• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُ‌ونَ بِاللَّـهِ وَرُ‌سُلِهِ وَيُرِ‌يدُونَ أَن يُفَرِّ‌قُوا بَيْنَ اللَّـهِ وَرُ‌سُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ‌ بِبَعْضٍ وَيُرِ‌يدُونَ أَن يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا ﴿١٥٠﴾
جو لوگ اللہ کے ساتھ اور اس کے پیغمبروں کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان فرق رکھیں اور جو لوگ کہتے ہیں کہ بعض نبیوں پر تو ہمارا ایمان ہے اور بعض پر نہیں اور چاہتے ہیں کہ اس کے اور اس کے بین بین کوئی راہ نکالیں۔

أُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُ‌ونَ حَقًّا ۚ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِ‌ينَ عَذَابًا مُّهِينًا ﴿١٥١﴾
یقین مانو کہ یہ سب لوگ اصلی کافر ہیں، (١) اور کافروں کے لیے ہم نے اہانت آمیز سزا تیار کر رکھی ہے۔
١٥١۔١ اہل کتاب کے متعلق پہلے گزر چکا ہے کہ وہ بعض نبیوں کو مانتے تھے اور بعض کو نہیں۔ جیسے یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام و حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور عیسائیوں نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انبیاء عليهم السلام کے درمیان تفریق کرنے والے یہ پکے کافر ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّـهِ وَرُ‌سُلِهِ وَلَمْ يُفَرِّ‌قُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ أُولَـٰئِكَ سَوْفَ يُؤْتِيهِمْ أُجُورَ‌هُمْ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورً‌ا رَّ‌حِيمًا ﴿١٥٢﴾
اور جو لوگ اللہ پر اور اس کے تمام پیغمبروں پر ایمان لاتے ہیں اور ان میں سے کسی میں فرق نہیں کرتے، یہ ہیں جنہیں اللہ ان کو پورا ثواب دے گا (١) اور اللہ بڑی مغفرت والا اور بڑی رحمت والا ہے۔
١٥٢۔١ یہ ایمانداروں کا شیوہ بتلایا کہ وہ سب انبیاء عليهم السلام پر ایمان رکھتے ہیں۔ جس طرح مسلمان ہیں کہ وہ کسی بھی نبی کا انکار نہیں کرتے۔ اس آیت سے بھی ”وحدت ادیان“ کی نفی ہوتی ہے جس کے قائلین کے نزدیک رسالت محمدیہ پر ایمان لانا ضروری نہیں ہے۔ اور وہ ان غیر مسلموں کو بھی نجات یافتہ سمجھتے ہیں جو اپنے تصورات کے مطابق ایمان باللہ رکھتے ہیں۔ لیکن قرآن کی اس آیت نے واضح کر دیا کہ ایمان باللہ کے ساتھ رسالت محمدیہ پر ایمان لانا بھی ضروری ہے۔ اگر اس آخری رسالت کا انکار ہو گا تو اس انکار کے ساتھ ایمان باللہ غیر معتبر اور نامقبول ہے۔ (مزید دیکھیے سورۂ بقرہ کی آیت نمبر62 کا حاشیہ)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
يَسْأَلُكَ أَهْلُ الْكِتَابِ أَن تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتَابًا مِّنَ السَّمَاءِ ۚ فَقَدْ سَأَلُوا مُوسَىٰ أَكْبَرَ‌ مِن ذَٰلِكَ فَقَالُوا أَرِ‌نَا اللَّـهَ جَهْرَ‌ةً فَأَخَذَتْهُمُ الصَّاعِقَةُ بِظُلْمِهِمْ ۚ ثُمَّ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ فَعَفَوْنَا عَن ذَٰلِكَ ۚ وَآتَيْنَا مُوسَىٰ سُلْطَانًا مُّبِينًا ﴿١٥٣﴾
آپ سے یہ اہل کتاب درخواست کرتے ہیں کہ آپ ان کے پاس کوئی آسمانی کتاب لائیں، (١) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے انہوں نے اس سے بہت بڑی درخواست کی تھی کہ ہمیں کھلم کھلا اللہ تعالیٰ کو دکھا دے، پس ان کے اس ظلم کے باعث ان پر کڑاکے کی بجلی آ پڑی پھر باوجودیکہ ان کے پاس بہت دلیلیں پہنچ چکی تھیں انہوں نے بچھڑے کو اپنا محبوب بنا لیا، لیکن ہم نے یہ معاف فرما دیا اور ہم نے موسیٰ کو کھلا غلبہ (اور صریح دلیل) عنایت فرمائی۔
١٥٣۔۱ یعنی جس طرح موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر گئے اور تختیوں پر لکھی ہوئی تورات لے کر آئے، اسی طرح آپ بھی آسمان پر جا کر لکھا ہوا قرآن مجید لے کر آئیں۔ یہ مطالبہ محض عناد، جحود اور تعنت کی بنا پر تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَرَ‌فَعْنَا فَوْقَهُمُ الطُّورَ‌ بِمِيثَاقِهِمْ وَقُلْنَا لَهُمُ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُلْنَا لَهُمْ لَا تَعْدُوا فِي السَّبْتِ وَأَخَذْنَا مِنْهُم مِّيثَاقًا غَلِيظًا ﴿١٥٤﴾
اور ان کا قول لینے کے لیے ہم نے ان کے سروں پر طور پہاڑ لا کھڑا کر دیا اور انہیں حکم دیا کہ سجدہ کرتے ہوئے دروازے میں جاؤ اور یہ بھی فرمایا کہ ہفتہ کے دن میں تجاوز نہ کرنا اور ہم نے ان سے سخت سے سخت قول و قرار لیے۔

فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ وَكُفْرِ‌هِم بِآيَاتِ اللَّـهِ وَقَتْلِهِمُ الْأَنبِيَاءَ بِغَيْرِ‌ حَقٍّ وَقَوْلِهِمْ قُلُوبُنَا غُلْفٌ ۚ بَلْ طَبَعَ اللَّـهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِ‌هِمْ فَلَا يُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِيلًا ﴿١٥٥﴾
(یہ سزا تھی) بہ سبب ان کی عہد شکنی کے اور احکام الٰہی کے ساتھ کفر کرنے کے اور اللہ کے نبیوں کو ناحق قتل کر ڈالنے کے، (١) اور اس سبب سے کہ یوں کہتے ہیں کہ ہمارے دلوں پر غلاف ہے۔ حالانکہ دراصل ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں پر اللہ تعالیٰ نے مہر لگا دی ہے، اس لیے یہ قدر قلیل ہی ایمان لاتے ہیں۔
١٥٥۔۱ تقدیری عبارت یوں ہو گی ﴿فَبِنَقْضِهِمْ مِيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ﴾ یعنی ہم نے ان کے نقض میثاق، کفر بآیات اللہ اور قتل انبیاء وغیرہ کی وجہ سے ان پر لعنت کی یا سزا دی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَبِكُفْرِ‌هِمْ وَقَوْلِهِمْ عَلَىٰ مَرْ‌يَمَ بُهْتَانًا عَظِيمًا ﴿١٥٦﴾
اور ان کے کفر کے باعث اور مریم پر بہت بڑا بہتان باندھنے کے باعث۔ (١)
١٥٦۔١ اس سے مراد یوسف نجار کے ساتھ حضرت مریم علیہا السلام پر بدکاری کی تہمت ہے۔ آج بھی بعض نام نہاد محققین اس بہتان عظیم کو ایک حقیقت ثابتہ باور کرانے پر تلے ہوئے ہیں اور کہتے ہیں کہ یوسف نجار (نَعُوذُ بِاللهِ) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا باپ تھا اور یوں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بن باپ کے معجزانہ ولادت کا بھی انکار کرتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْ‌يَمَ رَ‌سُولَ اللَّـهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَـٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ ۚ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ ۚ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا ﴿١٥٧﴾
اور یوں کہنے کے باعث کہ ہم نے اللہ کے رسول مسیح عیسیٰ بن مریم کو قتل کر دیا حالانکہ نہ تو انہوں نے اسے قتل کیا نہ سولی پر چڑھایا (١) بلکہ ان کے لیے ان (عیسیٰ) کا شبیہ بنا دیا گیا تھا۔ (٢) یقین جانو کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اختلاف کرنے والے ان کے بارے میں شک میں ہیں، انہیں اس کا کوئی یقین نہیں بجز تخمینی باتوں پر عمل کرنے کے (٣) اتنا یقینی ہے کہ انہوں نے انہیں قتل نہیں کیا۔
١٥٧۔١ اس سے واضح ہو گیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو یہودی قتل کرنے میں کامیاب ہو سکے نہ سولی چڑھانے میں۔ جیسا کہ ان کا منصوبہ تھا۔ جیسا کہ سورۂ آل عمران کی آیت نمبر 55 کے حاشیے میں مختصر تفصیل گزر چکی ہے۔
١٥٧۔٢ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں کی سازش کا پتہ چلا توانہوں نے اپنے حواریوں کو جن کی تعداد 12 یا 17 تھی، جمع کیا اور فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص میری جگہ قتل ہونے کے لیے تیار ہے؟ تاکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی شکل و صورت میری جیسی بنا دی جائے۔ ایک نوجوان اس کے لیے تیار ہو گیا۔ چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو وہاں سے آسمان پر اٹھا لیا گیا۔ بعد میں یہودی آئے اور انہوں نے اس نوجوان کو لے جا کر سولی پر چڑھا دیا جسے حضرت عیسیٰ کا ہم شکل بنا دیا گیا تھا۔ یہودی یہی سمجھتے رہے کہ ہم نے عیسیٰ علیہ السلام کو سولی دی ہے درآں حالیکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس وقت وہاں موجود ہی نہ تھے وہ زندہ جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر اٹھائے جا چکے تھے۔ (ابن کثیر و فتح القدیر)
١٥٧۔٣ عیسیٰ علیہ السلام کے ہم شکل شخص کو قتل کرنے کے بعد ایک گروہ تو یہی کہتا رہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کر دیا، جب کہ دوسرا گروہ جسے یہ اندازہ ہو گیا کہ مصلوب شخص عیسیٰ علیہ السلام نہیں، کوئی اور ہے۔ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل اور مصلوب ہونے کا انکار کرتا رہا۔ بعض کہتے ہیں کہ انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر جاتے ہوئے بھی دیکھا تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ اس اختلاف سے مراد وہ اختلاف ہے جو خود عیسائیوں کے نسطوریہ فرقے نے کہا کہ عیسیٰ علیہ السلام جسم کے لحاظ سے تو سولی دے دیئے گئے لیکن لاہوت (خداوندی) کے اعتبار سے نہیں۔ ملکانیہ فرقے نے کہا کہ یہ قتل و صلب ناسوت اور لاہوت دونوں اعتبار سے مکمل طور پر ہوا ہے (فتح القدیر) بہرحال وہ اختلاف، تردد اور شک کا شکار رہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَل رَّ‌فَعَهُ اللَّـهُ إِلَيْهِ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ عَزِيزًا حَكِيمًا ﴿١٥٨﴾
بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا (۱) اور اللہ بڑا زبردست اور پوری حکمتوں والا ہے۔ (۲)
١٥٨۔١ یہ نص صریح ہے اس بات پر کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا اور متواتر صحیح احادیث سے بھی یہ بات ثابت ہے۔ یہ احادیث حدیث کی تمام کتابوں کے علاوہ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں بھی وارد ہیں۔ ان احادیث میں آسمان پر اٹھائے جانے کے علاوہ قیامت کے قریب ان کے نزول کا اور دیگر بہت سی باتوں کا تذکرہ ہے۔ امام ابن کثیر یہ تمام روایات کا ذکر کر کے آخر میں تحریر فرماتے ہیں پس یہ احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر ہیں۔ ان کے راویوں میں حضرت ابوہریرۃ، حضرت عبد اللہ بن مسعود، عثمان بن ابی العاص، ابو امامہ، نواس بن سمعان، عبد اللہ بن عمرو بن العاص، مجمع بن جاریہ، ابی سریحہ اور حذیفہ بن اسید رضی الله عنہم ہیں۔ ان احادیث میں آپ کے نزول کی صفت اور جگہ کا بیان ہے، آپ علیہ السلام دمشق میں منارہ شرقیہ کے پاس اس وقت اتریں گے جب فجر کی نماز کے لیے اقامت ہو رہی ہو گی۔ آپ خنزیر کو قتل کریں گے، صلیب توڑ دیں گے، جزیہ معاف کر دیں گے، ان کے دور میں سب مسلمان ہو جائیں گے، دجال کا قتل بھی آپ کے ہاتھوں سے ہو گا اور یاجوج و ماجوج کا ظہور و فساد بھی آپ کی موجودگی میں ہو گا، بالآخر آپ ہی کی بددعا سے ان کی ہلاکت واقع ہو گی۔
١٥٨۔۲ وہ زبردست اور غالب ہے، اس کے ارادہ اور مشیت کو کوئی ٹال نہیں سکتا اور جو اس کی پناہ میں آ جائے، اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اور وہ حکیم بھی ہے، وہ جو فیصلہ بھی کرتا ہے، حکمت پر مبنی ہوتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَإِن مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا ﴿١٥٩﴾
اہل کتاب میں ایک بھی ایسا نہ بچے گا جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی موت سے پہلے ان پر ایمان نہ لا چکے (١) اور قیامت کے دن آپ ان پر گواہ ہوں گے۔ (٢)
١٥٩۔١ ﴿قَبْلَ مَوْتِهِ﴾ میں ”ہ“ کی ضمیر کا مرجع بعض مفسرین کے نزدیک اہل کتاب (نصاریٰ) ہیں اور مطلب یہ کہ ہر عیسائی موت کے وقت حضرت عیسییٰ پر ایمان لے آتا ہے۔ گو موت کے وقت کا ایمان نافع نہیں۔ لیکن سلف اور اکثر مفسرین کے نزدیک اس کا مرجع حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں اور مطلب یہ ہے کہ جب ان کا دوبارہ دنیا میں نزول ہو گا اور وہ دجال کو قتل کر کے اسلام کا بول بالا کریں گے تو اس وقت جتنے یہودی اور عیسائی ہوں گے ان کو بھی قتل کر ڈالیں گے اور روئے زمین پر مسلمان کے سوا کوئی اور باقی نہ بچے گا اس طرح اس دنیا میں جتنے بھی اہل کتاب حضرت عیسیٰ پر ایمان لانے والے ہیں وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے پہلے ان پر ایمان لا کر اس دنیا سے گزر چکیں گے۔ خواہ ان کا ایمان کسی بھی ڈھنگ کا ہو۔ صحیح احادیث سے بھی یہی ثابت ہے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! ضرور ایک وقت آئے گا کہ تم میں ابن مریم حاکم و عادل بن کر نازل ہوں گے، وہ صلیب کو توڑ دیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، جزیہ اٹھا دیں گے اور مال کی اتنی بہتات ہو جائے گی کہ کوئی اسے قبول کرنے والا نہیں ہو گا۔ (یعنی صدقہ خیرات لینے والا کوئی نہیں ہو گا) حتیٰ کہ ایک سجدہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہو گا“۔ پھر حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے اگر تم چاہو تو قرآن کی یہ آیت پڑھ لو ﴿وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ﴾ (صحیح بخاری- كتاب الأنبياء) یہ احادیث اتنی کثرت سے آئی ہیں کہ انہیں تواتر کا درجہ حاصل ہے اور انہی متواتر صحیح روایات کی بنیاد پر اہل سنت کے تمام مکاتب کا متفقہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں اور قیامت کے قریب دنیا میں ان کا نزول ہو گا اور دجال کا اور تمام ادیان کا خاتمہ فرما کر اسلام کو غالب فرمائیں گے۔ یاجوج ماجوج کا خروج بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی کی موجودگی میں ہو گا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعا کی برکت سے ہی اس فتنے کا بھی خاتمہ ہو گا جیسا کہ احادیث سے واضح ہے۔
١٥٩۔٢ یہ گواہی اپنی پہلی زندگی کے حالات سے متعلق ہو گی۔ جیسا کہ سورۂ مائدہ کے آخر میں وضاحت ہے ﴿وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ﴾ میں جب تک ان میں موجود رہا، ان کے حالات سے باخبر رہا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِينَ هَادُوا حَرَّ‌مْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبَاتٍ أُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ كَثِيرً‌ا ﴿١٦٠﴾
جو نفیس چیزیں ان کے لیے حلال کی گئی تھیں وہ ہم نے ان پر حرام کر دیں ان کے ظلم کے باعث اور اللہ تعالیٰ کی راہ سے اکثر لوگوں کو روکنے کے باعث۔ (١)
١٦٠۔١ یعنی ان کے ان جرائم و معاصی کی وجہ سے بطور سزا بہت سی حلال چیزیں ہم نے ان پر حرام کر دی تھیں۔ (جن کی تفصیل سورۃ الآنعام۔١٤٦میں ہے)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَأَخْذِهِمُ الرِّ‌بَا وَقَدْ نُهُوا عَنْهُ وَأَكْلِهِمْ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ ۚ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِ‌ينَ مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا ﴿١٦١﴾
اور سود جس سے منع کیے گئے تھے اسے لینے کے باعث اور لوگوں کا مال ناحق مار کھانے کے باعث اور ان میں جو کفار ہیں ہم نے ان کے لیے المناک عذاب مہیا کر رکھا ہے۔

لَّـٰكِنِ الرَّ‌اسِخُونَ فِي الْعِلْمِ مِنْهُمْ وَالْمُؤْمِنُونَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ ۚ وَالْمُقِيمِينَ الصَّلَاةَ ۚ وَالْمُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالْمُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ‌ أُولَـٰئِكَ سَنُؤْتِيهِمْ أَجْرً‌ا عَظِيمًا ﴿١٦٢﴾
لیکن ان میں سے جو کامل اور مضبوط علم والے ہیں (١) اور ایمان والے ہیں جو اس پر ایمان لاتے ہیں جو آپ کی طرف اتارا گیا اور جو آپ سے پہلے اتارا گیا اور نمازوں کو قائم رکھنے والے ہیں (٢) اور زکوۃ کے ادا کرنے والے ہیں (٣) اور اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والے ہیں (٤) یہ ہیں جنہیں ہم بہت بڑے اجر عطا فرمائیں گے۔
١٦٢۔١ ان سے مراد عبد اللہ بن سلام رضی الله عنہ وغیرہ ہیں جو یہودیوں میں سے مسلمان ہو گئے تھے۔
١٦٢۔٢ ان سے مراد بھی وہ اہل ایمان ہیں جو اہل کتاب میں سے مسلمان ہوئے یا پھر مہاجرین و انصار مراد ہیں۔ یعنی شریعت کا پختہ علم رکھنے والے اور کمال ایمان سے متصف لوگ ان معاصی کے ارتکاب سے بچتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ ناپسند فرماتا ہے۔
١٦٢۔٣ اس سے مراد زکوٰۃ اموال ہے یا زکوٰۃ نفوس یعنی اپنے اخلاق و کردار کی تطہیر اور ان کا تزکیہ کرنا، یا دونوں ہی مراد ہیں۔
١٦٢۔٤ یعنی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ نیز بعث بعد الموت اور عملوں پر جزا اور سزا پر یقین رکھتے ہیں۔
 
Top