• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَأَنِ اعْبُدُونِي ۚ هَـٰذَا صِرَ‌اطٌ مُّسْتَقِيمٌ ﴿٦١﴾
اور میری عبادت کرنا (١) سیدھی راہ یہی ہے (٢)
٦١۔١ یعنی یہ بھی عہد لیا تھا کہ تمہیں صرف میری ہی عبادت کرنی ہے، میری عبادت میں کسی کو شریک نہیں کرنا۔
٦١۔٢ یعنی صرف ایک اللہ کی عبادت کرنا، یہی وہ سیدھا راستہ ہے، جس کی طرف تمام انبیاء لوگوں کو بلاتے رہے اور یہی منزل مقصود یعنی جنت تک پہنچانے والا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنكُمْ جِبِلًّا كَثِيرً‌ا ۖ أَفَلَمْ تَكُونُوا تَعْقِلُونَ ﴿٦٢﴾
شیطان نے تم میں سے بہت ساری مخلوق کو بہکا دیا۔ کیا تم عقل نہیں رکھتے (١)۔
٦٢۔١ یعنی اتنی عقل بھی تمہارے اندر نہیں کہ شیطان تمہارا دشمن ہے، اس کی اطاعت نہیں کرنی چاہئے۔ اور میں تمہارا رب ہوں، میں ہی تمہیں روزی دیتا ہوں اور میں ہی تمہاری رات دن حفاظت کرتا ہوں لہذا تمہیں میری نافرمانی نہیں کرنی چاہیے۔ تم شیطان کی عداوت کو اور میرے حق عبادت کو نہ سمجھ کر نہایت بےعقلی اور نادانی کا مظاہرہ کر رہے ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
هَـٰذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ ﴿٦٣﴾
یہی وہ دوزخ ہے جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا تھا۔
اصْلَوْهَا الْيَوْمَ بِمَا كُنتُمْ تَكْفُرُ‌ونَ ﴿٦٤﴾
اپنے کفر کا بدلہ پانے کے لئے آج اس میں داخل ہو جاؤ (١)۔
٦٤۔١ یعنی اب اس بےعقلی کا نتیجہ بھگتو اور اپنے کفر کے سبب سے جہنم کی سختیوں کا مزہ چکھو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَىٰ أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْ‌جُلُهُم بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ﴿٦٥﴾
ہم آج کے دن ان کے منہ پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے باتیں کریں گے اور ان کے پاؤں گواہیاں دیں گے، ان کاموں کی جو وہ کرتے تھے۔ (۱)
٦٥۔١ یہ مہر لگانے کی ضرورت اس لئے پیش آئیگی کہ ابتداءً مشرکین قیامت والے دن بھی جھوٹ بولیں گے اور کہیں گے (وَاللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِيْنَ) 6۔ الانعام:23) اللہ کی قسم، جو ہمارا رب ہے، ہم مشرک نہیں تھے چنانچہ اللہ تعالٰی ان کے مونہوں پر مہر لگا دے گا، جس سے وہ خود تو بولنے کی طاقت سے محروم ہو جائیں گے، البتہ اللہ تعالٰی اعضائے انسانی کو قوت گویائی عطا فرما دے گا، ہاتھ بولیں گے کہ ہم سے اس نے فلاں فلاں کام کیا تھا اور پاؤں اس پر گواہی دیں گے۔ یوں گویا اقرار اور شہادت، دونوں مرحلے طے ہوجائیں گے۔ علاوہ ازیں ناطق کے مقابلے میں غیر ناطق چیزوں کا بول کر گواہی دینا، حجت واستدلال میں زیادہ بلیغ ہے کہ اس میں ایک اعجازی شان پائی جاتی ہے۔ (فتح القدیر) اس مضموں کو احادیث میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ (ملاحظہ ہو صحیح مسلم، کتاب الزھد۔)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَلَوْ نَشَاءُ لَطَمَسْنَا عَلَىٰ أَعْيُنِهِمْ فَاسْتَبَقُوا الصِّرَ‌اطَ فَأَنَّىٰ يُبْصِرُ‌ونَ ﴿٦٦﴾
اگر ہم چاہتے تو ان کی آنکھیں بےنور کر دیتے پھر یہ راستے کی طرف دوڑتے پھرتے لیکن انہیں کیسے دکھائی دیتا؟ (١)
٦٦۔١ یعنی بینائی سے محرومی کے بعد انہیں راستہ کس طرح دکھائی دیتا؟ لیکن یہ ہمارا حلم و کرم ہے کہ ہم نے ایسا نہیں کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَلَوْ نَشَاءُ لَمَسَخْنَاهُمْ عَلَىٰ مَكَانَتِهِمْ فَمَا اسْتَطَاعُوا مُضِيًّا وَلَا يَرْ‌جِعُونَ ﴿٦٧﴾
اور اگر ہم چاہتے تو ان کی جگہ ہی پر ان کی صورتیں مسخ کر دیتے پھر وہ چل پھر سکتے اور نہ لوٹ سکتے (١)
٦٧۔١ یعنی نہ آگے جاسکتے، نہ پیچھے لوٹ سکتے، بلکہ پتھر کی طرح ایک جگہ پڑے رہتے۔ مسخہ کے معنی پیدائش میں تبدیلی کے ہیں، یعنی انسان سے پتھر یا جانور کی شکل میں تبدیل کر دینا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَمَن نُّعَمِّرْ‌هُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ ۖ أَفَلَا يَعْقِلُونَ ﴿٦٨﴾
اور جسے ہم بوڑھا کرتے ہیں اسے پیدائشی حالت کی طرف پھر الٹ دیتے ہیں (١) کیا پھر بھی وہ نہیں سمجھتے (٢)
٦٨۔١ یعنی جس کو ہم لمبی عمر دیتے ہیں، ان کی پیدائش کو بدل کر برعکس حالت میں کر دیتے ہیں۔ یعنی جب وہ بچہ ہوتا ہے تو اس کی نشو و نما جاری رہتی ہے اور اس کی عقلی اور بدنی قوتوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے حتٰی کہ وہ جوانی اور بڑھاپے کو پہنچ جاتا ہے۔ اس کے برعکس اس کے قوائے عقلیہ و بدنیہ میں ضعف و گھٹاؤ کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ حتٰی کہ وہ ایک بچے کی طرح ہو جاتا ہے۔
٦٨۔٢ کہ جو اللہ اس طرح کر سکتا ہے، کیا وہ دوبارہ انسانوں کو زندہ کرنے پر قادر نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ‌ وَمَا يَنبَغِي لَهُ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ‌ وَقُرْ‌آنٌ مُّبِينٌ ﴿٦٩﴾
نہ تو ہم نے اس پیغمبر کو شعر سکھائے اور نہ یہ اس کے لائق ہے۔ وہ تو صرف نصیحت اور واضح قرآن ہے (١)
٦٩۔١ مشرکین مکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلانے کے لئے مختلف قسم کی باتیں کہتے رہتے تھے۔ ان میں ایک بات یہ بھی تھی کہ آپ شاعر ہیں اور یہ قرآن پاک آپ کی شاعرانہ تک بندی ہی ہے۔ اللہ تعالٰی نے اس کی نفی فرمائی۔ کہ آپ شاعر ہیں اور نہ قرآن شعری کلام کا مجموعہ ہے بلکہ یہ تو صرف نصیحت و موعظت ہے۔ شاعری میں بالعموم مبالغہ، افراط و تفریط اور محض تخیلات کی ندرت کاری ہوتی ہے، یوں گویا اسکی بنیاد جھوٹ پر ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں شاعر محض گفتار کے غازی ہوتے ہیں، کردار کے نہیں۔ اس لیے اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ ہم نے نہ صرف یہ کہ اپنے پیغمبر کو شعر نہیں سکھلائے، نہ اشعار کی اس پر وحی کی، بلکہ اس کے مزاج وطبیعت کو ایسا بنایا کہ شعر سے اسکو کوئی مناسبت ہی نہیں ھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کسی کا شعر پڑھتے تو اکثر صحیح نہ پڑھ پاتے اور اسکا وزن ٹوٹ جاتا۔ جس کی مثالیں احادیث میں موجود ہیں۔ یہ احتیاط اس لیے کی گئی کہ منکرین پر اتمام حجت اور انکے شبہات کا خاتمہ کر دیا جائے۔ اور وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ یہ قرآن کی شاعرانہ تک بندی کا نتیجہ ہے، جس طرح آپ کی امیت بھی قطع شبہات کے لیے تھی تاکہ لوگ قرآن کی بابت یہ نہ کہہ سکیں کہ یہ تو اس نے فلاں سے سیکھ پڑھ کر اس کو مرتب کرلیا ہے۔ البتہ بعض مواقع پر آپ کی زبان مبارک سے ایسے الفاظ کا نکل جانا، دو مصرعوں کی طرح ہوتے اور شعری اوزان و بحور کے بھی مطابق ہوتے، آپ کے شاعر ہونے کی دلیل نہیں بن سکتے۔ کیونکہ ایسا آپ کے قصدو ارادہ کے بغیر ہوا اور ان کا شعری قالب میں ڈھل جانا ایک اتفاق تھا، جس طرح حنین والے دن آپ کی زبان پر بے اختیار یہ رجز جاری ہوگیا۔ انا النبی لا کذب۔ انا ابن عبد المطلب ایک اور موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی زخمی ہوگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ھل أنت الا اصبع دمیت۔ وفی سبیل اللہ ما لقیت
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
لِّيُنذِرَ‌ مَن كَانَ حَيًّا وَيَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَى الْكَافِرِ‌ينَ ﴿٧٠﴾
تاکہ وہ ہر شخص کو آگاہ کر دے جو زندہ ہے (١) اور کافروں پر حجت ثابت ہو جائے (٢)۔
٧٠۔١ یعنی جس کا دل صحیح ہے، حق کو قبول کرتا اور باطل سے انکار کرتا ہے۔
٧٠۔٢ یعنی جو کفر پر مصر ہو، اس پر عذاب والی بات ثابت ہو جائے۔ لِیُنْذِرَ میں ضمیر کا مرجع قرآن ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
أَوَلَمْ يَرَ‌وْا أَنَّا خَلَقْنَا لَهُم مِّمَّا عَمِلَتْ أَيْدِينَا أَنْعَامًا فَهُمْ لَهَا مَالِكُونَ ﴿٧١﴾
کیا وہ نہیں دیکھتے ہم نے اپنے ہاتھوں بنائی (١) ہوئی چیزوں میں سے ان کے لئے چوپائے (٢) بھی پیدا کئے جن کے کہ یہ مالک ہوگئے ہیں (٣)
٧١۔١ اس سے غیروں کی شرکت کی نفی ہے، ان کو ہم نے اپنے ہاتھوں سے بنایا، کسی اور کا ان کے بناننے میں حصہ نہیں ہے۔
٧١۔٢ اَنْعَام نَعَم کی جمع ہے۔ اس سے مراد چوپائے یعنی اونٹ، گائے، بکری اور بھیڑ دنبہ وغیرہ ہیں۔
٧١۔٣ یعنی جس طرح چاہتے ہیں ان میں تصرف کرتے ہیں، اگر ہم ان کے اندر وحشی پن رکھ دیتے (جیسا کہ بعض جانوروں میں ہے) تو یہ چوپائے ان سے دور بھاگتے اور وہ ان کی ملکیت اور قبضے میں ہی نہ آسکتے۔
 
Top