يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَلْبِسُونَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿٧١﴾
اے اہل کتاب! باوجود جاننے کے حق و باطل کو کیوں خلط ملط کر رہے ہو اور کیوں حق کو چھپا رہے ہو؟ (١)
٧١۔١ اس میں یہودیوں کے دو بڑے جرائم کی نشاندہی کر کے انہیں ان سے باز رہنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ پہلا جرم حق و باطل اور سچ اور جھوٹ کو خلط ملط کرنا تاکہ لوگوں پر حق اور باطل واضح نہ ہو سکے۔ دوسرا کتمان حق۔ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جو اوصاف تورات میں لکھے ہوئے تھے، انہیں لوگوں سے چھپانا، تاکہ نبی صلی اللہ علی وسلم کی صداقت کم از کم اس اعتبار سے نمایاں نہ ہو سکے۔ اور یہ دونوں جرم جانتے بوجھتے کرتے تھے جس سے ان کی بدبختی دو چند ہو گئی تھی۔ ان کے جرائم کی نشان دہی سورۂ بقرہ میں بھی کی گئی ہے ﴿وَلا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ﴾ (البقرة: 42) "حق کو باطل کے ساتھ مت ملاؤ اور حق مت چھپاؤ اور تم جانتے ہو"۔ اہل کتاب کے لفظ کو بعض مفسرین نے عام رکھا ہے، جس میں یہو دو نصاریٰ دونوں شامل ہیں۔ یعنی دونوں کو ان جرائم مذکورہ سے باز رہنے کی تلقین کی گئی ہے اور بعض کے نزدیک اس سے مراد صرف وہ قبائل یہود ہیں جو مدینے میں رہائش پذیر تھے۔ بنو قریظہ، بنو نضیر، اور بنو قینقاع۔ زیادہ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ مسلمانوں کا براہ راست انہی سے معاملہ تھا اور یہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔