• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
سورة السجدة

(سورة السجدة ۔ سورہ نمبر ۳۲ ۔ تعداد آیات ۳۰)​
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔
الم ﴿١﴾
الف لام میم
تَنزِيلُ الْكِتَابِ لَا رَ‌يْبَ فِيهِ مِن رَّ‌بِّ الْعَالَمِينَ ﴿٢﴾
بلا شبہ اس کتاب کا اتارنا تمام جہانوں کے پروردگار کی طرف سے ہے (١)
حدیث میں آتا ہے کہ نبی جمعہ کے دن فجر نماز میں الَمَّ السَّجْدَہ (اور دوسری رکعت میں) (ھَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ) (سُوْرَۃ دہر) پڑھا کرتے تھے (صحیح بخاری) اسی طرح یہ بھی سند سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو سونے سے قبل سورۃ الم السجدہ اور سورہ ملک پڑھا کرتے تھے (ترمذی ٨٩٢، مسند احمد أ٣٤٠)
٢۔١ مطلب یہ ہے کہ جھوٹ، جادو، کہانت اور من گھڑت قصے کہانیوں کی کتاب نہیں ہے بلکہ رب العالمین کی طرف سے آسمانی کتاب ہدایت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَ‌اهُ ۚ بَلْ هُوَ الْحَقُّ مِن رَّ‌بِّكَ لِتُنذِرَ‌ قَوْمًا مَّا أَتَاهُم مِّن نَّذِيرٍ‌ مِّن قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ ﴿٣﴾
کیا یہ کہتے ہیں کہ اس نے گھڑ لیا ہے (١) (نہیں نہیں) بلکہ یہ تیرے رب تعالٰی کی طرف سے حق ہے تاکہ آپ انہیں ڈرائیں جنکے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا (٢) تاکہ وہ راہ راست پر آجائیں۔
٣۔۱ یہ بطور توبیخ کے ہے کہ کیا رب العالمین کے نازل کردہ اس کلام بلاغت نظام کی بابت یہ کہتے ہیں کہ اسے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) نے گھڑ لیا ہے؟
٣۔٢ یہ نزول قرآن کی علت ہے۔ اس سے معلوم ہوا (جیسا کہ پہلے بھی وضاحت گزر چکی ہے) کہ عربوں میں نبی پہلے نبی تھے۔ بعض لوگوں نے حضرت شعیب علیہ السلام کو بھی عربوں میں مبعوث نبی قرار دیا ہے۔ واللہ اعلم۔ اس اعتبار سے قوم سے مراد پھرخاص قریش ہوں گے جن کی طرف کوئی نبی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے نہیں آیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
اللَّـهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ ۖ مَا لَكُم مِّن دُونِهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا شَفِيعٍ ۚ أَفَلَا تَتَذَكَّرُ‌ونَ ﴿٤﴾
اللہ تعالٰی وہ ہے جس نے آسمان و زمین اور جو کچھ ان درمیان ہے سب کو چھ دن میں پیدا کر دیا پھر عرش پر قائم ہوا (١) تمہارے لئے اس کے سوا کوئی مددگار اور سفارشی نہیں (٢) کیا اس پر بھی تم نصیحت حاصل نہیں کرتے (٣)۔
٤۔١ اس کے لئے دیکھئے (اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ يُغْشِي الَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهٗ حَثِيْثًا ۙ وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍۢ بِاَمْرِهٖ ۭاَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ ۭ تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ) 7۔ الاعراف:54) کا حاشیہ یہاں اس مضمون کو دہرانے سے مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی کے کمال قدرت اور عجائب صنعت کے ذکر سے شاید وہ قرآن کو سنیں اور اس پر غور کریں۔
٤۔٢ یعنی وہاں کوئی ایسا دوست نہیں ہوگا، جو تمہاری مدد کر سکے اور تم سے اللہ کے عذاب کو ٹال دے، نہ وہاں کوئی سفارشی ہی ایسا ہوگا جو تمہاری سفارش کر سکے۔
٤۔٣ یعنی اے غیر اللہ کے پجاریو اور دوسروں پر بھروسہ رکھنے والو! کیا پھر تم نصیحت حاصل نہیں کرتے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
يُدَبِّرُ‌ الْأَمْرَ‌ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْ‌ضِ ثُمَّ يَعْرُ‌جُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُ‌هُ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ ﴿٥﴾
وہ آسمان سے لے کر زمین تک (ہر) کام کی تدبیر کرتا ہے (١) پھر (وہ کام) ایک ایسے دن میں اس کی طرف چڑھ جاتا ہے جس کا اندازہ تمہاری گنتی کے ایک ہزار سال کے برابر ہے۔ (۲)
٥۔١ آسمان سے، جہاں اللہ کا عرش اور لوح محفوظ ہے، اللہ تعالٰی زمین پر احکام نازل فرماتا ہے یعنی تدبیر کرتا اور زمین پر ان کا نفاذ ہوتا ہے۔ جیسے موت اور زندگی، صحت اور مرض، عطا اور منع، غنا اور فقر، جنگ اور صلح، عزت اور ذلت، وغیرہ، اللہ تعالٰی عرش کے اوپر سے اپنی تقدیر کے مطابق یہ تدبیریں اور تصرفات کرتا ہے۔
٥۔۲یعنی پھر اس کی یہ تدبیر یا امر اس کی طرف واپس لوٹتا ہے ایک ہی دن میں جسے فرشتے لے کر جاتے ہیں اور صعود کا یا آنے جانے کا فاصلہ اتنا ہے کہ غیر فرشتہ ہزار سال میں طے کرے۔ یا اس سے قیامت کا دن مراد ہے کہ اس دن انسانوں کے سارے اعمال اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوں گے۔ اس یوم کی تعیین و تفسیر میں مفسرین کے درمیان بہت اختلاف ہے امام شوکانی نے ۱۵،۱٦ اقوال اس ضمن میں ذکر کیے ہیں اس لیے حضرت ابن عباس نے اس کے بارے میں توقف کو پسند فرمایا اور اس کی حقیقت کو اللہ کے سپرد کر دیا ہے۔ صاحب ایسر التفاسیر لکھتے ہیں کہ قرآن میں یہ تین مقامات پر آیا ہے اور تینوں جگہ الگ الگ دن مراد ہے۔(وَكَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اَمْلَيْتُ لَهَا وَهِىَ ظَالِمَةٌ ثُمَّ اَخَذْتُهَا ۚ وَاِلَيَّ الْمَصِيْرُ) 22۔ الحج:48) میں یوم کا لفظ عبارت ہے اس زمانہ اور مدت سے جو اللہ کے ہاں اور سورہ معارج میں جہاں یوم کی مقدار پچاس ہزار سال بتلائی گئی ہے یوم حساب مراد ہے اور اس مقام زیر بحث میں یوم سے مراد دنیا کا آخری دن ہے جب دنیا کے تمام معاملات فنا ہو کر اللہ کی طرف لوٹ جائیں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
ذَٰلِكَ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الْعَزِيزُ الرَّ‌حِيمُ ﴿٦﴾
یہی ہے چھپے کھلے کا جاننے والا، زبردست غالب بہت ہی مہربان۔
الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ ۖ وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنسَانِ مِن طِينٍ ﴿٧﴾
جس نے نہایت خوب بنائی جو چیز بھی بنائی (١) اور انسان کی بناوٹ مٹی سے شروع کی (٢)۔
٧۔١ یعنی جو چیز بھی اللہ تعالٰی نے بنائی ہے، وہ چوں کہ اس کی حکمت و مصلحت کا اعتدال ہے، اس لئے اس میں اپنا ایک حسن اور انفرادیت ہے۔ یوں اس کی بنائی ہوئی ہرچیز حسین ہے اور بعض نے اَ حْسَنَ کے معنی اَتْکُنَ و اَحْکَمَ کے کئے ہیں، یعنی ہرچیز مضبوط اور پختہ بنائی۔ بعض نے اسے اَ لْھَمَ کے مفہوم میں لیا یعنی ہر مخلوق کو ان چیزوں کا الہام کر دیا جس کی وہ محتاج ہے۔
٧۔۲یعنی انسان اول آدم علیہ السلام کو مٹی سے بنایا جن سے انسانوں کا آغاز ہوا اور اس کی زوجہ حضرت حوا کو آدم علیہ السلام کی بائیں پسلی سے پیدا کر دیا جیسا کہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهُ مِن سُلَالَةٍ مِّن مَّاءٍ مَّهِينٍ ﴿٨﴾
پھر اس کی نسل ایک بےوقعت پانی کے نچوڑ سے چلائی (١)
۔١ یعنی منی کے قطرے سے، مطلب یہ ہے کہ ایک انسانی جوڑا بنانے کے بعد، اس کی نسل کے لئے ہم نے یہ طریقہ مقرر کر دیا کہ مرد اور عورت آپس میں نکاح کریں، ان کے جنسی ملاپ سے جو قطرہ آب، عورت کے رحم میں جائے گا، اس سے ہم ایک انسانی پیکر تراش کر باہر بھیجتے رہیں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
ثُمَّ سَوَّاهُ وَنَفَخَ فِيهِ مِن رُّ‌وحِهِ ۖ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ‌ وَالْأَفْئِدَةَ ۚ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُ‌ونَ ﴿٩﴾
جسے ٹھیک ٹھاک کر کے اس میں اس نے روح پھونکی (١) اسی نے تمہارے کان آنکھیں اور دل بنائے (٢) (اس پر بھی) تم بہت ہی تھوڑا احسان مانتے ہو (٢)
٩۔١ یعنی اس بچے کی ماں کے پیٹ میں نشو و نما کرتے، اس کے اعضا بناتے، سنوارتے ہیں اور پھر اس میں روح پھونکتے ہیں۔
٩۔٢ یعنی ساری چیزیں پیدا کیں تاکہ وہ اپنی تخلیق کی تکمیل کر دے، پس تم سننے والی بات کو سن سکو دیکھنے والی چیز کو دیکھ سکو اور ہر عقل و فہم میں آنے والی بات کو سمجھ سکو۔
٩۔٣ یعنی اتنے احسانات کے باوجود انسان اتنا ناشکرا ہے کہ وہ اللہ کا شکر بہت ہی کم ادا کرتا ہے یا شکر کرنے والے آدمی بہت تھوڑے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَقَالُوا أَإِذَا ضَلَلْنَا فِي الْأَرْ‌ضِ أَإِنَّا لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ ۚ بَلْ هُم بِلِقَاءِ رَ‌بِّهِمْ كَافِرُ‌ونَ ﴿١٠﴾
اور انہوں نے کہا کیا جب ہم زمین میں رل مل جائیں گے (١) کیا پھر نئی پیدائش میں آجائیں گے؟ بلکہ (بات یہ ہے) کہ وہ لوگ اپنے پروردگار کی ملاقات کے منکر ہیں۔
١٠۔١ جب کسی چیز پر کوئی دوسری چیز غالب آجائے اور پہلی کے تمام اثرات مٹ جائیں تو اس کو ضلالت (گم ہو جانے) سے تعبیر کرتے ہیں ضَلَلُنَا فِیْ الْاَرْضِ کے معنی ہوں کے کہ جب مٹی میں مل کر ہمارا وجود زمین میں غائب ہو جائے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
قُلْ يَتَوَفَّاكُم مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَ‌بِّكُمْ تُرْ‌جَعُونَ ﴿١١﴾
کہہ دیجئے! کہ تمہیں موت کا فرشتہ فوت کرے گا جو تم پر مقرر کیا گیا ہے (١) پھر تم سب اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔
١١۔١ یعنی اس کی ڈیوٹی ہی یہ ہے کہ جب تمہاری موت کا وقت آجائے تو وہ آکر روح قبض کر لے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَلَوْ تَرَ‌ىٰ إِذِ الْمُجْرِ‌مُونَ نَاكِسُو رُ‌ءُوسِهِمْ عِندَ رَ‌بِّهِمْ رَ‌بَّنَا أَبْصَرْ‌نَا وَسَمِعْنَا فَارْ‌جِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ ﴿١٢﴾
کاش کہ آپ دیکھتے جب کہ گناہگار لوگ اپنے رب تعالٰی کے سامنے سر جھکائے ہوئے ہوں (١) گے، کہیں گے اے ہمارے رب! ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب (٢) تو ہمیں واپس لوٹا دے ہم نیک اعمال کریں گے ہم یقین کرنے والے ہیں (٣)۔
١٢۔١ یعنی اپنے کفر و شرک اور معصیت کی وجہ سے مارے ندامت کے۔
١٢۔٢ یعنی جس کو جھٹلایا کرتے تھے، اسے دیکھ لیا، جس کا انکار کرتے تھے، اسے سن لیا۔ یا تیری وعیدوں کی سچائی کو دیکھ لیا اور پیغمبروں کی تصدیق کو سن لیا، لیکن اس وقت کا دیکھنا، سننا ان کے کچھ کام نہیں آئے گا۔
١٢۔٣ لیکن اب یقین کیا تو کس کام کا؟ اب تو اللہ کا عذاب ان پر ثابت ہو چکا جسے بھگتنا ہوگا۔
 
Top