• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
فَمَنِ افْتَرَ‌ىٰ عَلَى اللَّـهِ الْكَذِبَ مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴿٩٤﴾
اس کے بعد بھی جو لوگ اللہ تعالٰی پر جھوٹ بہتان باندھیں وہ ہی ظالم ہیں۔

قُلْ صَدَقَ اللَّـهُ ۗ فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْرَ‌اهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِ‌كِينَ ﴿٩٥﴾
کہہ دیجئے کہ اللہ تعالی سچا ہے تم سب ابراہیم حنیف کی ملت کی پیروی کرو، جو مشرک نہ تھے۔

إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَ‌كًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ ﴿٩٦﴾
اللہ تعالٰی کا پہلا گھر جو لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا وہی ہے جو مکہ (شریف) میں ہے (١) جو تمام دنیا کے لیے برکت و ہدایت والا ہے۔
٩٦۔ ا یہ یہود کے دوسرے اعتراض کا جواب ہے، وہ کہتے تھے کہ بیت المقدس سب سے پہلا عبادت خانہ ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں نے اپنا قبلہ کیوں بدل لیا؟ اس کے جواب میں کہا گیا تمہارا یہ دعویٰ بھی غلط ہے۔ پہلا گھر، جو اللہ کی عبادت کے لیے تعمیر کی گیا ہے، وہ ہے جو مکہ میں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَ‌اهِيمَ ۖ وَمَن دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا ۗ وَلِلَّـهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۚ وَمَن كَفَرَ‌ فَإِنَّ اللَّـهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ ﴿٩٧﴾
جس میں کھلی کھلی نشانیاں ہیں، مقام ابراہیم ہے، اس میں جو آ جائے امن والا ہو جاتا ہے (١) اللہ تعالٰی نے ان لوگوں پر جو اس طرف کی راہ پا سکتے ہوں اس گھر کا حج فرض کر دیا ہے۔ (٢) اور جو کوئی کفر کرے تو اللہ تعالٰی (اس سے بلکہ) تمام دنیا سے بے پرواہ ہے۔ (٣)
٩٧۔۱ اس میں قتال، خون ریزی، شکار حتٰی کہ درخت تک کاٹنا ممنوع ہے۔ (صحیحین)
٩٧۔٢ "راہ پا سکتے ہوں" کا مطلب زاد راہ کی استطاعت اور فراہمی ہے۔ یعنی اتنا خرچ کہ سفر کے اخراجات پورے ہو جائیں۔ علاوہ ازیں استطاعت کے مفہوم میں یہ بھی داخل ہے کہ راستہ پُر امن ہو اور جان و مال محفوظ رہے، اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ صحت و تندرستی کے لحاظ سے سفر کے قابل ہو۔ نیز عورت کے لیے محرم بھی ضروری ہے۔ (فتح القدیر) یہ آیت ہر صاحب استطاعت کے لیے وجوب حج کی دلیل ہے اور احادیث سے امر کی وضاحت ہوتی ہے کہ یہ عمر میں صرف ایک مرتبہ فرض ہے۔ (تفسیر ابن کثیر)
٩٧۔٣ استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے کو قرآن نے "کفر" سے تعبیر کیا ہے جس سے حج کی فرضیت میں اور اس کی تاکید میں کوئی شبہ نہیں رہتا۔ احادیث و آثار میں بھی ایسے شخص کے لیے وعید آئی ہے۔ (تفسیر ابن کثیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَكْفُرُ‌ونَ بِآيَاتِ اللَّـهِ وَاللَّـهُ شَهِيدٌ عَلَىٰ مَا تَعْمَلُونَ ﴿٩٨﴾
آپ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب تم اللہ تعالٰی کی آیتوں کے ساتھ کفر کیوں کرتے ہو؟ جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس پر گواہ ہے۔

قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ مَنْ آمَنَ تَبْغُونَهَا عِوَجًا وَأَنتُمْ شُهَدَاءُ ۗ وَمَا اللَّـهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ﴿٩٩﴾
ان اہل کتاب سے کہو کہ تم اللہ تعالٰی کی راہ سے لوگوں کو کیوں روکتے ہو؟ اور اس میں عیب ٹٹولتے ہو، حالانکہ تم خود شاہد ہو، (١) اللہ تعالٰی تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں۔
٩٩۔١ یعنی تم جانتے ہو کہ یہ دین اسلام حق ہے، اس کے داعی اللہ کے سچے پیغمبر ہیں کیونکہ یہ باتیں ان کتابوں میں درج ہیں جو تمہارے انبیاء پر اتریں اور جنہیں تم پڑھتے ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تُطِيعُوا فَرِ‌يقًا مِّنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ يَرُ‌دُّوكُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ كَافِرِ‌ينَ ﴿١٠٠﴾
اے ایمان والو! اگر تم اہل کتاب کی کسی جماعت کی باتیں مانو گے تو وہ تمہیں تمہارے ایمان لانے کے بعد مرتد کافر بنا دیں (١) گے۔
١٠٠۔١ یہودیوں کے مکر و فریب اور ان کی طرف سے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی مذموم کوششوں کا ذکر کرنے کے بعد مسلمانوں کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ تم بھی ان کی سازشوں سے ہوشیار رہو اور قرآن کی تلاوت کرنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موجود ہونے کے باوجود کہیں یہود کے جال میں نہ پھنس جاؤ۔ اس کا پس منظر تفسیری روایات میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ انصار کے دونوں قبیلے اوس اور خزرج ایک مجلس میں اکھٹے بیٹھے باہم گفتگو کر رہے تھے کہ شاس بن قیس یہودی ان کے پاس سے گزرا اور ان کا باہمی پیار دیکھ کر جل بھن گیا کہ پہلے ایک دوسرے کے سخت دشمن تھےاور اب اسلام کی برکت سے باہم شیر و شکر ہو گئے ہیں۔ اس نے ایک نوجوان کے ذمے یہ کام لگایا کہ وہ ان کے درمیان جا کر جنگ بعاث کا تذکرہ کرے جو ہجرت سے ذرا پہلے ان کے درمیان برپا ہوئی تھی اور انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف جو رزمیہ اشعار کہے تھے وہ ان کو سنائے۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا، جس پر ان دونوں قبیلوں کے پرانے جذبات پھر بھڑک اٹھے اور ایک دوسرے کو گالی گلوچ دینے لگے یہاں تک کہ ہتھیار اٹھانے کے لیے للکار اور پکار شروع ہو گئی۔ اور قریب تھا کہ ان میں باہم قتال بھی شروع ہو جائے کہ اتنے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور انہیں سمجھایا اور وہ باز آ گئے اس پر یہ آیت بھی اور جو آگے آ رہی ہے وہ بھی نازل ہوئیں۔ (تفسير ابن كثير، فتح القدير وغيره)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
وَكَيْفَ تَكْفُرُ‌ونَ وَأَنتُمْ تُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ آيَاتُ اللَّـهِ وَفِيكُمْ رَ‌سُولُهُ ۗ وَمَن يَعْتَصِم بِاللَّـهِ فَقَدْ هُدِيَ إِلَىٰ صِرَ‌اطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴿١٠١﴾
(گویا یہ ظاہر ہے کہ) تم کیسے کفر کر سکتے ہو؟ باوجودیکہ تم پر اللہ تعالٰی کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور تم میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) موجود ہیں۔ جو شخص اللہ (کے دین) کو مضبوط تھام لے (١) تو بلاشبہ اسے راہ راست دکھا دی گئی۔
١٠١۔۱ اعْتِصام باللہ کے معنی ہیں: اللہ کے دین کو مضبوطی سے تھام لینا اور اس کی اطاعت میں کوتاہی نہ کرنا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ ﴿١٠٢﴾
اے ایمان والو! اللہ سے اتنا ڈرو جتنا اس سے ڈرنا چاہیے (١) اور دیکھو مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا۔
١٠٢۔١ اس کا مطلب ہے کہ اسلام کے احکام و فرائض پورے طور پر بجا لائے جائیں اور منہیات کے قریب نہ جایا جائے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس آیت سے صحابہ رضی اللہ عنہم پریشان ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے آیت ﴿فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴾ ”اللہ سے اپنی طاقت کے مطابق ڈرو نازل فرما دی“۔ لیکن اسے ناسخ کی بجائے اس کی مُبَيّنٌ (بیان و توضیح کرنے والی) قرار دیا جائے تو زیادہ صحیح ہے، کیونکہ نسخ وہیں ماننا چاہیے جہاں دونوں آیتوں میں جمع و تطبیق ممکن نہ ہو اور یہاں تطبیق ممکن ہے۔ معنی یہ ہوں گے (اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَاتِهِ مَا اسْتَطَعْتُمْ) ”اللہ سے اس طرح ڈرو جس طرح اپنی طاقت کے مطابق ڈرنے کا حق ہے“ (فتح القدير)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّـهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّ‌قُوا ۚ وَاذْكُرُ‌وا نِعْمَتَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَ‌ةٍ مِّنَ النَّارِ‌ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ﴿١٠٣﴾
اللہ تعالٰی کی رسی کو سب مل کر مضبوط تھام لو (١) اور پھوٹ نہ ڈالو، (٢) اور اللہ تعالٰی کی اس وقت کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی، پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہو گئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پہنچ چکے تھے تو اس نے تمہیں بچا لیا۔ اللہ تعالٰی اسی طرح تمہارے لیے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔
١٠٣۔١ تقویٰ کے بعد اعْتِصَام بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا ”سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں“ کا درس دے کر واضح کر دیا کہ نجات بھی انہی دو اصولوں میں ہے اور اتحاد بھی انہی پر قائم ہو سکتا اور رہ سکتا ہے۔
١٠٣۔٢ وَلا تَفَرَّقُوا "اور پھوٹ نہ ڈالو" کے ذریعے فرقہ بندی سے روک دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مذکورہ دو اصولوں سے انحراف کرو گے تو تمہارے درمیان پھوٹ پڑ جائے گی اور تم الگ الگ فرقوں میں بٹ جاؤ گے، چنانچہ فرقہ بندی کے تاریخ دیکھ لیجئے، یہی چیز نمایاں ہو کر سامنے آئے گی، قرآن و حدیث کے فہم اور اس کی توضیح و تعبیر میں کچھ باہم اختلاف، یہ فرقہ بندی کا سبب نہیں ہے۔ یہ اختلاف تو صحابہ کرام و تابعین کے عہد میں بھی تھا لیکن مسلمان فرقوں اور گروہوں میں تقسیم نہیں ہوئے۔ کیونکہ اس اختلاف کے باوجود سب کا مرکز اطاعت اور محور عقیدت ایک ہی تھا قرآن اور حدیث رسول لیکن جب شخصیات کے نام پر دبستان فکر معرض وجود میں آئے تو اطاعت و عقیدت کے یہ مرکز و محور تبدیل ہو گئے۔ اپنی اپنی شخصیات اور ان کے اقوال و افکار اولین حیثیت کے اور اللہ رسول اور ان کے فرمودات ثانوی حیثیت کے حامل قرار پائے۔ اور یہیں سے امت مسلمہ کے افتراق کے المیئے کا آغاز ہوا جو دن بدن بڑھتا ہی چلا گیا اور نہایت مستحکم ہو گیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ‌ وَيَأْمُرُ‌ونَ بِالْمَعْرُ‌وفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ‌ ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿١٠٤﴾
تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو بھلائی کی طرف لائے اور نیک کاموں کا حکم کرے اور برے کاموں سے روکے، اور یہی لوگ فلاح اور نجات پانے والے ہیں۔

وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّ‌قُوا وَاخْتَلَفُوا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ ۚ وَأُولَـٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴿١٠٥﴾
تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے اپنے پاس روشن دلیلیں آ جانے کے بعد بھی تفرقہ ڈالا (١) اور اختلاف کیا، انہی لوگوں کے لیے بڑا عذاب ہے۔
١٠٥۔١ روشن دلیلیں آ جا نے کے بعد تفرقہ ڈالا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہود و نصاریٰ کے باہمی اختلاف و تفرقہ کی وجہ یہ نہ تھی کہ انہیں حق کا پتہ نہ تھا۔ اور وہ اس کے دلائل سے بے خبر تھے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے سب کچھ جانتے ہوئے محض اپنے دنیاوی مفاد اور نفسانی اغراض کے لیے اختلاف و تفرقہ کی راہ پکڑی تھی اور اس پر جمے ہوئے تھے۔ قرآن مجید نے مختلف اسلوب اور پیرائے سے بار بار اس حقیقت کی نشاندہی کی ہے اور اس سے دور رہنے کی تاکید فرمائی ہے۔ مگر افسوس کہ اس امت کے تفرقہ بازوں نے بھی ٹھیک یہی روش اختیار کی کہ حق اور اس کی روشن دلیلیں انہیں خوب اچھی طرح معلوم ہیں۔ مگر وہ اپنی فرقہ بندیوں پر جمے ہوئے ہیں اور پنی عقل و ذہانت کا سارا جوہر ہر سابقہ امتوں کی طرح تاویل و تحریف کے مکروہ شغل میں ضائع کر رہے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ أَكَفَرْ‌تُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْفُرُ‌ونَ ﴿١٠٦﴾
جس دن بعض چہرے سفید ہوں گے اور بعض سیاہ، (١) سیاہ چہروں والوں (سے کہا جائے گا) کہ کیا تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا؟ اب اپنے کفر کا عذاب چکھو۔
١٠٦۔١ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس سے اہل سنت و الجماعت اور اہل بدعت و افتراق مراد لیے ہیں۔ (ابن كثير و فتح القدير) جس سے معلوم ہوا کہ اسلام وہی ہے جس پر اہل سنت و جماعت عمل پیرا ہیں اور اہل بدعت و اہل افتراق اس نعمت اسلام سے محروم ہیں جو ذریعہ نجات ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِي رَ‌حْمَةِ اللَّـهِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿١٠٧﴾
اور سفید چہرے والے اللہ تعالٰی کی رحمت میں داخل ہوں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

تِلْكَ آيَاتُ اللَّـهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ ۗ وَمَا اللَّـهُ يُرِ‌يدُ ظُلْمًا لِّلْعَالَمِينَ ﴿١٠٨﴾
اے نبی! ہم ان حقانی آیتوں کی تلاوت آپ پر کر رہے ہیں اور اللہ تعالٰی کا ارادہ لوگوں پر ظلم کرنے کا نہیں۔

وَلِلَّـهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْ‌ضِ ۚ وَإِلَى اللَّـهِ تُرْ‌جَعُ الْأُمُورُ‌ ﴿١٠٩﴾
اللہ تعالٰی ہی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور اللہ تعالٰی ہی کی طرف تمام کام لوٹائے جاتے ہیں۔

كُنتُمْ خَيْرَ‌ أُمَّةٍ أُخْرِ‌جَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُ‌ونَ بِالْمَعْرُ‌وفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ‌ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ ۗ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرً‌ا لَّهُم ۚ مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُ‌هُمُ الْفَاسِقُونَ ﴿١١٠﴾
تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو، اور اللہ تعالٰی پر ایمان رکھتے ہو، (١) اگر اہل کتاب بھی ایمان لاتے تو ان کے لیے بہتر تھا، ان میں ایمان لانے والے بھی ہیں (٢) لیکن اکثر تو فاسق ہیں۔
١١٠۔١ اس آیت میں امت مسلمہ کو "خیر امت" قرار دیا گیا ہے اور اس کی علت بھی بیان کر دی گئی ہے جو امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور ایمان باللہ ہے۔ گویا یہ امت اگر ان امتیازی خصوصیات سے متصف رہے گی تو "خیر امت" ہے، بصورت دیگر اس امتیاز سے محروم قرار پا سکتی ہے۔ اس کے بعد اہل کتاب کی مذمت سے بھی اس نکتے کی وضاحت مقصود معلوم ہوتی ہے کہ جو امر بالمعروف و نہی المنکر نہیں کرے گا، وہ بھی اہل کتاب کے مشابہ قرار پائے گا۔ ان کی صفت بیان کی گئی ہے ﴿كَانُوا لا يَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُنْكَرٍ فَعَلُوهُ﴾ (المائدۃ: 79) ”وہ ایک دوسرے کو برائی سے نہیں روکتے تھے“ اور یہاں اسی آیت میں ان کی اکثریت کو فاسق کہا گیا ہے امر بالمعروف یہ فرض عین ہے یا فرض کفایہ؟ اکثر علماء کے خیال میں یہ فرض کفایہ ہے یعنی علماء کے ذمے داری ہے کہ وہ یہ فرض ادا کرتے رہیں کیونکہ معروف و منکر شرعی کا صحیح علم وہی رکھتے ہیں۔ ان کے فریضئہ تبلیغ و دعوت کی ادائیگی سے دیگر افراد امت کی طرف سے یہ فرض ساقط ہو جائے گا۔ جیسے جہاد بھی عام حالات میں فرض کفایہ ہے یعنی ایک گروہ کی طرف سے ادائیگی سے اس فرض کی ادائیگی ہو جائے گی۔
١١٠۔٢ جیسے عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ وغیرہ جو مسلمان ہو گئے تھے۔ تاہم ان کی تعداد نہایت قلیل تھی۔ اس لیے ”مِنْهُمْ“ میں مِنْ، تَبْعِيض کے لیے ہے۔
 
Top