• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فَلَمَّا جَاءَتْ قِيلَ أَهَـٰكَذَا عَرْ‌شُكِ ۖ قَالَتْ كَأَنَّهُ هُوَ ۚ وَأُوتِينَا الْعِلْمَ مِن قَبْلِهَا وَكُنَّا مُسْلِمِينَ ﴿٤٢﴾
پھر جب وہ آگئی تو اس سے کہا (دریافت کیا) گیا کہ ایسا ہی تیرا (بھی) تخت ہے؟ اس نے جواب دیا کہ یہ گویا وہی ہے، (١) ہمیں اس سے پہلے ہی علم دیا گیا تھا اور ہم مسلمان تھے۔ (٢)
٤٢۔١ ردوبدل سے چونکہ اس کی وضع و ہیئت میں کچھ تبدیلی آگئی تھی، اس لیے اس نے صاف الفاظ میں اس کے اپنے ہونے کا اقرار بھی نہیں کیا اور ردوبدل کے باوجود انسان پھر بھی اپنی چیز کو پہچان ہی لیتا ہے، اس لیے اپنے ہونے کی نفی بھی نہیں کی۔ اور یہ کہا "یہ گویا وہی ہے" اس میں اقرار ہے نہ نفی۔ بلکہ نہایت محتاط جواب ہے۔
٤٢۔٢ یعنی یہاں آنے سے قبل ہی ہم سمجھ گئے تھے کہ آپ اللہ کے نبی ہیں اور آپ کے مطیع و منقاد ہو گئے تھے۔ لیکن امام ابن کثیر و شوکانی وغیرہ نے اسے حضرت سلیمان علیہ السلام کا قول قرار دیا ہے کہ ہمیں پہلے ہی یہ علم دے دیا گیا تھا کہ ملکہء سبا تابع فرمان ہو کر حاضر خدمت ہو گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَصَدَّهَا مَا كَانَت تَّعْبُدُ مِن دُونِ اللَّـهِ ۖ إِنَّهَا كَانَتْ مِن قَوْمٍ كَافِرِ‌ينَ ﴿٤٣﴾
اسے انہوں نے روک رکھا تھا جن کی وہ اللہ کے سوا پرستش کرتی رہی تھی، یقیناً وہ کافر لوگوں میں سے تھی۔ (١)
٤٣۔١ یہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے اور صَدَّهَا کا فاعل مَا كَانَتْ تَعْبُدُ ہے یعنی اسے اللہ کی عبادت سے جس چیز نے روک رکھا تھا، وہ غیر اللہ کی عبادت تھی، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کا تعلق ایک کافر قوم سے تھا، اس لیے توحید کی حقیقت سے بے خبر رہی بعض نے صَدَّهَا کا فاعل اللہ کو اور بعض نے سلیمان عليہ السلام کو قرار دیا ہے۔ یعنی اللہ نے یا اللہ کے حکم سے سلیمان عليہ السلام نے اسے غیر اللہ کی عبادت سے روک دیا۔ لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ (فتح القدیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قِيلَ لَهَا ادْخُلِي الصَّرْ‌حَ ۖ فَلَمَّا رَ‌أَتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَّةً وَكَشَفَتْ عَن سَاقَيْهَا ۚ قَالَ إِنَّهُ صَرْ‌حٌ مُّمَرَّ‌دٌ مِّن قَوَارِ‌يرَ‌ ۗ قَالَتْ رَ‌بِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمَانَ لِلَّـهِ رَ‌بِّ الْعَالَمِينَ ﴿٤٤﴾
اس سے کہا گیا کہ محل میں چلی چلو، جسے دیکھ کر یہ سمجھ کر کہ یہ حوض ہے اس نے اپنی پنڈلیاں کھول دیں، (١) فرمایا یہ تو شیشے سے منڈھی ہوئی عمارت ہے، کہنے لگی میرے پروردگار! میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ اب میں سلیمان کے ساتھ اللہ رب العالمین کی مطیع اور فرمانبردار بنتی ہوں۔ (۲)
٤٤۔١ یہ محل شیشے کا بنا ہوا تھا جس کا صحن اور فرش بھی شیشے کا تھا۔ لُجَّةً گہرے پانی یا حوض کو کہتے ہیں۔ حضرت سلیمان عليہ السلام نے اپنی نبوت کے اعجازی مظاہر دکھانے کے بعد مناسب سمجھا کہ اسے اپنی اس دنیوی شان و شوکت کی بھی ایک جھلک دکھلا دی جائے جس میں اللہ نے انہیں تاریخ انسانیت میں ممتاز کیا تھا۔ چنانچہ اس محل میں داخل ہونے کا حکم دیا گیا، جب وہ داخل ہونے لگی تو اس نے اپنے پائنچے چڑھا لیے۔ شیشے کا فرش اسے پانی معلوم ہوا جس سے اپنے کپڑوں کو بچانے کے لیے اس نے کپڑے سمیٹ لیے۔
٤٤۔۲ یعنی جب اس پر فرش کی حقیقت واضح ہوئی تو اپنی کوتاہی اور غلطی کا بھی احساس ہو گیا اور اعتراف قصور کرتے ہوئے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا۔ صاف چکنے گھڑے ہوئے پتھروں کو مُمَرَّدٌ کہا جاتا ہے۔ اسی سے امرد ہے جو اس خوش شکل بچے کو کہا جاتا ہے جس کے چہرے پر ابھی داڑھی مونچھ نہ ہو۔ جس درخت پر پتے نہ ہوں اسے شجرۃ مرداء کہا جاتا ہے۔ (فتح القدیر) لیکن یہاں یہ تعبیر یا جڑاؤ کے معنی میں ہے۔ یعنی شیشوں کا بنا ہوا یا جڑا ہوا محل۔
ملحوظہ: ملکۂ سبا (بلقیس) کے مسلمان ہونے کے بعد کیا ہوا؟ قرآن میں یا کسی صحیح حدیث میں اس کی تفصیل نہیں ملتی۔ تفسیری روایات میں یہ ضرور ملتا ہے کہ ان کا باہم نکاح ہو گیا تھا۔ لیکن قرآن و حدیث اس صراحت سے خاموش ہیں تو اس کی بابت خاموشی ہی بہتر ہے۔ وَاللهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَلَقَدْ أَرْ‌سَلْنَا إِلَىٰ ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ فَإِذَا هُمْ فَرِ‌يقَانِ يَخْتَصِمُونَ ﴿٤٥﴾
یقیناً ہم نے ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا کہ تم سب اللہ کی عبادت کرو پھر بھی وہ دو فریق بن کر آپس میں لڑنے جھگڑنے لگے۔ (١)
٤٥۔١ ان سے مراد کافر اور مومن ہیں، جھگڑنے کا مطلب ہر فریق کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ حق پر ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قَالَ يَا قَوْمِ لِمَ تَسْتَعْجِلُونَ بِالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ ۖ لَوْلَا تَسْتَغْفِرُ‌ونَ اللَّـهَ لَعَلَّكُمْ تُرْ‌حَمُونَ ﴿٤٦﴾
آپ نے فرمایا اے میری قوم کے لوگو! تم نیکی سے پہلے برائی کی جلدی کیوں کر مچا رہے ہو؟ (١) تم اللہ تعالٰی سے استغفار کیوں نہیں کرتے تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
٤٦۔١ یعنی ایمان قبول کرنے کی بجائے، تم کفر ہی پر کیوں اصرار کر رہے ہو، جو عذاب کا باعث ہے۔ علاوہ ازیں اپنے عناد و سرکشی کی وجہ سے کہتے بھی تھے کہ ہم پر عذاب لے آ۔ جس کے جواب میں حضرت صالح علیہ السلام نے یہ کہا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قَالُوا اطَّيَّرْ‌نَا بِكَ وَبِمَن مَّعَكَ ۚ قَالَ طَائِرُ‌كُمْ عِندَ اللَّـهِ ۖ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُونَ ﴿٤٧﴾
وہ کہنے لگے ہم تو تیری اور تیرے ساتھیوں کی بد شگونی لے رہے (١) ہیں؟ آپ نے فرمایا تمہاری بد شگونی اللہ کے ہاں (۲) ہے، بلکہ تم فتنے میں پڑے ہوئے لوگ ہو۔ (۳)
٤٧۔١ اطَّيَّرْنَا اصل میں تَطَيَّرْنَا ہے۔ اس کی اصل طیر (اڑنا) ہے۔ عرب جب کسی کام کا یا سفر کا ارادہ کرتے تو پرندے کو اڑاتے اگر وہ دائیں جانب اڑتا تو اسے نیک شگون سمجھتے اور وہ کام کرگزرتے یا سفر پر روانہ ہو جاتے اور اگر بائیں جانب اڑتا تو اسے بدشگونی سمجھتے اور اس کام یا سفر سے رک جاتے (فتح القدیر) اسلام میں یہ بدشگونی اور نیک شگونی جائز نہیں ہے البتہ تفاؤل جائز ہے۔
٤۷۔۲ یعنی اہل ایمان نحوست کا باعث نہیں ہیں جیسا کہ تم سمجھتے ہو بلکہ اس کا اصل سبب اللہ ہی کے پاس ہے، کیونکہ قضا و تقدیر اسی کے اختیار میں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تمہیں جو نحوست (قحط وغیرہ) پہنچی ہے، وہ اللہ کی طرف سے ہے اور اس کا سبب تمہارا کفر ہے۔ (فتح القدیر)
٤٧۔۳ یا گمراہی میں ڈھیل دے کر تمہیں آزمایا جا رہا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَكَانَ فِي الْمَدِينَةِ تِسْعَةُ رَ‌هْطٍ يُفْسِدُونَ فِي الْأَرْ‌ضِ وَلَا يُصْلِحُونَ ﴿٤٨﴾
اس شہر میں نو سردار تھے جو زمین میں فساد پھیلاتے رہتے تھے اور اصلاح نہیں کرتے تھے۔

قَالُوا تَقَاسَمُوا بِاللَّـهِ لَنُبَيِّتَنَّهُ وَأَهْلَهُ ثُمَّ لَنَقُولَنَّ لِوَلِيِّهِ مَا شَهِدْنَا مَهْلِكَ أَهْلِهِ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ ﴿٤٩﴾
انہوں نے آپس میں بڑی قسمیں کھا کر عہد کیا کہ رات ہی کو صالح اور اس کے گھر والوں پر ہم چھاپہ ماریں گے، (١) اور اس کے وارثوں سے صاف کہہ دیں گے کہ ہم اس کے اہل کی ہلاکت کے وقت موجود نہ تھے اور ہم بالکل سچے ہیں۔ (٢)
٤٩۔١ یعنی صالح علیہ السلام کو اور اس کے گھر والوں کو قتل کر دیں گے، یہ قسمیں انہوں نے اس وقت کھائیں، جب اونٹنی کے قتل کے بعد حضرت صالح علیہ السلام نے کہا کہ تین دن کے بعد تم پر عذاب آجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ عذاب کے آنے سے قبل ہی ہم صالح علیہ السلام اور ان کے گھر والوں کا صفایا کر دیں۔
٤٩۔٢ یعنی ہم قتل کے وقت وہاں موجود نہ تھے ہمیں اس بات کا علم ہے کہ کون انہیں قتل کر گیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَمَكَرُ‌وا مَكْرً‌ا وَمَكَرْ‌نَا مَكْرً‌ا وَهُمْ لَا يَشْعُرُ‌ونَ ﴿٥٠﴾
انہوں نے مکر (خفیہ تدبیر) کیا (١) اور ہم نے بھی (٢) اور وہ اسے سمجھتے ہی نہ تھے۔ (٣)
٥٠۔١ ان کا مکر یہی تھا کہ انہوں نے باہم حلف اٹھایا کہ رات کی تاریکی میں اس منصوبہ قتل کو بروئے کار لائیں اور تین دن پورے ہونے سے پہلے ہی ہم صالح علیہ السلام اور ان کے گھر والوں کو ٹھکانے لگا دیں۔
٥٠۔٢ یعنی ہم نے ان کی اس سازش کا بدلہ دیا اور انہیں ہلاک کر دیا۔ اسے بھی مَکَرْنَا مَکْرًا سے مشاکلت کے طور پر تعبیر کیا گیا۔
٥٠۔٣ اللہ کی اس تدبیر (مکر) کو سمجھتے ہی نہ تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فَانظُرْ‌ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ مَكْرِ‌هِمْ أَنَّا دَمَّرْ‌نَاهُمْ وَقَوْمَهُمْ أَجْمَعِينَ ﴿٥١﴾
(اب) دیکھ لے ان کے مکر کا انجام کیسا کچھ ہوا؟ کہ ہم نے ان کو اور ان کی قوم کو سب کو غارت کر دیا۔ (١)
٥١۔١ یعنی ہم نے مذکورہ ٩ سرداروں کو ہی نہیں، بلکہ ان کی قوم کو بھی مکمل طور پر ہلاک کر دیا۔ کیونکہ وہ قوم ہلاکت کے اصل سبب کفر و جحود میں مکمل طور پر ان کے ساتھ شریک تھی اور گویا بالفعل ان کے منصوبہء قتل میں شریک نہ ہو سکی تھی۔ کیونکہ یہ منصوبہ خفیہ تھا۔ لیکن ان کی منشا اور دلی آرزو کے عین مطابق تھا اس لیے وہ بھی گویا اس مکر میں شریک تھی جو ٩ افراد نے حضرت صالح علیہ السلام اور ان کے اہل کے خلاف تیار کیا تھا۔ اس لیے پوری قوم ہی ہلاکت کی مستحق قرار پائی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خَاوِيَةً بِمَا ظَلَمُوا ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ﴿٥٢﴾
یہ ہیں ان کے مکانات جو ان کے ظلم کی وجہ سے اجڑے پڑے ہیں، جو لوگ علم رکھتے ہیں ان کے لیے اس میں بڑی نشانی ہے۔

وَأَنجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ ﴿٥٣﴾
ہم نے ان کو جو ایمان لائے تھے اور پرہیزگار تھے بال بال بچا لیا۔

وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ أَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ وَأَنتُمْ تُبْصِرُ‌ونَ ﴿٥٤﴾
اور لوط کا (ذکر کر) جبکہ (١) اس نے اپنی قوم سے کہا کہ کیا باوجود دیکھنے بھالنے کے پھر بھی تم بدکاری کر رہے ہو؟ (٢)
٥٤۔١ یعنی لوط علیہ السلام کا قصہ یاد کرو، جب لوط علیہ السلام نے کہا یہ قوم عموریہ اور سدوم بستیوں میں رہائش پذیر تھی۔
٥٤۔٢ یعنی یہ جاننے کے باوجود کہ یہ بے حیائی کا کام ہے۔ یہ بصارت قلب ہے۔ اور اگر بصارت ظاہری یعنی آنکھوں سے دیکھنا مراد ہو تو معنی ہوں گے کہ نظروں کے سامنے یہ کام کرتے ہو، یعنی تمہاری سرکشی اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ چھپنے کا تکلف بھی نہیں کرتے ہو۔
 
Top