• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
إِن يُوحَىٰ إِلَيَّ إِلَّا أَنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ‌ مُّبِينٌ ﴿٧٠﴾
میری طرف فقط یہی وحی کی جاتی ہے کہ میں صاف صاف آگاہ کر دینے والا ہوں (١)۔
٧٠۔١ یعنی میری ذمہ داری یہی ہے کہ میں وہ فرائض و پیغام تمہیں بتادوں جن کے اختیار کرنے سے تم عذاب الٰہی سے بچ جاؤ گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
إِذْ قَالَ رَ‌بُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرً‌ا مِّن طِينٍ ﴿٧١﴾
جبکہ آپ کے رب نے فرشتوں سے ارشاد فرمایا (١) میں مٹی سے انسان کو پیدا (٢) کرنے والا ہوں۔
٧١۔١ یہ قصہ اس سے قبل سورۃ بقرہ، سورہ اعراف، سورہ حجر، سورہ بنی اسرائیل اور سورہ کہف میں بیان ہو چکا ہے اب اسے یہاں بھی اجمالاً بیان کیا جا رہا ہے۔
٧١۔٢ یعنی ایک جسم، جنس بشر سے بنانے والا ہوں۔ انسان کو بشر، زمین سے اس کی مباشرت کی وجہ سے کہا۔ یعنی زمین سے ہی اس کی ساری وابستگی ہے اور وہ سب کچھ اسی زمین پر کرتا ہے۔ یا اس لئے کہ وہ بادی البشرۃ ہے۔ یعنی اس کا جسم یا چہرہ ظاہر ہے
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّ‌وحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ ﴿٧٢﴾
سو جب میں اسے ٹھیک ٹھاک کرلوں (١) اور اس میں اپنی روح پھونک دوں، (٢) تو تم سب اس کے سامنے سجدے میں گر پڑنا (٣)
٧٢۔١ یعنی اسے انسانی پیکر میں ڈھال لوں اور اس کے تمام اجزا درست اور برابر کر لوں۔
٧٢۔٢ یعنی وہ روح، جس کا میں ہی مالک ہوں، میرے سوا اس کا کوئی اختیار نہیں رکھتا اور جس کے پھونکتے ہی یہ پیکر خاکی، زندگی، حرکت اور توانائی سے بہرہ یاب ہو جائے گا۔ انسان کے شرف و عظمت کے لئے یہی بات کافی ہے کہ اس میں وہ روح پھونکی گئی ہے جس کو اللہ تعالٰی نے اپنی روح قرار دیا ہے۔
٧٢۔٣ یہ سجدہ تحیہ یا سجدہ تعظیم ہے، سجدہ عبادت نہیں۔ یہ تعظیمی سجدہ پہلے جائز تھا، اسی لئے اللہ نے آدم علیہ السلام کے لئے فرشتوں کو اس کا حکم دیا۔ اب اسلام میں تعظیمی سجدہ بھی کسی کے لئے جائز نہیں ہے۔ حدیث میں آتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر یہ جائز ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے (مشکوٰۃ، کتاب النکاح)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فَسَجَدَ الْمَلَائِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ ﴿٧٣﴾
چنانچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا (١)
٧٣۔١ یہ انسان کا دوسرا شرف ہے کہ اسے مسجود ملائک بنایا۔ یعنی فرشتے جیسی مقدس مخلوق نے تعظیماً سجدہ کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
إِلَّا إِبْلِيسَ اسْتَكْبَرَ‌ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِ‌ينَ ﴿٧٤﴾
مگر ابلیس نے (نہ کیا)، اس نے تکبر کیا (١) اور وہ تھا کافروں میں سے (٢)
٧٤۔١ اگر ابلیس کو صفات ملائکہ سے متصف مانا جائے تو یہ استثنا متصل ہوگا یعنی ابلیس اس حکم سجدہ میں داخل ہوگا بصورت دیگر یہ استثنا منقطع ہے یعنی وہ اس حکم میں داخل نہیں تھا لیکن آسمان پر رہنے کی وجہ سے اسے بھی حکم دیا گیا۔ مگر اس نے تکبر کی وجہ سے انکار کر دیا۔
٧٤۔٢ یعنی اللہ تعالٰی کے حکم کی مخالفت اور اس کی اطاعت سے استکبار کی وجہ سے وہ کافر ہوگیا۔ یا اللہ کے علم میں وہ کافر تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا مَنَعَكَ أَن تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ ۖ أَسْتَكْبَرْ‌تَ أَمْ كُنتَ مِنَ الْعَالِينَ ﴿٧٥﴾
اللہ تعالٰی نے) فرمایا اے ابلیس! تجھے اسے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا (١) کیا تو کچھ گھمنڈ میں آگیا ہے؟ یا تو بڑے درجے والوں میں سے ہے۔
٧٥۔١ یہ بھی انسان کے شرف و عظمت کے اظہار کے لئے فرمایا، ورنہ ہرچیز کا خالق اللہ ہی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قَالَ أَنَا خَيْرٌ‌ مِّنْهُ ۖ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ‌ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ ﴿٧٦﴾
اس نے جواب دیا کہ میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے بنایا، اور اسے مٹی سے بنایا ہے (١)
٧٦۔١ یعنی شیطان نے یہ سمجھا کہ آگ کا عنصر مٹی کے عنصر سے بہتر ہے۔ حالانکہ یہ سب جواہر (ہم جنس یا قریب قریب ایک ہی درجے میں) ہیں۔ اس میں سے کسی کو دوسرے پر شرف کسی عارض(خارجی سبب) ہی کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے اور یہ عارض، آگ کے مقابلے میں، مٹی کے حصے میں آیا، کہ اللہ نے اسی سے آدم علیہ السلام کو اپنے ہاتھوں سے بنایا۔ پھر اس میں اپنی روح پھونکی اس لحاظ سے مٹی ہی کو آگ کے مقابلے میں شرف و عظمت حاصل ہے۔ علاوہ ازیں آگ کا کام جلا کر خاکستر کر دینا، جب کہ مٹی اس کے برعکس انواع و اقسام کی پیداوار کا مأخذ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قَالَ فَاخْرُ‌جْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَ‌جِيمٌ ﴿٧٧﴾
ارشاد ہوا کہ تو یہاں سے نکل جا تو مردود ہوا۔
وَإِنَّ عَلَيْكَ لَعْنَتِي إِلَىٰ يَوْمِ الدِّينِ ﴿٧٨﴾
اور تجھ پر قیامت کے دن تک میری لعنت و پھٹکار ہے
قَالَ رَ‌بِّ فَأَنظِرْ‌نِي إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ ﴿٧٩﴾
کہنے لگا میرے رب مجھے لوگوں کے اٹھ کھڑے ہونے کے دن تک مہلت دے۔
قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنظَرِ‌ينَ ﴿٨٠﴾
(اللہ تعالٰی نے) فرمایا تو مہلت والوں میں سے ہے۔
إِلَىٰ يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ ﴿٨١﴾
متعین وقت کے دن تک۔
قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ ﴿٨٢﴾
کہنے لگا پھر تو تیری عزت کی قسم! میں ان سب کو یقیناً بہکا دونگا۔
إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ ﴿٨٣﴾
بجز تیرے ان بندوں کے جو چیدہ اور پسندیدہ ہوں۔
قَالَ فَالْحَقُّ وَالْحَقَّ أَقُولُ ﴿٨٤﴾
فرمایا سچ تو یہ ہے، اور میں سچ ہی کہا کرتا ہوں۔
لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنكَ وَمِمَّن تَبِعَكَ مِنْهُمْ أَجْمَعِينَ ﴿٨٥﴾
کہ تجھ سے اور تیرے تمام ماننے والوں میں (بھی) جہنم کو بھر دونگا۔
قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ‌ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ ﴿٨٦﴾
کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس پر کوئی بدلہ طلب نہیں کرتا (١) اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں (٢)۔
٨٦۔١ یعنی اس دعوت و تبلیغ سے میرا مقصد صرف امر الٰہی ہے، دنیا کمانا نہیں۔
٨٦۔٢ یعنی اپنی طرف سے گھڑ کر اللہ کی طرف ایسی بات منسوب کردوں جو اس نے نہ کہی ہو یا میں تمہیں ایسی بات کی طرف دعوت دوں جس کا حکم اللہ نے مجھے نہ دیا ہو بلکہ کوئی کمی بیشی کئے بغیر میں اللہ کے احکام تم تک پہنچا رہا ہوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ‌ لِّلْعَالَمِينَ ﴿٨٧﴾
یہ تمام جہان والوں کے لئے سرا سر نصیحت (و عبرت) ہے (١)۔
٨٧۔١ یعنی یہ قرآن، وحی یا وہ دعوت، جو میں پیش کر رہا ہوں، دنیا بھر کے انسانوں اور جنات کے لئے نصیحت ہے۔ بشرطیکہ کوئی اس سے نصیحت حاصل کرنے کا قصد کرے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَلَتَعْلَمُنَّ نَبَأَهُ بَعْدَ حِينٍ ﴿٨٨﴾
یقیناً تم اس کی حقیقت کو کچھ ہی وقت کے بعد (صحیح طور پر) جان لو گے (١)۔
٨٨۔١ یعنی قرآن نے جن چیزوں کو بیان کیا ہے، جو وعدے وعید ذکر کئے ہیں، ان کی حقیقت و صداقت بہت جلد تمہارے سامنے آجائے گی۔ چنانچہ اس کی صداقت یوم بدر کو واضح ہوئی، فتح مکہ کے دن ہوئی یا پھر موت کے وقت تو سب پر ہی واضح ہو جاتی ہے۔
 
Top