• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ثُمَّ أَنتُمْ هَـٰؤُلَاءِ تَقْتُلُونَ أَنفُسَكُمْ وَتُخْرِ‌جُونَ فَرِ‌يقًا مِّنكُم مِّن دِيَارِ‌هِمْ تَظَاهَرُ‌ونَ عَلَيْهِم بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَإِن يَأْتُوكُمْ أُسَارَ‌ىٰ تُفَادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّ‌مٌ عَلَيْكُمْ إِخْرَ‌اجُهُمْ ۚ أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُ‌ونَ بِبَعْضٍ ۚ فَمَا جَزَاءُ مَن يَفْعَلُ ذَٰلِكَ مِنكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَ‌دُّونَ إِلَىٰ أَشَدِّ الْعَذَابِ ۗ وَمَا اللَّـهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ﴿٨٥﴾
لیکن پھر بھی تم نے آپس میں قتل کیا اور آپس کے ایک فرقے کو جلا وطن بھی کیا اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ان کے خلاف دوسرے کی طرفداری کی، ہاں جب وہ قیدی ہو کر تمہارے پاس آئے تم نے ان کے فدیے دیئے، لیکن ان کا نکالنا جو تم پر حرام تھا (اس کا کچھ خیال نہ کیا) کیا بعض احکام پر ایمان رکھتے ہو اور بعض کے ساتھ کفر کرتے ہو؟ (١) تم میں سے جو بھی ایسا کرے، اس کی سزا اس کے سوا کیا ہو کہ دنیا میں رسوائی اور قیامت کے عذاب کی مار، اور اللہ تعالٰی تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں۔
٨٥۔١ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں انصار (جو اسلام سے قبل مشرک تھے) کے دو قبیلے تھے اوس اور خزرج، ان کی آپس میں آئے دن جنگ رہتی تھی۔ اسی طرح یہود مدینہ کے تین قبیلے تھے، بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ۔ یہ بھی آپس میں لڑتے رہتے تھے۔ بنو قریظہ اوس کے حلیف (ساتھی) اور بنو قینقاع اور بنو نضیر، خزرج کے حلیف تھے۔ جنگ میں یہ اپنے اپنے حلیفوں (ساتھیوں) کی مدد کرتے اور اپنے ہی ہم مذہب یہودیوں کو قتل کرتے، ان کے گھروں کو لوٹتے، اور انہیں جلا وطن کر دیتے۔ دراں حالیکہ تورات کے مطابق ایسا کرنا ان کے لیے حرام تھا۔ لیکن پھر ان ہی یہودیوں کو جب وہ مغلوب ہونے کی وجہ سے قیدی بن جاتے تو فدیہ دے کر چھڑاتے اور کہتے کہ ہمیں تورات میں یہی حکم دیا گیا ہے۔ ان آیات میں یہودیوں کے اسی کردار کو بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے شریعت کو موم کی ناک بنا لیا تھا، بعض چیزوں پر ایمان لاتے اور بعض کو ترک کر دیتے، کسی حکم پر عمل کر لیتے اور کسی وقت شریعت کے حکم کو کوئی اہمیت ہی نہ دیتے۔ قتل، اخراج اور ایک دوسرے کے خلاف مدد کرنا، ان کی شریعت میں بھی حرام تھا، ان امور کا تو انہوں نے بے محابا ارتکاب کیا اور فدیہ دے کر چھڑا لینے کا جو حکم تھا، اس پر عمل کر لیا۔ حالانکہ اگر پہلے تین امور کا وہ لحاظ رکھتے تو فدیہ دے کر چھڑانے کی نوبت ہی نہ آتی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَ‌وُا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا بِالْآخِرَ‌ةِ ۖ فَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنصَرُ‌ونَ ﴿٨٦﴾
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت کے بدلے خرید لیا ہے، ان کے نہ تو عذاب ہلکے ہوں گے اور نہ ان کی مدد کی جائے گی۔ (١)
٨٦۔١ یہ شریعت کے کسی حکم کے مان لینے اور کسی کو نظرانداز کر دینے کی سزا بیان کی جا رہی ہے۔ اس کی سزا دنیا میں عزت و سرفرازی کی جگہ (جو مکمل شریعت پر عمل کرنے کا نتیجہ ہے) ذلت و رسوائی اور آخرت میں ابدی نعمتوں کے بجائے سخت عذاب ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے ہاں وہ اطاعت مقبول ہے جو مکمل ہو، بعض بعض باتوں کا مان لینا، یا ان پر عمل کر لینا اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ یہ آیت ہم مسلمانوں کو بھی دعوت غور و فکر دے رہی ہے کہ کہیں مسلمانوں کی ذلت و رسوائی کی وجہ بھی مسلمانوں کا وہی کردار تو نہیں جو مذکورہ آیات میں یہودیوں کا بیان کیا گیا ہے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَقَفَّيْنَا مِن بَعْدِهِ بِالرُّ‌سُلِ ۖ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْ‌يَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُ‌وحِ الْقُدُسِ ۗ أَفَكُلَّمَا جَاءَكُمْ رَ‌سُولٌ بِمَا لَا تَهْوَىٰ أَنفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْ‌تُمْ فَفَرِ‌يقًا كَذَّبْتُمْ وَفَرِ‌يقًا تَقْتُلُونَ ﴿٨٧﴾
ہم نے (حضرت) موسیٰ کو کتاب دی اور ان کے پیچھے اور رسول بھیجے اور ہم نے (حضرت) عیسیٰ ابن مریم کو روشن دلیلیں دیں اور روح القدس سے ان کی تائید کروائی۔ (١) لیکن جب کبھی تمہارے پاس رسول وہ چیز لائے جو تمہاری طبیعتوں کے خلاف تھی، تم نے جھٹ سے تکبر کیا، پس بعض کو تو جھٹلا دیا اور بعض کو قتل بھی کر ڈالا۔ (٢)
٨٧۔١ ﴿وَقَفَّيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ﴾ کے معنی ہیں کہ موسیٰ (عليہ السلام) کے بعد مسلسل پیغمبر آتے رہے، حتیٰ کہ بنی اسرائیل میں انبیا کا یہ سلسلہ حضرت عیسیٰ عليہ السلام پر ختم ہو گیا۔ ﴿بَيِّنَاتٌ﴾ سے معجزات مراد ہیں جو حضرت عیسیٰ عليہ السلام کو دیئے گئے۔ جیسے مردوں کو زندہ کرنا، کوڑھی اور اندھے کو صحت یاب کرنا وغیرہ، جن کا ذکر سورۂ آل عمران (آیت 49) میں ہے۔ "رُوحُ الْقُدُسِ" سے مراد حضرت جبریل عليہ السلام ہیں، ان کو (روح القدس) اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ امرتکوینی سے ظہور میں آئے تھے، جیسا کہ خود حضرت عیسیٰ عليہ السلام کو رُوحٌ کہا گیا ہے اور الْقُدُس سے ذات الٰہی مراد ہے اور اس کی طرف روح کی اضافت تشریفی ہے۔ ابن جریر نے اسی کو صحیح تر قرار دیا ہے، کیونکہ المائدۂ (آیت 10) میں (روح القدس) اور انجیل دونوں الگ الگ مذکور ہیں اس لیے (روح القدس) سے انجیل مراد نہیں ہو سکتی ایک اور آیت میں حضرت جبریل عليہ السلام کو ’’الرُّوحُ الأَمِينُ‘‘ فرمایا گیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا :[اللَّهُمَّ! أَيِّدْهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ]۔ ”اے اللہ روح القدس سے اس کی تائید فرما۔“ ایک دوسری حدیث میں ہے [وَجِبْريلُ مَعَكَ] ۔ ”جبریل عليہ السلام تمہارے ساتھ ہیں۔“ معلوم ہوا کہ روح القدس سے مراد حضرت جبریل عليہ السلام ہی ہیں، (فتح البیان، ابن کثیر بحوالہ اشرف الحواشی)
٨٧۔٢ جیسے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عیسیٰ عليہ السلام کو جھٹلایا اورحضرت زکریا و یحییٰ علیھما السلام کو قتل کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَقَالُوا قُلُوبُنَا غُلْفٌ ۚ بَل لَّعَنَهُمُ اللَّـهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِيلًا مَّا يُؤْمِنُونَ ﴿٨٨﴾
یہ کہتے ہیں کہ ہمارے دل غلاف والے ہیں (١) نہیں نہیں بلکہ ان کے کفر کی وجہ سے انہیں اللہ تعالٰی نے ملعون کر دیا ہے، ان کا ایمان بہت ہی تھوڑا ہے۔ (٢)
٨٨۔١ یعنی ہم پر اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تیری باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا، جس طرح دوسرے مقام پر ہے: ﴿وَقَالُوا قُلُوبُنَا فِي أَكِنَّةٍ مِمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ﴾ (حٰم السجدۂ: 5) ”ہمارے دل اس دعوت سے پردے میں ہیں، جس کی طرف تو ہمیں بلاتا ہے۔
٨٨۔٢ دلوں پر حق بات کا اثر نہ کرنا، کوئی فخر کی بات نہیں۔ بلکہ یہ تو ملعون ہونے کی علامت ہے، پس ان کا ایمان بھی تھوڑا ہے (جو عند اللہ نامقبول ہے) یا ان میں ایمان لانے والے کم ہی لوگ ہوں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتَابٌ مِّنْ عِندِ اللَّـهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُ‌وا فَلَمَّا جَاءَهُم مَّا عَرَ‌فُوا كَفَرُ‌وا بِهِ ۚ فَلَعْنَةُ اللَّـهِ عَلَى الْكَافِرِ‌ينَ ﴿٨٩﴾
اور ان کے پاس جب اللہ تعالٰی کی کتاب ان کی کتاب کو سچا کرنے والی آئی، حالانکہ پہلے یہ خود (اس کے ذریعہ) (١) کافروں پر فتح چاہتے تھے تو باوجود آ جانے اور باوجود پہچان لینے کے پھر کفر کرنے لگے، اللہ تعالٰی کی لعنت ہو کافروں پر۔
٨٩۔١ ﴿يَسْتَفْتِحُونَ﴾ کے ایک معنی یہ ہیں غلبہ اور نصرت کی دعا کرتے تھے، یعنی جب یہ یہود مشرکین سے شکست کھا جاتے تو اللہ سے دعا کرتے، یا اللہ آخری نبی جلد مبعوث فرما، تاکہ اس سے مل کر ہم مشرکین پر غلبہ حاصل کریں یعنی ”اسْتِفْتَاحٌ“ بمعنی ”اسْتِنْصَارٍ“ ہے۔ دوسرے معنی خبر دینے کے ہیں۔ أَيْ: يُخْبِرُهُمْ بِأَنَّهُ سَيُبْعَثُ۔ یعنی یہودی کافروں کو خبر دیتے کہ عنقریب نبی کی بعثت ہو گی۔ (فتح القدیر) لیکن بعثت کے بعد علم رکھنے کے باوجود نبوت محمدی پر محض حسد کی وجہ سے ایمان نہیں لائے، جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بِئْسَمَا اشْتَرَ‌وْا بِهِ أَنفُسَهُمْ أَن يَكْفُرُ‌وا بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ بَغْيًا أَن يُنَزِّلَ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۖ فَبَاءُوا بِغَضَبٍ عَلَىٰ غَضَبٍ ۚ وَلِلْكَافِرِ‌ينَ عَذَابٌ مُّهِينٌ ﴿٩٠﴾
بہت بری ہے وہ چیز جس کے بدلے انہوں نے اپنے آپ کو بیچ ڈالا، وہ انکا کفر کرنا ہے۔ اللہ تعالٰی کی طرف سے نازل شدہ چیز کے ساتھ محض اس بات (١) سے جل کر کہ اللہ تعالٰی نے اپنا فضل جس بندہ پر چاہا نازل فرمایا، اس کے باعث یہ لوگ غضب (٢) پر غضب کے مستحق ہو گئے اور ان کافروں کے لیے رسوا کرنے والا عذاب ہے۔
٩٠۔١ یعنی اس بات کی معرفت کے بعد بھی، کہ حضرت محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم، وہی آخری پیغمبر ہیں، جن کے اوصاف تورات و انجیل میں مذکور ہیں اور جن کی وجہ سے ہی اہل کتاب ان کے ایک (نجات دہندہ) کے طور پر منتظر بھی تھے، لیکن ان پر محض اس جلن اور حسد کی وجہ سے ایمان نہیں لائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہماری نسل میں سے کیوں نہ ہوئے، جیسا کہ ہمارا گمان تھا، یعنی ان کا انکار دلائل پر نہیں، نسلی منافرت اور حسد و عناد پر مبنی تھا۔
٩٠۔٢ غضب پر غضب کا مطلب ہے بہت زیادہ غضب۔ کیوں کہ بار بار وہ غضب والے کام کرتے رہے، جیسا کہ تفصیل گزری، اور اب محض حسد کی وجہ سے قرآن اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ قَالُوا نُؤْمِنُ بِمَا أُنزِلَ عَلَيْنَا وَيَكْفُرُ‌ونَ بِمَا وَرَ‌اءَهُ وَهُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَهُمْ ۗ قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُونَ أَنبِيَاءَ اللَّـهِ مِن قَبْلُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿٩١﴾
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالٰی کی اتاری ہوئی کتاب پر ایمان لاؤ تو کہہ دیتے ہیں کہ جو ہم پر اتاری گئی اس پر ہمارا ایمان ہے۔ (١) حالانکہ اس کے بعد والی کے ساتھ جو ان کی کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے، کفر کرتے ہیں، اچھا ان سے یہ تو دریافت کریں اگر تمہارا ایمان پہلی کتابوں پر ہے تو پھر تم نے اگلے انبیا کو کیوں قتل کیا؟ (٢)۔
٩١۔١ یعنی تورات پر ہم ایمان رکھتے ہیں۔ یعنی اس کے بعد ہمیں قرآن پر ایمان لانے کی ضرورت نہیں ہے۔
٩١۔٢ یعنی تمہارا تورات پر دعویٰ ایمان بھی صحیح نہیں ہے۔ اگر تورات پر تمہارا ایمان ہوتا تو انبیا (عليہم السلام) کو تم قتل نہ کرتے، اس سے معلوم ہوا کہ اب بھی تمہارا انکار محض حسد اور عناد پر مبنی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَلَقَدْ جَاءَكُم مُّوسَىٰ بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِن بَعْدِهِ وَأَنتُمْ ظَالِمُونَ ‎﴿٩٢﴾
تمہارے پاس تو موسیٰ یہی دلیلیں لے کر آئے لیکن تم نے پھر بھی بچھڑا پوجا (١) تم ہو ہی ظالم۔
٩٢۔١ یہ ان کے انکار و عناد کی ایک اور دلیل ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام آیات واضحات اور دلائل قاطعہ اس بات کی لے کر آئے کہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور یہ کہ معبود صرف اللہ تعالٰی ہی ہے، لیکن تم نے اسکے باوجود حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی تنگ کیا اور الٰہ واحد کو چھوڑ کر بچھڑے کو معبود بنا لیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَ‌فَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ‌ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُم بِقُوَّةٍ وَاسْمَعُوا ۖ قَالُوا سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَأُشْرِ‌بُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ بِكُفْرِ‌هِمْ ۚ قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُ‌كُم بِهِ إِيمَانُكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿٩٣﴾
جب ہم نے تم سے وعدہ لیا اور تم پر طور کو کھڑا کر دیا (اور کہہ دیا) کہ ہماری دی ہوئی چیز کو مضبوط تھامو اور سنو! تو انہوں نے کہا، کہ ہم نے سنا اور نافرمانی کی (١) اور ان کے دلوں میں بچھڑے کی محبت (گویا) پلا دی گئی (٢) بسب ان کے کفر کے۔ (٣) ان سے کہہ دیجئے کہ تمہارا ایمان تمہیں برا حکم دے رہا ہے، اگر تم مومن ہو۔
٩٣۔١ یہ کفر و انکار کی انتہا ہے کہ زبان سے تو اقرار کر کے سن لیا، یعنی اطاعت کریں گے اور دل میں یہ نیت کہ ہم نے کونسا عمل کرنا ہے؟
٩٣۔٢ ایک تو محبت خود ایسی چیز ہوتی ہے، کہ انسان کو اندھا اور بہرا بنا دیتی ہے۔ دوسرے، اس کو أُشْرِبُوا (پلا دی گئی) سے تعبیر کیا گیا، کیوں کہ پانی انسان کے رگ و ریشہ میں خوب دوڑتا ہے جب کہ کھانے کا گزراس طرح نہیں ہوتا۔ (فتح القدیر)
٩٣۔٣ یعنی عصیان اور بچھڑے کی محبت و عبادت کی وجہ وہ کفر تھا جو ان کے دلوں میں گھر کر چکا تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قُلْ إِن كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْآخِرَةُ عِندَ اللَّهِ خَالِصَةً مِّن دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ‎﴿٩٤﴾‏
آپ کہہ دیجئے اگر آخرت کا گھر صرف تمہارے ہی لیے ہے، اللہ کے نزدیک اور کسی کے لیے نہیں، تو آؤ اپنی سچائی کے ثبوت میں موت طلب کرو۔

وَلَن يَتَمَنَّوْهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ ‎﴿٩٥﴾‏
لیکن اپنی کرتوتوں کو دیکھتے ہوئے کبھی بھی موت نہیں مانگیں گے (١) اللہ تعالٰی ظالموں کو خوب جانتا ہے۔
٩٥۔١ حضرت ابن عباس رضی الله عنہما نے اس کی تفسیر دعوت مباہلہ سے کی ہے، یعنی یہودیوں کو کہا گیا کہ اگر تم نبوت محمدیہ کے انکار اور اللہ سے محبوبیت کے دعوے میں سچے ہو تو مباہلہ کر لو، یعنی اللہ کی بارگاہ میں مسلمان اور یہودی دونوں مل کر یہ عرض کریں کہ یا اللہ دونوں میں سے جو جھوٹا ہے، اسے موت سے ہمکنار کر دے، یہی دعوت انہیں سورت جمعہ میں بھی دی گئی ہے۔ نجران کے عیسائیوں کو دعوت مباہلہ دی گئی تھی، جیسا کہ آل عمران میں ہے۔ لیکن چونکہ یہودی بھی، عیسائیوں کی طرح، جھوٹے تھے، اس لیے عیسائیوں ہی کی طرح یہودیوں کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا، کہ یہ ہرگز موت کی آرزو (یعنی مباہلہ) نہیں کریں گے۔ حافظ ابن کثیر نے اسی تفسیر کو ترجیح دی ہے۔ (تفسیر ابن کثیر)
 
Top