- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَىٰ حَيَاةٍ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا ۚ يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ يُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذَابِ أَن يُعَمَّرَ ۗ وَاللَّـهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ ﴿٩٦﴾
بلکہ سب سے زیادہ دنیا کی زندگی کا حریص اے نبی! آپ انہی کو پائیں گے، یہ حرص زندگی میں مشرکوں سے بھی زیادہ ہیں (١) ان میں سے تو ہر شخص ایک ایک ہزار سال کی عمر چاہتا ہے، گو یہ عمر دیا جانا بھی انہیں عذاب سے نہیں چھڑا سکتا، اللہ تعالیٰ ان کے کاموں کو بخوبی دیکھ رہا ہے۔
٩٦۔١ موت کی آرزو تو کجا، یہ تو دنیاوی زندگی کے تمام لوگوں حتیٰ کہ مشرکین سے بھی زیادہ حریص ہیں، لیکن عمر کی یہ درازی انہیں عذاب الٰہی سے بچا نہیں سکے گی۔ ان آیات سے معلوم ہوا کہ یہودی اپنے ان دعوؤں میں یکسر جھوٹے تھے کہ وہ اللہ کے محبوب اور چہیتے ہیں، یا جنت کے مستحق صرف وہی ہیں اور دوسرے جہنمی، کیوں کہ فی الواقع اگر ایسا ہوتا، یا کم از کم انہیں اپنے دعوؤں کی صداقت پر پورا یقین ہوتا، تو یقیناً وہ مباہلہ کرنے پر آمادہ ہو جاتے، تاکہ ان کی سچائی واضح اور مسلمانوں کی غلطی آشکارا ہو جاتی۔ مباہلے سے پہلے یہودیوں کا اعراض اور گریز اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ گو وہ زبان سے اپنے بارے میں خوش کن باتیں کر لیتے تھے، لیکن ان کے دل اصل حقیقت سے آگاہ تھے اور جانتے تھے کہ اللہ کی بارگاہ میں جانے کے بعد ان کا حشر وہی ہو گا جو اللہ نے اپنے نافرمانوں کے لیے طے کر رکھا ہے۔
بلکہ سب سے زیادہ دنیا کی زندگی کا حریص اے نبی! آپ انہی کو پائیں گے، یہ حرص زندگی میں مشرکوں سے بھی زیادہ ہیں (١) ان میں سے تو ہر شخص ایک ایک ہزار سال کی عمر چاہتا ہے، گو یہ عمر دیا جانا بھی انہیں عذاب سے نہیں چھڑا سکتا، اللہ تعالیٰ ان کے کاموں کو بخوبی دیکھ رہا ہے۔
٩٦۔١ موت کی آرزو تو کجا، یہ تو دنیاوی زندگی کے تمام لوگوں حتیٰ کہ مشرکین سے بھی زیادہ حریص ہیں، لیکن عمر کی یہ درازی انہیں عذاب الٰہی سے بچا نہیں سکے گی۔ ان آیات سے معلوم ہوا کہ یہودی اپنے ان دعوؤں میں یکسر جھوٹے تھے کہ وہ اللہ کے محبوب اور چہیتے ہیں، یا جنت کے مستحق صرف وہی ہیں اور دوسرے جہنمی، کیوں کہ فی الواقع اگر ایسا ہوتا، یا کم از کم انہیں اپنے دعوؤں کی صداقت پر پورا یقین ہوتا، تو یقیناً وہ مباہلہ کرنے پر آمادہ ہو جاتے، تاکہ ان کی سچائی واضح اور مسلمانوں کی غلطی آشکارا ہو جاتی۔ مباہلے سے پہلے یہودیوں کا اعراض اور گریز اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ گو وہ زبان سے اپنے بارے میں خوش کن باتیں کر لیتے تھے، لیکن ان کے دل اصل حقیقت سے آگاہ تھے اور جانتے تھے کہ اللہ کی بارگاہ میں جانے کے بعد ان کا حشر وہی ہو گا جو اللہ نے اپنے نافرمانوں کے لیے طے کر رکھا ہے۔