہ ہے کہ ایسے اشخاص جو عقل وفہم سے اس طرح عاری اور محض خواہش نفس کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہیں اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کیا تو ان کو ہدایت کے راستے پر لگا سکتا ہے؟ یعنی نہیں لگا سکتا۔
 
Top