• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا رَ‌بَّنَا أَرِ‌نَا اللَّذَيْنِ أَضَلَّانَا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ نَجْعَلْهُمَا تَحْتَ أَقْدَامِنَا لِيَكُونَا مِنَ الْأَسْفَلِينَ ﴿٢٩﴾
اور کافر لوگ کہیں گے اے ہمارے رب! ہمیں جنوں انسانوں (کے وہ دونوں فریق) دکھا جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا (١) ہے (تاکہ) ہم انہیں اپنے قدموں تلے ڈال دیں تاکہ وہ جہنم میں سب سے نیچے (سخت عذاب میں) ہوجائیں۔ (۲)
٢٩۔١ اس کا مفہوم واضح ہے کہ گمراہ کرنے والے شیاطین ہی نہیں ہوتے تاہم بعض نے جن سے ابلیس اور انسانوں سے قابیل مراد لیا ہے، جس نے انسانوں میں سے سب سے پہلے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر کے ظلم اور کبیرہ گناہ کا ارتکاب کیا اور حدیث کے مطابق قیامت تک ہونے والے ناجائز قتلوں کے گناہ کا ایک حصہ بھی اس کو ملتا رہے گا ہمارے خیال میں پہلا مفہوم زیادہ صحیح ہے۔
۲۹۔۲ یعنی اپنے قدموں سے انہیں روندیں اور اس طرح ہم انہیں خوب ذلیل و رسوا کریں جہنمیوں کو اپنے لیڈروں پر جو غصہ ہوگا اس کی تشفی کے لیے وہ یہ کہیں گے ورنہ دونوں ہی مجرم ہیں اور دونوں ہی یکساں جہنم کی سزا بھگتیں گے جیسے دوسرے مقام پر اللہ تعالٰی نے فرمایا (لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ) 7۔ الاعراف:38) جہنمیوں کے تذکرے کے بعد اللہ تعالٰی اہل ایمان کا تذکرہ فرما رہا ہے جیسا کہ عام طور پر قرآن کا انداز ہے تاکہ ترہیب کے ساتھ ترغیب اور ترغیب کے ساتھ ترہیب کا بھی اہتمام رہے گویا انذار کے بعد اب تبشیر۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَ‌بُّنَا اللَّـهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُ‌وا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ ﴿٣٠﴾
(واقعی) جن لوگوں نے کہا ہمارا پروردگار اللہ ہے (١) اور پھر اسی پر قائم رہے (۲) ان کے پاس فرشتے (یہ کہتے ہوئے) آتے ہیں (٤) کہ تم کچھ بھی اندیشہ اور غم نہ کرو (٣) (بلکہ) اس جنت کی بشارت سن لو جس کا تم وعدہ دیئے گئے ہو (۵)۔
۳۰۔۱ یعنی ایک اللہ وحدہ لا شریک رب بھی وہی اور معبود بھی وہی یہ نہیں کہ ربوبیت کا تو اقرار لیکن الوہیت میں دوسروں کو بھی شریک کیا جارہا ہے۔
٣٠۔۲ یعنی سخت سے سخت حالات میں بھی ایمان و توحید پر قائم رہے، اس سے انحراف نہیں کیا بعض نے استقامت کے معنی اخلاص کیے ہیں یعنی صرف ایک اللہ ہی کی عبادت واطاعت کی جس طرح حدیث میں بھی آتا ہے ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا مجھے ایسی بات بتلا دیں کہ آپ کے بعد کسی سے مجھے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہ رہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قل آمنت باللہ ثم استقم (صحیح مسلم کتاب الایمان) کہہ میں اللہ پر ایمان لایا پھر اس پر استقامت اختیار کر۔ ۳۰۔۳ یعنی موت کے وقت، بعض کہتے ہیں، فرشتے یہ خوشخبری تین جگہوں پر دیتے ہیں، موت کے وقت، قبر میں اور قبر سے دوبارہ اٹھتے وقت۔
٣٠۔٤ یعنی آخرت میں پیش آنے والے حالات کا اندیشہ اور دنیا میں مال و اولاد جو چھوڑ آئے ہو، ان کا غم نہ کرو۔
۳۰۔۵یعنی دنیا میں جس کا وعدہ تمہیں دیا گیا تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَ‌ةِ ۖ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ ﴿٣١﴾
تمہاری دنیاوی زندگی میں بھی ہم تمہارے رفیق تھے اور آخرت میں بھی رہیں گے (١) جس چیز کو تمہارا جی چاہے اور جو کچھ تم مانگو سب تمہارے لئے (جنت میں موجود) ہے۔
٣١۔١ یہ مزید خوشخبری ہے، یہ اللہ تعالٰی کا فرمان ہے۔ بعض کے نزدیک یہ فرشتوں کا قول ہے، دونوں صورتوں میں مومن کے لئے یہ عظیم خوشخبری ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
نُزُلًا مِّنْ غَفُورٍ‌ رَّ‌حِيمٍ ﴿٣٢﴾
غفور و رحیم (معبود) کی طرف سے یہ سب کچھ بطور مہمانی کے ہے۔
وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلَى اللَّـهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ ﴿٣٣﴾
اور اس سے زیادہ اچھی بات والا کون ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک کام کرے اور کہے کہ میں یقیناً مسلمانوں میں سے ہوں (١)
٣٣۔١ یعنی لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے کے ساتھ خود بھی ہدایت یافتہ، دین کا پابند اور اللہ کا مطیع ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ ﴿٣٤﴾
نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی (١) برائی کو بھلائی سے دفع کرو پھر وہی جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے ایسا ہو جائے گا جیسے دلی دوست۔ (۲)
٣٤۔١ بلکہ ان میں عظیم فرق ہے۔
۲٤۔۲ یہ ایک بہت ہی اہم اخلاقی ہدایت ہے کہ برائی کو اچھائی کے ساتھ ٹالو یعنی برائی کا بدلہ احسان کے ساتھ، زیادتی کا بدلہ عفو کے ساتھ غضب کا صبر کے ساتھ بےہودگیوں کا جواب چشم پوشی کےساتھ اور مکروہات کا جواب برداشت اور حلم کے ساتھ دیا جائے اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہارا دشمن دوست بن جائے گا دور دور رہنے والا قریب ہو جائے گا اور خون کا پیاسا تمہارا گرویدہ اور جانثار ہو جا‏ئے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُ‌وا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ ﴿٣٥﴾
اور یہ بات انہیں نصیب ہوتی ہے جو صبر کریں (١) اور اسے سوائے بڑے نصیبے والوں کے کوئی نہیں پا سکتا (٢)
٣٥۔١ یعنی برائی کو بھلائی کے ساتھ ٹالنے کی خوبی اگرچہ نہایت مفید اور بڑی ثمر آور ہے لیکن اس پر عمل وہی کر سکیں گے جو صابر ہونگے۔ غصے کو پی جانے والے اور ناپسندیدہ باتوں کو برداشت کرنے والے۔
٣٥۔٢ حظ عظیم (بڑا نصیبہ) سے مراد جنت ہے۔ یعنی مذکورہ خوبیاں اس کو حاصل ہوتی ہیں جو بڑے نصیبے والا ہوتا ہے، یعنی جنتی جس کے لئے جنت میں جانا لکھ دیا گیا ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ ۖ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴿٣٦﴾
اور اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آئے تو اللہ کی پناہ طلب کرو (١) یقیناً وہ بہت ہی سننے والا جاننے والا ہے (٢)
٣٦۔١ یعنی شیطان، شریعت کے کام سے پھیرنا چاہے یا احسن طریقے سے برائی کے دفع کرنے میں رکاوٹ ڈالے تو اس کے شر سے بچنے کے لئے اللہ کی پناہ طلب کرو۔
٣٦۔٢ اور جو ایسا ہو یعنی ہر ایک کی سننے والا اور ہر بات کو جاننے والا، وہی پناہ کے طلب گاروں کو پناہ دے سکتا ہے۔ اس کے بعد اب پھر بعض ان نشانیوں کا تذکرہ کیا جا رہا ہے جو اللہ کی توحید، اس کی قدرت کاملہ اور اس کی قوت تصرف پر دلالت کرتی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَمِنْ آيَاتِهِ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ‌ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ‌ ۚ لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ‌ وَاسْجُدُوا لِلَّـهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ ﴿٣٧﴾
اور دن رات اور سورج چاند بھی (اسی کی) نشانیوں میں سے ہیں (١) تم سورج کو سجدہ نہ کرو نہ چاند کو (۲) بلکہ سجدہ اس اللہ کے لئے کرو جس نے سب کو پیدا کیا ہے (۳) اگر تمہیں اس کی عبادت کرنی ہے تو۔
۳۷۔۱ یعنی رات کو تاریک بنانا تاکہ لوگ اس میں آرام کر سکیں دن کو روشن بنانا تاکہ کسب معاش میں پریشانی نہ ہو پھر یکے بعد دیگرے ایک دوسرے کا آنا جانا اور کبھی رات کا لمبا اور دن کا چھوٹا ہونا اور کبھی اس کے برعکس دن کا لمبا اور رات کا چھوٹا ہوتا اسی طرح سورج اور چاند کا اپنے اپنے وقت پر طلوع وغرب ہونا اور اپنے اپنے مدار پر اپنی منزلیں طے کرتے رہنا اور آپس میں باہمی تصادم محفوظ رہنا، یہ سب اس بات کی دلیلیں ہیں کہ ان کا یقینا کوئی خالق اور مالک ہے نیز وہ ایک اور صرف ایک ہے اور کائنات میں صرف اسی کا تصرف اور حکم چلتا ہے اگر تدبیر و امر کا اختیار رکھنے والے ایک سے زیادہ ہوتے ہیں تو یہ نظام کائنات ایسے مستحکم اور لگے بندھے طریقے سے کبھی نہیں چل سکتا تھا۔
٣٧۔۲ اس لئے کہ یہ بھی تمہاری طرح اللہ کی مخلوق ہیں، خدائی اختیارات سے بہرہ ور یا ان میں شریک نہیں ہیں
۳۷۔۳ خلقھن میں جمع مونث کی ضمیر اس لیے آئی ہے کہ یہ یا تو خلق ھذہ الاربعۃ المذکورۃ کے مفہوم میں ہے کیونکہ غیر عاقل کی جمع کا حکم جمع مونث ہی کا ہے یا اس کا مرجع صرف شمس وقمر ہی ہیں اور بعض ازمہ نحاۃ کے نزدیک تثنیہ بھی جمع ہے یا پھر مراد الآیات ہیں فتح القدیر
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فَإِنِ اسْتَكْبَرُ‌وا فَالَّذِينَ عِندَ رَ‌بِّكَ يُسَبِّحُونَ لَهُ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ‌ وَهُمْ لَا يَسْأَمُونَ ۩ ﴿٣٨﴾
پھر بھی اگر یہ کبر و غرور کریں تو وہ (فرشتے) جو آپ کے رب کے نزدیک ہیں وہ تو رات دن اس کی تسبیح بیان کر رہے ہیں اور (کسی وقت بھی) نہیں اکتاتے۔
وَمِنْ آيَاتِهِ أَنَّكَ تَرَ‌ى الْأَرْ‌ضَ خَاشِعَةً فَإِذَا أَنزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ وَرَ‌بَتْ ۚ إِنَّ الَّذِي أَحْيَاهَا لَمُحْيِي الْمَوْتَىٰ ۚ إِنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ‌ ﴿٣٩﴾
اور اس اللہ کی نشانیوں میں سے (یہ بھی) ہے کہ تو زمین کو دبی دبائی دیکھتا ہے (١) پھر جب ہم اس پر مینہ برساتے ہیں تو وہی ترو تازہ ہو کر ابھرنے لگتی ہے (٢) جس نے اسے زندہ کیا وہی یقینی طور پر مردوں کو بھی زندہ کرنے والا ہے (٣)
٣٩۔ ١ خَاشِعَۃً کا مطلب، خشک اور قحط زدہ یعنی مردہ۔
٣٩۔٢ یعنی انوارع و اقسام کے خوش ذائقہ پھل اور غلے پیدا کرتی ہے۔
٣٩۔٣ مردہ زمین کو بارش کے ذریعے سے اس طرح زندہ کر دینا اور روئیدگی کے قابل بنا دینا، اس بات کی دلیل ہے کہ وہ مردوں کو بھی یقینا زندہ کر دے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
إِنَّ الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي آيَاتِنَا لَا يَخْفَوْنَ عَلَيْنَا ۗ أَفَمَن يُلْقَىٰ فِي النَّارِ‌ خَيْرٌ‌ أَم مَّن يَأْتِي آمِنًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ ۖ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ‌ ﴿٤٠﴾
بیشک جو لوگ ہماری آیتوں میں کج روی کرتے ہیں (۱) وہ (کچھ) ہم سے مخفی نہیں (۲) (بتلاؤ تو) جو آگ میں ڈالا جائے وہ اچھا ہے یا وہ جو امن و امان کے ساتھ قیامت کے دن آئے؟ (٢) تم جو چاہو کرتے چلے جاؤ (٣) وہ تمہارا سب کیا کرایا دیکھ رہا ہے۔ (٤)
٤۰۔۱ یعنی ان کو مانتے نہیں بلکہ ان سے اعراض، انحراف اور ان کی تکذیب کرتے ہیں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے الحاد کے معنی کیے ہیں وضع الکلام علی غیر مواضعہ جس کی رو سے اس میں وہ باطل فرقے بھی آ جاتے ہیں جو اپنے غلط عقائد ونظریات کے اثبات کے لیے آیات الہی میں تحریف معنوی اور دجل وتلبیس سے کام لیتے ہیں۔
٤٠۔۲ یہ ملحدین (چاہے وہ کسی قسم کے ہوں) کے لئے سخت وعید ہے۔
٤٠۔۳ یعنی کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ نہیں۔، یقینا نہیں علاوہ ازیں اس سے اشارہ کر دیا کہ کافر آگ میں ڈالے جائیں گے اور اہل ایمان قیامت والے دن بےخوف ہونگے۔
٤٠۔٣ یہ امر کا لفظ ہے، لیکن یہاں اس سے مقصود وعید اور تہدید ہے۔ کفر و شرک اور معیصت کے لئے اذن اور جواز نہیں ہے۔
 
Top