• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَإِن كُلٌّ لَّمَّا جَمِيعٌ لَّدَيْنَا مُحْضَرُ‌ونَ ﴿٣٢﴾
اور نہیں ہے کوئی جماعت مگر یہ وہ جمع ہو کر ہمارے سامنے حاضر کی جائے گی (١)
٣٢۔١ مطلب یہ ہے کہ تمام لوگ گذشتہ بھی اور آئندہ آنے والے بھی، سب اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہونگیں جہاں ان کا حساب کتاب ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَآيَةٌ لَّهُمُ الْأَرْ‌ضُ الْمَيْتَةُ أَحْيَيْنَاهَا وَأَخْرَ‌جْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ يَأْكُلُونَ ﴿٣٣﴾
اور ان کے لئے ایک نشانی (١) (خشک) زمین ہے جس کو ہم نے زندہ کر دیا اور اس سے غلہ نکالا جس میں سے وہ کھاتے ہیں۔
٣٣۔١ یعنی اللہ تعالٰی کے وجود، اس کی قدرت اور مردوں کو زندہ کرنے پر نشانی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَجَعَلْنَا فِيهَا جَنَّاتٍ مِّن نَّخِيلٍ وَأَعْنَابٍ وَفَجَّرْ‌نَا فِيهَا مِنَ الْعُيُونِ ﴿٣٤﴾
اور ہم نے اس میں کھجوروں کے اور انگور کے باغات پیدا کر دیئے (١) اور جن میں ہم نے چشمے بھی جاری کر دیئے ہیں۔
٣٤۔١ یعنی مردہ زمین کو زندہ کرکے ہم اس سے ان کی خوراک کے لئے صرف غلہ ہی نہیں لگاتے، بلکہ ان کے کام و دہن کی لذت کے لئے مختلف اقسام کے پھل بھی کثرت سے پیدا کرتے ہیں، یہاں صرف دو پھلوں کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ یہ کثیرالمنافع بھی ہیں اور عربوں کو مرغوب بھی، نیز ان کی پیداوار بھی عرب میں زیادہ ہے۔ پھر غلے کا ذکر پہلے کیا کیونکہ اس کی پیداوار بھی زیادہ ہے اور خوراک کی حیثیت سے اس کی اہمیت بھی مسلمہ۔ جب تک انسان روٹی یا چاول وغیرہ خوراک سے اپنا پیٹ نہیں بھرتا، محض پھل فروٹ سے اس کی غذائی ضرورت پوری نہیں ہوتی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
لِيَأْكُلُوا مِن ثَمَرِ‌هِ وَمَا عَمِلَتْهُ أَيْدِيهِمْ ۖ أَفَلَا يَشْكُرُ‌ونَ ﴿٣٥﴾
تاکہ (لوگ) اس کے پھل کھائیں (١) اور اس کو ان کے ہاتھوں نے نہیں بنایا (٢) پھر کیوں شکر گزاری نہیں کرتے۔
٣٥۔١ یعنی بعض جگہ چشمے جاری کرتے ہیں، جس کے پانی سے پیدا ہونے والے پھل لوگ کھائیں۔
٣٥۔٢ امام ابن جریر کے نزدیک یہاں ما نافیہ ہے یعنی غلول اور پھلوں کی یہ پیداوار، اللہ تعالٰی کی خاص رحمت ہے جو وہ اپنے بندوں پر کرتا ہے۔ اس میں ان کی سعی و محنت، کدو کاوش اور تصرف کا دخل نہیں ہے۔ پھر بھی یہ اللہ کی ان نعمتوں پر اس کا شکر کیوں نہیں کرتے؟ اور بعض کے نزدیک ما موصولہ ہے جو الَّذِیْ کے معنی میں ہے یعنی تاکہ وہ اس کا پھل کھائیں اور ان چیزوں کو جن کو ان کے ہاتھوں نے بنایا۔ ہاتھوں کا عمل ہے، زمین کو ہموار کرکے بیج بونا، اسی طرح پھلوں کے کھانے مختلف طریقے ہیں، مثلًا انہیں نچوڑ کر ان کا رس پینا، مختلف فروٹوں کو ملا کر چاٹ بنانا وغیرہ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
سُبْحَانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنبِتُ الْأَرْ‌ضُ وَمِنْ أَنفُسِهِمْ وَمِمَّا لَا يَعْلَمُونَ ﴿٣٦﴾
وہ پاک ذات ہے جس نے ہرچیز کے جوڑے پیدا کیے خواہ وہ زمین کی اگائی ہوئی چیزیں ہوں، خواہ خود ان کے نفوس ہوں خواہ وہ (چیزیں) ہوں جنہیں یہ جانتے بھی نہیں (١)
٣٦۔١ یعنی انسانوں کی طرح زمین کی ہر پیداوار میں بھی ہم نے نر مادہ دونوں پیدا کئے۔ علاوہ ازیں آسمانوں میں اور زمین کی گہرائیوں میں بھی جو چیزیں تم سے غائب ہیں، جن کا علم تم نہیں رکھتے، ان میں زوجیت (نر اور مادہ) کا یہ نظام ہم نے رکھا ہے۔ پس تمام مخلوق جوڑا جوڑا ہے، نباتات بھی نر اور مادے کا یہی نظام ہے۔ حتٰی کہ آخرت کی زندگی، دنیا کی زندگی کے لئے بمنزلہ زوج ہے اور یہ حیات آخرت کے لئے ایک عقلی دلیل بھی ہے۔ صرف ایک اللہ کی ذات ہے جو مخلوق کی صفت سے اور دیگر تمام کوتاہیوں سے پاک ہے۔ وہ (فرد) ہے، زوج نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَآيَةٌ لَّهُمُ اللَّيْلُ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهَارَ‌ فَإِذَا هُم مُّظْلِمُونَ ﴿٣٧﴾
اور ان کے لئے ایک نشانی رات ہے جس سے ہم دن کو کھنچ دیتے ہیں تو یکایک اندھیرے میں رہ جاتے ہیں (١)
٣٧۔١ یعنی اللہ کی قدرت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ وہ دن کو رات سے الگ کر دیتا ہے، جس سے فوراً اندھیرا چھا جاتا ہے۔ اسی طرح اللہ دن کو رات سے الگ کر دیتا ہے۔ اَظْلَمَ کے معنی ہیں، اندھیرے میں داخل ہونا۔ جیسے اَصْبَحَ اور اَمْسَیٰ اور اَظْھَرَ کے معنی ہیں، صبح شام اور ظہر کے وقت میں داخل ہونا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَالشَّمْسُ تَجْرِ‌ي لِمُسْتَقَرٍّ‌ لَّهَا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ‌ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ﴿٣٨﴾
اور سورج کے لئے جو مقررہ راہ ہے وہ اسی پر چلتا رہتا ہے یہ ہے مقرر کردہ غالب، باعلم اللہ تعالٰی کا۔ (۱)
(۱) یعنی اپنے اس مدار (فلک) پر چلتا رہتا ہے، جو اللہ نے اس کے لیے مقرر کردیا ہے، اسی سے اپنی سیر کا آغاز کرتا ہے اور وہیں پر ختم کرتا ہے۔ علاوہ ازیں اس سے ذرا ادھر ادھر نہیں ہوتا، کہ کسی دوسرے سیارے سے ٹکرا جائے۔ دوسرے معنی ہیں، اپنے ٹھہرنے کی جگہ تک، اور اس کا یہ مقام قرار عرش کے نیچے ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ سورج روزانہ غروب کے بعد عرش کے نیچے جاکر سجدہ کرتا ہے اور پھر وہاں سے طلوع ہونے کی اجازت طلب کرتا ہے (صحیح بخاری، تفسیر سورہ یسین) دونوں مفہوم کے اعتبار سے لمستقر میں لام، علت کے لئے ہے۔ ای۔ لأجل مستقرلھا بعض کہتے ہیں کہ لام، الی کے معنی میں ہے، پھر مستقر یوم قیامت ہوگا۔ یعنی سورج کا یہ چلنا قیامت کے دن تک ہے، قیامت والے دن اس کی حرکت ختم ہو جائے گی۔ یہ تینوں مفہوم اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَالْقَمَرَ‌ قَدَّرْ‌نَاهُ مَنَازِلَ حَتَّىٰ عَادَ كَالْعُرْ‌جُونِ الْقَدِيمِ ﴿٣٩﴾
اور چاند کی منزلیں مقرر کر رکھی ہیں (١) کہ وہ لوٹ کر پرانی ٹہنی کی طرح ہو جاتا ہے (٢)
٣٩۔١ چاند کی ٢٨ منزلیں ہیں، روزانہ ایک منزل طے کرتا ہے، پھر غائب رہ کر تیسری رات کو نکل آتا ہے
٣٩۔٢ یعنی جب آخری منزل پر پہنچتا ہے تو بالکل باریک اور چھوٹا ہو جاتا ہے جیسے کھجور کی پرانی ٹہنی ہو، جو سوکھ کر ٹیڑھی ہو جاتی ہے۔ چاند کی انہی گردشوں سے اپنے دنوں مہینوں اور سالوں کا حساب اور اپنے اوقات عبادات کا تعین کرتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
لَا الشَّمْسُ يَنبَغِي لَهَا أَن تُدْرِ‌كَ الْقَمَرَ‌ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ‌ ۚ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ ﴿٤٠﴾
نہ آفتاب کی یہ مجال ہے کہ چاند کو پکڑے (١) اور نہ رات دن پر آگے بڑھ جانے والی ہے (٢) اور سب کے سب آسمان میں تیرتے پھرتے ہیں (٣)۔
٤٠۔١ یعنی سورج کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے جس سے اس کی روشنی ختم ہو جائے بلکہ دونوں کا اپنا اپنا راستہ اور الگ الگ حد ہے۔ سورج دن ہی کو اور چاند رات ہی کو طلوع ہوتا ہے اس کے برعکس کبھی نہیں ہوا، جو ایک مدبر کائنات کے وجود پر ایک بہت بڑی دلیل ہے۔
٤٠۔٢ بلکہ یہ بھی ایک نظام میں بندھے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کے بعد آتے ہیں۔
٤٠۔٣ کُل سے سورج، چاند یا اس کے ساتھ دوسرے کواکب مراد ہیں، سب اپنے اپنے مدار پر گھومتے ہیں، ان کا باہمی ٹکراؤ نہیں ہوتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَآيَةٌ لَّهُمْ أَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّ‌يَّتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ ﴿٤١﴾
ان کے لئے ایک نشانی (یہ بھی) ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا (١)
٤١۔١ اس میں اللہ تعالٰی اپنے اس احسان کا تذکرہ فرما رہا ہے کہ اس نے سمندر میں کشتیوں کا چلنا آسان فرما دیا، حتٰی کہ تم اپنے ساتھ بھری ہوئی کشتیوں میں اپنے بچوں کو بھی لے جاتے ہو اور دوسرے معنی سے یہ مراد کشتی نوح علیہ السلام ہے۔ یعنی سفینہ نوح علیہ السلام میں لوگوں کو بٹھایا جن سے بعد میں نسل انسانی چلی۔ گویا نسل انسانی کے آبا اس میں سوار تھے۔
 
Top