• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ لَيَقُولُنَّ اللَّـهُ ۚ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّـهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُ‌هُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿٢٥﴾
اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ آسمان و زمین کا خالق کون ہے؟ تو ضرور جواب دیں گے کہ اللہ (١) تو کہہ دیجئے کہ سب تعریفوں کے لائق اللہ ہی ہے (٢) لیکن ان میں اکثر بےعلم ہیں۔
٢٥۔١ یعنی ان کو اعتراف ہے کہ آسمانوں و زمین کا خالق اللہ ہے نہ کہ وہ معبود جن کی وہ عبادت کرتے ہیں۔
٢٥۔٢ اس لئے کہ ان کے اعتراف سے ان پر حجت قائم ہوگئی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
لِلَّـهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ ﴿٢٦﴾
آسمانوں میں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ سب اللہ ہی کا ہے (١) یقیناً اللہ تعالٰی بہت بڑا بےنیاز (٢) اور سزاوار حمد ثنا ہے (٣)۔
٢٦۔١ یعنی ان کا خالق بھی وہی ہے، مالک بھی وہی اور مدبر و متصرف کائنات کا محتاج بھی وہی۔
٢٦۔٢ بےنیاز ہے اپنے ماسوائے یعنی ہرچیز اس کی محتاج ہے، وہ کسی کا محتاج نہیں۔
٢٦۔٣ اپنی تمام پیدا کردہ چیزوں میں۔ پس اس نے جو کچھ پیدا کیا اور جو احکام نازل فرمائے، اس پر آسمان و زمین میں سزاوار حمد و ثنا صرف اسی کی ذات ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَلَوْ أَنَّمَا فِي الْأَرْ‌ضِ مِن شَجَرَ‌ةٍ أَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ‌ يَمُدُّهُ مِن بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ‌ مَّا نَفِدَتْ كَلِمَاتُ اللَّـهِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿٢٧﴾
روئے زمین کے (تمام) درختوں کے اگر قلمیں ہوجائیں اور تمام سمندروں کی سیاہی ہو اور ان کے بعد سات سمندر اور ہوں تاہم اللہ کے کلمات ختم نہیں ہو سکتے (١) بیشک اللہ تعالٰی غالب اور باحکمت ہے۔
٢٧۔١ اس میں اللہ تعالٰی کی عظمت و کبریائی، جلالت شان، اس کے اسمائے حسنٰی اور صفات عالیہ اور اس کی عظمتوں کا بیان ہے کہ وہ اتنے ہیں کہ کسی کے لئے ان کا احاطہ یا ان سے آگاہی یا ان کی حقیقت تک پہنچنا ممکن ہی نہیں اگر ان کا شمار کرنا حیطہ تحریر میں لانا چاہے، تو دنیا بھر کے درختوں کے قلم گھس جائیں، سمندروں کے پانی سے بنائی ہوئی سیاہی ختم ہو جائے، لیکن اللہ کی معلومات، اس کی تخلیق و صنعت کے عجائبات اور عظمت و جلالت کے مظاہر کو شمار نہیں کیا جاسکتا۔ سات سمندر بطور مبالغہ ہے، حصر مراد نہیں (ابن کثیر) اس لیے کہ اللہ کی آیات و کلمات کا حصر و احصاء ممکن ہی نہیں ہے۔ اسی مفہوم کی ایک آیت سورہ کہف کے آخر میں گزر چکی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
مَّا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ وَاحِدَةٍ ۗ إِنَّ اللَّـهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ‌ ﴿٢٨﴾
تم سب کی پیدائش اور مرنے کے بعد زندہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے ایک جی کا، (١) بیشک اللہ تعالٰی سننے والا دیکھنے والا ہے۔
٢٨۔١ یعنی اس کی قدرت اتنی عظیم ہے کہ تم سب کا پیدا کرنا یا قیامت والے دن زندہ کرنے یا پیدا کرنے کی طرح ہے۔ اس لئے وہ جو چاہتا ہے لفظ کُنْ سے پلک جھپکتے میں معرض وجود میں آجاتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
أَلَمْ تَرَ‌ أَنَّ اللَّـهَ يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ‌ وَيُولِجُ النَّهَارَ‌ فِي اللَّيْلِ وَسَخَّرَ‌ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ‌ كُلٌّ يَجْرِ‌ي إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى وَأَنَّ اللَّـهَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ‌ ﴿٢٩﴾
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالٰی رات کو دن میں اور دن کو رات میں کھپا دیتا ہے (١) سورج چاند کو اسی نے فرماں بردار کر رکھا ہے کہ ہر ایک مقررہ وقت تک چلتا رہے (٢) اللہ تعالٰی ہر اس چیز سے جو تم کرتے ہو خبردار ہے۔
٢٩۔١ یعنی رات کا کچھ حصہ لے کر دن میں شامل کر دیتا ہے، جس سے دن بڑا اور رات چھوٹی ہو جاتی ہے جیسے گرمیوں میں ہوتا ہے، اور پھر دن کا کچھ حصہ لے کر رات میں شامل کر دیتا ہے، جس سے رات بڑی اور دن چھوٹا ہو جاتا ہے جیسے سردیوں میں ہوتا ہے۔
٢٩۔٢ ' مقررہ وقت تک ' سے مراد قیامت تک ہے یعنی سورج اور چاند کے طلوع و غروب کا نظام، جس کا اللہ نے ان کو پابند کیا ہوا ہے قیامت تک یوں ہی قائم رہے گا۔ دوسرا مطلب ہے کہ ایک متعینہ منزل تک، یعنی اللہ نے ان کی گردش کے لیے ایک منزل اور ایک دائرہ متعین کیا ہوا ہے جہاں ان کا سفر ختم ہوتا ہے اور دوسرے روز پھر وہاں سے شروع ہو کر پہلی منزل پر آکر ٹھہر جاتا ہے ایک حدیث سے بھی اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا جانتے ہو، یہ سورج کہاں جاتا ہے؟ ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے میں نے کہا اللہ اور کے رسول خوب جانتے ہیں فرمایا اس کی آخری منزل عرش الہی ہے یہ وہاں جاتا ہے اور زیر عرش سجدہ ریز ہوتا ہے پھر وہاں سے نکلنے کی اپنے رب سے اجازت مانگتا ہے ایک وقت آئے گا کہ اس کو کہا جائے تو جہاں سے آیا ہے وہی لوٹ جا۔ تو وہ مشرق سے طلوع ہونے کے بجائے مغرب سے طلوع ہوگا جیسا کہ قرب قیامت کی علامات میں آتا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں سورج رہٹ کی طرح ہے، دن کو آسمان پر اپنے مدار پر چلتا رہتا ہے، جب غروب ہوجاتا ہے، تو رات کو زمین کے نیچے اپنے مدار پر چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ مشرق سے طلوع ہوجاتا ہے۔ اسی طرح چاند کا معاملہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّـهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ مَا يَدْعُونَ مِن دُونِهِ الْبَاطِلُ وَأَنَّ اللَّـهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ‌ ﴿٣٠﴾
یہ سب (انتظامات) اس وجہ سے ہیں کہ اللہ تعالٰی حق ہے اور اس کے سوا جن جن کو لوگ پکارتے ہیں سب باطل ہیں (١) اور یقیناً اللہ تعالٰی بہت بلندیوں والا اور بڑی شان والا ہے (٢)
٣٠۔١ یعنی یہ انتظامات یا نشانیاں، اللہ تعالٰی تمہارے لئے ظاہر کرتا ہے تاکہ تم سمجھ لو کہ کائنات کا نظام چلانے والا صرف ایک اللہ ہے، جس کے حکم اور مشیت سے سب کچھ ہو رہا ہے، اور اس کے سوا سب باطل ہے یعنی کسی کے پاس کوئی بھی اختیار نہیں ہے بلکہ اس کے محتاج ہیں کیونکہ سب اس کی مخلوق اور اس کے ماتحت ہیں، ان میں سے کوئی بھی ایک ذرے کو بھی ہلانے کی قدرت نہیں رکھتا ہے (ابن کثیر)
٣٠۔٢ اس سے برتر شان والا کوئی ہے نہ اس سے بڑا کوئی۔ اس کی عظمت شان، علوم مرتبہ اور بڑائی کے سامنے ہرچیز حقیر اور پست ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
أَلَمْ تَرَ‌ أَنَّ الْفُلْكَ تَجْرِ‌ي فِي الْبَحْرِ‌ بِنِعْمَتِ اللَّـهِ لِيُرِ‌يَكُم مِّنْ آيَاتِهِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ‌ شَكُورٍ‌ ﴿٣١﴾
کیا تم اس پر غور نہیں کرتے کہ دریا میں کشتیاں اللہ کے فضل سے چل رہی ہیں اس لئے کہ وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھا دے، (١) یقیناً اس میں ہر ایک صبر و شکر کرنے والے (٢) کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں۔
٣١۔١ یعنی سمندر میں کشتیوں کا چلنا، یہ بھی اس کے لطف و کرم کا ایک مظہر اور اس کی قدرت تسخیر کا ایک نمونہ ہے، اس نے ہوا اور پانی کو ایسے مناسب انداز سے رکھا کہ سمندر کی سطح پر کشتیاں چل سکیں،
ورنہ وہ چاہے تو ہوا کی تندی اور موجوں کی طغیانی سے کشتیوں کا چلنا ناممکن ہو جائے۔
٣١۔٢ تکلیفوں میں صبر کرنے والے، راحت اور خوشی میں اللہ کا شکر کرنے والے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَإِذَا غَشِيَهُم مَّوْجٌ كَالظُّلَلِ دَعَوُا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ‌ فَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ ۚ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا كُلُّ خَتَّارٍ‌ كَفُورٍ‌ ﴿٣٢﴾
اور جب سمندر پر موجیں سائبانوں کی طرح چھا جاتی ہیں تو وہ (نہایت) خلوص کے ساتھ اعتقاد کر کے اللہ تعالٰی ہی کو پکارتے ہیں (١) پھر جب وہ (باری تعالیٰ) انہیں نجات دے کر خشکی کی طرف پہنچاتا ہے تو کچھ ان میں سے اعتدال پر رہتے ہیں (۲) اور ہماری آیتوں کا انکار صرف وہی کرتے ہیں جو بدعہد اور ناشکرے ہوں۔ (۳)
٣٢۔١ یعنی جب ان کی کشتیاں ایسی طوفانی موجوں میں گھر جاتی ہیں جو بادلوں اور پہاڑوں کی طرح ہوتی ہیں اور موت کا آہنی پنجہ انہیں اپنی گرفت میں لے لینا نظر آتا ہے تو پھر سارے زمینی معبود ان کے ذہنوں سے نکل جاتے ہیں اور صرف ایک آسمانی اللہ کو پکارتے ہیں جو واقعی اور حقیقی معبود ہے
٣٢۔۲بعض نے مقتصد کے معنی بیان کیے ہیں عہد کو پورا کرنے والا، یعنی بعض ایمان، توحید اور اطاعت کے اس عہد پر قائم رہتے ہیں جو موج گرداب میں انہوں نے کیا تھا۔ ان کے نزدیک کلام میں حذف ہے، تقدیر کلام یوں ہوگا۔ فمنھم مقتصد ومنھم کافر۔ پس بعض ان میں سے مومن اور بعض کافر ہوتے ہیں، دوسرے مفسرین کے نزدیک اس کے معنی اعتدال پر رہنے والا اور یہ باب انکار سے ہوگا۔ یعنی اتنے ہولناک حالات اور پھر وہاں رب کی اتنی عظیم آیات کا مشاہدہ کرنے اور اللہ کے اس احسان کے باوجود کہ اس نے وہاں سے نجات دی۔ انسان اب بھی اللہ کی مکمل عبادت و اطاعت نہیں کرتا؟ اور متوسط راستہ اختیار کرتا ہے، جب کہ وہ حالات، جن سے گزر کر آیا ہے مکمل بندگی کا تقاضا کرتے ہیں۔ نہ کہ اعتدال کا۔ مگر پہلا مفہوم سیاق کے زیادہ قریب ہے۔
٣٢۔۳ختار غدار کے معنی میں ہے بد عہدی کرنے والا کفور ناشکری کرنے والا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَ‌بَّكُمْ وَاخْشَوْا يَوْمًا لَّا يَجْزِي وَالِدٌ عَن وَلَدِهِ وَلَا مَوْلُودٌ هُوَ جَازٍ عَن وَالِدِهِ شَيْئًا ۚ إِنَّ وَعْدَ اللَّـهِ حَقٌّ ۖ فَلَا تَغُرَّ‌نَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّ‌نَّكُم بِاللَّـهِ الْغَرُ‌ورُ‌ ﴿٣٣﴾
لوگو اپنے رب سے ڈرو اور اس دن کا خوف کرو جس دن باپ اپنے بیٹے کو کوئی نفع نہ پہنچا سکے گا اور نہ بیٹا اپنے باپ کا ذرا سا بھی نفع کرنے والا ہوگا (١) (یاد رکھو) اللہ کا وعدہ سچا ہے (دیکھو) تمہیں دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ دھوکے باز (شیطان) تمہیں دھوکے میں ڈال دے۔
٣٣۔١ جاز اسم فاعل ہے جَزْی یَجْزِی سے، بدلہ دینا، مطلب یہ ہے کہ اگر باپ چاہے کہ بیٹے کو بچانے کے لئے اپنی جان کا بدلہ، یا بیٹا باپ کے بدلے اپنی جان بطور معاوضہ پیش کر دے، تو وہاں ممکن نہیں ہوگا، ہر شخص کو اپنے کئے کی سزا بھگتنی ہوگی۔ جب باپ بیٹا ایک دوسرے کے کام نہ آسکیں گے تو دیگر رشتے داروں کی کیا حیثیت ہوگی، اور وہ کیوں کر ایک دوسرے کو نفع پہنچا سکیں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
إِنَّ اللَّـهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْ‌حَامِ ۖ وَمَا تَدْرِ‌ي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِ‌ي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْ‌ضٍ تَمُوتُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ‌ ﴿٣٤﴾
بیشک اللہ تعالٰی ہی کے پاس قیامت کا علم ہے وہی بارش نازل فرماتا ہے اور ماں کے پیٹ میں جو ہے اسے جانتا ہے کوئی (بھی) نہیں جانتا کہ کل کیا (کچھ) کرے گا؟ نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ کس زمین میں مرے گا (یاد رکھو) اللہ تعالٰی پورے علم والا اور صحیح خبروں والا ہے۔
٣٤۔١حدیث میں آتا ہے کہ پانچ چیزیں مفاتیح الغیب ہیں، جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ قرب قیامت کی علامات تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائیں ہیں لیکن قیامت کے وقوع کا یقینی علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں، کسی فرشتے کو، نہ کسی نبی مرسل کو، بارش کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے آثار و علائم سے تخمینہ تو لگایا جاتا اور لگایا جاسکتا ہے لیکن یہ بات ہر شخص کے تجربہ و مشاہدے کا حصہ ہے کہ یہ تخمینے کبھی صحیح نکلتے ہیں اور کبھی غلط۔ حتی کہ محکمہ موسمیات کے اعلانات بھی بعض دفعہ صحیح ثابت نہیں ہوتے۔ جس سے صاف واضح ہے کہ بارش کا بھی یقینی علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔ رحم مادر میں مشینی ذرائع سے جنسیت کا ناقص اندازہ تو شاید ممکن ہے کہ بچہ ہے یا بچی؟ لیکن ماں کے پیٹ میں نشوونما پانے والا یہ بچہ نیک بخت ہے یا بدبخت ناقص ہوگا یا کامل، خوب رو ہوگا یا بد شکل، کالا ہوگا یا گورا، وغیرہ باتوں کا علم اللہ کے سوا کسی کے پاس نہیں۔ انسان کل کیا کرے گا؟ وہ دین کا معاملہ ہو یا دنیا کا؟ کسی کو آنے والے کل کے بارے میں علم نہیں کہ وہ اس کی زندگی میں آئے گا بھی یا نہیں؟ اور اگر آئے گا تو وہ اس میں کیا کچھ کرے گا؟ موت کہاں آئے گی؟ گھر میں یا گھر سے باہر اپنے وطن میں یا دیار غیر میں جوانی میں آئے گی یا بڑھاپے میں اپنی آرزوؤں اور خواہشات کی تکمیل کے بعد آئے گی یا اس سے پہلے؟ کسی کو معلوم نہیں۔
 
Top