- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
فَلَمَّا رَأَى الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هَـٰذَا رَبِّي ۖ فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَئِن لَّمْ يَهْدِنِي رَبِّي لَأَكُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّينَ ﴿٧٧﴾
پھر جب چاند کو دیکھا چمکتا ہوا تو فرمایا کہ یہ میرا رب ہے لیکن جب وہ غروب ہو گیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر مجھ کو میرے رب نے ہدایت نہ کی تو میں گمراہ لوگوں میں شامل ہو جاؤں گا۔
٧٨۔١ شَمْسٌ (سورج) عربی میں مونث ہے۔ لیکن اسم اشارہ مذکر ہے۔ مراد الطالع ہے یعنی یہ طلوع ہونے والا سورج، میرا رب ہے۔ کیونکہ یہ سب سے بڑا ہے۔ جس طرح کہ سورج پرستوں کو مغالطہ لگا اور وہ اس کی پرستش کرتے ہیں۔ (اجرام سماویہ میں سورج سب سے بڑا اور سب سے زیادہ روشن ہے اور انسانی زندگی کے بقا و وجود کے لیے اس کی اہمیت و افادیت محتاج وضاحت نہیں۔ اسی لیے مظاہر پرستوں میں سورج کی پرستش عام رہی ہے حضرت ابراہیم عليہ السلام نے نہایت لطیف پیرائے میں چاند سورج کے پجاریوں پر ان کے معبودوں کی بے حیثیتی کو واضح فرمایا۔
٧٨۔٢ یعنی ان تمام چیزوں سے، جن کو تم اللہ کا شریک بناتے ہو اور جن کی عبادت کرتے ہو، میں بیزار ہوں۔ اس لیے کہ ان میں تبدیلی آتی رہتی ہے، کبھی طلوع ہوتے، کبھی غروب ہوتے ہیں، جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ مخلوق ہیں اور ان کا خالق کوئی اور ہے جس کے حکم کے یہ تابع ہیں۔ جب یہ خود مخلوق اور کسی کے تابع ہیں تو کسی کو نفع نقصان پہنچانے پر کس طرح قادر ہو سکتے ہیں؟ مشہور ہے کہ اس وقت کے بادشاہ نمرود نے اپنے ایک خواب اور کاہنوں کی تعبیر کی وجہ سے نو مولود لڑکوں کو قتل کرنے کا حکم دے رکھا تھا، حضرت ابراہیم عليہ السلام بھی ان ہی ایام میں پیدا ہوئے جس کی وجہ سے انہیں ایک غار میں رکھا گیا تاکہ نمرود اور اس کے کارندوں کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچ جائیں۔ وہیں غار میں جب کچھ شعور آیا اور چاند سورج دیکھے تو یہ تاثرات ظاہر فرمائے، لیکن یہ غار والی بات مستند نہیں ہے۔ قرآن کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم سے گفتگو اور مکالمے کے وقت حضرت ابراہیم عليہ السلام نے یہ باتیں کی ہیں، اسی لیے آخر میں قوم سے خطاب کر کے فرمایا کہ میں تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں سے بیزار ہوں۔ اور مقصد اس مکالمے سے معبودان باطل کی اصل حقیقت کی وضاحت تھی۔
پھر جب چاند کو دیکھا چمکتا ہوا تو فرمایا کہ یہ میرا رب ہے لیکن جب وہ غروب ہو گیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر مجھ کو میرے رب نے ہدایت نہ کی تو میں گمراہ لوگوں میں شامل ہو جاؤں گا۔
٧٨۔١ شَمْسٌ (سورج) عربی میں مونث ہے۔ لیکن اسم اشارہ مذکر ہے۔ مراد الطالع ہے یعنی یہ طلوع ہونے والا سورج، میرا رب ہے۔ کیونکہ یہ سب سے بڑا ہے۔ جس طرح کہ سورج پرستوں کو مغالطہ لگا اور وہ اس کی پرستش کرتے ہیں۔ (اجرام سماویہ میں سورج سب سے بڑا اور سب سے زیادہ روشن ہے اور انسانی زندگی کے بقا و وجود کے لیے اس کی اہمیت و افادیت محتاج وضاحت نہیں۔ اسی لیے مظاہر پرستوں میں سورج کی پرستش عام رہی ہے حضرت ابراہیم عليہ السلام نے نہایت لطیف پیرائے میں چاند سورج کے پجاریوں پر ان کے معبودوں کی بے حیثیتی کو واضح فرمایا۔
٧٨۔٢ یعنی ان تمام چیزوں سے، جن کو تم اللہ کا شریک بناتے ہو اور جن کی عبادت کرتے ہو، میں بیزار ہوں۔ اس لیے کہ ان میں تبدیلی آتی رہتی ہے، کبھی طلوع ہوتے، کبھی غروب ہوتے ہیں، جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ مخلوق ہیں اور ان کا خالق کوئی اور ہے جس کے حکم کے یہ تابع ہیں۔ جب یہ خود مخلوق اور کسی کے تابع ہیں تو کسی کو نفع نقصان پہنچانے پر کس طرح قادر ہو سکتے ہیں؟ مشہور ہے کہ اس وقت کے بادشاہ نمرود نے اپنے ایک خواب اور کاہنوں کی تعبیر کی وجہ سے نو مولود لڑکوں کو قتل کرنے کا حکم دے رکھا تھا، حضرت ابراہیم عليہ السلام بھی ان ہی ایام میں پیدا ہوئے جس کی وجہ سے انہیں ایک غار میں رکھا گیا تاکہ نمرود اور اس کے کارندوں کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچ جائیں۔ وہیں غار میں جب کچھ شعور آیا اور چاند سورج دیکھے تو یہ تاثرات ظاہر فرمائے، لیکن یہ غار والی بات مستند نہیں ہے۔ قرآن کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم سے گفتگو اور مکالمے کے وقت حضرت ابراہیم عليہ السلام نے یہ باتیں کی ہیں، اسی لیے آخر میں قوم سے خطاب کر کے فرمایا کہ میں تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں سے بیزار ہوں۔ اور مقصد اس مکالمے سے معبودان باطل کی اصل حقیقت کی وضاحت تھی۔