• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِ‌كَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُ‌وفًا ۖ وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ۚ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْ‌جِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿١٥﴾
اور اگر وہ دونوں تجھ پر اس بات کا دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ شریک کرے جس کا تجھے علم نہ ہو تو تو ان کا کہنا نہ ماننا، ہاں دنیا میں ان کے ساتھ اچھی طرح بسر کرنا اور اس کی راہ چلنا جو میری طرف جھکا ہو (١) تمہارا سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے تم جو کچھ کرتے ہو اس سے پھر میں تمہیں خبردار کردوں گا۔
١٥۔١ یعنی مومنین کی راہ۔
١٥۔۲یعنی میری طرف رجوع کرنے والوں کی پیروی اس لیے کرو کہ بالآخر تم سب کو میری ہی بارگاہ میں آنا ہے، اور میری ہی طرف سے ہر ایک کو اس کے اچھے یا برے عمل کی جزا ملنی ہے۔ اگر تم میرے راستے کی پیروی کرو گے اور مجھے یاد رکھتے ہوئے زندگی گزارو گے تو امید ہے کہ قیامت والے روز میری عدالت میں سرخرو ہو گے بصورت دیگر میرے عذاب میں گرفتار ہو گے۔ سلسلہ کلام حضرت لقمان کی وصیتوں سے متعلق تھا۔ اب آگے پھر وہی وصیتیں بیان کی جارہی ہیں۔ جو لقمان نے اپنے بیٹے کو کی تھیں۔ درمیان کی دو آیتوں میں اللہ تبارک وتعالی نے جملہ معترضہ کے طور پر ماں باپ کے ساتھ احسان کی تاکید فرمائی۔ جس کی ایک وجہ تو یہ بیان کی گئی ہے کہ لقمان نے یہ وصیت اپنے بیٹے کو نہیں کی تھی کیونکہ اس میں ان کا اپنا ذاتی مفاد بھی تھا۔ دوسرا یہ واضح ہو جائے کہ اللہ کی توحید و عبادت کے بعد والدین کی خدمت و اطاعت ضروری ہے۔ تیسرا یہ کہ شرک اتنا بڑا گناہ ہے کہ اگر اس کا حکم والدین بھی دیں تو ان کی بات نہیں ماننی چاہیے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
يَا بُنَيَّ إِنَّهَا إِن تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْ‌دَلٍ فَتَكُن فِي صَخْرَ‌ةٍ أَوْ فِي السَّمَاوَاتِ أَوْ فِي الْأَرْ‌ضِ يَأْتِ بِهَا اللَّـهُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ‌ ﴿١٦﴾
پیارے بیٹے! اگر کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر ہو (١) پھر وہ (بھی) خواہ کسی چٹان میں ہو یا آسمانوں میں ہو یا زمین میں ہو اسے اللہ تعالٰی ضرور لائے گا اللہ تعالٰی بڑا باریک بین اور خبردار ہے۔
١٦۔١ ان تک کا مرجع خطیئۃ ہو تو مطلب گناہ اور اللہ کی نافرمانی والا کام ہے۔ اور اگر اس کا مرجع خصلۃ ہو تو مطلب اچھائی یا برائی کی خصلت ہوگا۔ مطلب یہ کہ انسان اچھا یا برا کام کتنا بھی چھپ کر کرے، اللہ سے چھپا نہیں رہ سکتا، قیامت والے دن اللہ تعالٰی اسے حاضر کر لے گا، یعنی اس کی جزا دے گا اچھے عمل کی اچھی جزا، برے عمل کی بری جزا، رائی کے دانے کی مثال اس لئے دی کہ وہ اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ جس کا وزن محسوس ہوتا ہے نہ تول میں ترازو کے پلڑے جھکا سکتا ہے۔ اسی طرح چٹان (آبادی سے دور جنگل، پہاڑ میں) مخفی ترین جگہ ہے یہ مضمون حدیث میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ فرمایا ' اگر تم میں سے کوئی شخص بےسوراخ کے پتھر میں بھی عمل کرے گا، جس کا کوئی دروازہ ہو نہ کھڑکی، اللہ تعالٰی اسے لوگوں پر ظاہر فرما دے گا، چاہے وہ کیسا ہی عمل ہو ' (مسند احمد، ٣۔٢٨) اس لیے کہ وہ لطیف وباریک بین ہے۔ اس کا علم مخفی ترین چیز تک محیط ہے اور خبیر ہے اندھیری رات میں چلنے والی چیونٹی کی حرکات و سکنات سے بھی وہ باخبر ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ‌ بِالْمَعْرُ‌وفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنكَرِ‌ وَاصْبِرْ‌ عَلَىٰ مَا أَصَابَكَ ۖ إِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ‌ ﴿١٧﴾
اے میرے پیارے بیٹے! تو نماز قائم رکھنا اچھے کاموں کی نصیحت کرتے رہنا، برے کاموں سے منع کیا کرنا اور جو مصیبت تم پر آئے صبر کرنا (١) (یقین مان) کہ یہ بڑے تاکیدی کاموں میں سے ہے (٢)
١٧۔١ اقامۃ صلوۃ، امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور مصائب پر صبر کا اس لئے ذکر کیا کہ یہ تینوں اہم ترین عبادات اور امور خیر کی بنیاد ہیں۔
١٧۔٢ یعنی مذکورہ باتیں ان کاموں میں سے ہیں جن کی اللہ تعالٰی نے تاکید فرمائی ہے اور بندوں پر انہیں فرض قرار دیا ہے۔ یا یہ ترغیب ہے عزم و ہمت پیدا کرنے کی کیونکہ عزم و ہمت کے بغیر اطاعت مذکورہ عمل ممکن نہیں۔ بعض مفسرین کے نزدیک ذَالِکَ کا مرجع صبر ہے۔ اس سے پہلے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی وصیت ہے اور اس راہ میں شدائد و مصائب اور طعن و ملامت ناگزیر ہے، اس لئے اس کے فوراً بعد صبر کی تلقین کرکے واضح کر دیا کہ صبر کا دامن تھامے رکھنا کہ یہ عزم و ہمت کے کاموں میں سے ہے اور اہل عزم و ہمت کا ایک بڑا ہتھیار، اس کے بغیر فریضہ تبلیغ کی ادائیگی ممکن نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَلَا تُصَعِّرْ‌ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْ‌ضِ مَرَ‌حًا ۖ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ‌ ﴿١٨﴾
لوگوں کے سامنے اپنے گال نہ پھلا (١) اور زمین پر اکڑ کر نہ چل (٢) کسی تکبر کرنے والے شیخی خورے کو اللہ پسند نہیں فرماتا۔
١٨۔١ یعنی تکبر نہ کر کہ لوگوں کو حقیر سمجھے اور جب وہ تجھ سے ہم کلام ہوں تو ان سے منہ پھیر لے۔ یا گفتگو کے وقت اپنا منہ پھیرے رکھے؛ صعر ایک بیماری ہے جو اونٹ کے سر یا گردن میں ہوتی ہے، جس سے اس کی گردن مڑ جاتی ہے، یہاں بطور تکبر منہ پھیر لینے کے معنی میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے (ابن کثیر)
١٨۔۲یعنی ایسی چال یا رویہ جس سے مال ودولت یا جاہ و منصب یا قوت و طاقت کی وجہ سے فخر و غرور کا اظہار ہوتا ہو، یہ اللہ کو ناپسند ہے، اس لیے کہ انسان ایک بندہ عاجز وحقیر ہے، اللہ تعالٰی کو یہی پسند ہے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق عاجزی وانکساری ہی اختیار کیے رکھے اس سے تجاوز کر کے بڑائی کا اظہار نہ کرے کہ بڑائی صرف اللہ ہی کے لیے زیبا ہے جو تمام اختیارات کا مالک اور تمام خوبیوں کا منبع ہے۔ اسی لیے حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کے دل میں ایک رائی کے دانے کے برابر بھی کبر ہوگا۔ جو تکبر کے طور پر اپنے کپڑے کو گھسیٹتے ہوئے چلے اللہ اس کی طرف قیامت والے دن نہیں دیکھے گا۔ تاہم تکبر کا اظہار کیے بغیر اللہ کے انعامات کا ذکر یا اچھا لباس اور خوراک وغیرہ کا استعمال جائز ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِن صَوْتِكَ ۚ إِنَّ أَنكَرَ‌ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ‌ ﴿١٩﴾
اپنی رفتار میں میانہ روی اختیار کر (١) اور اپنی آواز پست کر (٢) یقیناً آوازوں میں سب سے بدتر آواز گدھوں کی آواز ہے۔
١٩۔١ یعنی چال اتنی سست نہ ہو جیسے کوئی بیمار ہو اور نہ اتنی تیز ہو کہ شرف و وقار کے خلاف ہو۔ اسی کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا (يَمْشُوْنَ عَلَي الْاَرْضِ هَوْنًا) 25۔ الفرقان:63) اللہ کے بندے زمین پر وقار اور سکونت کے ساتھ چلتے ہیں۔
١٩۔٢ یعنی چیخ یا چلا کر بات نہ کر، اس لئے کہ زیادہ اونچی آواز سے بات کرنا پسندیدہ ہوتا تو گدھے کی آواز سب سے اچھی سمجھی جاتی لیکن ایسا نہیں، بلکہ گدھے کی آواز سب سے بدتر اور بری ہے۔ اس لئے حدیث میں آتا ہے کہ ' گدھے کی آواز سنو تو شیطان سے پناہ مانگو (بخاری، کتاب بدء الخلق اور مسلم وغیرہ)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
أَلَمْ تَرَ‌وْا أَنَّ اللَّـهَ سَخَّرَ‌ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْ‌ضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَ‌ةً وَبَاطِنَةً ۗ وَمِنَ النَّاسِ مَن يُجَادِلُ فِي اللَّـهِ بِغَيْرِ‌ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا كِتَابٍ مُّنِيرٍ‌ ﴿٢٠﴾
کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالٰی نے زمین اور آسمان کی ہرچیز کو ہمارے کام میں لگا رکھا ہے (١) اور تمہیں اپنی ظاہری و باطنی نعمتیں بھرپور دے رکھی ہیں (٢) بعض لوگ اللہ کے بارے میں بغیر علم کے بغیر ہدایت کے اور بغیر روشن کتاب کے جھگڑا کرتے ہیں (٣)۔
٢٠۔١ تسخیر کا مطلب ہے انتفاع (فائدہ اٹھانا) جس کو ' یہاں کام سے لگا دیا ' سے تعبیر کیا گیا ہے جیسے آسمانی مخلوقْ، چاند، سورج، ستارے وغیرہ ہیں، انہیں اللہ تعالٰی نے ایسے ضابطوں کا پابند بنا دیا ہے کہ یہ انسانوں کے لئے کام کر رہے ہیں اور انسان ان سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ دوسرا مطلب تسخیر کا تابع بنا دینا ہے۔ چنانچہ بہت سی زمینی مخلوق کو انسان کے تابع بنا دیا گیا ہے جنہیں انسان اپنی حسب منشا استعمال کرتا ہے جیسے زمین اور حیوانات وغیرہ ہیں، گویا تسخیر کا مفہوم یہ ہوا کہ آسمان و زمین کی تمام چیزیں انسانوں کے فائدے کے لئے کام میں لگی ہوئی ہیں، چاہے وہ انسان کے تابع اور اس کے زیر اثر تصرف ہوں یا اس کے تصرف اور تابعیت سے بالا ہوں۔ (فتح القدیر)
٢٠۔٢ ظاہری سے وہ نعمتیں مراد ہیں جن کا ادراک عقل، حواس وغیرہ سے ممکن ہو اور باطنی نعمتیں وہ جن کا ادراک و احساس انسان کو نہیں۔ یہ دونوں قسم کی نعمتیں اتنی ہیں کہ انسان ان کو شمار بھی نہیں کر سکتا۔
٢٠۔٣ یعنی اس کے باوجود لوگ اللہ کی بابت جھگڑتے ہیں، کوئی اس کے وجود کے بارے میں کوئی اس کے ساتھ شریک گرداننے میں اور کوئی اس کے احکام و شرائع کے بارے میں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللَّـهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۚ أَوَلَوْ كَانَ الشَّيْطَانُ يَدْعُوهُمْ إِلَىٰ عَذَابِ السَّعِيرِ‌ ﴿٢١﴾
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کی تابعداری کرو تو کہتے ہیں کہ ہم نے تو جس طریق (١) پر اپنے باپ دادوں کو پایا ہے اسی کی تابعداری کریں گے، اگرچہ شیطان ان کے بڑوں کو دوزخ کے عذاب کی طرف بلاتا ہو۔
٢١۔١ یعنی ان کے پاس کوئی عقلی دلیل ہے، نہ کسی ہادی کی ہدایت اور نہ کسی کتاب آسمانی سے کوئی ثبوت، گویا کہ لڑتے ہیں ہاتھ میں تلوار بھی نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَمَن يُسْلِمْ وَجْهَهُ إِلَى اللَّـهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْ‌وَةِ الْوُثْقَىٰ ۗ وَإِلَى اللَّـهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ‌ ﴿٢٢﴾
اور جو (شخص) اپنے آپ کو اللہ کے تابع کر دے (١) اور ہو بھی نیکوکار (٢) یقیناً اس نے مضبوط کڑا تھام لیا (۳) تمام کاموں کا انجام اللہ کی طرف ہے۔
٢٢۔١ یعنی صرف اللہ کی رضا کے لئے عمل کرے اس کے حکم کی اطاعت اور اس کی شریعت کی پیروی کرے۔
٢٢۔٢ یعنی ما مور بہ چیزوں کا اتباع اور منہیات کو ترک کرنے والا۔
٢٢۔۳ یعنی اللہ سے اس نے مضبوط عہد لے لیا کہ وہ اس کو عذاب نہیں کرے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَمَن كَفَرَ‌ فَلَا يَحْزُنكَ كُفْرُ‌هُ ۚ إِلَيْنَا مَرْ‌جِعُهُمْ فَنُنَبِّئُهُم بِمَا عَمِلُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ‌ ﴿٢٣﴾
کافروں کے کفر سے آپ رنجیدہ نہ ہوں (١) آخر ان سب کا لوٹنا تو ہماری جانب ہی ہے پھر ہم ان کو بتائیں گے جو انہوں نے کیا، بیشک اللہ سینوں (٢) کے بھید (٣) تک سے واقف ہے۔
٢٣۔١ اس لئے کہ ایمان کی سعادت ان کے نصیب میں ہی نہیں ہے۔ آپ کی کوشش اپنی جگہ بجا اور آپ کی خواہش بھی قابل قدر لیکن اللہ کی تقدیر اور مشیت سب پر غالب ہے۔
٢٣۔٢ یعنی ان کے عملوں کی جزا دے گا۔
٢٣۔٣ پس اس پر کوئی چیز چھپی نہیں رہ سکتی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
نُمَتِّعُهُمْ قَلِيلًا ثُمَّ نَضْطَرُّ‌هُمْ إِلَىٰ عَذَابٍ غَلِيظٍ ﴿٢٤﴾
ہم انہیں گو کچھ یونہی فائدہ دے دیں لیکن (بالآخر) ہم انہیں نہایت بیچارگی کی حالت میں سخت عذاب کی طرف ہنکالے جائیں گے (١)
٢٤۔١ یعنی دنیا میں آخر کب تک رہیں گے اور اس کی لذتوں اور نعمتوں سے کہاں تک شاد کام ہونگے؟ یہ دنیا اور اسکی لذتیں تو چند روزہ ہیں، اس کے بعد ان کے لئے سخت عذاب ہی عذاب ہے۔
 
Top