• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَحُشِرَ‌ لِسُلَيْمَانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ وَالطَّيْرِ‌ فَهُمْ يُوزَعُونَ ﴿١٧﴾
سلیمان کے سامنے ان کے تمام لشکر جنات اور انسان اور پرند میں سے جمع کیے گئے (١) (ہر ہر قسم کی) الگ الگ درجہ بندی کردی گئی۔ (٢)
١٧۔١ اس میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی اس انفرادی خصوصیت و فضیلت کا ذکر ہے، جس میں وہ پوری تاریخ انسانیت میں ممتاز ہیں کہ ان کی حکمرانی صرف انسانوں پر ہی نہ تھی بلکہ جنات، حیوانات اور چرند پرند حتٰی کہ ہوا تک ان کے ماتحت تھی، اس میں کہا گیا ہے کہ سلیمان علیہ السلام کے تمام لشکر یعنی جنوں، انسانوں اور پرندوں سب کو جمع کیا گیا۔ یعنی کہیں جانے کے لیے یہ لاؤ لشکر جمع کیا گیا۔
١٧۔٢ یہ ترجمہ (توزیع بمعنی تفریق) کے اعتبار سے ہے۔ یعنی سب کو الگ الگ گروہوں میں تقسیم (قسم وار) کر دیا جاتا تھا، مثلاً انسانوں، جنوں کا گروہ، پرندوں اور حیوانات کے گروہ۔ وغیرہ وغیرہ۔ دوسرے معنی اس کے "پس وہ روکے جایا کرتے تھے" یعنی یہ لشکر اتنی بڑی تعداد میں ہوتا تھا کہ راستے میں روک روک کر ان کو درست کیا جاتا تھا کہ شاہی لشکر بدنظمی اور انتشار کا شکار نہ ہو یہ وَزَعَ يَزَعُ سے ہے، جس کے معنی روکنے کے ہیں۔ اسی مادے میں ہمزۂ سلب کا اضافہ کرکے أَوْزِعْنِي بنایا گیا ہے۔ جو اگلی آیت نمبر 19 میں آرہا ہے یعنی ایسی چیزیں مجھ سے دور فرما دے، جو مجھے تیری نعمتوں پر تیرا شکر کرنے سے روکتی ہیں۔ اس کو اردو میں ہم الہام و توفیق سے تعبیر کر لیتے ہیں۔ (فتح القدی، ایسرالتفاسیر و ابن کثیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
حَتَّىٰ إِذَا أَتَوْا عَلَىٰ وَادِ النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَةٌ يَا أَيُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسَاكِنَكُمْ لَا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمَانُ وَجُنُودُهُ وَهُمْ لَا يَشْعُرُ‌ونَ ﴿١٨﴾
جب وہ چیونٹیوں کے میدان میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا اے چیونٹیو! اپنے اپنے گھروں میں گھس جاؤ، ایسا نہ ہو کہ بے خبری میں سلیمان اور اسکا لشکر تمہیں روند ڈالے۔ (١)
١٨۔١ اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ حیوانات میں بھی ایک خاص قسم کا شعور موجود ہوتا ہے۔ گو وہ انسانوں سے بہت کم اور مختلف ہے۔ دوسرا، یہ کہ حضرت سلیمان علیہ السلام اتنی عظمت و فضیلت کے باوجود عالم الغیب نہیں تھے۔ اس لیے چیونٹیوں کو خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں بے خبری میں ہم روند نہ دی جائیں۔ تیسرا، یہ کہ حیوانات بھی اسی عقیدہ صحیحہ سے بہرہ ور تھے اور ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں۔ جیسا کہ آگے آنے والے ہدہد کے واقعے سے بھی اس کی مزید تائید ہوتی ہے۔ چوتھا، یہ کہ حضرت سلیمان علیہ السلام پرندوں کے علاوہ دیگر جانوروں کی بولیاں بھی سمجھتے تھے۔ یہ علم بطور اعجاز اللہ تعالٰی نے انہیں عطا فرمایا تھا، جس طرح تسخیر جنات وغیرہ اعجازی شان تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّن قَوْلِهَا وَقَالَ رَ‌بِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ‌ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْ‌ضَاهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَ‌حْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ ﴿١٩﴾
اس کی اس بات سے حضرت سلیمان مسکرا کر ہنس دیئے اور دعا کرنے لگے کہ اے پروردگار! تو مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمتوں کا شکر بجا لاؤں جو تو نے مجھ پر انعام کی ہیں (١) اور میرے ماں باپ پر اور میں ایسے نیک اعمال کرتا رہوں جن سے تو خوش رہے مجھے اپنی رحمت سے نیک بندوں میں شامل کر لے۔ (۲)
١٩۔١ چیونٹی جیسی حقیر مخلوق کی گفتگو سن کر سمجھ لینے سے حضرت سلیمان علیہ السلام کے دل میں شکر گزاری کا احساس پیدا ہوا کہ اللہ نے مجھ پر کتنا انعام فرمایا ہے۔
۱۹۔۲ اس سے معلوم ہوا کہ جنت، مومنوں ہی کا گھر ہے، اس میں کوئی بھی اللہ کی رحمت کے بغیر داخل نہیں ہو سکے گا۔ اسی لیے حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "سیدھے سیدھے اور حق کے قریب رہو اور یہ بات جان لو کہ کوئی شخص بھی صرف اپنے عمل سے جنت میں نہیں جائے گا۔ صحابہ رضی اللہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، "ہاں، میں بھی اس وقت تک جنت میں نہیں جاؤں گا، جب تک اللہ کی رحمت مجھے اپنے دامن میں نہیں ڈھانک لے گی" (صحیح بخاری و مسلم)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ‌ فَقَالَ مَا لِيَ لَا أَرَ‌ى الْهُدْهُدَ أَمْ كَانَ مِنَ الْغَائِبِينَ ﴿٢٠﴾
آپ نے پرندوں کا جائزہ لیا اور فرمانے لگے یہ کیا بات ہے کہ میں ہدہد کو نہیں دیکھتا؟ کیا واقعی وہ غیر حاضر ہے؟ (١)
٢٠۔١ یعنی موجود تو ہے، مجھے نظر نہیں آرہا یا یہاں موجود ہی نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذَابًا شَدِيدًا أَوْ لَأَذْبَحَنَّهُ أَوْ لَيَأْتِيَنِّي بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ ﴿٢١﴾
یقیناً میں اسے سخت سزا دوں گا، یا اسے ذبح کر ڈالوں گا، یا میرے سامنے کوئی صریح دلیل بیان کرے۔

فَمَكَثَ غَيْرَ‌ بَعِيدٍ فَقَالَ أَحَطتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهِ وَجِئْتُكَ مِن سَبَإٍ بِنَبَإٍ يَقِينٍ ﴿٢٢﴾
کچھ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ آکر اس نے کہا میں ایک ایسی چیز کی خبر لایا ہوں کہ تجھے اس کی خبر ہی نہیں، (١) میں سبا (٢) کی ایک سچی خبر تیرے پاس لایا ہوں۔
۲۲۔۱ احاطہ کے معنی ہیں کسی چیز کی بابت مکمل علم اور معرفت حاصل کرنا۔
٢٢۔۲ سَبَا ایک شخص کے نام پر ایک قوم کا نام بھی تھا اور ایک شہر کا بھی۔ یہاں شہر مراد ہے۔ یہ صنعاء (یمن) سے تین دن کے فاصلے پر ہے اور مارب یمن کے نام سے معروف ہے (فتح القدیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
إِنِّي وَجَدتُّ امْرَ‌أَةً تَمْلِكُهُمْ وَأُوتِيَتْ مِن كُلِّ شَيْءٍ وَلَهَا عَرْ‌شٌ عَظِيمٌ ﴿٢٣﴾
میں نے دیکھا کہ ان کی بادشاہت ایک عورت کر رہی ہے (١) جسے ہر قسم کی چیز سے کچھ نہ کچھ دیا گیا ہے اور اس کا تخت بھی بڑی عظمت والا ہے۔ (٢)
٢٣۔١ یعنی ہدہد کے لئے بھی یہ امر باعث تعجب تھا کہ سبا میں ایک عورت حکمران ہے۔ لیکن آج کل کہا جاتا ہے کہ عورتیں بھی ہر معاملے میں مردوں کے برابر ہیں۔ اگر مرد حکمران ہو سکتاہے تو عورت کیوں نہیں ہو سکتی؟ حالانکہ یہ نظریہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ بعض لوگ ملکہ سبا (بلقیس) کے اس ذکر سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عورت کی سربراہی جائز ہے۔ حالانکہ قرآن نے ایک واقعے کے طور پر اس کا ذکر کیا ہے، اس سے اس کے جواز یا عدم جواز کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ عورت کی سربراہی کے عدم جواز پر قرآن و حدیث میں واضح دلائل موجود ہیں۔
٢٣۔٢ کہا جاتا ہے کہ اس کا طول ٨٠ ہاتھ اور عرض ٤٠ ہاتھ اور انچائی ٣٠ ہاتھ تھی اور اس میں موتی، سرخ یا قوت اور سبز زمرد جڑے ہوئے تھے، واللہ اعلم۔ (فتح القدیر) ویسے یہ قول مبالغے سے خالی نہیں معلوم ہوتا۔ یمن میں بلقیس کا جو محل ٹوٹی پھوٹی شکل میں موجود ہے اس میں اتنے بڑے تخت کی گنجائش نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَجَدتُّهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِن دُونِ اللَّـهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُونَ ﴿٢٤﴾
میں نے اسے اور اس کی قوم کو، اللہ تعالٰی کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہوئے پایا، شیطان نے ان کے کام انہیں بھلے کرکے دکھلا کر صحیح راہ سے روک دیا ہے (١) پس وہ ہدایت پر نہیں آتے۔
٢٤۔١ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح پرندوں کو یہ شعور ہے کہ غیب کا علم انبیا بھی نہیں جانتے، جیسا کہ ہدہد نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو کہا کہ میں ایک ایسی اہم خبر لایا ہوں جس سے آپ بھی بے خبر ہیں، اسی طرح وہ اللہ کی وحدانیت کا احساس و شعور بھی رکھتے ہیں۔ اسی لیے یہاں ہدہد نے حیرت و استعجاب کے انداز میں کہا کہ یہ ملکہ اور اس کی قوم اللہ کے بجائے، سورج کی پجاری ہے اور شیطان کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ جس نے ان کے لیے سورج کی عبادت کو بھلا کر کے دکھلایا ہوا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّـهِ الَّذِي يُخْرِ‌جُ الْخَبْءَ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ ﴿٢٥﴾
کہ اسی اللہ کے لیے سجدے کریں جو(١) آسمانوں اور زمینوں کی پوشیدہ چیزوں کو باہر نکالتا ہے، (٢) اور جو کچھ تم چھپاتے ہو اور ظاہر کرتے ہو وہ سب کچھ جانتا ہے۔
٢٥۔١ أَلا يَسْجُدُوا اس کا تعلق بھی زَيَّنَ کے ساتھ ہے۔ یعنی شیطان نے یہ بھی ان کے لیے مزین کردیا ہے کہ وہ اللہ کو سجدہ نہ کریں۔ یا اس میں لا يَهْتَدُونَ عامل ہے اور لا زائد ہے۔ یعنی ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ سجدہ صرف اللہ کو کریں۔ (فتح القدیر)
٢٥۔٢ یعنی آسمان سے بارش برساتا اور زمین سے اس کی مخفی چیزیں نباتات، معدنیات اور دیگر زمینی خزانے ظاہر فرماتا اور نکالتا ہے۔ خَبْءٌ مصدر ہے مفعول مَخْبُوءٌ (چھپی ہوئی چیز) کےمعنی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ رَ‌بُّ الْعَرْ‌شِ الْعَظِيمِ ۩ ﴿٢٦﴾
اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ عظمت والے عرش کا مالک ہے۔

قَالَ سَنَنظُرُ‌ أَصَدَقْتَ أَمْ كُنتَ مِنَ الْكَاذِبِينَ ﴿٢٧﴾
سلیمان (١) نے کہا، اب ہم دیکھیں گے کہ تو نے سچ کہا ہے یا تو جھوٹا ہے۔
٢٧۔١ مالک تو اللہ تعالٰی کائنات کی ہر چیز کا ہے لیکن یہاں صرف عرش عظیم کا ذکر کیا، ایک تو اس لیے کہ عرش الٰہی کائنات کی سب سے بڑی چیز اور سب سے برتر ہے۔ دوسرے، یہ واضح کرنے کے لیے کہ ملکہ سبا کا تخت شاہی بھی، گو بہت بڑا ہے لیکن اسے عرش عظیم سے کوئی نسبت ہی نہیں ہے جس پر اللہ تعالٰی اپنی شان کے مطابق مستوی ہے۔ ہدہد نے چونکہ توحید کا وعظ اور شرک کا رد کیا ہے اور اللہ کی عظمت و شان کو بیان کیا ہے، اس لیے حدیث میں آتا ہے "چار جانوروں کو قتل مت کرو۔ چیونٹی، شہد کی مکھی، ہدہد اور صرد یعنی لٹورا" (مسند أحمد / 332۔ أبو داود، كتاب الأدب، باب في قتل الذر، وابن ماجہ كتاب الصيد، باب ما ينهى عن قتله) صرد (لٹورا) اس کا سر بڑا، پیٹ سفید اور پیٹھ سبز ہوتی ہے، یہ چھوٹے چھوٹے پرندوں کا شکار کرتا ہے۔ (حاشیہ ابن کثیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اذْهَب بِّكِتَابِي هَـٰذَا فَأَلْقِهْ إِلَيْهِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْهُمْ فَانظُرْ‌ مَاذَا يَرْ‌جِعُونَ ﴿٢٨﴾
میرے اس خط کو لے جا کر انہیں دے دے پھر ان کے پاس سے ہٹ آ اور دیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں۔ (١)
٢٨۔١ یعنی ایک جانب ہٹ کر چھپ جا اور دیکھ کہ وہ آپس میں کیا گفتگو کرتے ہیں۔
 
Top