• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ ﴿٣٠﴾
یقیناً خود آپ کو بھی موت آئے گی اور یہ سب بھی مرنے والے ہیں۔
ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عِندَ رَ‌بِّكُمْ تَخْتَصِمُونَ ﴿٣١﴾
پھر تم سب قیامت کے دن اپنے رب کے سامنے جھگڑو گے (١)
٣١۔١ یعنی اے پیغمبر! آپ بھی اور آپ کے مخالف بھی، سب موت سے ہمکنار ہو کر اس دنیا سے ہمارے پاس آخرت میں آئیں گے۔ دنیا میں تو توحید اور شرک کا فیصلہ تمہارے درمیان نہیں ہو سکا اور تم اس بارے میں جھگڑتے ہی رہے لیکن یہاں میں اس کا فیصلہ کروں گا اور مخلص موحدین کو جنت میں اور مشرکین و جاحدین اور مکذبین کو جہنم میں داخل کروں گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
پارہ 24
فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن كَذَبَ عَلَى اللَّـهِ وَكَذَّبَ بِالصِّدْقِ إِذْ جَاءَهُ ۚ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّلْكَافِرِ‌ينَ ﴿٣٢﴾
اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ تعالٰی پر جھوٹ بولے؟ (١) اور سچا دین جب اس کے پاس آئے تو اسے جھوٹا بتائے؟ (٢) کیا ایسے کفار کے لئے جہنم ٹھکانا نہیں ہے؟
٣٢۔١ یعنی دعویٰ کرے کہ اللہ کے اولاد ہے یا اس کا شریک ہے یا اس کی بیوی ہے دراں حالیکہ وہ ان سب چیزوں سے پاک ہے۔
٢٣۔٢ جس میں توحید، احکام و فرائض ہیں، عقیدہ بعث و نشور ہے، محرمات سے اجتناب ہے، مومنین کے لئے خوشخبری اور کافروں کے لئے سزائیں ہیں۔ یہ دین و شریعت جو حضرت محمد رسول اللہ لے کر آئے، اسے جھوٹا بتلائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ ۙ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ ﴿٣٣﴾
اور جو سچے دین کو لائے (١) اور جس نے اس کی تصدیق کی (۲) یہی لوگ پارسا ہیں۔
٣٣۔١ اس سے پیغمبر اسلام حضرت محمد رسول اللہ مراد ہیں جو سچا دین لے کر آئے۔ بعض کے نزدیک یہ عام ہے اور اس سے ہر وہ شخص مراد ہے جو توحید کی دعوت دیتا اور اللہ کی شریعت کی طرف کی رہنمائی کرتا ہے۔
٣٣۔۲بعض اس سے حضرت ابو بکر صدیق مراد لیتے ہیں جنہوں نے سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی اور ان پر ایمان لائے۔ بعض نے اسے بھی عام رکھا ہے، جس میں سب مومن شامل ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان رکھتے ہیں اور آپ کو سچا مانتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
لَهُم مَّا يَشَاءُونَ عِندَ رَ‌بِّهِمْ ۚ ذَٰلِكَ جَزَاءُ الْمُحْسِنِينَ ﴿٣٤﴾
ان کے لئے ان کے رب کے پاس ہر وہ چیز ہے جو یہ چاہیں، (١) نیک لوگوں کا یہی بدلہ ہے۔ (۲)
٣٤۔١ یعنی اللہ تعالٰی ان کے گناہ بھی معاف فرما دے گا، ان کے درجے بھی بلند فرمائے گا، کیونکہ ہر مسلمان کی اللہ سے یہی خواہش ہوتی ہے علاوہ ازیں جنت میں جانے کے بعد ہر مطلوب چیز بھی ملے گی۔
٣٤۔‎٢محسنین کا ایک مفہوم تو یہ ہے جو نیکیاں کرنے والے ہیں دوسرا وہ جو اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کرتے ہیں جیسے حدیث میں احسان کی تعریف کی گئی ہے ان تعبد اللہ کانک تراہ فانہ لم تکن تراہ فانہ یراک تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اگر یہ تصور ممکن نہ ہو تو یہ ضرور ذہن میں رہے کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے تیسرا جو لوگوں کے ساتھ حسن سلوک اور اچھا برتاؤ کرتے ہیں چوتھا ہر نیک عمل کو اچھے طریقے سے خشوع و خضوع سے اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق کرتے ہیں کثرت کے بجائے اس میں حسن کا خیال رکھتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
لِيُكَفِّرَ‌ اللَّـهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي عَمِلُوا وَيَجْزِيَهُمْ أَجْرَ‌هُم بِأَحْسَنِ الَّذِي كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿٣٥﴾
تاکہ اللہ تعالٰی ان سے ان کے برے عملوں کو دور کر دے اور جو نیک کام انہوں نے کئے ہیں ان کا اچھا بدلہ عطا فرمائے۔
أَلَيْسَ اللَّـهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ ۖ وَيُخَوِّفُونَكَ بِالَّذِينَ مِن دُونِهِ ۚ وَمَن يُضْلِلِ اللَّـهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ ﴿٣٦﴾
کیا اللہ تعالٰی اپنے بندے کے لئے کافی نہیں؟ (١) یہ لوگ آپ کو اللہ کے سوا اوروں سے ڈرا رہے ہیں اور جسے اللہ گمراہ کردے اس کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں (٢)
٣٦۔١ اس سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ بعض کے نزدیک یہ عام ہے، تمام انبیاء علیہم السلام اور مومنین اس میں شامل ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ آپ کو غیر اللہ سے ڈراتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالٰی جب آپ کا حامی و ناصر ہو تو آپ کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ وہ ان سب کے مقابلے میں آپ کو کافی ہے
۔ ٣٦۔٢ جو اس گمراہی سے نکال کر ہدایت کے راستے پر لگا دے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَمَن يَهْدِ اللَّـهُ فَمَا لَهُ مِن مُّضِلٍّ ۗ أَلَيْسَ اللَّـهُ بِعَزِيزٍ ذِي انتِقَامٍ ﴿٣٧﴾
اور جسے وہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں (١) کیا اللہ تعالٰی غالب اور بدلہ لینے والا نہیں ہے؟ (٢)۔
٣٧۔١ جو اس کو ہدایت سے نکال کر گمراہی کے گڑھے میں ڈال دے یعنی ہدایت اور گمراہی اللہ کے ہاتھ میں ہے، جس کو چاہے گمراہ کر دے اور جس چاہے ہدایت سے نوازے۔
٣٧۔٢ کیوں نہیں، یقینا ہے۔ اس لئے کہ اگر یہ لوگ کفر و عناد سے باز نہ آئے، تو یقینا وہ اپنے دوستوں کی حمایت میں ان سے انتقام لے گا اور انہیں عبرت ناک انجام سے دو چار کرے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ لَيَقُولُنَّ اللَّـهُ ۚ قُلْ أَفَرَ‌أَيْتُم مَّا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ إِنْ أَرَ‌ادَنِيَ اللَّـهُ بِضُرٍّ‌ هَلْ هُنَّ كَاشِفَاتُ ضُرِّ‌هِ أَوْ أَرَ‌ادَنِي بِرَ‌حْمَةٍ هَلْ هُنَّ مُمْسِكَاتُ رَ‌حْمَتِهِ ۚ قُلْ حَسْبِيَ اللَّـهُ ۖ عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكِّلُونَ ﴿٣٨﴾
اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمان و زمین کو کس نے پیدا کیا ہے؟ تو یقیناً وہ یہی جواب دیں گے کہ اللہ نے۔ آپ ان سے کہئے کہ اچھا یہ تو بتاؤ جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو اگر اللہ تعالٰی مجھے نقصان پہنچانا چاہے تو کیا یہ اس کے نقصان کو ہٹا سکتے ہیں؟ یا اللہ تعالٰی مجھ پر مہربانی کا ارادہ کرے تو کیا یہ اس کی مہربانی کو روک سکتے ہیں؟ آپ کہہ دیں کہ اللہ مجھے کافی ہے (١) توکل کرنے والے اسی پر توکل کرتے ہیں (٢)۔
٣٨۔١ بعض کہتے ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ سوال ان کے سامنے پیش کیا، تو انہوں نے کہا کہ واقعی وہ اللہ کی تقدیر کو نہیں ٹال سکتے، البتہ وہ سفارش کریں گے، جس پر یہ ٹکڑا نازل ہوا کہ مجھے تو میرے معاملات میں اللہ ہی کافی ہے۔
٣٨۔٢ جب سب کچھ اسی کے اختیار میں ہے تو پھر دوسروں پر بھروسہ کرنے کا کیا فائدہ؟ اس لئے اہل ایمان صرف اس پر توکل کرتے ہیں، اس کے سوا کسی پر اعتماد نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
قُلْ يَا قَوْمِ اعْمَلُوا عَلَىٰ مَكَانَتِكُمْ إِنِّي عَامِلٌ ۖ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ ﴿٣٩﴾
کہہ دیجئے کہ اے میری قوم! تم اپنی جگہ پر عمل کئے جاؤ میں بھی عمل کر رہا ہوں (١) ابھی ابھی تم جان لو گے۔
٣٩۔١ یعنی اگر تم میری اس دعوت توحید کو قبول نہیں کرتے جس کے ساتھ اللہ نے مجھے بھیجا ہے، تو ٹھیک ہے، تمہاری مرضی، تم اپنی اس حالت پر قائم رہو جس پر تم ہو، میں اس حالت میں رہتا ہوں جس میں مجھے اللہ نے رکھا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
مَن يَأْتِيهِ عَذَابٌ يُخْزِيهِ وَيَحِلُّ عَلَيْهِ عَذَابٌ مُّقِيمٌ ﴿٤٠﴾
کہ کس پر رسوا کرنے والا عذاب آتا ہے (۱) اور کس پر دائمی مار اور ہمیشگی کی سزا ہوتی ہے (۲)
٤٠۔١جس سے واضح ہو جائے گا کہ حق پر کون ہے اور باطل پر کون؟ اس سے مراد دنیا کا عذاب ہے جیسا کہ جنگ بدر میں ہوا کافروں کے ستر آدمی قتل اور ستر ہی آدمی قید ہوئے حتی کہ فتح مکہ کے بعد غلبہ وتمکن بھی مسلمانوں کو حاصل ہوگیا جس کے بعد کافروں کے لیے سوائے ذلت و رسوائی کے کچھ باقی نہ رہا
٤۔۲ اس سے مراد عذاب جہنم ہے جس میں ہمیشہ مبتلا رہیں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
إِنَّا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ لِلنَّاسِ بِالْحَقِّ ۖ فَمَنِ اهْتَدَىٰ فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۖ وَمَا أَنتَ عَلَيْهِم بِوَكِيلٍ ﴿٤١﴾
آپ پر ہم نے حق کے ساتھ یہ کتاب لوگوں کے لئے نازل فرمائی ہے، پس جو شخص راہ راست پر آجائے اس کے اپنے لئے نفع ہے اور جو گمراہ ہو جائے اس کی گمراہی کا (وبال) اسی پر ہے، آپ ان کے ذمہ دار نہیں (١)
٤١۔١ نبی کو اہل مکہ کا کفر پر اصرار بڑا گراں گزرتا تھا، اس میں آپ کو تسلی دی جا رہی ہے کہ آپ کا کام صرف اس کتاب کو بیان کر دینا ہے جو ہم نے آپ پر نازل کی ہے، ان کی ہدایت کے آپ مکلف نہیں ہیں۔ اگر وہ ہدایت کا راستہ اپنا لیں گے تو اس میں انہیں کا فائدہ ہے اور اگر ایسا نہیں کریں گے تو خود ہی نقصان اٹھائیں گے۔ وکیل کے معنی مکلف اور ذمے دار کے ہیں یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی ہدایت کے ذمے دار نہیں ہیں اگلی آیت میں اللہ تعالٰی اپنی ایک قدرت بالغہ اور صنعت عجیبہ کا تذکرہ فرما رہا ہے جس کا مشاہدہ ہر روز انسان کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جب وہ سو جاتا ہے تو اس کی روح اللہ کے حکم سے گویا نکل جاتی ہے کیونکہ اس کے احساس و ادراک کی قوت ختم ہو جاتی ہے اور جب وہ بیدار ہوتا ہے تو روح اس میں گویا دوبارہ بھیج دی جاتی ہے جس سے اس کے حواس بحال ہو جاتے ہیں البتہ جس کی زندگی کے دن پورے ہو چکے ہوتے ہیں اس کی روح واپس نہیں آتی اور وہ موت سے ہمکنار ہو جاتا ہے اس کو بعض مفسرین نے وفات کبری اور وفات صغری سے بھی تعبیر کیا ہے۔
 
Top