• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قَالَتْ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ إِنِّي أُلْقِيَ إِلَيَّ كِتَابٌ كَرِ‌يمٌ ﴿٢٩﴾
وہ کہنے لگی اے سردارو! میری طرف ایک باوقعت خط ڈالا گیا ہے۔

إِنَّهُ مِن سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ ﴿٣٠﴾
جو سلیمان کی طرف سے ہے اور جو بخشش کرنے والے مہربان اللہ کے نام سے شروع ہے۔

أَلَّا تَعْلُوا عَلَيَّ وَأْتُونِي مُسْلِمِينَ ﴿٣١﴾
یہ کہ تم میرے سامنے سرکشی نہ کرو اور مسلمان بن کر میرے پاس آجاؤ۔ (١)
٣١۔١ جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بادشاہوں کو خطوط لکھے تھے، جن میں انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔ اسی طرح سلیمان علیہ السلام نے بھی اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت بذریعہ خط دی۔ آج کل مکتوب الیہ کا نام خط میں پہلے لکھا جاتا ہے۔ لیکن سلف کا طریقہ یہی تھا جو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اختیار کیا کہ پہلے اپنا نام تحریر کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قَالَتْ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ أَفْتُونِي فِي أَمْرِ‌ي مَا كُنتُ قَاطِعَةً أَمْرً‌ا حَتَّىٰ تَشْهَدُونِ ﴿٣٢﴾
اس نے کہا اے میرے سردارو! تم میرے اس معاملہ میں مجھے مشورہ دو۔ میں کسی امر کا قطعی فیصلہ جب تک تمہاری موجودگی اور رائے نہ ہو نہیں کیا کرتی۔

قَالُوا نَحْنُ أُولُو قُوَّةٍ وَأُولُو بَأْسٍ شَدِيدٍ وَالْأَمْرُ‌ إِلَيْكِ فَانظُرِ‌ي مَاذَا تَأْمُرِ‌ينَ ﴿٣٣﴾
ان سب نے جواب دیا کہ ہم طاقت اور قوت والے سخت لڑنے بھڑنے والے ہیں۔ (١) آگے آپ کو اختیار ہے آپ خود ہی سوچ لیجئے کہ ہمیں آپ کیا کچھ حکم فرماتی ہیں۔ (٢)
٣٣۔١ یعنی ہمارے پاس قوت اور اسلحہ بھی ہے اور لڑائی کے وقت نہایت پامردی سے لڑنے والے بھی ہیں، اس لیے جھکنے اور دبنے کی ضرورت نہیں ہے۔
٣٣۔٢ اس لیے کہ ہم تو آپ کے تابع ہیں، جو حکم ہو گا، بجا لائیں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قَالَتْ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْ‌يَةً أَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا أَعِزَّةَ أَهْلِهَا أَذِلَّةً ۖ وَكَذَٰلِكَ يَفْعَلُونَ ﴿٣٤﴾
اس نے کہا کہ بادشاہ جب کسی بستی میں گھستے ہیں (١) تو اسے اجاڑ دیتے ہیں اور وہاں کے باعزت لوگوں کو ذلیل کر دیتے ہیں۔ (٢) اور یہ لوگ بھی ایسا ہی کریں گے۔ (٣)
٣٤۔١ یعنی طاقت کے ذریعے سے فتح کرتے ہوئے۔
٣٤۔٢ یعنی قتل و غارت گری کرکے اور قیدی بنا کر۔
٣٤۔٣ بعض مفسرین کے نزدیک یہ اللہ کا قول ہے جو ملکہء سبا کی تائید میں ہے اور بعض کے نزدیک یہ بلقیس ہی کا کلام اور اس کا تتمہ ہے اور یہی سیاق کے زیادہ قریب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَإِنِّي مُرْ‌سِلَةٌ إِلَيْهِم بِهَدِيَّةٍ فَنَاظِرَ‌ةٌ بِمَ يَرْ‌جِعُ الْمُرْ‌سَلُونَ ﴿٣٥﴾
میں انہیں ایک ہدیہ بھیجنے والی ہوں، پھر دیکھ لوں گی کہ قاصد کیا جواب لے کر لوٹتے ہیں۔ (١)
٣٥۔١ اس سے اندازہ ہو جائے گا کہ سلیمان علیہ السلام کوئی دنیا دار بادشاہ ہے یا نبی مرسل، جس کا مقصد اللہ کے دین کا غلبہ ہے۔ اگر ہدیہ قبول نہیں کیا تو یقینا اس کا مقصد دین کی اشاعت و سر بلندی ہے، پھر ہمیں بھی اطاعت کیے بغیر چارہ نہیں ہو گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَلَمَّا جَاءَ سُلَيْمَانَ قَالَ أَتُمِدُّونَنِ بِمَالٍ فَمَا آتَانِيَ اللَّـهُ خَيْرٌ‌ مِّمَّا آتَاكُم بَلْ أَنتُم بِهَدِيَّتِكُمْ تَفْرَ‌حُونَ ﴿٣٦﴾
پس جب قاصد حضرت سلیمان کے پاس پہنچا تو آپ نے فرمایا کیا تم مال سے مجھے مدد دینا چاہتے ہو؟ (١) مجھے تو میرے رب نے اس سے بہت بہتر دے رکھا ہے جو اس نے تمہیں دیا ہے پس تم ہی اپنے تحفے سے خوش رہو۔ (٢)
٣٦۔١ یعنی تم دیکھ نہیں رہے، کہ اللہ نے مجھے ہر چیز سے نوازا ہوا ہے۔ پھر تم اس ہدیے سے میرے مال و دولت میں کیا اضافہ کر سکتے ہو؟ یہ استفہام انکاری ہے۔ یعنی کوئی اضافہ نہیں کر سکتے۔
٣٦۔٢ یہ بطور توبیخ کے کہا کہ تم ہی اس ہدیے پر فخر کرو اور خوش ہو، میں تو اس سے خوش ہونے سے رہا، اس لیے کہ ایک تو دنیا میرا مقصود ہی نہیں۔ دوسرے اللہ نے مجھے وہ کچھ دیا ہے جو پورے جہان میں کسی کو نہیں دیا۔ تیسرے، مجھے نبوت سے بھی سرفراز کیا گیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
ارْ‌جِعْ إِلَيْهِمْ فَلَنَأْتِيَنَّهُم بِجُنُودٍ لَّا قِبَلَ لَهُم بِهَا وَلَنُخْرِ‌جَنَّهُم مِّنْهَا أَذِلَّةً وَهُمْ صَاغِرُ‌ونَ ﴿٣٧﴾
جا ان کی طرف واپس لوٹ جا، (۱) ہم ان (کے مقابلہ) پر وہ لشکر لائیں گے جنکے سامنے پڑنے کی ان میں طاقت نہیں اور ہم انہیں ذلیل و پست کرکے وہاں سے نکال باہر کریں گے۔ (۲)
۳۷۔۱ یہاں صیغہء واحد سے مخاطب کیا، جب کہ اس سے قبل صیغہء جمع سے خطاب کیا تھا۔ کیونکہ خطاب میں کبھی پوری جماعت کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ کبھی امیر کو۔
٣٧۔۲ حضرت سلیمان علیہ السلام نرے بادشاہ ہی نہیں تھے، اللہ کے پیغمبر بھی تھے۔ اس لیے ان کی طرف سے لوگوں کو ذلیل و خوار کیا جانا ممکن نہیں تھا، لیکن جنگ و قتال کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کیونکہ جنگ نام ہی کشت و خون اور اسیری کا ہے اور ذلت و خواری سے یہی مراد ہے، ورنہ اللہ کے پیغمبر لوگوں کو خواہ مخواہ ذلیل و خوار نہیں کرتے۔ جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل اور اسوہء حسنہ جنگوں کے موقع پر رہا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قَالَ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ أَيُّكُمْ يَأْتِينِي بِعَرْ‌شِهَا قَبْلَ أَن يَأْتُونِي مُسْلِمِينَ ﴿٣٨﴾
آپ نے فرمایا اے سردارو! تم میں سے کوئی ہے جو انکے مسلمان ہو کر پہنچنے سے پہلے ہی اسکا تخت مجھے لا دے۔ (١)
٣٨۔١ حضرت سلیمان علیہ السلام کے اس جواب سے ملکہ نے اندازہ لگا لیا کہ وہ سلیمان علیہ السلام کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔ چنانچہ انہوں نے مطیع و منقاد ہو کر آنے کی تیاری شروع کردی۔ سلیمان علیہ السلام کو بھی انکی آمد کی اطلاع مل گئی تو آپ نے انہیں مزید اپنی اعجازی شان دکھانے کا پروگرام بنایا اور انکے پہنچنے سے قبل ہی اس کا تخت شاہی اپنے پاس منگوانے کا بندوبست کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قَالَ عِفْرِ‌يتٌ مِّنَ الْجِنِّ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن تَقُومَ مِن مَّقَامِكَ ۖ وَإِنِّي عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ أَمِينٌ ﴿٣٩﴾
ایک قوی ہیکل جن کہنے لگا آپ اپنی اس مجلس سے (۱) اٹھیں اس سے پہلے ہی پہلے میں اسے آپ کے پاس لا دیتا (۲) ہوں، یقین مانئے کہ میں اس پر قادر ہوں اور ہوں بھی امانت دار۔ (۳)
٣٩۔١ اس سے وہ مجلس مراد ہے، جو مقدمات کی سماعت کے لیے حضرت سلیمان علیہ السلام صبح سے نصف النہار تک منعقد فرماتے تھے۔
۳۹۔۲ اس سے معلوم ہوا کہ وہ یقینا ایک جن ہی تھا جنہیں اللہ تعالٰی نے انسانوں کے مقابلے میں غیر معمولی قوتوں سے نوازا ہے۔ کیونکہ کسی انسان کے لیے چاہے وہ کتنا ہی زور آور ہو، یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ بیت المقدس سے مآرب یمن (سبا) جائے اور پھر وہاں سے تخت شاہی اٹھا لائے۔ اور ڈیڑھ ہزار میل کا یہ فاصلہ جسے دو طرفہ شمار کیا جائے تو تین ہزار میل بنتا ہے، تین چار گھنٹے میں طے کر لے۔ ایک طاقت ور سے طاقت ور انسان بھی اول تو اتنے بڑے تخت کو اٹھا ہی نہیں سکتا اور اگر وہ مختلف لوگوں یا چیزوں کا سہارا لے کر اٹھوا بھی لے تو اتنی قلیل مدت میں اتنا سفر کیوں کر ممکن ہے۔
٣٩۔۳ یعنی میں اسے اٹھا کر لا بھی سکتا ہوں اور اس کی کسی چیز میں ہیرا پھیری بھی نہیں کروں گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قَالَ الَّذِي عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن يَرْ‌تَدَّ إِلَيْكَ طَرْ‌فُكَ ۚ فَلَمَّا رَ‌آهُ مُسْتَقِرًّ‌ا عِندَهُ قَالَ هَـٰذَا مِن فَضْلِ رَ‌بِّي لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ‌ أَمْ أَكْفُرُ‌ ۖ وَمَن شَكَرَ‌ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ‌ لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن كَفَرَ‌ فَإِنَّ رَ‌بِّي غَنِيٌّ كَرِ‌يمٌ ﴿٤٠﴾
جس کے پاس کتاب کا علم تھا وہ بول اٹھا کہ آپ پلک جھپکائیں اس سے بھی پہلے میں اسے آپ کے پاس پہنچا سکتا ہوں۔ (١) جب آپ نے اسے اپنے پاس موجود پایا تو فرمانے لگے یہی میرے رب کا فضل ہے، تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر گزاری کرتا ہوں یا ناشکری، شکر گزار اپنے ہی نفع کے لیے شکر گزاری کرتا ہے اور جو ناشکری کرے تو میرا پروردگار (بے پروا اور بزرگ) غنی اور کریم ہے۔
٤٠۔١ یہ کون شخص تھا جس نے یہ کہا؟ یہ کتاب کون سی تھی؟ اور یہ علم کیا تھا، جس کے زور پر یہ دعویٰ کیا گیا؟ اس میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں۔ ان تینوں کی پوری حقیقت اللہ تعالٰی ہی جانتا ہے۔ یہاں قرآن کریم کے الفاظ سے جو معلوم ہوتا ہے وہ اتنا ہی ہے کہ وہ کوئی انسان ہی تھا، جس کے پاس کتاب الٰہی کا علم تھا، اللہ تعالٰی نے کرامات اور اعجاز کے طور پر اسے یہ قدرت دے دی کہ پلک جھپکتے میں وہ تخت لے آیا۔ کرامت اور معجزہ نام ہی ایسے کاموں کا ہے جو ظاہری اسباب اور امور عادیہ کے یکسر خلاف ہوں۔ اور وہ اللہ تعالٰی کی قدرت و مشیت سے ہی ظہور پذیر پاتے ہیں۔ اس لیے نہ شخصی قوت قابل تعجب ہے اور نہ اس علم کا سراغ لگانے کی ضرورت، جس کا ذکر یہاں ہے۔ کیونکہ یہ تو اس شخص کا تعارف ہے جس کے ذریعے سے یہ کام ظاہری طور پر انجام پایا، ورنہ حقیقت میں تو یہ مشیت الٰہی ہی کی کار فرمائی ہے جو چشم زدن میں، جو چاہے، کر سکتی ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام بھی اس حقیقت سے آگاہ تھے، اس لیے انہوں نے دیکھا کہ تخت موجود ہے تو اسے فضل ربی سے تعبیر کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قَالَ نَكِّرُ‌وا لَهَا عَرْ‌شَهَا نَنظُرْ‌ أَتَهْتَدِي أَمْ تَكُونُ مِنَ الَّذِينَ لَا يَهْتَدُونَ ﴿٤١﴾
حکم دیا کہ اس تخت میں کچھ پھیر بدل کر (١) دو تاکہ معلوم ہو جائے کہ یہ راہ پالیتی ہے یا ان میں سے ہوتی ہے جو راہ نہیں پاتے۔ (٢)
٤١۔١ یعنی اس کے رنگ روپ یا واضح و شکل شباہت میں تبدیلی کردو۔
٤١۔٢ یعنی وہ اس بات سے آگاہ ہوتی ہے کہ یہ تخت اسی کا ہے یا اس کو سمجھ نہیں پاتی؟ دوسرا مطلب ہے کہ وہ راہ ہدایت پاتی ہے یا نہیں؟ یعنی اتنا بڑا معجزہ دیکھ کر بھی اس پر راہ ہدایت واضح ہوتی ہے یا نہیں؟
 
Top