• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ۚ فَإِن يَكْفُرْ‌ بِهَا هَـٰؤُلَاءِ فَقَدْ وَكَّلْنَا بِهَا قَوْمًا لَّيْسُوا بِهَا بِكَافِرِ‌ينَ ﴿٨٩﴾
یہ لوگ ایسے تھے کہ ہم نے ان کو کتاب اور حکمت اور نبوت عطا کی تھی سو اگر یہ لوگ نبوت کا انکار کریں (١) تو ہم نے اس کے لیے ایسے بہت سے لوگ مقرر کر دیئے ہیں جو اس کے منکر نہیں ہیں (٢)
٨٩۔١ اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفیں، مشرکین اور کفار ہیں۔
٨٩۔٢ اس سے مراد مہاجرین و انصار اور قیامت تک آنے والے ایمان دار ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّـهُ ۖ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ ۗ قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرً‌ا ۖ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرَ‌ىٰ لِلْعَالَمِينَ ﴿٩٠﴾
یہی لوگ ایسے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی تھی، سو آپ بھی ان ہی کے طریق پر چلیئے (١) آپ کہہ دیجیئے کہ میں تم سے اس پر کوئی معاوضہ نہیں چاہتا (٢) یہ تو صرف تمام جہان والوں کے واسطے ایک نصیحت ہے۔ (٣)
٩٠۔١ اس سے مراد انبیاء مذکورین ہیں۔ ان کی اقتدا کا حکم مسئلہ توحید میں اور ان احکام و شرائع میں ہے جو منسوخ نہیں ہوئے۔ (فتح القدیر) کیونکہ اصول دین تمام شریعتوں میں ایک ہی رہے ہیں، گو شرائع اور مناہج میں کچھ کچھ اختلاف رہا۔ جیسا کہ آیت ﴿شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا﴾ (الشورى:3) سے واضح ہے۔
٩٠۔٢ یعنی تبلیغ و دعوت کا، کیونکہ مجھے اس کا صلہ ہی کافی ہے جو آخرت میں عند اللہ ملے گا۔
٩٠۔٣ جہان والے اس سے نصیحت حاصل کریں۔ پس یہ قرآن انہیں کفر و شرک کے اندھیروں سے نکال کر ہدایت کی روشنی عطا کرے گا اور ضلالت کی پگڈنڈیوں سے نکال کر ایمان کی صراط مستقیم پر گامزن کر دے گا۔ بشرطیکہ کوئی اس سے نصیحت حاصل کرنا چاہے، ورنہ ؎ دیدۂ کور کو کیا نظر آئے کیا دیکھیے۔ والا معاملہ ہو گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
وَمَا قَدَرُ‌وا اللَّـهَ حَقَّ قَدْرِ‌هِ إِذْ قَالُوا مَا أَنزَلَ اللَّـهُ عَلَىٰ بَشَرٍ‌ مِّن شَيْءٍ ۗ قُلْ مَنْ أَنزَلَ الْكِتَابَ الَّذِي جَاءَ بِهِ مُوسَىٰ نُورً‌ا وَهُدًى لِّلنَّاسِ ۖ تَجْعَلُونَهُ قَرَ‌اطِيسَ تُبْدُونَهَا وَتُخْفُونَ كَثِيرً‌ا ۖ وَعُلِّمْتُم مَّا لَمْ تَعْلَمُوا أَنتُمْ وَلَا آبَاؤُكُمْ ۖ قُلِ اللَّـهُ ۖ ثُمَّ ذَرْ‌هُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ ﴿٩١﴾
اور ان لوگوں نے اللہ کی جیسی قدر کرنا واجب تھی ویسی قدر نہ کی جب کہ یوں کہہ دیا کہ اللہ نے کسی بشر پر کوئی چیز نازل نہیں کی (١) آپ یہ کہئے کہ وہ کتاب کس نے نازل کی ہے جس کو موسیٰ لائے تھے جس کی کیفیت یہ ہے کہ وہ نور ہے اور لوگوں کے لیے وہ ہدایت ہے جس کو تم نے ان متفرق اوراق میں رکھ چھوڑا (٢) ہے جن کو ظاہر کرتے ہو اور بہت سی باتوں کو چھپاتے ہو اور تم کو بہت سی ایسی باتیں بتائی گئی ہیں جن کو تم نہ جانتے تھے اور نہ تمہارے بڑے۔ (٣)۔ آپ کہہ دیجئے کہ اللہ نے نازل فرمایا ہے (٤) پھر ان کو ان کے خرافات میں کھیلتے رہنے دیجئے۔
٩١۔١ قَدَرٌ کے معنی اندازہ کرنے کے ہیں اور یہ کسی چیز کی اصل حقیقت جاننے اور اس کی معرفت حاصل کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ مشرکین مکہ ارسال رسل اور انزال کتب کا انکار کرتے ہیں، جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ انہیں اللہ کی صحیح معرفت ہی حاصل نہیں ورنہ وہ ان چیزوں کا انکار نہ کرتے۔ علاوہ ازیں اسی عدم معرفت الٰہی کی وجہ سے وہ نبوت و رسالت کی معرفت سے بھی قاصر رہے اور یہ سمجھتے رہے کہ کسی انسان پر اللہ کا کلام کس طرح نازل ہو سکتا ہے؟ جس طرح دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَيْنَا إِلَى رَجُلٍ مِنْهُمْ أَنْ أَنْذِرِ النَّاسَ﴾ (يونس:20) ”کیا یہ بات لوگوں کے لیے باعث تعجب ہے کہ ہم نے ان ہی میں سے ایک آدمی پر وحی نازل کر کے اسے لوگوں کو ڈرانے پر مامور کر دیا ہے؟“ دوسرے مقام پر فرمایا ﴿وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَنْ يُؤْمِنُوا إِذْ جَاءَهُمُ الْهُدَى إِلا أَنْ قَالُوا أَبَعَثَ اللَّهُ بَشَرًا رَسُولا﴾ (بني إسرائيل:94) ”ہدایت آ جانے کے بعد لوگ اسے قبول کرنے سے اس لیے رک گئے کہ انہوں نے کہا کہ کیا اللہ نے ایک بشر کو رسول بنا کر بھیج دیا ہے؟“ اس کی کچھ تفصیل اس سے قبل آیت نمبر 8 کے حاشیے میں بھی گزر چکی ہے۔ آیت زیر وضاحت میں بھی انہوں نے اپنے اسی خیال کی بنیاد پر اس بات کی نفی کی کہ اللہ تعالیٰ نے کسی انسان پر کوئی کتاب نازل کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر ایسی بات ہے تو ان سے پوچھو! موسیٰ عليہ السلام پر تورات کس نے نازل کی تھی؟ (جس کو یہ بھی مانتے ہیں)
٩١۔٢ آیت کی مذکورہ تفسیر کے مطابق اب یہود سے خطاب کر کے کہا جا رہا ہے کہ تم اس کتاب کو متفرق اوراق میں رکھتے ہو جن میں سے جس کو چاہتے ہو، ظاہر کر دیتے ہو اور جن کو چاہتے ہو، چھپا لیتے ہو۔ جیسے رجم کا مسئلہ یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات کا مسئلہ ہے۔ حافظ ابن کثیر اور امام ابن جریر طبری وغیرہ نے: يَجْعَلُونَهُ، اور يُبْدُونَهَا صیغہ غائب کے ساتھ والی قرات کو ترجیح دی ہے اور دلیل یہ دی ہے کہ یہ مکی آیت ہے، اس میں یہود سے خطاب کس طرح ہو سکتا ہے؟ اور بعض مفسرین نے پوری آیت کو ہی یہود سے متعلق قرار دیا ہے اور اس میں سرے سے نبوت و رسالت کا جو انکار ہے اسے یہود کی ہٹ دھرمی، ضد اور عناد پر مبنی قول قرار دیا ہے۔ گویا اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کی تین رائے ہیں۔ ایک پوری آیت کو یہود سے، دوسرے پوری آیت کو مشرکین سے متعلق اور تیسرے آیت کے ابتدائی حصے کو مشرکین سے متعلق اور تَجْعَلُونَهُ سے یہود سے متعلق قرار دیتے ہیں۔ وَاللهُ أَعْلَمُ.
٩١۔٣ یہود سے متعلق ماننے کی صورت میں اس کی تفسیر ہو گی کہ تورات کے ذریعے سے تمہیں بتائی گئیں، بصورت دیگر قرآن کے ذریعے سے۔
٩١۔٤ یہ مَنْ أَنْزَلَ (کس نے اتارا) کا جواب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
وَهَـٰذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَ‌كٌ مُّصَدِّقُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَلِتُنذِرَ‌ أُمَّ الْقُرَ‌ىٰ وَمَنْ حَوْلَهَا ۚ وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَ‌ةِ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۖ وَهُمْ عَلَىٰ صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ ﴿٩٢﴾
اور یہ بھی ایسی ہی کتاب ہے جس کو ہم نے نازل کیا ہے جو بڑی برکت والی ہے، اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے تاکہ آپ مکہ والوں کو اور آس پاس والوں کو ڈرائیں۔ اور جو لوگ آخرت کا یقین رکھتے ہیں ایسے لوگ اس پر ایمان لے آتے ہیں اور وہ اپنی نماز پر مداومت رکھتے ہیں۔

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَ‌ىٰ عَلَى اللَّـهِ كَذِبًا أَوْ قَالَ أُوحِيَ إِلَيَّ وَلَمْ يُوحَ إِلَيْهِ شَيْءٌ وَمَن قَالَ سَأُنزِلُ مِثْلَ مَا أَنزَلَ اللَّـهُ ۗ وَلَوْ تَرَ‌ىٰ إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَ‌اتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ أَخْرِ‌جُوا أَنفُسَكُمُ ۖ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّـهِ غَيْرَ‌ الْحَقِّ وَكُنتُمْ عَنْ آيَاتِهِ تَسْتَكْبِرُ‌ونَ ﴿٩٣﴾
اور اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہو گا جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ تہمت لگائے یا یوں کہے کہ مجھ پر وحی آتی ہے حالانکہ اس کے پاس کسی بات کی بھی وحی نہیں آئی اور جو شخص یوں کہے کہ جیسا کلام اللہ نے نازل کیا ہے اسی طرح کا میں بھی لاتا ہوں اور اگر آپ اس وقت دیکھیں جب کہ یہ ظالم لوگ موت کی سختیوں میں ہوں گے اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہوں گے کہ ہاں اپنی جانیں نکالو۔ آج تمہیں ذلت کی سزا دی جائے گی (١) اس سبب سے کہ تم اللہ تعالیٰ کے ذمہ جھوٹی باتیں لگاتے تھے، اور تم اللہ تعالیٰ کی آیات سے تکبر کرتے تھے۔ (٢)
٩٣۔١ ظالم سے مراد ہر ظالم ہے اور اس میں کتاب الٰہی کا انکار کرنے والے اور جھوٹے مدعیان نبوت سب سے پہلے شامل ہیں۔ غَمَرَاتٌ سے موت کی سختیاں مراد ہیں۔ ”فرشتے ہاتھ بڑھا رہے ہوں گے“ یعنی جان نکالنے کے لیے۔ الْيَوْمَ (آﺝ) سے مراد قبض روح کا دن ہے اور یہی عذاب کے آغاز کا وقت بھی ہے جس کا مبدا قبر ہے۔ اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عذاب قبر برحق ہے۔ ورنہ ہاتھ پھیلانے اور جان نکالنے کا حکم دینے کے ساتھ اس بات کے کہنے کے کوئی معنی نہیں کہ آﺝ تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا۔ خیال رہے قبر سے مراد برزخ کی زندگی ہے۔ یعنی دنیا کی زندگی کے بعد اور آخرت کی زندگی سے قبل، یہ ایک درمیان کی زندگی ہے جس کا عرصہ انسان کی موت سے قیامت کے وقوع تک ہے۔ یہ برزخی زندگی کہلاتی ہے۔ چاہے اسے کسی درندے نے کھا لیا ہو، اس کی لاش سمندر کی موجوں کی نذر ہو گئی ہو یا اسے جلا کر راکھ بنا دیا گیا یا قبر میں دفنا دیا گیا ہو۔ یہ برزخ کی زندگی ہے جس میں عذاب دینے پر اللہ تعالیٰ قادر ہے۔
٩٣۔٢ اللہ کے ذمے جھوٹی باتیں لگانے میں انزال کتب اور ارسال رسل کا انکار بھی ہے اور جھوٹا دعوائے نبوت بھی ہے۔ اسی طرح نبوت و رسالت کا انکار و استکبار ہے۔ ان دونوں وجوہ سے انہیں ذلت و رسوائی کا عذاب دیا جائے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
وَلَقَدْ جِئْتُمُونَا فُرَ‌ادَىٰ كَمَا خَلَقْنَاكُمْ أَوَّلَ مَرَّ‌ةٍ وَتَرَ‌كْتُم مَّا خَوَّلْنَاكُمْ وَرَ‌اءَ ظُهُورِ‌كُمْ ۖ وَمَا نَرَ‌ىٰ مَعَكُمْ شُفَعَاءَكُمُ الَّذِينَ زَعَمْتُمْ أَنَّهُمْ فِيكُمْ شُرَ‌كَاءُ ۚ لَقَد تَّقَطَّعَ بَيْنَكُمْ وَضَلَّ عَنكُم مَّا كُنتُمْ تَزْعُمُونَ ﴿٩٤﴾
اور تم ہمارے پاس تن تنہا آ گئے (١) جس طرح ہم نے اول بار تم کو پیدا کیا تھا اور جو کچھ ہم نے تم کو دیا تھا اس کو اپنے پیچھے ہی چھوڑ آئے اور ہم تو تمہارے ہمراہ تمہارے ان شفاعت کرنے والوں کو نہیں دیکھتے جن کی نسبت تم دعوٰی رکھتے تھے کہ وہ تمہارے معاملہ میں شریک ہیں۔ واقعی تمہارے آپس میں تو قطع تعلق ہو گیا اور وہ تمہارا دعویٰ سب تم سے گیا گزرا ہوا ہے۔
٩٤۔١ فُرَادَى فَرْدٌ کی جمع ہے جس طرح سُكَارَى سَكْرَانٌ کی اور كُسَالَى كَسْلانٌ کی جمع ہے۔ مطلب ہے کہ تم علیحدہ علیحدہ ایک ایک کر کے میرے پاس آؤ گے۔ تمہارے ساتھ نہ مال ہو گا نہ اولاد اور نہ وہ معبود، جن کو تم نے اللہ کا شریک اور اپنا مددگار سمجھ رکھا تھا۔ یعنی ان میں سے کوئی چیز بھی تمہیں فائدہ پہنچانے پر قادر نہ ہو گی۔ اگلے جملوں میں ان ہی امور کی مزید وضاحت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
إِنَّ اللَّـهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوَىٰ ۖ يُخْرِ‌جُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَمُخْرِ‌جُ الْمَيِّتِ مِنَ الْحَيِّ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّـهُ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ ﴿٩٥﴾
بے شک اللہ تعالیٰ دانہ کو اور گٹھلیوں کو پھاڑنے والا ہے، (١) وہ جاندار کو بے جان سے نکال لاتا ہے (٢) اور وہ بے جان کو جاندار سے نکالنے والا ہے (٣) اللہ تعالیٰ یہ ہے، سو تم کہاں الٹے چلے جا رہے ہو۔
٩٥۔١ یہاں سے اللہ تعالیٰ کی بے مثل قدرت اور کاریگری کا بیان شروع ہو رہا ہے۔ فرمایا:۔ اللہ تعالیٰ دانے (حب) اور گٹھلی (نواة، جمع نوى) کو، جسے کاشت کار زمین کی تہہ میں دبا دیتا ہے، پھاڑ کر اس سے انواع و اقسام کے درخت پیدا فرماتا ہے۔ زمین ایک ہوتی ہے، پانی بھی، جس سے کھیتیاں سیراب ہوتی ہیں، ایک ہی ہوتا ہے، لیکن جس جس چیز کے وہ دانے یا گٹھلیاں ہوتی ہیں۔ اس کے مطابق ہی اللہ تعالیٰ مختلف قسم کے غلوں اور پھلوں کے درخت ان سے پیدا فرما دیتا ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ کے سوا بھی، کوئی ہے، جو یہ کام کرتا ہو یا کر سکتا ہو؟
٩٥۔٢ یعنی دانے اور گٹھلیوں سے درخت اگا دیتا ہے جس میں زندگی ہوتی ہے اور وہ بڑھتا، پھیلتا اور پھل یا غلہ دیتا ہے یا وہ خوشبودار، رنگ برنگ کے پھول ہوتے ہیں جن کو دیکھ یا سونگھ کر انسان فرحت و انبساط محسوس کرتا یا نطفے اور انڈے سے انسان اور حیوانات پیدا کرتا ہے۔
٩٥۔٣ یعنی حیوانات سے انڈے، جو مردہ کے حکم میں ہیں۔ حی اور میت کی تعبیر مومن اور کافر سے بھی کی گئی ہے، یعنی مومن کے گھر میں کافر اور کافر کے گھر میں مومن پیدا کر دیتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
فَالِقُ الْإِصْبَاحِ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَنًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ‌ حُسْبَانًا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ‌ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ﴿٩٦﴾
وہ صبح کا نکالنے والا ہے (١) اور اس نے رات کو راحت کی چیز بنایا ہے (٢) اور سورج اور چاند کو حساب سے رکھا ہے۔ (٣) یہ ٹھہرائی بات ہے ایسی ذات کی جوکہ قادر ہے بڑے علم والا ہے۔
٩٦۔١ اندھیرے اور روشنی کا خالق بھی وہی ہے۔ وہ رات کی تاریکی سے صبح روشن پیدا کرتا ہے جس سے ہر چیز روشن ہو جاتی ہے۔
٩٦۔٢ یعنی رات کو تاریکیوں میں بدل دیتا ہے تاکہ لوگ روشنی کی تمام مصروفیات ترک کر کے آرام کر سکیں۔
٩٦۔٣ یعنی دونوں کے لیے ایک حساب بھی مقدر ہے جس میں کوئی تغیر و اضطراب نہیں ہوتا، بلکہ دونوں کی اپنی اپنی منزلیں ہیں، جن پر وہ گرمی اور سردی میں رواں رہتے ہیں، جس کی بنیاد پر سردی میں دن چھوٹے اور راتیں لمبی اور گرمی میں اس کے برعکس دن لمبے اور راتیں چھوٹی ہو جاتی ہیں۔ جس کی تفصیل سورۂ یونس 5، سورۃ یٰسین 40 اور سورۂ اعراف 54 میں بھی بیان کی گئی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِهَا فِي ظُلُمَاتِ الْبَرِّ‌ وَالْبَحْرِ‌ ۗ قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ﴿٩٧﴾
اور وہ ایسا ہے جس نے تمہارے لیے ستاروں کو پیدا کیا، تاکہ تم ان کے ذریعہ سے اندھیروں میں، خشکی میں اور دریا میں بھی راستہ معلوم کر سکو۔ (١) بے شک ہم نے دلائل خوب کھول کھول کر بیان کر دیئے ان لوگوں کے لیے جو خبر رکھتے ہیں۔
٩٧۔١ ستاروں کا یہاں یہ ایک اور فائدہ اور مقصد بیان کیا گیا ہے، ان کے دو مقصد اور ہیں جو دوسرے مقام پر بیان کیے گئے ہیں۔ آسمانوں کی زینت اور شیطانوں کی مرمت۔ رُجُومًا للشَّيَاطِينِ۔ یعنی شیطان آسمان پر جانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ ان پر شعلہ بن کر گرتے ہیں۔ بعض سلف کا قول ہے ”مَن اعْتَقَدَ فِي هَذِهِ النُّجُومِ غَيْرَ ثَلاثِ، فقد أَخْطَأَ وكَذَبَ عَلَى اللهِ“ ان تین باتوں کے علاوہ ان ستاروں کے بارے میں اگر کوئی شخص کوئی اور عقیدہ رکھتا ہے تو وہ غلطی پر ہے اور اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا ہے کہ ہمارے ملک میں جو علم نجوم کا چرچا ہے جس میں ستاروں کے ذریعے سے مستقبل کے حالات اور انسانی زندگی یا کائنات میں ان کے اثرات بتانے کا دعویٰ کیا جاتا ہے، وہ بے بنیاد بھی ہے اور شریعت کے خلاف بھی۔ چنانچہ ایک حدیث میں اسے جادو ہی کا ایک شعبہ (حصہ) بتلایا گیا ہے۔ مَنِ اقْتَبَسَ عِلْمَاً مِنَ النُّجُومِ اقْتَبَسَ شُعْبَةً مِنَ السِّحْرِ زَادَ مَا زَادَ (حسنه الألباني صحيح أبي داود رقم 3905)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ فَمُسْتَقَرٌّ‌ وَمُسْتَوْدَعٌ ۗ قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَفْقَهُونَ ﴿٩٨﴾
اور وہ ایسا ہے جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا پھر ایک جگہ زیادہ رہنے کی ہے اور ایک جگہ چندے، رہنے کی (١) بے شک ہم نے دلائل خوب کھول کھول کر بیان کر دیئے ان لوگوں کے لیے جو سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔
٩٨۔١ اکثر مفسرین کے نزدیک مُسْتَقَرٌّ سے رحم مادر اور مُسْتَوْدَعٌ سے صلب پدر مراد ہے۔ (فتح القدیر، ابن کثیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
وَهُوَ الَّذِي أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَ‌جْنَا بِهِ نَبَاتَ كُلِّ شَيْءٍ فَأَخْرَ‌جْنَا مِنْهُ خَضِرً‌ا نُّخْرِ‌جُ مِنْهُ حَبًّا مُّتَرَ‌اكِبًا وَمِنَ النَّخْلِ مِن طَلْعِهَا قِنْوَانٌ دَانِيَةٌ وَجَنَّاتٍ مِّنْ أَعْنَابٍ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّ‌مَّانَ مُشْتَبِهًا وَغَيْرَ‌ مُتَشَابِهٍ ۗ انظُرُ‌وا إِلَىٰ ثَمَرِ‌هِ إِذَا أَثْمَرَ‌ وَيَنْعِهِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكُمْ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ﴿٩٩﴾
اور وہ ایسا ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا پھر ہم نے اس کے ذریعہ سے ہر قسم کے نباتات کو نکالا (١) پھر ہم نے اس سے سبز شاخ نکالی (٢) کہ اس سے ہم اوپر تلے دانے چڑھے ہوئے نکالتے ہیں (٣) اور کھجور کے درختوں سے یعنی ان کے گچھے میں سے، خوشے ہیں جو نیچے کو لٹکے جاتے ہیں (٤) اور انگوروں کے باغ اور زیتوں (٥) اور انار کہ بعض ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہوتے ہیں اور کچھ ایک دوسرے سے ملتے جلتے نہیں ہوتے۔ (٤) ہر ایک کے پھل کو دیکھو جب وہ پھلتا ہے اور اس کے پکنے کو دیکھو ان میں دلائل ہیں (٧) ان لوگوں کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں۔
٩٩۔١ یہاں سے اس کی ایک اور عجیب صنعت (کاریگری) کا بیان ہو رہا ہے یعنی بارش کا پانی۔ جس سے وہ ہر قسم کے درخت پیدا فرماتا ہے۔
٩٩۔٢ اس سے مراد وہ سبز شاخیں اور کونپلیں ہیں جو زمین میں دبے ہوئے دانے سے اللہ تعالیٰ زمین کے اوپر ظاہر فرماتا ہے، پھر وہ پودا یا درخت نشوونما پاتا ہے۔
٩٩۔٣ یعنی ان سبز شاخوں سے ہم اوپر تلے دانے چڑھے ہوئے نکالتے ہیں۔ جس طرح گندم اور چاول کی بالیاں ہوتی ہیں۔ مراد یہ سب غلہ جات ہیں مثلاً جو، جوار، باجرہ، مکئی، گندم اور چاول وغیرہ۔
٩٩۔٤ قِنْوَانٌ قِنْوٌ کی جمع ہے جیسے صِنْوٌ اور صِنْوَانٌ ہے۔ مراد خوشے ہیں۔ طَلْعٌ وہ گابھا یا گپھا ہے جو کھجور کی ابتدائی شکل ہے، یہی بڑھ کر خوشہ بنتا ہے اور پھر وہ رطب کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ دَانِيَةٌ سے مراد وہ خوشے ہیں جو قریب ہوں۔ اور کچھ خوشے دور بھی ہوتے ہیں جن تک ہاتھ نہیں پہنچتے۔ بطور امتنان دانية کا ذکر فرما دیا ہے، مطلب ہے۔ مِنْهَا دَانِيَةٌ وَمِنْهَا بَعِيدَةٌ (کچھ خوشے قریب ہیں اور کچھ دور) بَعِيدَةٌ حذوف ہے۔ (فتح القدیر )
٩٩۔٥ جنات زیتون اور رمان یہ سب منصوب ہیں، جن کا عطف نبات پر ہے۔ یعنی فَأَخْرَجْنَا بِهِ جَنَّاتٍ یعنی بارش کے پانی سے ہم نے انگوروں کے باغات اور زیتوں اور انار پیدا کیے۔
٩٩۔٦ یعنی بعض اوصاف میں یہ باہم ملتے جلتے ہیں اور بعض میں ملتے جلتے نہیں ہیں۔ یا ان کے پتے ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ پھل نہیں ملتے، یا شکل میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں لیکن مزے اور ذائقے میں باہم مختلف ہیں۔
٩٩۔٧ یعنی مذکورہ تمام چیزوں میں خالق کائنات کے کمال قدرت اور اس کی حکمت و رحمت کے دلائل ہیں۔
 
Top