• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فَلَنَسْأَلَنَّ الَّذِينَ أُرْ‌سِلَ إِلَيْهِمْ وَلَنَسْأَلَنَّ الْمُرْ‌سَلِينَ ﴿٦﴾
پھر ہم ان لوگوں سے ضرور پوچھیں گے جن کے پاس پیغمبر بھیجے گئے تھے اور ہم پیغمبروں سے بھی ضرور پوچھیں گے (٤)۔
٦۔١ امتوں سے پوچھا جائے گا کہ تمہارے پاس پیغمبر آئے تھے؟ انہوں نے تمہیں ہمارا پیغام پہنچایا تھا؟وہ جواب دیں گے کہ ہاں! یا اللہ تیرے پیغمبر یقینا ہمار پاس آئے تھے لیکن ہماری قسمت پھوٹی تھی کہ ہم نے ان کی پروا نہیں کی اور پیغمبروں سے پوچھا جائے گا کہ تم نے ہمارا پیغام اپنی امتوں کو پہنچایا تھا؟ اور انہوں نے اس کے مقابلے میں کیا رویہ اختیار کیا؟ پیغمبر سوال کا جواب دیں گے۔ جس کی تفصیل قرآن مجید کے مختلف مقامات پر موجود ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فَلَنَقُصَّنَّ عَلَيْهِم بِعِلْمٍ ۖ وَمَا كُنَّا غَائِبِينَ ﴿٧﴾
پھر ہم چونکہ پوری خبر رکھتے ہیں ان کے روبرو بیان کر دیں گے (١) اور ہم کچھ بےخبر نہ تھے۔
٧۔١ چونکہ ہر ظاہر اور پوشیدہ بات کا علم رکھتے ہیں اس لئے پھر ہم دونوں (امتیوں اور پیغمبروں) کے سامنے ساری باتیں بیان کریں گے اور جو جو کچھ انہوں نے کیا ہوگا، ان کے سامنے رکھ دیں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَالْوَزْنُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ ۚ فَمَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿٨﴾
اور اس روز وزن بھی برحق پھر جس شخص کا پلا بھاری ہوگا سو ایسے لوگ کامیاب ہونگے۔
وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَـٰئِكَ الَّذِينَ خَسِرُ‌وا أَنفُسَهُم بِمَا كَانُوا بِآيَاتِنَا يَظْلِمُونَ ﴿٩﴾
اور جس شخص کا پلا ہلکا ہوگا سو یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنا نقصان کر لیا بسبب اس کے کہ ہماری آیتوں کے ساتھ ظلم کرتے تھے (١)
٩۔١ ان آیات میں وزن اعمال کا مسئلہ بیان کیا گیا ہے جو قیامت والے دن ہوگا جسے قرآن کریم میں بھی متعدد جگہ اور احادیث میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ترازو میں اعمال تولے جائیں گے۔ جس کا نیکیوں کا پلا بھاری ہوگا، وہ کامیاب ہوگا اور جس کا بدیوں والا پلڑا بھاری ہوگا، وہ ناکام ہوگا۔ یہ اعمال کس طرح تولے جائیں گے جب کہ یہ اعراض ہیں یعنی ان کا ظاہری وجود اور جسم نہیں ہے؟ اس بارے میں ایک رائے تو یہ ہے کہ اللہ تعالٰی قیامت والے دن ان کو اجسام میں تبدیل فرمادے گا اور ان کا وزن ہوگا۔ دوسری رائے یہ ہے کہ وہ صحیفے اور رجسٹر تولے جائیں گے۔ جن میں انسان کے اعمال درج ہونگے۔ تیسری رائے یہ ہے کہ خود صاحب عمل کو تولا جائے گا، تینوں مسلکوں والے کے پاس اپنے مسلک کی حمایت میں صحیح احادیث و آثار موجود ہیں، اس لئے امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ تینوں ہی باتیں صحیح ہوسکتی ہیں ممکن ہے، کبھی اعمال، کبھی صحیفے اور کبھی صاحب عمل کو تولا جائے (دلائل کے لئے دیکھئے تفسیر ابن کثیر) بہرحال میزان اور وزن اعمال کا مسئلہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ اس کا انکار اس کی تاویل گمراہی ہے۔ اور موجودہ دور میں تو اس کے انکار کی اب مزید کوئی گنجائش نہیں کہ بےوزن چیزیں بھی تولی جانے لگی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْ‌ضِ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُ‌ونَ ﴿١٠﴾
اور بیشک ہم نے تم کو زمین پر رہنے کی جگہ دی اور ہم نے تمہارے لئے اس میں سامان رزق پیدا کیا تم لوگ بہت ہی کم شکر کرتے ہو۔
وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْ‌نَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ لَمْ يَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ ﴿١١﴾
اور ہم نے تم کو پیدا کیا (١) پھر ہم نے تمہاری صورت بنائی پھر ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو سو سب نے سجدہ کیا بجز ابلیس کے وہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا۔
١١۔١ خَلَقْنَاکُمْ میں ضمیر اگرچہ جمع کی ہے لیکن مراد ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قَالَ مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْ‌تُكَ ۖ قَالَ أَنَا خَيْرٌ‌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ‌ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ ﴿١٢﴾
حق تعالٰی نے فرمایا تو سجدہ نہیں کرتا تو تجھ کو اس سے کونسا امر مانع ہے (١) جب کہ میں تم کو حکم دے چکا ہوں کہنے لگا میں اس سے بہتر ہوں آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا اور اس کو آپ نے خاک سے پیدا کیا (٢)
١٢۔١ ان لا تسجدوا میں لا زائد ہے یعنی ان تسجد تجھے سجدہ کرنے سے کس نے روکا؟ یا عبارت محذوف ہے یعنی تجھے کس چیز نے اس بات پر مجبور کیا کہ تو سجدہ نہ کرے، شیطان فرشتوں میں سے نہیں تھا بلکہ خود قرآن کی صراحت کے بموجب وہ جنات میں سے تھا (الکہف۔ ٥٠) لیکن آسمان پر فرشتوں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے اس سجدہ حکم میں شامل تھا جو اللہ نے فرشتوں کو دیا تھا۔ اس لئے اس سے باز پرس بھی ہوئی اور اس پر عتاب بھی نازل ہوا۔ اگر وہ اس حکم میں شامل یہ نہ ہوتا تو اس سے باز پرس ہوتی نہ وہ راندہ درگاہ قرار پاتا۔
١٢۔٢ شیطان کا یہ عذر ' عذر گناہ بدتر از گناہ ' جس کا آئینہ دار ہے۔ ایک تو اس کا سمجھنا کہ افضل کو مفعول کی تعظیم کا حکم نہیں دیا جاسکتا ، غلط ہے۔ اس لئے کہ اصل چیز تو اللہ کا حکم ہے اس کے حکم کے مقابلے میں افضل وغیرہ افضل کی بحث اللہ سے سرتابی ہے۔ دوسرے، اس نے بہتر ہونے کی دلیل یہ دی کہ میں آگ سے پیدا ہوا ہوں اور یہ مٹی سے۔ لیکن اس نے اس شرف اور عظمت کو نظر انداز کر دیا جو حضرت آدم علیہ السلام کو حاصل ہوا کہ اللہ نے انہیں اپنے ہاتھ سے بنایا اور اپنی طرف سے اس میں روح پھونکی۔ اس شرف کے مقابلے میں دنیا کی کوئی بھی چیز ہوسکتی ہے؟ تیسرا، نص کے مقابلے میں قیاس سے کام لیا، جو کسی بھی اللہ کو ماننے والے کا شیوا نہیں ہو سکتا اور یہ قیاس بھی فاسد تھا۔ آگ، مٹی سے کس طرح بہتر ہے؟ آگ میں سوائے تیزی، بھڑکنے اور جلانے کے کیا ہے؟ جب کہ مٹی میں سکون اور ثبات ہے، اس میں نبات و نمو، زیادتی اور اصلاح کی صلاحیت ہے۔ یہ صفات آگ سے بہرحال بہتر اور زیادہ مفید ہیں۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ شیطان کی تخلیق آگ سے ہوئی، جیسا کہ حدیث میں بھی آتا ہے کہ ' فرشتے نور سے، ابلیس آگ کی لپیٹ سے اور آدم علیہ السلام مٹی سے پیدا کئے گئے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قَالَ فَاهْبِطْ مِنْهَا فَمَا يَكُونُ لَكَ أَن تَتَكَبَّرَ‌ فِيهَا فَاخْرُ‌جْ إِنَّكَ مِنَ الصَّاغِرِ‌ينَ ﴿١٣﴾
حق تعالٰی نے فرمایا تو آسمان سے اتر (١) تجھ کو کوئی حق حاصل نہیں کہ تو آسمان میں رہ کر تکبر کرے سو نکل بیشک تو ذلیلوں میں سے ہے۔ (۲)
١٣۔ ١ مِنْھَا کی ضمیر کا مرجع اکثر مفسرین نے جنت قرار دیا اور بعض نے اس مرتبہ کو جو ملکوت اعلٰی میں اسے حاصل تھا۔ فاضل مترجم نے اسی دوسرے مفہوم کے مطابق آسان ترجمہ کیا ہے۔ نکل بیشک تو ذلیلوں میں سے ہے (٢)
١٣۔٢ اللہ کے حکم کے مقابلے میں تکبر کرنے والا احترام و تعظیم کا نہیں، ذلت اور خواری کا مستحق ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قَالَ أَنظِرْ‌نِي إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ ﴿١٤﴾
اس نے کہا مجھ کو مہلت دیجئے قیامت کے دن تک۔
قَالَ إِنَّكَ مِنَ الْمُنظَرِ‌ينَ ﴿١٥﴾
اللہ تعالٰی نے فرمایا تجھ کو مہلت دی گئی (١)۔
١٥۔١ اللہ تعالٰی نے اس کی خواہش کے مطابق اسے مہلت عطا فرما دی جو اس کی حکمت، ارادے اور مشیت کے مطابق تھی جس کا پورا علم اسی کو ہے۔ تاہم ایک حکمت یہ نظر آتی ہے کہ اس طرح اپنے بندوں کی آزمائش کر سکے گا کہ کون رحمان کا بندہ بنتا ہے اور کون شیطان کا پجاری۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَ‌اطَكَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿١٦﴾
اس نے کہا بسبب اس کے کہ آپ نے مجھ کو گمراہ کیا ہے (١) میں قسم کھاتا ہوں کہ میں ان کے لئے آپ کی سیدھی راہ پر بیٹھوں گا۔
١٦۔١ گمراہ تو اللہ کی تکوینی مشیت کے تحت ہوا۔ لیکن اس نے اسے بھی مشرکوں کی طرح الزام بنا لیا، جس طرح وہ کہتے تھے کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
ثُمَّ لَآتِيَنَّهُم مِّن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَن شَمَائِلِهِمْ ۖ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَ‌هُمْ شَاكِرِ‌ينَ ﴿١٧﴾
پھر ان پر حملہ کروں گا ان کے آگے سے بھی اور ان کے پیچھے سے بھی ان کی داہنی جانب سے بھی اور ان کی بائیں جانب سے بھی (١) اور آپ ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائیں گے (٢)
١٧۔١ مطلب یہ ہے کہ ہر خیر اور شر کے راستے پر بیٹھوں گا۔ خیر سے روکوں گا اور شر کو ان کی نظروں میں پسندیدہ بنا کر ان کو اختیار کرنے کی ترغیب دوں گا۔
١٧۔٢ شاکرین کے دوسرے معنی موحدین کے کیے گئے ہیں۔ یعنی اکثر لوگوں کو میں شرک میں مبتلا کر دوں گا۔ شیطان نے اپنا یہ گمان فی الواقع سچا کر دکھایا، (وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْهِمْ اِبْلِيْسُ ظَنَّهٗ فَاتَّبَعُوْهُ اِلَّا فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ) 34۔سبأ:20)) شیطان نے اپنا گمان سچا کر دکھایا، اور مومنوں کے ایک گروہ کو چھوڑ کر سب لوگ اس کے پیچھے لگ گئے۔ اسی لئے حدیث میں شیطان سے پناہ مانگنے اور قرآن میں اس کے مکر و کید سے بچنے کی بڑی تاکید آئی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قَالَ اخْرُ‌جْ مِنْهَا مَذْءُومًا مَّدْحُورً‌ا ۖ لَّمَن تَبِعَكَ مِنْهُمْ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنكُمْ أَجْمَعِينَ ﴿١٨﴾
اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ یہاں سے ذلیل و خوار ہو کر نکل جا جو شخص ان میں تیرا کہنا مانے گا میں ضرور تم سب سے جہنم کو بھر دوں گا۔
وَيَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَ‌بَا هَـٰذِهِ الشَّجَرَ‌ةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ ﴿١٩﴾
اور ہم نے حکم دیا کہ اے آدم! تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو پھر جس جگہ سے چاہو دونوں کھاؤ اور اس درخت کے پاس مت جاؤ (١) ورنہ تم دونوں ظالموں میں سے ہو جاؤ گے۔
١٩۔١ یعنی صرف اس درخت کو چھوڑ کر جہاں سے اور جتنا چاہو کھاؤ۔ ایک درخت کا پھل کھانے کی پابندی آزمائش کے طور عائد کی۔
 
Top