• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطَانُ لِيُبْدِيَ لَهُمَا مَا وُورِ‌يَ عَنْهُمَا مِن سَوْآتِهِمَا وَقَالَ مَا نَهَاكُمَا رَ‌بُّكُمَا عَنْ هَـٰذِهِ الشَّجَرَ‌ةِ إِلَّا أَن تَكُونَا مَلَكَيْنِ أَوْ تَكُونَا مِنَ الْخَالِدِينَ ﴿٢٠﴾
پھر شیطان نے ان دونوں کے دلوں میں وسوسہ (١) ڈالا تاکہ ان کی شرمگاہیں جو ایک دوسرے سے پوشیدہ تھیں دونوں کے روبرو بے پردہ (٢) کر دے اور کہنے لگے کہ تمہارے رب نے تم دونوں کو اس درخت سے اور کسی سبب سے منع نہیں فرمایا، مگر محض اس وجہ سے کہ تم دونوں کہیں فرشتے ہو جاؤ یا کہیں ہمیشہ زندہ رہنے والوں میں سے ہو جاؤ۔
٢٠۔١ وَسْوَسَةٌ اور وِسْوَاسٌ، زَلْزَلَةٌ اور زِلْزَالٌ کے وزن پر ہے۔ پست آواز اور نفس کی بات۔ شیطان دل میں جو بری باتیں ڈالتا ہے، اس کو وسوسہ کہا جاتا ہے۔
٢٠۔٢ یعنی شیطان کا مقصد اس بہکاوﮮ سے حضرت آدم و حوا کو اس لباس جنت سے محروم کر کے انہیں شرمندہ کرنا تھا، جو انہیں جنت میں پہننے کے لیے دیا گیا تھا ”سَوْآتٌ“ سَوْءَةٌ (شرم گاہ) کی جمع ہے. شرم گاہ کوسَوْءَةٌ سے اس لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ اس کے ظاہر ہونے کو برا سمجھا جاتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَقَاسَمَهُمَا إِنِّي لَكُمَا لَمِنَ النَّاصِحِينَ ﴿٢١﴾
اور ان دونوں کے روبرو قسم کھا لی کہ یقین جانئیے میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں۔ (١)
٢١۔١ جنت کی جو نعمتیں اور آسائشیں حضرت آدم و حوا علیہما السلام کو حاصل تھیں، اس کے حوالے سے شیطان نے دونوں کو بہلایا اور جھوٹ بولا کہ اللہ تمہیں ہمیشہ جنت میں رکھنا نہیں چاہتا، اسی لیے اس درخت کا پھل کھانے سے منع فرمایا ہے کیونکہ اس کی تاثیر ہی یہ ہے کہ جو اسے کھا لیتا ہے، وہ فرشتہ بن جاتا ہے یا دائمی زندگی اسے حاصل ہو جاتی ہے پھر قسم کھا کر اپنا خیرخواہ ہونا بھی ظاہر کیا، جس سے حضرت آدم و حوا علیہما السلام متاثر ہو گئے اس لیے کہ اللہ والے، اللہ کے نام پر آسانی سے دھوکہ کھا جاتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَدَلَّاهُمَا بِغُرُ‌ورٍ‌ ۚ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَ‌ةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَ‌قِ الْجَنَّةِ ۖ وَنَادَاهُمَا رَ‌بُّهُمَا أَلَمْ أَنْهَكُمَا عَن تِلْكُمَا الشَّجَرَ‌ةِ وَأَقُل لَّكُمَا إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِينٌ ﴿٢٢﴾
سو ان دونوں کو فریب کے نیچے (۱) لے آیا پس ان دونوں نے جب درخت کو چکھا دونوں کی شرمگاہیں ایک دوسرے کے روبرو بے پردہ ہو گئیں اور دونوں اپنے اوپر جنت کے پتے جوڑ جوڑ کر رکھنے لگے (۲) اور ان کے رب نے ان کو پکارا کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت سے منع نہ کر چکا تھا اور یہ نہ کہہ چکا کہ شیطان تمہارا صریح دشمن ہے؟ (۳)
٢٢۔١ تَدْلِية اور إِدْلاءٌ کے معنی ہیں کسی چیز کو اوپر سے نیچے چھوڑ دینا۔ گویا شیطان ان کو مرتبہ علیا سے اتار کر ممنوعہ درخت کا پھل کھانے تک لے آیا۔
٢٢۔۲ یہ اس معصیت کا اثر ظاہر ہوا جو آدم عليہ السلام و حوا علیہا السلام سے غیر شعوری اور غیر ارادی طور پر ہوئی اور پھر دونوں مارے شرم کے جنت کے پتے جوڑ جوڑ کر اپنی شرم گاہ چھپانے لگے۔ وہب بن منبہ کہتے ہیں کہ اس سے قبل انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسا نورانی لباس ملا ہوا تھا، جو اگرچہ غیرمرئی تھا لیکن ایک دوسرے کی شرم گاہ کے لیے ساتر (پردہ پوش) تھا۔ (ابن کثیر)
٢٢۔۳ یعنی اس تنبیہ کے باوجود تم شیطان کے وسوسوں کا شکار ہو گئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ شیطان کے جال بڑے حسین اور دلفریب ہوتے ہیں اور جن سے بچنے کے لیے بڑی کاوش و محنت اور ہر وقت اس سے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قَالَا رَ‌بَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ‌ لَنَا وَتَرْ‌حَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِ‌ينَ ﴿٢٣﴾
دونوں نے کہا اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔ (١)
٢٣۔١ توبہ و استغفار کے یہ وہی کلمات ہیں جو حضرت آدم عليہ السلام نے اللہ تبارک وتعالیٰ سے سیکھے، جیسا کہ سورۂ بقرہ، آیت 37 میں صراحت ہے۔ (دیکھئے آیت مذکورہ کا حاشیہ) گویا شیطان نے اللہ کی نافرمانی کا ارتکاب کیا تو اس کے بعد وہ اس پر نہ صرف اڑ گیا بلکہ اس کے جواز و اثبات میں عقلی و قیاسی دلائل دینے لگا۔ نتیجتاً وہ راندۂ درگاہ اور ہمیشہ کے لیے ملعون قرار پایا اور حضرت آدم عليہ السلام نے اپنی غلطی پر ندامت و پشیمانی کا اظہار اور بارگاہ الٰہی میں توبہ و استغفار کا اہتمام کیا۔ تو اللہ کی رحمت و مغفرت کے مستحق قرار پائے۔ یوں گویا دونوں راستوں کی نشان دہی ہو گئی، شیطانی راستے کی بھی اور اللہ والوں کے راستے کی بھی۔ گناہ کر کے اس پر اترانا، اصرار کرنا اور اس کو صحیح ثابت کرنے کے لیے ”دلائل“ کے انبار فراہم کرنا، شیطانی راستہ ہے۔ اور گناہ کے بعد احساس ندامت ہو کر بارگاہ الٰہی میں جھک جانا اور توبہ و استغفار کا اہتمام کرنا، بندگان الٰہی کا راستہ ہے۔ اللَّهُمَّ! اجْعَلْنَا مِنْهُمْ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قَالَ اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ وَلَكُمْ فِي الْأَرْ‌ضِ مُسْتَقَرٌّ‌ وَمَتَاعٌ إِلَىٰ حِينٍ ﴿٢٤﴾
حق تعالیٰ نے فرمایا کہ نیچے ایسی حالت میں جاؤ کہ تم باہم ایک دوسرے کے دشمن ہو گے اور تمہارے واسطے زمین میں رہنے کی جگہ ہے اور نفع حاصل کرنا ہے ایک وقت تک۔

قَالَ فِيهَا تَحْيَوْنَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ وَمِنْهَا تُخْرَ‌جُونَ ﴿٢٥﴾
فرمایا تم کو وہاں ہی زندگی بسر کرنا ہے اور وہاں ہی مرنا ہے اور اسی میں سے پھر نکالے جاؤ گے۔

يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِ‌ي سَوْآتِكُمْ وَرِ‌يشًا ۖ وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ‌ ۚ ذَٰلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّـهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُ‌ونَ ﴿٢٦﴾
اے آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہم نے تمہارے لیے لباس پیدا کیا جو تمہاری شرم گاہوں کو بھی چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے (١) اور تقوے کا لباس، (٢) یہ اس سے بڑھ کر ہے۔ (٣) یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ یہ لوگ یاد رکھیں۔
٢٦۔١ سَوْآتٌ جسم کے وہ حصے جنہیں چھپانا ضروری ہے۔ جیسے شرم گاہ اور رِيشًا وہ لباس جو حسن و رعنائی کے لیے پہنا جائے۔ گویا لباس کی پہلی قسم ضروریات سے اور دوسری قسم تکملہ و اضافہ سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں قسموں کے لباس کے لیے سامان اور مواد پیدا فرمایا۔
٢٦۔٢ اس سے مراد بعض کے نزدیک وہ لباس ہے جو متقین قیامت والے دن پہنیں گے۔ بعض کے نزدیک ایمان، بعض کے نزدیک عمل صالح، خشیت الٰہی وغیرہ ہیں۔ مفہوم سب کا تقریباً ایک ہے کہ ایسا لباس، جسے پہن کر انسان تکبر کرنے کے بجائے، اللہ سے ڈرے اور ایمان و عمل صالح کے تقاضوں کا اہتمام کرے۔
٢٦۔٣ اس سے یہ مفہوم بھی نکلتا ہے کہ زیب و زینت اور آرائش کے لیے بھی اگرچہ لباس پہننا جائز ہے۔ تاہم لباس میں ایسی سادگی زیادہ پسندیدہ ہے جو انسان کے زہد و ورع اور تقویٰ کی مظہر ہو۔ علاوہ ازیں نیا لباس پہن کر یہ دعا بھی پڑھی جائے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھا کرتے تھے الْحَمْدُ للهِ الَّذِي كَسَانِي مَا أُوَارِي بِهِ عَوْرَتِي وَأَتَجَمَّلُ بِهِ فِي حَيَاتِي (ترمذي، أبواب الدعوات - ابن ماجہ، كتاب اللباس، باب ما يقول الرجل إذا لبس ثوبا جديدا) ”تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے ایسا لباس پہنایا جس سے میں اپنا ستر چھپا لوں اور اپنی زندگی میں اس سے زینت حاصل کروں“۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
يَا بَنِي آدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ كَمَا أَخْرَ‌جَ أَبَوَيْكُم مِّنَ الْجَنَّةِ يَنزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِ‌يَهُمَا سَوْآتِهِمَا ۗ إِنَّهُ يَرَ‌اكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَ‌وْنَهُمْ ۗ إِنَّا جَعَلْنَا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ ﴿٢٧﴾
اے اولاد آدم! شیطان تم کو کسی خرابی میں نہ ڈال دے جیسا اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے باہر کرا دیا ایسی حالت میں ان کا لباس بھی اتروا دیا تاکہ وہ ان کو ان کی شرم گاہیں دکھائے۔ وہ اور اس کا لشکر تم کو ایسے طور پر دیکھتا ہے کہ تم ان کو نہیں دیکھتے ہو۔ (١) ہم نے شیطانوں کو ان ہی لوگوں کا دوست بنایا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔ (٢)
٢٧۔١ اس میں اہل ایمان کو شیطان اور اس کے قبیلے یعنی چیلے چانٹوں سے ڈرایا گیا ہے کہ کہیں وہ تمہاری غفلت اور سستی سے فائدہ اٹھا کر تمہیں بھی اس طرح فتنے اور گمراہی میں نہ ڈال دے جس طرح تمہارے ماں باپ (آدم و حوا) کو اس نے جنت سے نکلوﺍ دیا اور لباس جنت بھی اتروا دیا۔ بالخصوص جب کہ وہ نظر بھی نہیں آتے۔ تو اس سے بچنے کا اہتمام و فکر بھی زیادہ ہونی چاہئے۔
٢٧۔٢ یعنی بے ایمان قسم کے لوگ ہی اس کے دوست اور اس کے خاص شکار ہیں۔ تاہم اہل ایمان پر بھی وہ ڈورے ڈالتا رہتا ہے۔ کچھ اور نہیں تو شرک خفی (ریاکاری) اور شرک جلی میں ہی ان کو مبتلا کر دیتا ہے اور یوں ان کو بھی ایمان کے بعد ایمان صحیح کی پونجی سے محروم کر دیتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَإِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً قَالُوا وَجَدْنَا عَلَيْهَا آبَاءَنَا وَاللَّـهُ أَمَرَ‌نَا بِهَا ۗ قُلْ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَأْمُرُ‌ بِالْفَحْشَاءِ ۖ أَتَقُولُونَ عَلَى اللَّـهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴿٢٨﴾
اور وہ لوگ جب کوئی فحش کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طریق پر پایا ہے اور اللہ نے بھی ہم کو یہی بتایا ہے۔ آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ فحش بات کی تعلیم نہیں دیتا، کیا اللہ کے ذمہ ایسی بات لگاتے ہو جس کی تم سند نہیں رکھتے؟ (١)
٢٨۔١ اسلام سے قبل مشرکین بیت اللہ کا ننگا طواف کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم اس حالت کو اختیار کر کے طواف کرتے ہیں جو اس وقت تھی جب ہمیں ہماری ماؤں نے جنا تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ اس کی یہ تاویل کرتے تھے کہ ہم جو لباس پہنے ہوتے ہیں اس میں ہم اللہ کی نافرمانی کرتے رہتے ہیں، اس لیے اس لباس میں طواف کرنا مناسب نہیں۔ چنانچہ وہ لباس اتار کر طواف کرتے اور عورتیں بھی ننگی طواف کرتیں، صرف شرم گاہ پر کپڑا یا چمڑے کا ٹکڑا رکھ لیتیں۔ اپنے اس شرمناک فعل کے لیے دو عذر انہوں نے اور پیش کیے۔ ایک تو یہ کہ ہم نے اپنے باپ دادوں کو اس طرح ہی کرتے پایا ہے۔ دوسرا، یہ کہ اللہ نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی تردید فرمائی کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بے حیائی کا حکم دے؟ یعنی تم اللہ کے ذمے وہ بات لگاتے ہو جو اس نے نہیں کہی۔ اس آیت میں ان مقلدین کے لیے بڑی زجر و توبیخ ہے جو آبا پرستی، پیر پرستی اور شخصیت پرستی میں مبتلا ہیں، جب انہیں بھی حق کی بات بتلائی جاتی ہے تو اس کے مقابلے میں یہی عذر پیش کرتے ہیں کہ ہمارے بڑے یہی کرتے آئے ہیں یا ہمارے امام اور پیر و شیخ کا یہی حکم ہے۔ یہی وہ خصلت ہے جس کی وجہ سے یہودی، یہودیت پر، نصرانی نصرانیت پر اور بدعتی بدعتوں پر قائم رہے۔ (فتح القدیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قُلْ أَمَرَ‌ رَ‌بِّي بِالْقِسْطِ ۖ وَأَقِيمُوا وُجُوهَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ۚ كَمَا بَدَأَكُمْ تَعُودُونَ ﴿٢٩﴾
آپ کہہ دیجئے کہ میرے رب نے حکم دیا ہے انصاف کا (١) اور یہ کہ تم ہر سجدہ کے وقت اپنا رخ سیدھا رکھا کرو (٢) اور اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طور پر کرو کہ اس عبادت کو خاص اللہ ہی کے واسطے رکھو۔ تم کو اللہ نے جس طرح شروع میں پیدا کیا تھا اسی طرح تم دوبارہ پیدا ہو گے۔
٢٩۔١ انصاف سے مراد یہاں بعض کے نزدیک ”لا إِلَهَ إِلا اللهُ“ یعنی توحید ہے۔
٢٩۔٢ امام شوکانی نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ”اپنی نمازوں میں اپنا رخ قبلے کی طرف کر لو، چاہے تم کسی بھی مسجد میں ہو“ اور امام ابن کثیر نے اس سے استقامت بمعنی متابعت رسول مراد لی ہے اور اگلے جملے سے اخلاص للہ اور کہا ہے کہ ہر عمل کی مقبولیت کے لیے ضروری ہے کہ وہ شریعت کے مطابق ہو اور دوسرے خالص رضائے الٰہی کے لیے ہو۔ آیت میں ان باتوں کی تاکید کی گئی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَرِ‌يقًا هَدَىٰ وَفَرِ‌يقًا حَقَّ عَلَيْهِمُ الضَّلَالَةُ ۗ إِنَّهُمُ اتَّخَذُوا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ اللَّـهِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُم مُّهْتَدُونَ ﴿٣٠﴾
بعض لوگوں کو اللہ نے ہدایت دی ہے اور بعض پر گمراہی ثابت ہو گئی ہے۔ ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو دوست بنا لیا ہے اور خیال رکھتے ہیں کہ وہ راست پر ہیں۔

يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَ‌بُوا وَلَا تُسْرِ‌فُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِ‌فِينَ ﴿٣١﴾
اے اولاد آدم! تم مسجد کی ہر حاضری کے وقت پر اپنا لباس پہن لیا کرو۔ (١) اور خوب کھاؤ اور پیو اور حد سے مت نکلو۔ بے شک اللہ حد سے نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (٢)
٣١۔١ آیت میں زینت سے مراد لباس ہے۔ اس کا سبب نزول بھی مشرکین کے ننگے طواف سے متعلق ہے۔ اس لیے انہیں کہا گیا کہ لباس پہن کر اللہ کی عبادت کرو اور طواف کرو۔
٣١۔٢ إِسْرَافٌ (حد سے نکل جانا) کسی چیز میں حتیٰ کہ کھانے پینے میں بھی ناپسندیدہ ہے۔ ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جو چاہو، کھاؤ۔ جو چاہو پہنو! البتہ دو باتوں سے گریز کرو۔ اسراف اور تکبرسے“ (صحيح بخاری، كتاب اللباس، باب قول الله تعالى ﴿قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي ﴾) بعض سلف کا قول ہے، اللہ تعالیٰ نے ﴿وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلا تُسْرِفُوا﴾ اس آدھی آیت میں ساری طب جمع فرما دی ہے۔ (ابن کثیر) بعض کہتے ہیں زینت سے وہ لباس مراد ہے جو آرائش کے لیے پہنا جائے۔ جس سے ان کے نزدیک نماز اور طواف کے وقت تزئین کا حکم نکلتا ہے۔ اس آیت سے نماز میں ستر عورت کے وجوب پر بھی استدلال کیا گیا ہے بلکہ احادیث کی رو سے ستر عورت (گھٹنوں سے لے کر ناف تک کے حصے کو ڈھانپنا) ہر حال میں ضروری ہے چاہے آدمی خلوت میں ہی ہو۔ (فتح القدیر) جمعہ اور عید کے دن خوشبو کا استعمال بھی مستحب ہے کہ یہ بھی زینت کا حصہ ہے۔ (ابن کثیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قُلْ مَنْ حَرَّ‌مَ زِينَةَ اللَّـهِ الَّتِي أَخْرَ‌جَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّ‌زْقِ ۚ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ﴿٣٢﴾
آپ فرمادیجیے کہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کیے ہوئے اسباب زینت کو، جن کو اس نے اپنے بندوں کے واسطے بنایا ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں کو کس شخص نے حرام کیا ہے؟ آپ کہہ دیجئے کہ یہ اشیاء اس طور پر کہ قیامت کے روز خالص ہوں گی اہل ایمان کے لیے، دیناوی زندگی میں مومنوں کے لیے بھی ہیں۔ (١) ہم اسی طرح تمام آیات کو سمجھ داروں کے واسطے صاف صاف بیان کرتے ہیں۔
٣٢۔١ مشرکین نے جس طرح طواف کے وقت لباس پہننے کو ناپسندیدہ قرار دے رکھا تھا، اسی طرح بعض حلال چیزیں بھی بطور تقرب الٰہی اپنے اوپر حرام کر لی تھیں (جیسا کہ بعض صوفیا بھی ایسا کرتے ہیں) نیز بہت سی حلال چیزیں اپنے بتوں کے نام وقف کر دینے کی وجہ سے حرام گردانتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لوگوں کی زینت کے لیے (مثلاً لباس وغیرہ) اور کھانے کی عمدہ چیزیں بنائی ہیں، انہیں کون حرام کرنے والا ہے؟ مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے حرام کر لینے سے اللہ کی حلال کردہ چیزیں حرام نہیں ہو جائیں گی، وہ حلال ہی رہیں گی۔ یہ حلال و طیب چیزیں اصلاً اللہ نے اہل ایمان ہی کے لیے بنائی ہیں۔ گو کفار بھی ان سے فیض یاب اور متمتع ہو لیتے ہیں بلکہ بعض دفعہ دنیاوی چیزوں اور آسائشوں کے حصول میں وہ مسلمانوں سے زیادہ کامیاب نظر آتے ہیں لیکن یہ بالتبع اور عارضی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی تکوینی مشیت اور حکمت ہے۔ تاہم قیامت والے دن یہ نعمتیں صرف اہل ایمان کے لیے ہوں گی کیونکہ کافروں پر جس طرح جنت حرام ہو گی، اسی طرح ماکولات و مشروبات بھی حرام ہوں گے۔
 
Top