• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
قَالَ رَ‌بِّ أَنَّىٰ يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَقَدْ بَلَغَنِيَ الْكِبَرُ‌ وَامْرَ‌أَتِي عَاقِرٌ‌ ۖ قَالَ كَذَٰلِكَ اللَّـهُ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ ﴿٤٠﴾
کہنے لگے اے میرے رب! میرے ہاں بچہ کیسے ہو گا؟ میں بالکل بوڑھا ہو گیا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے، فرمایا، اسی طرح اللہ تعالٰی جو چاہے کرتا ہے۔

قَالَ رَ‌بِّ اجْعَل لِّي آيَةً ۖ قَالَ آيَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ إِلَّا رَ‌مْزًا ۗ وَاذْكُر‌ رَّ‌بَّكَ كَثِيرً‌ا وَسَبِّحْ بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِ‌ ﴿٤١﴾
کہنے لگے پروردگار! میرے لیے اس کی کوئی نشانی مقرر کر دے، فرمایا، نشانی یہ ہے کہ تین دن تک تو لوگوں سے بات نہ کر سکے گا، صرف اشارے سے سمجھائے گا، تو اپنے رب کا ذکر کثرت سے کر اور صبح شام اسی کی تسبیح (۱) بیان کرتا رہ!۔
٤١۔ ١ بڑھاپے میں معجزانہ طور پر اولاد کی خوش خبری سن کر اشتیاق میں اضافہ ہوا اور نشانی معلوم کرنی چاہی۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ تین دن تیری زبان بند ہو جائے گی۔ جو ہماری طرف سے بطور نشانی ہو گی لیکن تو اس خاموشی میں کثرت سے صبح و شام اللہ کی تسبیح بیان کیا کر۔ تاکہ اس نعمت الٰہی کا جو تجھے ملنے والی ہے، شکر ادا ہو۔ یہ گویا سبق دیا گیا کہ اللہ تعالٰی تمہاری طلب کے مطابق تمہیں مزید نعمتوں سے نوازے تو اسی حساب سے اس کا شکر بھی زیادہ سے زیادہ کرو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
وَإِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْ‌يَمُ إِنَّ اللَّـهَ اصْطَفَاكِ وَطَهَّرَ‌كِ وَاصْطَفَاكِ عَلَىٰ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ ﴿٤٢﴾
اور جب فرشتوں نے کہا، اے مریم! اللہ تعالٰی نے تجھے برگزیدہ کر لیا اور تجھے پاک کر دیا اور سارے جہان کی عورتوں میں سے تیرا انتخاب کر لیا۔
٤٢۔١ حضرت مریم علیہا السلام کا یہ شرف وفضل ان کے اپنے زمانے کے اعتبار سے ہے کیونکہ صحیح احادیث میں حضرت مریم علیہا السلام کے ساتھ حضرت خدیجہ رضی الله عنہا کو بھی خَيْرُ نِسَائِهَا (سب عورتوں میں بہتر) کہا گیا ہے۔ اور بعض احادیث میں چار عورتوں کو کامل قراردیا گیا ہے۔ حضرت مریم، حضرت آسیہ (فرعون کی بیوی)، حضرت خدیجہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہن۔ اور حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی بابت کہا گیا ہے کہ انکی فضیلت دیگر تمام عورتوں پر ایسے ہے جیسے ثرید کو تمام کھانوں پر فوقیت حاصل ہے۔ (ابن کثیر) اور ترمذی کی روایت میں حضرت فاطمہ رضی الله عنہا بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی فضیلت والی عورتوں میں شامل کیا گیا ہے (ابن کثیر) اس کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ مذکورہ خواتین ان چند عورتوں میں سے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے دیگر عورتوں پر فضیلت اور بزرگی عطا فرمائی یا یہ کہ اپنے اپنے زمانے میں فضیلت رکھتی ہیں۔ واللہ اعلم۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
يَا مَرْ‌يَمُ اقْنُتِي لِرَ‌بِّكِ وَاسْجُدِي وَارْ‌كَعِي مَعَ الرَّ‌اكِعِينَ ﴿٤٣﴾
اے مریم! تم اپنے رب کی اطاعت کر اور سجدہ کر اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کر۔

ذَٰلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ ۚ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقُونَ أَقْلَامَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْ‌يَمَ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يَخْتَصِمُونَ ﴿٤٤﴾
یہ غیب کی خبروں میں سے ہے جسے ہم تیری طرف وحی سے پہنچاتے ہیں، تو ان کے پاس نہ تھا جب کہ وہ اپنے قلم ڈال رہے تھے کہ مریم کو ان میں سے کون پا لے گا؟ اور نہ تو ان کے جھگڑنے کے وقت ان کے پاس تھا۔ (١)
٤٤۔١ آج کل کے اہل بدعت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں غلو عقیدت کا مظاہرہ کرتے ہوئے، ان کے اللہ تعالیٰ کی طرح عالم الغیب اور ہر جگہ حاضر و ناظر ہونے کا عقیدہ گھڑ رکھا ہے۔ اس آیت سے ان دونوں عقیدوں کی واضح تردید ہوتی ہے۔ اگر آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب ہوتے، تو اللہ تعالیٰ یہ نہ فرماتا کہ ہم غیب کی خبریں آپ کو بیان کر رہے ہیں کیونکہ جس کو پہلے ہی علم ہو، اس کو اس طرح نہیں کہا جاتا اور اسی طرح حاضر و ناظر کو یہ نہیں کہا جاتا کہ آپ اس وقت وہاں موجود نہیں تھے جب لوگ قرعہ اندازی کے لیے قلم ڈال رہے تھے۔ قرعہ اندازی کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ حضرت مریم علیہا السلام کی کفالت کے اور بھی کئی خواہش مند تھے۔ ﴿ذَلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ﴾ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور آپ کی صداقت کا اثبات بھی ہے جس میں یہودی اور عیسائی شک کرتے تھے کیونکہ وحی شریعت پیغمبر پر ہی آتی ہے، غیر پیغمبر پر نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
إِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْ‌يَمُ إِنَّ اللَّـهَ يُبَشِّرُ‌كِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْ‌يَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَ‌ةِ وَمِنَ الْمُقَرَّ‌بِينَ ﴿٤٥﴾
جب فرشتوں نے کہا اے مریم! اللہ تعالٰی تجھے اپنے ایک کلمے (١) کی خوشخبری دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ بن (٢) مریم ہے جو دنیا اور آخرت میں ذی عزت ہے اور وہ میرے مقربین میں سے ہے۔
٤٥۔١ حضرت عیسیٰ عليه السلام کو کلمہ یعنی کلمۃ اللہ اس اعتبار سے کہا گیا ہے کہ ان کی ولادت اعجازی شان کی مظہر اور عام انسانی اصول کے برعکس، باپ کے بغیر، اللہ کی خاص قدرت اور اس کے کلمہ کن کی تخلیق ہے۔
٤٥۔٢ مَسِيحٌ مسح سے ہے أي: مَسَحَ الأَرْضَ یعنی کثرت سے زمین کی سیاحت کرنے والا، یا اس کے معنی ہاتھ پھیرنے والا ہے، کیونکہ آپ ہاتھ پھیر کر مریضوں کو باذن اللہ شفایاب فرماتے تھے۔ ان دونوں معنوں کے اعتبار سے یہ فَعِيلٌ بمعنی فاعل ہے اور قیامت کے قریب ظاہر ہونے والے دجال کو جو مسیح کہا جاتا ہے وہ یا تو بمعنی مفعول یعنی مَمْسُوحُ الْعَينِ (اس کی ایک آنکھ کانی ہو گی) کے اعتبار سے ہے یا وہ بھی چونکہ کثرت سے دنیا میں پھرے گا اور مکہ اور مدینہ کے سوا ہر جگہ پہنچے گا (بخاری و مسلم) اور بعض روایات میں بیت المقدس کا بھی ذکر ہے اس لیے اسے بھی الْمَسِيحُ الدَّجَّالُ کہا جاتا ہے۔ عام اہل تفسیر نے عموماً یہی بات درج کی ہے۔ کچھ اور محققین کہتے ہیں کہ مسیح یہود و نصاریٰ کی اصطلاح میں بڑے مامور من اللہ پیغمبر کو کہتے ہیں، یعنی ان کی یہ اصطلاح تقریباً اولوالعزم پیغمبر کے ہم معنی ہے۔ دجال کو مسیح اس لیے کہا گیا ہے کہ یہود کو جس انقلاب آفریں مسیح کی بشارت دی گئی ہے۔ اور جس کے وہ غلط طور پر اب بھی منتظر ہیں، دجال اسی مسیح کے نام پر آئے گا یعنی اپنے آپ کو وہی مسیح قرار دے گا۔ مگر وہ اپنے اس دعویٰ سمیت تمام دعوؤں میں دجل و فریب کا اتنا بڑا پیکر ہو گا کہ اولین و آخرین میں اس کی کوئی مثال نہ ہو گی اس لیے وہ الدجال کہلائے گا۔ اور عیسیٰ عجمی زبان کا لفظ ہے۔ بعض کے نزدیک یہ عربی اورعَاسَ يَعُوسُ سے مشتق ہے جس کے معنی سیاست و قیادت کے ہیں (قرطبی وفتح القدیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا وَمِنَ الصَّالِحِينَ ﴿٤٦﴾
وہ لوگوں سے اپنے گہوارے میں باتیں کرے گا اور ادھیڑ عمر میں بھی (١) اور وہ نیک لوگوں میں سے ہو گا۔
٤٦۔١ حضرت عیسیٰ عليه السلام کےمَهْدٌ (گہوارے) میں گفتگو کرنے کا ذکر خود قرآن کریم کی سورۂ مریم میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ صحیح حدیث میں دو بچوں کا ذکر اور ہے۔ ایک صاحب جریج اور ایک اسرائیلی عورت کا بچہ (صحیح بخاری، کتاب الانبیاء، باب ﴿وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ ﴾ اس روایت میں جن تین بچوں کا ذکر ہے، ان سب کا تعلق بنو اسرائیل سے ہے، کیونکہ ان کے علاوہ صحیح مسلم میں اصحاب الاخدود کے قصے میں بھی شیر خوار بچے کے بولنے کا ذکر ہے۔ اور حضرت یوسف کی بابت فیصلہ کرنے والے شاہد کے بارے میں جو مشہور ہے کہ وہ بچہ تھا، صحیح نہیں ہے۔ بلکہ وہ ذُولِحْيَةٍ ( داڑھی والا) تھا (الضعیفہ۔ رقم 881) كَهْلٌ (ادھیڑ عمر) میں کلام کرنے کا مطلب بعض نے یہ بیان کیا ہے کہ جب وہ بڑے ہو کر وحی اور رسالت سے سرفراز کیے جائیں گے اور بعض نے کہا ہے کہ آپ کا قیامت کے قریب جب آسمان سے نزول ہو گا جیسا کہ اہل سنت کا عقیدہ ہے جو صحیح اور متواتر احادیث سے ثابت ہے، تو اس وقت جو وہ اسلام کی تبلیغ کریں گے، وہ کلام مراد ہے۔ (تفسیر ابن کثیر وقرطبی)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
قَالَتْ رَ‌بِّ أَنَّىٰ يَكُونُ لِي وَلَدٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ‌ ۖ قَالَ كَذَٰلِكِ اللَّـهُ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ إِذَا قَضَىٰ أَمْرً‌ا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ ﴿٤٧﴾
کہنے لگیں الہٰی مجھے لڑکا کیسے ہو گا؟ حالانکہ مجھے تو کسی انسان نے ہاتھ بھی نہیں لگایا، فرشتے نے کہا، اسی طرح اللہ تعالٰی جو چاہے پیدا کرتا ہے، جب کبھی وہ کسی کام کو کرنا چاہتا ہے تو صرف یہ کہہ دیتا ہے ہو جا! تو وہ ہو جاتا ہے۔ (١)
٤٧۔١ تیرا تعجب بجا، لیکن قدرت الٰہی کے لیے یہ کوئی مشکل بات نہیں ہے، وہ تو جب چاہے اسباب عادیہ و ظاہریہ کا سلسلہ ختم کر کے حکم کن سے پلک جھپکتے میں جو چاہے کر دے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
وَيُعَلِّمُهُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَ‌اةَ وَالْإِنجِيلَ ﴿٤٨﴾
اللہ تعالٰی اسے لکھنا (١) اور حکمت اور توراۃ اور انجیل سکھائے گا۔
٤٨۔١ كِتَابٌ سے مراد کتابت (لکھنا) ہے۔ جیسا کہ ترجمہ میں اختیار کیا گیا ہے یا انجیل وتورات کے علاوہ کوئی اور کتاب ہے جس کا علم اللہ تعالیٰ نے انہیں دیا (قرطبی) یا تورات و انجیل، الْكِتَابُ اورالْحِكْمَةُ کی تفسیر ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
وَرَ‌سُولًا إِلَىٰ بَنِي إِسْرَ‌ائِيلَ أَنِّي قَدْ جِئْتُكُم بِآيَةٍ مِّن رَّ‌بِّكُمْ ۖ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ‌ فَأَنفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرً‌ا بِإِذْنِ اللَّـهِ ۖ وَأُبْرِ‌ئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَ‌صَ وَأُحْيِي الْمَوْتَىٰ بِإِذْنِ اللَّـهِ ۖ وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُ‌ونَ فِي بُيُوتِكُمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿٤٩﴾
اور وہ بنی اسرائیل کی طرف رسول ہو گا، کہ میں تمہارے پاس تمہارے رب کی نشانی لایا ہوں، میں تمہارے لیے پرندے کی شکل کی طرح مٹی کا پرندہ بناتا ہوں، (١) پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ تعالٰی کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے اور اللہ تعالٰی کے حکم سے میں مادر زاد اندھے کو اور کوڑھی کو اچھا کر دیتا ہوں اور مردے کو زندہ کرتا ہوں (٢) اور جو کچھ تم کھاؤ اور جو اپنے گھروں میں ذخیرہ کرو میں تمہیں بتا دیتا ہوں، اس میں تمہارے لیے بڑی نشانی ہے، اگر تم ایمان لانے والے ہو۔
٤٩۔١ أَخْلُقُ لَكُمْ- أَي: أُصَوِّرُ وَأُقَدِّرُ لَكُمْ (قرطبی) یعنی خلق یہاں پیدائش کے معنی میں نہیں ہے، اس پر تو صرف اللہ تعالیٰ ہی قادر ہے کیونکہ وہی خالق ہے۔ یہاں اس کے معنی ظاہری شکل و صورت گھڑنے اور بنانے کے ہیں۔
٤٩۔٢ دوبارہ باذن اللہ (اللہ کے حکم سے) کہنے سے مقصد یہی ہے کہ کوئی شخص اس غلط فہمی کا شکار نہ ہو جائے کہ میں خدائی صفات یا اختیارات کا حامل ہوں۔ نہیں، میں تو اس کا عاجز بندہ اور رسول ہی ہوں۔ یہ جو کچھ میرے ہاتھ پر ظاہر ہو رہا ہے، معجزہ ہے جو محض اللہ کے حکم سے صادر ہو رہا ہے۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں۔ کہ اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو اس کے زمانے کے حالات کے مطابق معجزے عطا فرمائے تاکہ اس کی صداقت اور بالا تری نمایاں ہو سکے۔ حضرت موسیٰ عليه السلام کے زمانے میں جادوگری کا بڑا زور تھا، انہیں ایسا معجزہ عطا فرمایا گیا جس کے سامنے بڑے بڑے جادوگر اپنا کرتب دکھانے میں ناکام رہے جس سے ان پر حضرت موسیٰ عليه السلام کی صداقت واضح ہوئی اور وہ ایمان لے آئے۔ حضرت عیسیٰ عليه السلام کے زمانے میں طب کا بڑا چرچہ تھا، چنانچہ انہیں مردہ کو زندہ کر دینے، مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو اچھا کر دینے کا معجزہ عطا فرمایا گیا جو کوئی بھی بڑا سے بڑا طبیب اپنے فن کے ذریعے سے کرنے پر قادر نہیں تھا۔ ہمارے پیغمبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں شعر و ادب اور فصاحت و بلاغت کا زور تھا، چنانچہ انہیں قرآن جیسا فصیح و بلیغ اور پُر اعجاز کلام عطا فرمایا گیا، جس کی نظیر پیش کرنے سے دنیا بھر کے فصحا و بلغا اور ادبا و شعرا عاجز رہے اور چیلنج کے باوجود آج تک عاجز ہیں اور قیامت تک عاجز رہیں گے۔ (ابن کثیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَ‌اةِ وَلِأُحِلَّ لَكُم بَعْضَ الَّذِي حُرِّ‌مَ عَلَيْكُمْ ۚ وَجِئْتُكُم بِآيَةٍ مِّن رَّ‌بِّكُمْ فَاتَّقُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُونِ ﴿٥٠﴾
اور میں توراۃ کی تصدیق کرنے والا ہوں جو میرے سامنے ہے اور میں اس لیے آیا ہوں کہ تم پر بعض وہ چیزیں حلال کروں جو تم پر حرام کر دی گئی ہیں (١) اور میں تمہارے پاس تمہارے رب کی نشانی لایا ہوں، اس لیے تم اللہ سے ڈرو اور میری فرمانبرداری کرو!
٥٠۔١ اس سے مراد یا تو وہ بعض چیزیں ہیں جو بطور سزا اللہ تعالٰی نے ان پر حرام کر دی تھیں یا پھر وہ چیزیں جو ان کے علماء نے اجتہاد کے ذریعے سے حرام کی تھیں اور اجتہاد میں ان سے غلطی کا ارتکاب ہوا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اس غلطی کا ازالہ کر کے انہیں حلال قرار دیا۔ (ابن کثیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
إِنَّ اللَّـهَ رَ‌بِّي وَرَ‌بُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۗ هَـٰذَا صِرَ‌اطٌ مُّسْتَقِيمٌ ﴿٥١﴾
یقین مانو! میرا اور تمہارا رب اللہ ہی ہے، تم سب اسی کی عبادت کرو، یہی سیدھی راہ ہے۔
٥١۔١ یعنی اللہ کی عبادت کرنے میں اور اس کے سامنے ذلت و عاجزی کے اظہار میں میں اور تم دونوں برابر ہیں۔ اس لیے سیدھا راستہ صرف یہ ہے کہ ایک اللہ کی عبادت کی جائے اور اس کی الوہیت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔
 
Top