• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسَىٰ مِنْهُمُ الْكُفْرَ‌ قَالَ مَنْ أَنصَارِ‌ي إِلَى اللَّـهِ ۖ قَالَ الْحَوَارِ‌يُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ‌ اللَّـهِ آمَنَّا بِاللَّـهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ ﴿٥٢﴾
مگر جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کا کفر محسوس کر لیا (١) تو کہنے لگے اللہ تعالیٰ کی راہ میں میری مدد کرنے والا کون کون ہے؟ (٢) حواریوں (٣) نے جواب دیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی راہ کے مددگار ہیں، ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور آپ گواہ رہئے کہ ہم تابعدار ہیں۔
٥٢۔١ یعنی ایسی گہری سازشیں اور مشکوک حرکتیں جو کفر یعنی حضرت مسیح کی رسالت کے انکار پر مبنی تھیں۔
٥٢۔٢ بہت سے نبیوں نے اپنی قوم کے ہاتھوں تنگ آ کر ظاہری اسباب کے مطابق اپنی قوم کے باشعور لوگوں سے مدد طلب کی ہے۔ جس طرح خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ابتدا میں، جب قریش آپ کی دعوت کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے، تو آپ موسم حج میں لوگوں کو اپنا ساتھی اور مددگاربننے پر آمادہ کرتے تھے تاکہ آپ رب کا کلام لوگوں تک پہنچا سکیں، جس پر انصار نے لبیک کہا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی انہوں نے قبل ہجرت اور بعد ہجرت مدد کی۔ اسی طرح یہاں حضرت عیسیٰ عليه السلام نے مدد طلب فرمائی۔ یہ وہ مدد نہیں ہے جو مافوق الاسباب طریقے سے طلب کی جاتی ہے کیونکہ وہ تو شرک ہے اور ہر نبی شرک کے سدباب ہی کے لیے آتا رہا ہے، پھر وہ خود شرک کا ارتکاب کس طرح کر سکتے تھے؟ لیکن قبر پرستوں کی غلط روش قابل ماتم ہے کہ وہ فوت شدہ اشخاص سے مدد مانگنے کے جواز کے لیے حضرت عیسیٰ عليه السلام کے قول من انصاری الی اللہ سے استدلال کرتے ہیں؟ فَإِنَّا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت نصیب فرمائے۔
٥٢۔٣ حواریون، حواری کی جمع ہے بمعنی انصار (مددگار) جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ حَوَارِيًّا وَحَوَارِيِّ الزُّبَيْرُ (صحيح بخاري كتاب الجهاد، باب فضل الطليعة) ”ہر نبی کا کوئی مددگار خاص ہوتا ہے اور میرا مددگار زبیر رضی الله عنہ ہے۔“
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
رَ‌بَّنَا آمَنَّا بِمَا أَنزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّ‌سُولَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ ﴿٥٣﴾
اے ہمارے پالنے والے معبود! ہم تیری اتاری ہوئی وحی پر ایمان لائے اور ہم نے تیرے رسول کی اتباع کی، پس تو ہمیں گواہوں میں لکھ لے۔

وَمَكَرُ‌وا وَمَكَرَ‌ اللَّـهُ ۖ وَاللَّـهُ خَيْرُ‌ الْمَاكِرِ‌ينَ ﴿٥٤﴾
اور کافروں نے مکر کیا اور اللہ تعالیٰ نے بھی (مکر) خفیہ تدبیر کی اور اللہ تعالیٰ سب خفیہ تدبیر کرنے والوں سے بہتر ہے۔ (١)
٥٤۔١ حضرت عیسیٰ عليه السلام کے زمانے میں شام کا علاقہ رومیوں کے زیر نگیں تھا، یہاں ان کی طرف سے جو حکمران مقرر تھا، وہ کافر تھا۔ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ عليه السلام کے خلاف اس حکمران کے کان بھر دیئے کہ یہ نَعُوذُ بِاللهِ بغیر باپ کے اور فسادی ہے وغیرہ وغیرہ۔ حکمران نے ان کے مطالبے پر حضرت عیسیٰ عليه السلام کو سولی دینے کا فیصلہ کر لیا۔ لیکن اللہ نے حضرت عیسیٰ عليه السلام کو بحفاظت آسمان پر اٹھا لیا اور ان کی جگہ ان کے ہم شکل ایک آدمی کو انہوں نے سولی دے دی، اور سمجھتے رہے کہ ہم نے حضرت عیسیٰ عليه السلام کو سولی دی ہے مَكْرٌعربی زبان میں لطیف اور خفیہ تدبیر کو کہتے ہیں اور اس معنی میں یہاں اللہ تعالیٰ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ کہا گیا ہے۔ گویا یہ مکر، سئی (برا) بھی ہو سکتا ہے، اگر غلط مقصد کے لیے ہو اور خیر (اچھا) بھی ہو سکتا ہے اگر اچھے مقصد کے لیے ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
إِذْ قَالَ اللَّـهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَ‌افِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُ‌كَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۖ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْ‌جِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ ﴿٥٥﴾
جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے عیسیٰ! میں تجھے پورا لینے والا ہوں (١) اور تجھے اپنی جانب اٹھانے والا ہوں اور تجھے کافروں سے پاک کرنے والا ہوں (٢) اور تیرے تابعداروں کو کافروں کے اوپر غالب کرنے والا ہوں قیامت کے دن تک، (٣) پھر تم سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے میں ہی تمہارے آپس کے تمام تر اختلافات کا فیصلہ کروں گا۔
٥٥۔١ المتوفی کا مصدر توفی اور مادہ وفی ہے جس کے اصل معنی پورا پورا لینے کے ہیں، انسان کی موت پر جو وفات کا لفظ بولا جاتا ہے تو اسی لیے کہ اس کے جسمانی اختیارات مکمل طور پر سلب کر لیے جاتے ہیں۔ اس اعتبار سے موت اس کے معنی کی مختلف صورتوں میں سے محض ایک صورت ہے۔ نیند میں بھی چونکہ انسانی اختیارات عارضی طور پرمعطل کر دیئے جاتے ہیں اس لیے نیند پر بھی قرآن نے وفات کے لفظ کا اطلاق کیا ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ اس کے حقیقی اور اصل معنی پورا پورا لینے کے ہی ہیں۔ ﴿إِنِّي مُتَوَفِّيكَ﴾ میں، یہ اسی اپنے حقیقی اور اصلی معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی میں اے عیسیٰ عليه السلام تجھے یہودیوں کی سازش سے بچا کر پورا پورا اپنی طرف آسمانوں پر اٹھا لوں گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اور بعض نے اس کے مجازی معنی کے شہرت استعمال کے مطابق موت ہی کے معنی کیے ہیں لیکن اس کے ساتھ انہوں نے کہا ہے کہ الفاظ میں تقدیم و تاخیر ہے یعنی رافعک (میں اپنی طرف اٹھانے والا ہوں) کے معنی مقدم ہیں اور مُتَوَفِّيكَ (فوت کرنے والا ہوں) کے معنی متاخر، یعنی میں تجھے آسمان پر اٹھا لوں گا اور پھر جب دوبارہ دنیا میں نزول ہو گا تو اس وقت موت سے ہمکنار کروں گا۔ یعنی یہودیوں کے ہاتھوں تیرا قتل نہیں ہو گا بلکہ تجھے طبعی موت ہی آئے گی۔ (فتح القدیر وابن کثیر)
٥٥۔٢ اس سے مراد ان الزامات سے پاکیزگی ہے جن سے یہودی آپ کو متہم کرتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے آپ کی صفائی دنیا کے سامنے پیش کر دی گئی۔
٥٥۔٣ اس سے مراد یا تو نصاریٰ کا وہ دنیاوی غلبہ ہے جو یہودیوں پر قیامت تک رہے گا، گو وہ اپنے غلط عقائد کی وجہ سے نجات اخروی سے محروم ہی رہیں گے۔ یا امت محمدیہ کے افراد کا غلبہ ہے جو درحقیقت حضرت عیسیٰ عليه السلام اور دیگر تمام انبیاء کی تصدیق کرتے اور ان کے صحیح اور غیر محرف دین کی پیروی کرتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُ‌وا فَأُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَ‌ةِ وَمَا لَهُم مِّن نَّاصِرِ‌ينَ ﴿٥٦﴾
پھر کافروں کو تو میں دنیا اور آخرت میں سخت تر عذاب دوں گا اور ان کا کوئی مددگار نہ ہو گا۔

وَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَيُوَفِّيهِمْ أُجُورَ‌هُمْ ۗ وَاللَّـهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ ﴿٥٧﴾
لیکن ایمان والوں اور نیک اعمال والوں کو اللہ تعالیٰ ان کا ثواب پورا پورا دے گا اور اللہ تعالیٰ ظالموں سے محبت نہیں کرتا۔

ذَٰلِكَ نَتْلُوهُ عَلَيْكَ مِنَ الْآيَاتِ وَالذِّكْرِ‌ الْحَكِيمِ ﴿٥٨﴾
یہ جسے ہم تیرے سامنے پڑھ رہے ہیں آیتیں ہیں اور حکمت والی نصیحت ہیں۔

إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ اللَّـهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِن تُرَ‌ابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ ﴿٥٩﴾
اللہ تعالیٰ کے نزدیک عیسیٰ (علیہ السلام) کی مثال ہوبہو آدم (علیہ السلام) کی مثال ہے جسے مٹی سے بنا کر کے کہہ دیا کہ ہوجا پس وہ ہو گیا۔

الْحَقُّ مِن رَّ‌بِّكَ فَلَا تَكُن مِّنَ الْمُمْتَرِ‌ينَ ﴿٦٠﴾
تیرے رب کی طرف سے حق یہی ہے خبردار شک کرنے والوں میں نہ ہونا۔

فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّـهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ ﴿٦١﴾
اس لیے جو شخص آپ کے پاس اس علم کے آ جانے کے بعد بھی آپ سے اس میں جھگڑے تو آپ کہہ دیں کہ آؤ ہم تم اپنے اپنے فرزندوں کو اور ہم تم اپنی اپنی عورتوں کو اور ہم تم خاص اپنی اپنی جانوں کو بلا لیں، پھر ہم عاجزی کے ساتھ التجا کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت کریں۔ (١)
٦١۔١ یہ آیت مباہلہ کہلاتی ہے۔ مباہلہ کے معنی ہیں دو فریق کا ایک دوسرے پر لعنت یعنی بددعا کرنا۔ مطلب یہ ہے کہ جب دو فریقوں میں کسی معاملے کے حق یا باطل ہونے میں اختلاف و نزاع ہو اور دلائل سے وہ ختم ہوتا نظر نہ آتا ہو تو دونوں بارگاہ الہیٰ میں یہ دعا کریں کہ یا اللہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے، اس پر لعنت فرما۔ اس کا مختصر پس منظر یہ ہے کہ 9 ہجری میں نجران سے عیسائیوں کا ایک وفد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت عیسیٰ عليه السلام کے بارے میں وہ جو غلو آمیز عقائد رکھتے تھے اس پر بحث و مناظرہ کرنے لگا۔ بالآخر یہ آیت نازل ہوئی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مباہلہ کی دعوت دی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت فاطمہ اور حضرت حسن و حسین رضی الله عنہم کو بھی ساتھ لیا، اور عیسائیوں سے کہا کہ تم بھی اپنے اہل و عیال کو بلا لو اور پھر مل کر جھوٹے پر لعنت کی بددعا کریں۔ عیسائیوں نے باہم مشورہ کے بعد مباہلہ کرنے سے گریز کیا اور پیش کش کی کہ آپ ہم سے جو چاہتے ہیں ہم دینے کے لیے تیار ہیں، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر جزیہ مقرر فرما دیا جس کی وصولی کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللّٰه عنہ کو، جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امین امت کا خطاب عنایت فرمایا تھا، ان کے ساتھ بھیجا (ملخص از تفسیر ابن کثیر وفتح القدیر وغیرہ) اس سے اگلی آیت میں اہل کتاب (یہودیوں اور عیسائیوں) کو دعوت توحید دی جا رہی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
إِنَّ هَـٰذَا لَهُوَ الْقَصَصُ الْحَقُّ ۚ وَمَا مِنْ إِلَـٰهٍ إِلَّا اللَّـهُ ۚ وَإِنَّ اللَّـهَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿٦٢﴾
یقیناً صرف یہی سچا ایمان ہے اور کوئی معبود برحق نہیں بجز اللہ تعالیٰ کے اور بے شک غالب اور حکمت والا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔

فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ ﴿٦٣﴾
پھر بھی اگر قبول نہ کریں تو اللہ تعالیٰ بھی صحیح طور پر فسادیوں کو جاننے والا ہے۔

قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّـهَ وَلَا نُشْرِ‌كَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْ‌بَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ ۚ فَإِن تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ ﴿٦٤﴾
آپ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب! ایسی انصاف والی بات کی طرف آؤ جو ہم میں تم میں برابر ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنائیں، (١) نہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو ہی رب بنائیں۔ (٢) پس اگر وہ منہ پھیر لیں تو تم کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو مسلمان ہیں (٣)
٦٤۔١ کسی بت کو نہ صلیب کو، نہ آگ اور نہ کسی چیز کو۔ بلکہ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں جیسا کہ تمام انبیاء کی دعوت رہی ہے۔
٦٤۔٢ یہ ایک تو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تم نے حضرت مسیح اور حضرت عزیر علیہما السلام کی ربوبیت (رب ہونے) کا جو عقیدہ گھڑ رکھا ہے یہ غلط ہے، وہ رب نہیں ہیں انسان ہی ہیں۔ دوسرا، اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تم نے اپنے احبار و رہبان کو حلال و حرام کرنے کا جو اختیار دے رکھا ہے، یہ بھی ان کو رب بنانا ہے جیسا کہ آیت ﴿اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ﴾ اس پر شاہد ہے، یہ بھی صحیح نہیں ہے، حلال و حرام کا اختیار بھی صرف اللہ ہی کو ہے۔ (ابن کثیر و فتح القدیر)
٦٤۔٣ صحیح بخاری میں ہے کہ قرآن کریم کے اس حکم کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرقل شاہ روم کو مکتوب تحریر فرمایا اور اس میں اسے آیت کے حوالے سے قبول اسلام کی دعوت دی اور اسے کہا کہ تو مسلمان ہو جائے گا تو تجھے دہرا اجر ملے گا، ورنہ ساری رعایا کا گناہ بھی تجھ پر ہو گا۔ (فَأَسْلِمْ تَسْلَمْ، يَؤْتِكَ اللهُ أَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ، فَإِنْ تَوَلَّيْتَ، فَإِنَّ عَلَيْكَ إِثْمَ الأَرِيسِيِّينَ) (صحيح بخاری، كتاب بدء الوحی) "اسلام قبول کر لے، سلامتی میں رہے گا۔ اسلام لے آ، اللہ تعالیٰ تجھے دوگنا اجر دے گا۔ لیکن اگر تو نے قبول اسلام سے اعراض کیا تو رعایا کا گناہ بھی تجھ پر ہی ہو گا"۔ کیونکہ رعایا کے عدم قبول اسلام کا سبب تو ہی ہو گا۔ اس آیت میں مذکور تین نکات یعنی (1) صرف اللہ کی عبادت کرنا۔ (2) اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا۔ (3) اورکسی کو شریعت سازی کا خدائی مقام نہ دینا وہ کلمۂ سواء ہے جس پر اہل کتاب کو اتحاد کی دعوت دی گئی۔ لہٰذا اس امت کے شیرازہ کو جمع کرنے کے لیے بھی ان ہی تین نکات اور اس کلمۂ سواء کو بدرجہ اولیٰ اساس و بنیاد بنانا چاہیے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْرَ‌اهِيمَ وَمَا أُنزِلَتِ التَّوْرَ‌اةُ وَالْإِنجِيلُ إِلَّا مِن بَعْدِهِ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ﴿٦٥﴾
اے اہل کتاب! تم ابراہیم کی بابت کیوں جھگڑتے ہو حالانکہ تورات و انجیل تو ان کے بعد نازل کی گئیں، کیا تم پھر بھی نہیں سمجھتے؟
٦٥۔١ حضرت ابراہیم عليه السلام کے بارے میں جھگڑنے کا مطلب یہ ہے کہ یہودی اور عیسائی دونوں دعویٰ کرتے تھے کہ حضرت ابراہیم عليه السلام ان کے دین پر تھے، حالانکہ تورات، جس پر یہودی ایمان رکھتے تھے، اور انجیل جسے عیسائی مانتے تھے، دونوں حضرت ابراہیم عليه السلام کے سینکڑوں برس بعد نازل ہوئیں، پھر حضرت ابراہیم عليه السلام یہودی یا عیسائی کس طرح ہو سکتے تھے؟ کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم عليه السلام اور موسیٰ عليه السلام کے درمیان ایک ہزار سال کا اور حضرت ابراہیم و عیسیٰ علیہما السلام کے درمیان دو ہزار سال کا فاصلہ تھا۔ (قرطبی)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
هَا أَنتُمْ هَـٰؤُلَاءِ حَاجَجْتُمْ فِيمَا لَكُم بِهِ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاجُّونَ فِيمَا لَيْسَ لَكُم بِهِ عِلْمٌ ۚ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ﴿٦٦﴾
سنو! تم لوگ اس میں جھگڑ چکے جس کا تمہیں علم تھا پھر اب اس بات میں کیوں جھگڑتے ہو جس کا تمہیں علم ہی نہیں؟ (١) اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔
٦٦۔١ تمہارے علم و دیانت کا تو یہ حال ہے کہ جن چیزوں کا تمہیں علم ہے یعنی اپنے دین اور اپنی کتاب، کا اس کی بابت تمہارے جھگڑے (جس کا ذکر پچھلی آیت میں کیا جا چکا ہے) بے اصل بھی ہیں اور بے عقلی کا مظہر بھی۔ تو پھر تم اس بات میں کیوں جھگڑتے ہو جس کا تمہیں سرے سے علم ہی نہیں ہے یعنی حضرت ابراہیم عليه السلام کی شان اور ان کی ملت حنیفیہ کے بارے میں، جس کی اساس توحید و اخلاص پر ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
مَا كَانَ إِبْرَ‌اهِيمُ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَ‌انِيًّا وَلَـٰكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِ‌كِينَ ﴿٦٧﴾
ابراہیم تو نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی بلکہ وہ تو یک طرفہ (خالص) مسلمان تھے، (١) وہ مشرک بھی نہ تھے۔
٦٧۔١ حَنِيفًا مُسْلِمًا (یک طرفہ خالص مسلمان) یعنی شرک سے بیزار اور صرف خدائے واحد کے پرستار۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَ‌اهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَـٰذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُوا ۗ وَاللَّـهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ ﴿٦٨﴾
جنہوں نے ان کا کہا مانا اور یہ نبی اور جو لوگ ایمان لائے، (١) مومنوں کا ولی اور سہارا اللہ ہی ہے۔
٦٨۔١ اسی لیے قرآن کریم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ملت ابراہیمی کا اتباع کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ﴿أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا﴾ (النحل: 123) علاوہ ازیں حدیث میں ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِنَّ لِكُلِّ نَبِيّ وُلاةً مِنَ النَّبِيِّينَ، وَإِنَّ وَلِـيِّي مِنْهُمْ أَبِي وَخَلِيلُ رِبِّي عَزّ وَجَلّ "ہر نبی کے نبیوں میں سے کچھ دوست ہوتے ہیں، میرے ولی (دوست) ان میں سے میرے باپ اور میرے رب کے خلیل (ابراہیم علیہ السلام ہیں)۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت تلاوت فرمائی (ترمذی بحوالہ ابن کثیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَدَّت طَّائِفَةٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يُضِلُّونَكُمْ وَمَا يُضِلُّونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُ‌ونَ ﴿٦٩﴾
اہل کتاب کی ایک جماعت چاہتی ہے کہ تمہیں گمراہ کر دیں، دراصل وہ خود اپنے آپ کو گمراہ کر رہے ہیں اور سمجھتے نہیں۔ (١)
٦٩۔١ یہ یہودیوں کے اس حسد و بغض کی وضاحت ہے جو اہل ایمان سے رکھتے تھے اور اسی عناد کی وجہ سے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی خواہش رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس طرح وہ خود ہی بے شعوری میں اپنے آپ کو گمراہ کر رہے ہیں۔
 
Top