• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَلِلَّـهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْ‌ضِ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُّحِيطًا ﴿١٢٦﴾
آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ ہی کا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو گھیرنے والا ہے۔

وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ ۖ قُلِ اللَّـهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ وَمَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ فِي يَتَامَى النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا تُؤْتُونَهُنَّ مَا كُتِبَ لَهُنَّ وَتَرْ‌غَبُونَ أَن تَنكِحُوهُنَّ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الْوِلْدَانِ وَأَن تَقُومُوا لِلْيَتَامَىٰ بِالْقِسْطِ ۚ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ‌ فَإِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِهِ عَلِيمًا ﴿١٢٧﴾
آپ عورتوں کے بارے میں حکم دریافت کرتے ہیں، (١) آپ کہہ دیجئے! کہ خود اللہ ان کے بارے میں حکم دے رہا ہے اور قرآن کی وہ آیتیں جو تم پر ان یتیم لڑکیوں کے بارے میں پڑھی جاتی ہیں جنہیں ان کا مقرر حق تم نہیں دیتے (٢) اور انہیں اپنے نکاح میں لانے کی رغبت رکھتے ہو(٣) اور کمزور بچوں کے بارے میں (٤) اور اس بارے میں کہ یتیموں کی کارگزاری انصاف کے ساتھ کرو۔ (٥) تم جو نیک کام کرو، بے شبہ اللہ اسے پوری طرح جاننے والا ہے۔ (٦)
١٢٧۔١ عورتوں کے بارے میں جو سوالات ہوتے رہتے تھے، یہاں سے ان کے جوابات دیئے جا رہے ہیں۔
١٢٧۔٢ ﴿وَمَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ﴾ اس کا عطف ﴿اللهُ يُفْتِيكُمْ﴾ پر ہے یعنی اللہ تعالیٰ ان کی بابت وضاحت فرماتا ہے اور کتاب اللہ کی وہ آیات وضاحت کرتی ہیں جو اس سے قبل یتیم لڑکیوں کے بارے میں نازل ہو چکی ہیں، مراد ہے سورۂ نساء کی آیت 3 جس میں ان لوگوں کو اس بے انصافی سے روکا گیا ہے کہ وہ یتیم لڑکی سے ان کے حسن و جمال کی وجہ سے شادی تو کر لیتے ہیں لیکن مہر مثل دینے سے گریز کرتے تھے۔
١٢٧۔٣ اس کے دو ترجمے کیے گئے ہیں، ایک تو یہی جو مرحوم مترجم نے کیا ہے، اس میں ”فی“ کا لفظ محذوف ہے۔ اس کا دوسرا ترجمہ ”عن“ کا لفظ محذوف مان کر کیا گیا ہے یعنی ﴿تَرْغَبُونَ عَنْ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ﴾ (تمہیں ان سے نکاح کرنے کی رغبت نہ ہو) رَغِبَ کا صلہ عَنْ آئے تو معنی اعراض اور بے رغبتی کے ہوتے ہیں۔ جیسے ﴿وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ﴾ میں ہے یہ گویا دوسری صورت بیان کی گئی ہے کہ یتیم لڑکی بعض دفعہ بد صورت ہوتی تو اس کے ولی یا اس کے ساتھ وراثت میں شریک دوسرے ورثا خود بھی اس کے ساتھ نکاح کرنا پسند نہ کرتے اور کسی دوسری جگہ بھی اس کا نکاح نہ کرتے، تاکہ کوئی اور شخص اس کے حصہ جائیداد میں شریک نہ بنے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلی صورت کی طرح ظلم کی اس دوسری صورت سے بھی منع فرمایا۔
١٢٧۔٤ اس کا عطف ﴿يَتَامَى النِّسَاءِ﴾ پر ہے۔ یعنی ”وَمَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ فِي يَتَامَى النِّسَاءِ وَفِي الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الْوِلْدَانِ“ یتیم لڑکیوں کے بارے میں تم پر جو پڑھا جاتا ہے۔ (سورۃ النساء کی آیت نمبر 3) اور کمزور بچوں کی بابت جو پڑھا جاتا ہے اس سے مراد قرآن کا حکم ﴿يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ﴾ ہے جس میں بیٹوں کے ساتھ بیٹیوں کو بھی وراثت میں حصہ دار بنایا گیا۔ جب کہ زمانۂ جاہلیت میں صرف بڑے لڑکوں کو ہی وارث سمجھا جاتا تھا، چھوٹے کمزور بچے اور عورتیں وراثت سے محروم ہوتی تھیں۔ شریعت نے سب کو وارث قرار دیا۔
١٢٧۔٥ اس کا عطف بھی ﴿يَتَامَى النِّسَاءِ﴾ پر ہے۔ یعنی کتاب اللہ کا یہ حکم بھی تم پر پڑھا جاتا ہے کہ یتیموں کے ساتھ انصاف کا معاملہ کرو۔ یتیم بچی صاحب جمال ہو تب بھی اور بدصورت ہو تب بھی۔ دونوں صورتوں میں انصاف کرو۔ (جیسا کہ تفصیل گزری)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَإِنِ امْرَ‌أَةٌ خَافَتْ مِن بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَ‌اضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا ۚ وَالصُّلْحُ خَيْرٌ‌ ۗ وَأُحْضِرَ‌تِ الْأَنفُسُ الشُّحَّ ۚ وَإِن تُحْسِنُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرً‌ا ﴿١٢٨﴾
اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی بد دماغی اور بے پرواہی کا خوف ہو تو دونوں آپس میں جو صلح کر لیں اس میں کسی پر کوئی گناہ نہیں۔ (١) صلح بہتر چیز ہے، طمع ہر ہر نفس میں شامل کر دی گئی ہے۔ (٢) اگر تم اچھا سلوک کرو اور پرہیز گاری کرو تو تم جو کر رہے ہو اس پر اللہ تعالیٰ پوری طرح خبردار ہے۔
١٢٨۔١ خاوند اگر کسی وجہ سے اپنی بیوی کو ناپسند کرے اور اس سے دور رہنا (نشوز) اور اعراض کرنا معمول بنا لے یا ایک سے زیادہ بیویاں ہونے کی صورت میں کسی کم تر خوب صورت بیوی سے اعراض کرے تو عورت اپنا کچھ حق چھوڑ کر (مہر سے یا نان و نفقہ سے یا باری سے) خاوند سے مصالحت کر لے تو اس مصالحت میں خاوند یا بیوی پر کوئی گناہ نہیں۔ کیونکہ صلح بہرحال بہتر ہے۔ حضرت ام المومنین سودۃ رضی الله عنها نے بھی بڑھاپے میں اپنی باری حضرت عائشہ رضی الله عنها کے لیے ہبہ کر دی تھی جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرما لیا تھا۔ (صحیح بخاری ومسلم- كتاب النكاح)
١٢٨۔١ شح بخل اور طمع کو کہتے ہیں۔ یہاں مراد اپنا اپنا مفاد ہے جو ہر نفس کو عزیز ہوتا ہے یعنی ہر نفس اپنے مفاد میں بخل اور طمع سے کام لیتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَلَن تَسْتَطِيعُوا أَن تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَ‌صْتُمْ ۖ فَلَا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُ‌وهَا كَالْمُعَلَّقَةِ ۚ وَإِن تُصْلِحُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّـهَ كَانَ غَفُورً‌ا رَّ‌حِيمًا ﴿١٢٩﴾
تم سے یہ کبھی نہیں ہو سکے گا کہ اپنی تمام بیویوں میں ہر طرح عدل کرو، گو تم اس کی کتنی ہی خواہش و کوشش کر لو، اس لیے بالکل ہی ایک کی طرف مائل ہو کر دوسری کو ادھڑ لٹکتی نہ چھوڑو (١) اور اگر تم اصلاح کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو بے شک اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت اور رحمت والا ہے۔
١٢٩۔١ یہ ایک دوسری صورت ہے کہ ایک شخص کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو دلی تعلق اور محبت میں وہ سب کے ساتھ یکساں سلوک نہیں کر سکتا۔ کیونکہ محبت، فعل قلب ہے جس پر کسی کو اختیار نہیں ہے۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اپنی بیویوں میں سب سے زیادہ محبت حضرت عائشہ رضی الله عنها سے تھی۔ خواہش کے باوجود انصاف نہ کرنے سے مطلب یہی قلبی میلان اور محبت میں عدم مساوات ہے۔ اگر یہ قلبی محبت ظاہری حقوق کی مساوات میں مانع نہ بنے تو عند اللہ قابل مؤاخذہ نہیں۔ جس طرح کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نہایت عمدہ نمونہ پیش فرمایا۔ لیکن اکثر لوگ اس قلبی محبت کی وجہ سے دوسری بیویوں کے حقوق کی ادائیگی میں بہت کوتاہی کرتے ہیں اور ظاہری طور پر بھی محبوب بیوی کی طرح دوسری بیویوں کے حقوق ادا نہیں کرتے اور انہیں معلقہ (درمیان میں لٹکی ہوئی) بنا کر رکھ چھوڑتے ہیں، نہ انہیں طلاق دیتے ہیں نہ حقوق زوجیت ادا کرتے ہیں۔ یہ انتہائی ظلم ہے جس سے یہاں روکا گیا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ ایک کی طرف ہی مائل ہو (یعنی دوسری کو نظر انداز کیے رکھے) تو قیامت کے دن وہ اس طرح آئے گا کہ اس کے جسم کا ایک حصہ (یعنی نصف) ساقط ہو گا۔ (ترمذی، كتاب النكاح)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَإِن يَتَفَرَّ‌قَا يُغْنِ اللَّـهُ كُلًّا مِّن سَعَتِهِ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ وَاسِعًا حَكِيمًا ﴿١٣٠﴾
اور اگر میاں بیوی جدا ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ اپنی وسعت سے ہر ایک کو بے نیاز کر دے گا، (١) اللہ تعالیٰ وسعت والا حکمت والا ہے۔
١٣٠۔١ یہ تیسری صورت ہے کہ کوشش کے باوجود اگر نباہ کی صورت نہ بنے تو پھر طلاق کے ذریعے سے علیحدگی اختیار کر لی جائے۔ ممکن ہے علیحدگی کے بعد مرد کو مطلوبہ صفات والی بیوی اور عورت کو مطلوبہ صفات والا مرد مل جائے۔ اسلام میں طلاق کو اگرچہ سخت ناپسند کیا گیا ہے۔ ایک حدیث میں أَبْغَضُ الْحَلالِ إِلَى اللهِ الطَّلاقُ (رواه أبو داود، مشكاة) ”طلاق حلال تو ہے لیکن یہ ایسا حلال ہے جو اللہ کو سخت ناپسند ہے“۔ اس کے باوجود اللہ نے اس کی اجازت دی ہے۔ اس لیے کہ بعض دفعہ حالات ایسے موڑ پر پہنچ جاتے ہیں کہ اس کے بغیر چارہ نہیں ہوتا اور فریقین کی بہتری اسی میں ہوتی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کر لیں۔ مذکورہ حدیث میں صحت اسناد کے اعتبار سے اگرچہ ضعف ہے تاہم قرآن و سنت کی نصوص سے یہ واضح ہے کہ یہ حق اسی وقت استعمال کرنا چاہیے جب نباہ کی کوئی صورت کسی طرح بھی نہ بن سکے۔
ملحوظة: حدیث مذکور (أَبْغَضُ الْحَلالِ ...) کو شیخ البانی نے ضعیف قرار دیا ہے (ارواء الغلیل، نمبر 2040) تاہم عذر شرعی کے بغیر طلاق کے ناپسندیدہ ہونے میں کوئی کلام نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَلِلَّـهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْ‌ضِ ۗ وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ اتَّقُوا اللَّـهَ ۚ وَإِن تَكْفُرُ‌وا فَإِنَّ لِلَّـهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْ‌ضِ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ غَنِيًّا حَمِيدًا ﴿١٣١﴾
زمین اور آسمانوں کی ہر ہر چیز اللہ تعالیٰ ہی کی ملکیت میں ہے اور واقعی ہم نے ان لوگوں کو جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے تھے اور تم کو بھی یہی حکم کیا ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہو اور اگر تم کفر کرو تو یاد رکھو کہ اللہ کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ بہت بے نیاز اور تعریف کیا گیا ہے۔

وَلِلَّـهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْ‌ضِ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّـهِ وَكِيلًا ﴿١٣٢﴾
اللہ کے اختیار میں ہے آسمانوں کی سب چیزیں اور زمین کی بھی اور اللہ کارساز کافی ہے۔

إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ أَيُّهَا النَّاسُ وَيَأْتِ بِآخَرِ‌ينَ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ عَلَىٰ ذَٰلِكَ قَدِيرً‌ا ﴿١٣٣﴾
اگر اسے منظور ہو تو اے لوگو! وہ تم سب کو لے جائے اور دوسروں کو لے آئے، اللہ تعالیٰ اس پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔ (١)
١٣٣۔١ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت قاہرہ و کاملہ کا اظہار ہے جب کہ ایک دوسرے مقام پر فرمایا ﴿وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لا يَكُونُوا أَمْثَالَكُمْ﴾ (محمد: 38) "اگر تم پھرو گے تووہ تمہاری جگہ اوروں کو لے آئے گا اور وہ تمہاری طرح کے نہیں ہوں گے"۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
مَّن كَانَ يُرِ‌يدُ ثَوَابَ الدُّنْيَا فَعِندَ اللَّـهِ ثَوَابُ الدُّنْيَا وَالْآخِرَ‌ةِ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ سَمِيعًا بَصِيرً‌ا ﴿١٣٤﴾
جو شخص دنیا کا ثواب چاہتا ہو تو (یاد رکھو کہ) اللہ تعالیٰ کے پاس تو دنیا اور آخرت (دونوں) کا ثواب موجود ہے (١) اور اللہ تعالیٰ بہت سننے والا اور خوب دیکھنے والا ہے۔
١٣٤۔١ جیسے کوئی شخص جہاد صرف مال غنیمت کے حصول کے لیے کرے تو کتنی نادانی کی بات ہے۔ جب اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت دونوں کا ثواب عطا فرمانے پر قادر ہے تو پھر اس سے ایک ہی چیز کیوں طلب کی جائے؟ انسان دونوں ہی کا طالب کیوں نہ بنے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّـهِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَ‌بِينَ ۚ إِن يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرً‌ا فَاللَّـهُ أَوْلَىٰ بِهِمَا ۖ فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَىٰ أَن تَعْدِلُوا ۚ وَإِن تَلْوُوا أَوْ تُعْرِ‌ضُوا فَإِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرً‌ا ﴿١٣٥﴾
اے ایمان والو! عدل و انصاف پر مضبوطی سے جم جانے والے اور خوشنودی مولا کے لیے سچی گواہی دینے والے بن جاؤ، گو وہ خود تمہارے اپنے خلاف ہو یا اپنے ماں باپ کے یا رشتہ داروں عزیزوں کے، (١) وہ شخص اگر امیر ہو تو اور فقیر ہو تو دونوں کے ساتھ اللہ کو زیادہ تعلق ہے، (٢) اس لیے تم خواہش نفس کے پیچھے پڑ کر انصاف نہ چھوڑ دینا (٣) اور اگر تم نے کج بیانی یا پہلو تہی کی (٤) تو جان لو کہ جو کچھ تم کرو گے اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔
١٣٥۔١ اس میں اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو عدل و انصاف قائم کرنے اور حق کے مطابق گواہی دینے کی تاکید فرما رہا ہے چاہے اس کی وجہ سے انہیں یا ان کے والدین اور رشتہ داروں کو نقصان ہی اٹھانا پڑے۔ اس لیے کہ حق سب پر حاکم ہے اور سب پر مقدم ہے۔
١٣٥۔٢ یعنی کسی مال دار کی مالداری کی وجہ سے رعایت کی جائے نہ کسی فقیر کے فقر کا اندیشہ تمہیں سچی بات کہنے سے روکے بلکہ اللہ ان دونوں سے تمہارے زیادہ قریب اور مقدم ہے۔
١٣٥۔٣ یعنی خواہش نفس، عصبیت یا بغض تمہیں انصاف کرنے سے نہ روک دے۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ﴿وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلا تَعْدِلُوا﴾ (المائدۃ: 8) ”تمہیں کسی قوم کی دشمنی اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو“۔
١٣٥۔٤ ”تَلْوُوا“، ”لیی“ سے ہے جو تحریف اور جان بوجھ کر جھوٹ بولنے کو کہا جاتا ہے۔ مطلب شہادت میں تحریف و تغییر ہے اور اعراض سے مراد شہادت کا کتمان (چھپانا) اور اس کا ترک کرنا ہے۔ ان دونوں باتوں سے بھی روکا گیا ہے۔ اس آیت میں عدل و انصاف کی تاکید اور اس کے لیے جن باتوں کی ضرورت ہے، ان کا اہتمام کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مثلاً:
* ہر حال میں عدل کرو اس سے سرمو انحراف نہ کرو، کسی ملامت گر کی ملامت اور کوئی اور محرک اس میں رکاوٹ نہ بنے۔ بلکہ اس کے قیام میں تم ایک دوسرے کے معاون اور دست و بازو بنو۔
* صرف اللہ کی رضا تمہارے پیش نظر ہو، کیونکہ اس صورت میں تم تحریف، تبدیل اور کتمان سے گریز کرو گے اور تمہارا فیصلہ عدل کی میزان میں پورا اترے گا۔
* عدل و انصاف کی زد اگر تم پر یا تمہارے والدین پر یا دیگر قریبی رشتے داروں پر بھی پڑے، تب بھی تم پروا مت کرو اور اپنی اور ان کی رعایت کے مقابلے میں عدل کے تقاضوں کو اہمیت دو۔
* کسی مال دار کی اس کی تونگری کی وجہ سے رعایت نہ کرو اور کسی تنگ دست کے فقر سے خوف مت کھاؤ کیونکہ وہی جانتا ہے کہ ان دونوں کی بہتری کس میں ہے؟
* فیصلے میں خواہش نفس، عصبیت اور دشمنی آڑے نہیں آنی چاہیے۔ بلکہ ان سب کو نظر انداز کر کے بے لاگ عدل کرو۔عدل کا یہ اہتمام جس معاشرے میں ہو گا، وہاں امن و سکون اور اللہ کی طرف سے رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہو گا۔ صحابہ کرام رضی الله عنہم نے اس نکتے کو بھی خوب سمجھ لیا تھا، چنانچہ حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی الله عنہ کی بابت آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خیبر کے یہودیوں کے پاس بھیجا کہ وہ وہاں کے پھلوں اور فصلوں کا تخمینہ لگا کر آئیں۔ یہودیوں نے انہیں رشوت کی پیشکش کی تاکہ وہ کچھ نرمی سے کام لیں۔ انہوں نے فرمایا اللہ کی قسم، میں اس کی طرف سے نمائندہ بن کر آیا ہوں جو دنیا میں مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے اور تم میرے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہو، لیکن اپنے محبوب کی محبت اور تمہاری دشمنی مجھے اس بات پر آمادہ نہیں کر سکتی کہ میں تمہارے معاملے میں انصاف نہ کروں۔ یہ سن کر انہوں نے کہا اسی عدل کی وجہ سے آسمان و زمین کا یہ نظام قائم ہے۔ (تفسیر ابن کثیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَىٰ رَ‌سُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي أَنزَلَ مِن قَبْلُ ۚ وَمَن يَكْفُرْ‌ بِاللَّـهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُ‌سُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ‌ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا ﴿١٣٦﴾
اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ پر اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) پر اتاری ہے اور ان کتابوں پر جو اس سے پہلے اس نے نازل فرمائی گئی ہیں، ایمان لاؤ! (١) جو شخص اللہ تعالیٰ سے اور اس کے فرشتوں سے اور اسکی کتابوں سے اور اس کے رسولوں سے اور قیامت کے دن سے کفر کرے وہ تو بہت بڑی دور کی گمراہی میں جا پڑا۔
١٣٦۔١ ایمان والوں کو ایمان لانے کی تاکید، تحصیل حاصل والی بات نہیں، بلکہ کمال ایمان اور اس پر استقرار و اثبات کا حکم ہے۔ جیسے ﴿اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ﴾ کا مفہوم ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُ‌وا ثُمَّ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُ‌وا ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرً‌ا لَّمْ يَكُنِ اللَّـهُ لِيَغْفِرَ‌ لَهُمْ وَلَا لِيَهْدِيَهُمْ سَبِيلًا ﴿١٣٧﴾
جن لوگوں نے ایمان قبول کر کے پھر کفر کیا، پھر ایمان لا کر پھر کفر کیا، پھر اپنے کفر میں بڑھ گئے، اللہ تعالیٰ یقیناً انہیں نہ بخشے گا اور نہ انہیں راہ ہدایت سمجھائے گا۔ (۱)
١٣٧۔١ بعض مفسرین نے اس سے مراد یہود لیے ہیں۔ یہود حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے، لیکن حضرت عزیر علیہ السلام کا انکار کیا، پھر حضرت عزیر علیہ السلام پر ایمان لائے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا انکار کیا۔ پھر کفر میں بڑھتے چلے گئے۔ حتیٰ کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا بھی انکار کیا اور بعض نے اس سے مراد منافقین لیے ہیں، چونکہ مقصد ان کا مسلمانوں کو نقصان پہچانا تھا، اس لیے وہ بار بار اپنی مسلمانی کا ڈھونگ رچاتے تھے بالآخر کفر و ضلالت میں اتنے بڑھ گئے کہ ان کی ہدایت کی امید منقطع ہو گئی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَشِّرِ‌ الْمُنَافِقِينَ بِأَنَّ لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا ﴿١٣٨﴾
منافقوں کو اس امر کی خبر پہنچا دو کہ ان کے لیے دردناک عذاب یقینی ہے۔

الَّذِينَ يَتَّخِذُونَ الْكَافِرِ‌ينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۚ أَيَبْتَغُونَ عِندَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّـهِ جَمِيعًا ﴿١٣٩﴾
جن کی حالت یہ ہے کہ مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے پھرتے ہیں، (١) کیا ان کے پاس عزت کی تلاش میں جاتے ہیں؟ (تو یاد رکھیں کہ) عزت تو ساری کی ساری اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے۔ (۲)
١٣٩۔١ جس طرح سورۂ بقرہ کے آغاز میں گزر چکا ہے کہ منافقین کافروں کے پاس جا کر یہی کہتے تھے کہ ہم تو حقیقت میں تمہارے ہی ساتھی ہیں، مسلمانوں سے تو ہم یوں ہی استہزا کرتے ہیں۔
١٣٩۔٢ یعنی عزت، کافروں کے ساتھ موالات و محبت سے نہیں ملے گی، کیونکہ یہ تو اللہ کے اختیار میں ہے اور وہ عزت اپنے ماننے والوں کو ہی عطا فرماتا ہے، دوسرے مقام پر فرمایا ﴿مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا﴾ (فاطر: 10) "جو عزت کا طالب ہے، تو (اسے سمجھ لینا چاہیے کہ) عزت سب کی سب اللہ کے لیے ہے" اور فرمایا ﴿وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لا يَعْلَمُونَ﴾ (المنافقون: 8) "عزت اللہ کے لیے ہے اس کے رسول کے لیے ہے اور مومنین کے لیے ہے لیکن منافق نہیں جانتے"۔ یعنی وہ نفاق کے ذریعے سے اور کافروں سے دوستی کے ذریعے سے عزت حاصل کرنا چاہتے ہیں، درآں حالیکہ یہ طریقہ ذلت و خواری کا ہے، عزت کا نہیں۔
 
Top