• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَذَلَّلْنَاهَا لَهُمْ فَمِنْهَا رَ‌كُوبُهُمْ وَمِنْهَا يَأْكُلُونَ ﴿٧٢﴾
اور ان مویشیوں کو ہم نے ان کے تابع فرمان کردیا (١) جن میں سے بعض تو ان کی سواریاں ہیں اور بعض کا گوشت کھاتے ہیں۔
٧٢۔١ یعنی ان جانوروں سے وہ جس طرح کا بھی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، وہ انکار نہیں کرتے، حتٰی کہ وہ انہیں ذبح بھی کر دیتے ہیں اور چھوٹے بچے انہیں کھینچے پھرتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَلَهُمْ فِيهَا مَنَافِعُ وَمَشَارِ‌بُ ۖ أَفَلَا يَشْكُرُ‌ونَ ﴿٧٣﴾
انہیں ان میں سے اور بھی بہت سے فائدے ہیں (١) اور پینے کی چیزیں۔ کیا پھر (بھی) یہ شکر ادا نہیں کریں گے؟
٧٣۔١ یعنی سواری اور کھانے کے علاوہ بھی ان سے بہت سے فوائد حاصل کئے جاتے ہیں مثلًا اون اور بالوں سے کئی چیزیں بنتی ہیں، ان کی چربی سے تیل حاصل ہوتا ہے اور یہ باربرداری اور کھیتی باڑی کے کام بھی آتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَاتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّـهِ آلِهَةً لَّعَلَّهُمْ يُنصَرُ‌ونَ ﴿٧٤﴾
اور وہ اللہ کے سوا دوسروں کو معبود بناتے ہیں تاکہ وہ مدد کئے جائیں (١)۔
٧٤۔١ یہ ان کفران نعمت کا اظہار ہے کہ مذکورہ نعمتیں، جن سے یہ فائدہ اٹھاتے ہیں، سب اللہ کی پیدا کردہ ہیں۔ لیکن یہ بجائے اس کے کہ یہ اللہ کی نعمتوں پر شکر ادا کریں یعنی ان کی عبادت و اطاعت کریں، یہ غیروں سے امیدیں وابستہ کرتے اور انہیں معبود بناتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ‌هُمْ وَهُمْ لَهُمْ جُندٌ مُّحْضَرُ‌ونَ ﴿٧٥﴾
(حالانکہ) ان میں ان کی مدد کی طاقت ہی نہیں، (لیکن) پھر بھی (مشرکین) ان کے لئے حاضر باش لشکری ہیں (١)
٧٥۔١ مطلب یہ ہے کہ جن بتوں کو معبود سمجھتے ہیں، وہ ان کی مدد کیا کریں گے؟ وہ خود اپنی مدد کرنے سے قاصر ہیں انہیں کوئی برا کہے ان کی ندامت کرے، تو یہی ان کی حمایت و مدافت میں سرگرم ہوتے ہیں، نہ کہ خود ان کے وہ معبود
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
فَلَا يَحْزُنكَ قَوْلُهُمْ ۘ إِنَّا نَعْلَمُ مَا يُسِرُّ‌ونَ وَمَا يُعْلِنُونَ ﴿٧٦﴾
پس آپ کو ان کی بات غمناک نہ کرے، ہم ان کی پوشیدہ اور اعلانیہ سب باتوں کو (بخوبی) جانتے ہیں۔
أَوَلَمْ يَرَ‌ الْإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِن نُّطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ ﴿٧٧﴾
کیا انسان کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا ہے؟ پھر یکایک وہ صریح جھگڑالو بن بیٹھا۔
وَضَرَ‌بَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِيَ خَلْقَهُ ۖ قَالَ مَن يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَ‌مِيمٌ ﴿٧٨﴾
اور اس نے ہمارے لئے مثال بیان کی اور اپنی (اصل) پیدائش کو بھول گیا، کہنے لگا ان کی گلی سڑی ہڈیوں کو کون زندہ کر سکتا ہے؟
قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّ‌ةٍ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ ﴿٧٩﴾
آپ جواب دیجئے! کہ انہیں وہ زندہ کرے گا جس نے اول مرتبہ پیدا کیا ہے (١) جو سب طرح کی پیدائش کا بخوبی جاننے والا ہے۔
٧٩۔١ یعنی جو اللہ تعالٰی انسان کو ایک حقیر نطفے سے پیدا کرتا ہے، وہ دوبارہ اس کو زندہ کرنے پر قادر نہیں ہے؟ اسکی قدرت احیائے موتی کا ایک واقعہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ ایک شخص نے مرتے وقت وصیت کی کہ مرنے کے بعد اسے جلا کر اس کی آدھی راکھ سمندر میں اور آدھی راکھ تیز ہوا والے دن خشکی میں اڑا دی جائے۔ اللہ تعالٰی نے ساری راکھ جمع کرکے اسے زندہ فرمایا اور اس سے پوچھا تو نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے کہا تیرے خوف سے۔ چنانچہ اللہ نے اسے معاف فرما دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
الَّذِي جَعَلَ لَكُم مِّنَ الشَّجَرِ‌ الْأَخْضَرِ‌ نَارً‌ا فَإِذَا أَنتُم مِّنْهُ تُوقِدُونَ ﴿٨٠﴾
وہی جس نے تمہارے لئے سبز درخت سے آگ پیدا کر دی جس سے تم یکایک آگ سلگاتے ہو (١)۔
٨٠۔١ کہتے ہیں عرب میں دو درخت ہیں مرخ اور عفار۔ ان کی دو لکڑیاں آپس میں رگڑی جائیں تو آگ پیدا ہوتی ہے، سبز درخت سے آگ پیدا کرنے کے حوالے سے اس طرف اشارہ مقصود ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
أَوَلَيْسَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ بِقَادِرٍ‌ عَلَىٰ أَن يَخْلُقَ مِثْلَهُم ۚ بَلَىٰ وَهُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ ﴿٨١﴾
جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے کیا وہ ہم جیسوں (١) کے پیدا کرنے پر قادر نہیں، بیشک قادر ہے۔ اور وہی پیدا کرنے والا دانا (بینا) ہے۔
٨١۔١ یعنی انسانوں جیسے مطلب انسانوں کا دوبارہ پیدا کرنا جس طرح انہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا، آسمان و زمین کی پیدائش سے انسانوں کو دوبارہ پیدا کرنے پر استدلال ہے۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا (لَخَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرضِ اَکْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ) (اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَلَمْ يَعْيَ بِخَلْقِهِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰٓي اَنْ يُّـحْيِۦ الْمَوْتٰى ۭ بَلٰٓي اِنَّهٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ) 46۔ الاحقاف:33) ' آسمان و زمین کی پیدائش (لوگوں کے نزدیک) انسانوں کی پیدائش سے زیادہ مشکل کام ہے '۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
إِنَّمَا أَمْرُ‌هُ إِذَا أَرَ‌ادَ شَيْئًا أَن يَقُولَ لَهُ كُن فَيَكُونُ ﴿٨٢﴾
وہ جب کبھی کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے اسے اتنا فرما دینا (کافی ہے) کہ ہو جا، تو وہ اسی وقت ہو جاتی ہے۔ (۱)
(۱) یعنی اس کی شان تو یہ ہے پھر اس کے لیے سب انسانوں کا زندہ کر دینا کون سا مشکل معاملہ ہے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
فَسُبْحَانَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَإِلَيْهِ تُرْ‌جَعُونَ ﴿٨٣﴾
پس پاک ہے وہ اللہ جس کے ہاتھ میں ہرچیز کی بادشاہت ہے اور (۱) جس کی طرف تم سب لوٹائے جاؤ گے (١)۔
(۱) یعنی یہ نہیں ہوگا کہ مٹی میں رل مل کر مبالغے کا صیغہ قرار دیتے ہیں۔ (فتح القدیر) یعنی ملکوت ملک کا مبالغہ ہے۔
٨٣۔١ یعنی یہ نہیں ہوگا کہ مٹی میں رل مل کر تمہارا وجود ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے نہیں بلکہ اسے دوبارہ وجود عطا کیا جائے گا۔ یہ بھی نہیں ہوگا کہ تم بھاگ کر کسی اور کے پاس پناہ طلب کر لو۔ تمہیں ہر حال اللہ ہی کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہوگا، جہاں وہ عملوں کے مطابق اچھی یا بری جزا دے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
سورة الصافات

(سورة الصافات ۔ سورہ نمبر ۳۷ ۔ تعداد آیات ۱۸۲)​
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
وَالصَّافَّاتِ صَفًّا ﴿١﴾
قسم صف باندھنے والے (فرشتوں) کی۔
فَالزَّاجِرَ‌اتِ زَجْرً‌ا ﴿٢﴾
پھر پوری طرح ڈانٹنے والوں کی۔
فَالتَّالِيَاتِ ذِكْرً‌ا ﴿٣﴾
پھر ذکر اللہ کی تلاوت کرنے والوں کی۔
إِنَّ إِلَـٰهَكُمْ لَوَاحِدٌ ﴿٤﴾
یقیناً تم سب کا معبود ایک ہی ہے (١)۔
٤۔١ فرشتوں کی صفات ہیں۔ آسمانوں پر اللہ کی عبادت کے لئے صف باندھنے والے، یا اللہ کے حکم کے انتظار میں صف بستہ، وعظ و نصیحت کے ذریعے سے لوگوں کو ڈانٹنے والے یا بادلوں کو جہاں اللہ کا حکم ہو وہاں ہانک کر لے جانے والے اللہ کے ذکر یا قرآن کی تلاوت کرنے والے۔ ان فرشتوں کی قسم کھا کر اللہ تعالٰی نے مضموں میں یہ فرمایا ہے کہ تمام انسانوں کا معبود ایک ہی ہے۔ متعدد نہیں جیسا کہ مشرکین بنائے ہوئے ہیں۔ عرف عام میں قسم تاکید اور شک دور کرنے کے لئے کھائی جاتی ہے، اللہ تعالٰی نے یہاں قسم اسی شک کو دور کرنے کے لئے کھائی ہے جو مشرکین اسکی واحدنیت و الوہیت کے بارے میں پھلاتے ہیں۔ علاوہ ازیں ہرچیز کی مخلوق اور مملوک ہے، اس لئے وہ جس چیز کو بھی گواہ بنا کر اس کی قسم کھائے، اس کے لئے جائز ہے۔ لیکن انسانوں کے لئے اللہ کے سوا کسی اور کی قسم کھانا بالکل ناجائز اور حرام ہے۔ کیونکہ قسم میں جس کی قسم کھائی جاتی ہے، اسے گواہ بنانا مقصود ہوتا ہے۔ اور گواہ اللہ کے سوا کوئی نہیں بن سکتا، کہ عالم الغیب صرف وہی ہے، اس کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں۔
 
Top