- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسَىٰ مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّـهِ ۖ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ اللَّـهِ آمَنَّا بِاللَّـهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ ﴿٥٢﴾
مگر جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کا کفر محسوس کر لیا (١) تو کہنے لگے اللہ تعالیٰ کی راہ میں میری مدد کرنے والا کون کون ہے؟ (٢) حواریوں (٣) نے جواب دیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی راہ کے مددگار ہیں، ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور آپ گواہ رہئے کہ ہم تابعدار ہیں۔
٥٢۔١ یعنی ایسی گہری سازشیں اور مشکوک حرکتیں جو کفر یعنی حضرت مسیح کی رسالت کے انکار پر مبنی تھیں۔
٥٢۔٢ بہت سے نبیوں نے اپنی قوم کے ہاتھوں تنگ آ کر ظاہری اسباب کے مطابق اپنی قوم کے باشعور لوگوں سے مدد طلب کی ہے۔ جس طرح خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ابتدا میں، جب قریش آپ کی دعوت کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے، تو آپ موسم حج میں لوگوں کو اپنا ساتھی اور مددگاربننے پر آمادہ کرتے تھے تاکہ آپ رب کا کلام لوگوں تک پہنچا سکیں، جس پر انصار نے لبیک کہا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی انہوں نے قبل ہجرت اور بعد ہجرت مدد کی۔ اسی طرح یہاں حضرت عیسیٰ عليه السلام نے مدد طلب فرمائی۔ یہ وہ مدد نہیں ہے جو مافوق الاسباب طریقے سے طلب کی جاتی ہے کیونکہ وہ تو شرک ہے اور ہر نبی شرک کے سدباب ہی کے لیے آتا رہا ہے، پھر وہ خود شرک کا ارتکاب کس طرح کر سکتے تھے؟ لیکن قبر پرستوں کی غلط روش قابل ماتم ہے کہ وہ فوت شدہ اشخاص سے مدد مانگنے کے جواز کے لیے حضرت عیسیٰ عليه السلام کے قول من انصاری الی اللہ سے استدلال کرتے ہیں؟ فَإِنَّا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت نصیب فرمائے۔
٥٢۔٣ حواریون، حواری کی جمع ہے بمعنی انصار (مددگار) جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ حَوَارِيًّا وَحَوَارِيِّ الزُّبَيْرُ (صحيح بخاري كتاب الجهاد، باب فضل الطليعة) ”ہر نبی کا کوئی مددگار خاص ہوتا ہے اور میرا مددگار زبیر رضی الله عنہ ہے۔“
مگر جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کا کفر محسوس کر لیا (١) تو کہنے لگے اللہ تعالیٰ کی راہ میں میری مدد کرنے والا کون کون ہے؟ (٢) حواریوں (٣) نے جواب دیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی راہ کے مددگار ہیں، ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور آپ گواہ رہئے کہ ہم تابعدار ہیں۔
٥٢۔١ یعنی ایسی گہری سازشیں اور مشکوک حرکتیں جو کفر یعنی حضرت مسیح کی رسالت کے انکار پر مبنی تھیں۔
٥٢۔٢ بہت سے نبیوں نے اپنی قوم کے ہاتھوں تنگ آ کر ظاہری اسباب کے مطابق اپنی قوم کے باشعور لوگوں سے مدد طلب کی ہے۔ جس طرح خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ابتدا میں، جب قریش آپ کی دعوت کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے، تو آپ موسم حج میں لوگوں کو اپنا ساتھی اور مددگاربننے پر آمادہ کرتے تھے تاکہ آپ رب کا کلام لوگوں تک پہنچا سکیں، جس پر انصار نے لبیک کہا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی انہوں نے قبل ہجرت اور بعد ہجرت مدد کی۔ اسی طرح یہاں حضرت عیسیٰ عليه السلام نے مدد طلب فرمائی۔ یہ وہ مدد نہیں ہے جو مافوق الاسباب طریقے سے طلب کی جاتی ہے کیونکہ وہ تو شرک ہے اور ہر نبی شرک کے سدباب ہی کے لیے آتا رہا ہے، پھر وہ خود شرک کا ارتکاب کس طرح کر سکتے تھے؟ لیکن قبر پرستوں کی غلط روش قابل ماتم ہے کہ وہ فوت شدہ اشخاص سے مدد مانگنے کے جواز کے لیے حضرت عیسیٰ عليه السلام کے قول من انصاری الی اللہ سے استدلال کرتے ہیں؟ فَإِنَّا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت نصیب فرمائے۔
٥٢۔٣ حواریون، حواری کی جمع ہے بمعنی انصار (مددگار) جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ حَوَارِيًّا وَحَوَارِيِّ الزُّبَيْرُ (صحيح بخاري كتاب الجهاد، باب فضل الطليعة) ”ہر نبی کا کوئی مددگار خاص ہوتا ہے اور میرا مددگار زبیر رضی الله عنہ ہے۔“