- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ۗ ذَٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَاللَّـهُ عِندَهُ حُسْنُ الْمَآبِ ﴿١٤﴾
مرغوب چیزوں کی محبت لوگوں کے لیے مزیّن کر دی گئی ہے، جیسے عورتیں اور بیٹے اور سونے چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے اور نشاندار گھوڑے اور چوپائے اور کھیتی، (١) یہ دنیا کی زندگی کا سامان ہے اور لوٹنے کا اچھا ٹھکانا تو اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔
١٤۔١ شَهَوَاتٌ سے مراد یہاں مُشْتَهَيَاتٌ ہیں یعنی وہ چیزیں جو طبعی طور پر انسان کو مرغوب اور پسندیدہ ہیں۔ اسی لیے ان میں رغبت اور ان کی محبت ناپسندیدہ نہیں ہے۔ بشرطیکہ اعتدال کے اندر اور شریعت کے دائرے میں رہے۔ ان کی تزیین بھی اللہ کی طرف سے بطور آزمائش ہے۔ ﴿إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الأَرْضِ زِينَةً لَهَا لِنَبْلُوَهُمْ﴾ (الكهف: 7) ”ہم نے زمین پر جو کچھ ہے، اسے زمین کی زینت بنایا ہے تاکہ ہم لوگوں کو آزمائیں“ سب سے پہلے عورت کا ذکر کیا ہے کیونکہ یہ ہر بالغ انسان کی سب سے بڑی ضرورت بھی ہے اور سب سے زیادہ مرغوب بھی۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: حُبِّبَ إِلَيَّ النِّسَاءُ وَالطِّيبُ (مسند احمد) ”عورت اور خوشبو مجھے محبوب ہیں“۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نیک عورت کو ”دنیا کی سب سے بہتر متاع“ قرار دیا ہے: خَيْرُ مَتَاعِ الدُّنْيَا الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ اس لیے اس کی محبت شریعت کے دائرے سے تجاوز نہ کرے تو یہ بہترین رفیق زندگی بھی ہے اور زاد آخرت بھی۔ ورنہ یہی عورت مرد کے لیے سب سے بڑا فتنہ ہے۔ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے: مَا تَرَكْتُ بَعْدِي فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَى الرِّجِالِ مِنَ النِّسَاءِ (صحيح بخاري كتاب النكاح، باب ما يتقى من شؤم المرأة) "میرے بعد جو فتنے رونما ہوں گے، ان میں مردوں کے لیے سب سے بڑا فتنہ عورتوں کا ہے۔" اسی طرح بیٹوں کی محبت ہے۔ اگر اس سے مقصد مسلمانوں کی قوت میں اضافہ اور بقا و تکثیر نسل ہے تو محمود ہے ورنہ مذموم۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: تَزَوَّجُوا الوَدُودَ الْوَلُودَ؛ فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الأُمَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ "بہت محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی عورت سے شادی کرو، اس لیے کہ میں قیامت والے دن دوسری امتوں کے مقابلے میں اپنی امت کی کثرت پر فخر کروں گا" اس آیت سے رھبانیت کی تردید اور تحریک خاندانی منصوبہ بندی کی تردید بھی ثابت ہوتی ہے کیونکہ بَنِينٌ جمع ہے۔ مال و دولت سے بھی مقصود قیام معیشت، صلۂ رحمی، صدقہ و خیرات اور اسے امور خیر میں خرچ کرنا اور سوال سے بچنا ہے تاکہ اللہ کی رضا حاصل ہو، تو اس کی محبت بھی عین مطلوب ہے ورنہ مذموم۔ گھوڑوں سے مقصد جہاد کی تیاری، دیگر جانوروں سے کھیتی باڑی اور بار برداری کا کام لینا اور زمین سے اس کی پیداوار حاصل کرنا ہو تو یہ سب پسندیدہ ہیں اور اگر مقصود محض دنیا کمانا اور پھر اس پر فخر و غرور کا اظہار کرنا اور یاد الٰہی سے غافل ہو کر عیش و عشرت سے زندگی گزارنا ہے تو یہ سب مفید چیزیں اس کے لیے وبال جان ثابت ہوں گی۔ قَنَاطِيرُ قِنْطَارٌ (خزانہ) کی جمع ہے۔ مراد ہے خزانے یعنی سونے چاندی اور مال و دولت کی فراوانی اور کثرت۔ المُسَوَّمَةِ وہ گھوڑے جو چراگاہ میں چرنے کے لیے چھوڑے گئے ہوں۔ یا جہاد کے لیے تیار کیے گئے ہوں یا نشان زدہ، جن پر امتیاز کے لیے کوئی نشان یا نمبر لگا دیا جائے (فتح القدیر و ابن کثیر)
مرغوب چیزوں کی محبت لوگوں کے لیے مزیّن کر دی گئی ہے، جیسے عورتیں اور بیٹے اور سونے چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے اور نشاندار گھوڑے اور چوپائے اور کھیتی، (١) یہ دنیا کی زندگی کا سامان ہے اور لوٹنے کا اچھا ٹھکانا تو اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔
١٤۔١ شَهَوَاتٌ سے مراد یہاں مُشْتَهَيَاتٌ ہیں یعنی وہ چیزیں جو طبعی طور پر انسان کو مرغوب اور پسندیدہ ہیں۔ اسی لیے ان میں رغبت اور ان کی محبت ناپسندیدہ نہیں ہے۔ بشرطیکہ اعتدال کے اندر اور شریعت کے دائرے میں رہے۔ ان کی تزیین بھی اللہ کی طرف سے بطور آزمائش ہے۔ ﴿إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الأَرْضِ زِينَةً لَهَا لِنَبْلُوَهُمْ﴾ (الكهف: 7) ”ہم نے زمین پر جو کچھ ہے، اسے زمین کی زینت بنایا ہے تاکہ ہم لوگوں کو آزمائیں“ سب سے پہلے عورت کا ذکر کیا ہے کیونکہ یہ ہر بالغ انسان کی سب سے بڑی ضرورت بھی ہے اور سب سے زیادہ مرغوب بھی۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: حُبِّبَ إِلَيَّ النِّسَاءُ وَالطِّيبُ (مسند احمد) ”عورت اور خوشبو مجھے محبوب ہیں“۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نیک عورت کو ”دنیا کی سب سے بہتر متاع“ قرار دیا ہے: خَيْرُ مَتَاعِ الدُّنْيَا الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ اس لیے اس کی محبت شریعت کے دائرے سے تجاوز نہ کرے تو یہ بہترین رفیق زندگی بھی ہے اور زاد آخرت بھی۔ ورنہ یہی عورت مرد کے لیے سب سے بڑا فتنہ ہے۔ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے: مَا تَرَكْتُ بَعْدِي فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَى الرِّجِالِ مِنَ النِّسَاءِ (صحيح بخاري كتاب النكاح، باب ما يتقى من شؤم المرأة) "میرے بعد جو فتنے رونما ہوں گے، ان میں مردوں کے لیے سب سے بڑا فتنہ عورتوں کا ہے۔" اسی طرح بیٹوں کی محبت ہے۔ اگر اس سے مقصد مسلمانوں کی قوت میں اضافہ اور بقا و تکثیر نسل ہے تو محمود ہے ورنہ مذموم۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: تَزَوَّجُوا الوَدُودَ الْوَلُودَ؛ فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الأُمَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ "بہت محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی عورت سے شادی کرو، اس لیے کہ میں قیامت والے دن دوسری امتوں کے مقابلے میں اپنی امت کی کثرت پر فخر کروں گا" اس آیت سے رھبانیت کی تردید اور تحریک خاندانی منصوبہ بندی کی تردید بھی ثابت ہوتی ہے کیونکہ بَنِينٌ جمع ہے۔ مال و دولت سے بھی مقصود قیام معیشت، صلۂ رحمی، صدقہ و خیرات اور اسے امور خیر میں خرچ کرنا اور سوال سے بچنا ہے تاکہ اللہ کی رضا حاصل ہو، تو اس کی محبت بھی عین مطلوب ہے ورنہ مذموم۔ گھوڑوں سے مقصد جہاد کی تیاری، دیگر جانوروں سے کھیتی باڑی اور بار برداری کا کام لینا اور زمین سے اس کی پیداوار حاصل کرنا ہو تو یہ سب پسندیدہ ہیں اور اگر مقصود محض دنیا کمانا اور پھر اس پر فخر و غرور کا اظہار کرنا اور یاد الٰہی سے غافل ہو کر عیش و عشرت سے زندگی گزارنا ہے تو یہ سب مفید چیزیں اس کے لیے وبال جان ثابت ہوں گی۔ قَنَاطِيرُ قِنْطَارٌ (خزانہ) کی جمع ہے۔ مراد ہے خزانے یعنی سونے چاندی اور مال و دولت کی فراوانی اور کثرت۔ المُسَوَّمَةِ وہ گھوڑے جو چراگاہ میں چرنے کے لیے چھوڑے گئے ہوں۔ یا جہاد کے لیے تیار کیے گئے ہوں یا نشان زدہ، جن پر امتیاز کے لیے کوئی نشان یا نمبر لگا دیا جائے (فتح القدیر و ابن کثیر)