• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فَانتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَأَغْرَ‌قْنَاهُمْ فِي الْيَمِّ بِأَنَّهُمْ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَكَانُوا عَنْهَا غَافِلِينَ ﴿١٣٦﴾
پھر ہم نے ان سے بدلہ لیا یعنی ان کو دریاؤں میں غرق کر دیا اور اس سب سے کہ وہ ہماری آیتوں کو جھٹلاتے تھے اور ان سے بالکل غفلت کرتے تھے (١)۔
١٣٦۔١ اتنی بڑی نشانیوں کے باوجود وہ ایمان نہ لانے کے لئے اور خواب غفلت سے بیدار ہونے کے لئے تیار نہیں ہوئے بالآخر انہیں دریا میں غرق کر دیا، جس کی تفصیل قرآن مجید کے مختلف مقامات پر موجود ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَأَوْرَ‌ثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُوا يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِ‌قَ الْأَرْ‌ضِ وَمَغَارِ‌بَهَا الَّتِي بَارَ‌كْنَا فِيهَا ۖ وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَ‌بِّكَ الْحُسْنَىٰ عَلَىٰ بَنِي إِسْرَ‌ائِيلَ بِمَا صَبَرُ‌وا ۖ وَدَمَّرْ‌نَا مَا كَانَ يَصْنَعُ فِرْ‌عَوْنُ وَقَوْمُهُ وَمَا كَانُوا يَعْرِ‌شُونَ ﴿١٣٧﴾
اور ہم نے ان لوگوں کو جو بالکل کمزور شمار کئے جاتے تھے (١) اس سرزمین کے پورب پچھم کا مالک بنادیا جس میں ہم نے برکت رکھی اور آپ کے رب کا نیک وعدہ بنی اسرائیل کے حق میں ان کے صبر کی وجہ سے پورا ہوگیا (٢) اور ہم نے فرعون کے اور اس کی قوم کے ساختہ پرداختہ کارخانوں کو اور جو کچھ وہ اونچی اونچی عمارتیں بنواتے تھے سب کو درہم برہم کر دیا (٣)۔
١٣٧۔١ یعنی بنی اسرائیل کو جن کو فرعون نے غلام بنا رکھا تھا اور ان پر ظلم روا رکھا تھا، اس بنا پر وہ فی الواقع مصر میں کمزور سمجھے جاتے تھے کیونکہ مغلوب اور غلام تھے۔ لیکن جب اللہ نے چاہا تو اسی مغلوب اور غلام قوم کو زمین کا وارث بنا دیا۔
(۲) زمین سے مراد شام کا علاقہ فلسطین ہے جہاں اللہ تعالٰی نے عمالقہ کے بعد بنی اسرائیل کو غلبہ عطا فرمایا شام میں بنی اسرائیل حضرت موسیٰ علیہ السلام و ہارون علیہ السلام کی وفات کے بعد اس وقت گئے جب یوشع بن نون نے عمالقہ کو شکست دے کر بنی اسرائیل کے لیے راستہ ہموار کردیا۔ اور زمین کے ان حصوں میں برکتیں رکھیں یعنی شام کے علاقے میں۔ جو بکثرت انبیاء کامسکن ومدفن رہا اور ظاہری شادابی وخوش حالی میں بھی ممتاز ہے۔ یعنی ظاہری وباطنی دونوں قسم کی برکتوں سے یہ زمین مالا مال رہی ہے۔ مشارق مشرق کی جمع اور مغارب مغرب کی جمع ہے۔ حالانکہ مشرق اور مغرب ایک ایک ہی ہیں۔ جمع سے مراد اس ارض بابرکت کے مشرقی اور مغربی حصے ہیں یعنی جہات مشرق ومغرب۔
١٣٧۔٢ یہ وہ وعدہ بھی ہے جو اس سے قبل حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبانی آیت نبر ١٢٨،١٢٩ میں فرمایا گیا ہے اور سورۃ قصص میں بھی
١٣٧۔٣ مصنوعات سے مراد کارخانے، عمارتیں اور ہتھیار وغیرہ ہیں (جو وہ بلند کرتے تھے) اس سے مراد اونچی اونچی عمارتیں بھی ہوسکتی ہیں، ہتھیار اور دیگر سامان بھی تباہ کر دیا اور ان کے باغات بھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَ‌ائِيلَ الْبَحْرَ‌ فَأَتَوْا عَلَىٰ قَوْمٍ يَعْكُفُونَ عَلَىٰ أَصْنَامٍ لَّهُمْ ۚ قَالُوا يَا مُوسَى اجْعَل لَّنَا إِلَـٰهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ ۚ قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ ﴿١٣٨﴾
اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار اتار دیا۔ پس ان لوگوں کا ایک قوم پر گزر ہوا جو اپنے چند بتوں سے لگے بیٹھے تھے، کہنے لگے اے موسیٰ! ہمارے لئے بھی ایک معبود ایسا ہی مقرر کر دیجئے! جیسے ان کے معبود ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ واقعی تم لوگوں میں بڑی جہالت ہے۔ (١)
١٣٨۔١ اس سے بڑی جہالت اور نادانی کیا ہوگی کہ جس اللہ نے انہیں فرعون جیسے دشمن سے نہ صرف نجات دی، بلکہ ان کی آنکھوں کے سامنے اسے اس کے لشکر سمیت غرق کر دیا اور معجزانہ طر یقہ سے دریا عبور کروا دیا۔ وہ دریا پار کرتے ہی اس اللہ کو بھول کر پتھر کے خود تراشیدہ معبود تلاش کرنے لگ گئے۔ کہتے ہیں کہ یہ بت گائے کی شکل کے تھے جو پتھر کی بنی ہوئی تھیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
إِنَّ هَـٰؤُلَاءِ مُتَبَّرٌ‌ مَّا هُمْ فِيهِ وَبَاطِلٌ مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٣٩﴾
یہ لوگ جس کام میں لگے ہیں یہ تباہ کیا جائے گا اور ان کا یہ کام محض بےبنیاد ہے (١)۔
١٣٩۔١ یعنی مورتیوں کے پجاری جن کے حال نے تمہیں بھی دھوکے میں ڈال دیا، ان کا مقدر تباہی اور ان کا یہ فعل باطل اور خسارے کا باعث ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قَالَ أَغَيْرَ‌ اللَّـهِ أَبْغِيكُمْ إِلَـٰهًا وَهُوَ فَضَّلَكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ ﴿١٤٠﴾
فرمایا کیا اللہ تعالٰی کے سوا اور کسی کو تمہارا معبود تجویز کردوں؟ حالانکہ اس نے تم کو تمام جہان والوں پر فوقیت دی ہے (١)
١٤٠۔١ کیا جس اللہ نے تم پر اتنے احسانات اور تمہیں جہانوں پر فضیلت بھی عطا کی، اسے چھوڑ کر میں تمہارے لئے پتھر اور لکڑی کے تراشے ہوئے بت تلاش کروں، یعنی یہ ناشکری اور احسان ناشناسی میں کس طرح کر سکتا ہوں؟ اگلی آیات میں اللہ تعالٰی کے مزید احسا نات کا تذکرہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَإِذْ أَنجَيْنَاكُم مِّنْ آلِ فِرْ‌عَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ ۖ يُقَتِّلُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ ۚ وَفِي ذَٰلِكُم بَلَاءٌ مِّن رَّ‌بِّكُمْ عَظِيمٌ ﴿١٤١﴾
اور وہ وقت یاد کرو جب ہم نے تم کو فرعون والوں سے بچالیا جو تم کو بڑی سخت تکلیفیں پہنچاتے تھے۔ تمہارے بیٹوں کو قتل کر ڈالتے تھے اور تمہاری عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتے تھے اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی بھاری آزمائش تھی (١)
١٤١۔١ یہ وہی آزمائشیں ہیں جن کا ذکر سورہ بقرہ میں بھی گزرا ہے اور سورہ ابراہیم میں بھی آئے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَوَاعَدْنَا مُوسَىٰ ثَلَاثِينَ لَيْلَةً وَأَتْمَمْنَاهَا بِعَشْرٍ‌ فَتَمَّ مِيقَاتُ رَ‌بِّهِ أَرْ‌بَعِينَ لَيْلَةً ۚ وَقَالَ مُوسَىٰ لِأَخِيهِ هَارُ‌ونَ اخْلُفْنِي فِي قَوْمِي وَأَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ ﴿١٤٢﴾
اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) سے تیس راتوں کا وعدہ کیا اور دس رات مزید سے ان تیس راتوں کو پورا کیا۔ سو ان کے پروردگار کا وقت پورے چالیس رات کا ہوگیا (١) اور موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) سے کہا کہ میرے بعد ان کا انتظام رکھنا اور اصلاح کرتے رہنا اور بد نظم لوگوں کی رائے پر عمل مت کرنا (٢)
١٤٢۔١ فرعون اس کے لشکر کے غرق کے بعد ضرورت لاحق ہوئی کہ بنی اسرائیل کی ہدایت و رہنمائی کے لئے کوئی کتاب انہیں دی جائے۔ چنانچہ اللہ تعالٰی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تیس راتوں کے لئے کوہ طور پر بلایا، جس میں دس راتوں کا اضافہ کرکے اسے چالیس کر دیا گیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جاتے وقت حضرت ہارون علیہ السلام کو جو ان کے بھائی، بھی تھے اور نبی بھی، اپنا جانشین مقر کر دیا تاکہ وہ بنی اسرائیل کی ہدایت و اصلاح کا کام کرتے رہیں اور انہیں ہر قسم کے فساد سے بچائیں۔ اس آیت میں یہی بیان کیا گیا ہے۔
١٤٢۔٢ حضرت ہارون علیہ السلام خود نبی تھے اور اصلاح کا کام ان کے فرائض منصبی میں شامل تھا، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انہیں محض تذکرہ تنبیہ کے طور پر یہ نصیحتیں کیں، میقات سے یہاں مراد وقت معین ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَلَمَّا جَاءَ مُوسَىٰ لِمِيقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَ‌بُّهُ قَالَ رَ‌بِّ أَرِ‌نِي أَنظُرْ‌ إِلَيْكَ ۚ قَالَ لَن تَرَ‌انِي وَلَـٰكِنِ انظُرْ‌ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ‌ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَ‌انِي ۚ فَلَمَّا تَجَلَّىٰ رَ‌بُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ‌ مُوسَىٰ صَعِقًا ۚ فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ ﴿١٤٣﴾
اور جب موسیٰ علیہ السلام ہمارے وقت پر آئے اور ان کے رب نے ان سے باتیں کیں تو عرض کیا کہ اے میرے پروردگار اپنا دیدار مجھ کو کرا دیجئے کہ میں ایک نظر تم کو دیکھ لوں ارشاد ہوا کہ تم مجھ کو ہرگز نہیں دیکھ سکتے (١) لیکن تم اس پہاڑ کی طرف دیکھتے رہو وہ اگر اپنی جگہ پر برقرار رہا تو تم بھی مجھے دیکھ سکو گے۔ پس جب ان کے رب نے پہاڑ پر تجلی فرمائی تو تجلی نے اس کے پرخچے اڑا دیئے اور موسیٰ (علیہ السلام) بےہوش ہو کر گر پڑے (٢) پھر جب ہوش میں آئے تو عرض کیا، بیشک آپ کی ذات پاک ہے میں آپ کی جناب میں توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلے آپ پر ایمان لانے والا ہوں (٣)
١٤٣۔١ جب موسیٰ علیہ السلام طور پر گئے اور وہاں اللہ نے ان سے براہ راست گفتگو کی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دل میں اللہ کو دیکھنے کے شوق کا اظہار رَ بِ اَرِنِیْ کہہ کر کیا۔ جس کے جواب میں اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ لَنْ تَرٰنِیْ تو مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتا اس سے استدلال کرتے ہوئے مسلمانوں کے کے ایک فرقہ نے کہا کہ لَنْ نَفْیُ نَاْبِیْدٍ (ہمیشہ کی نفی) کے لئے آتا ہے۔ اس لئے اللہ کا دیدار نہ دنیا میں ممکن ہے نہ آخرت میں۔ لیکن فرقہ کا یہ مسلک صحیح احادیث کے خلاف ہے۔ متواتر صحیح اور قوی روایات سے ثابت ہے کہ قیامت والے دن اہل ایمان اللہ کو دیکھیں گے اور جنت میں بھی دیدار الٰہی سے مشرف ہونگے، تمام اہل سنت کا یہی عقیدہ ہے۔ اس روایت کا تعلق صرف دنیا سے ہے، دنیا میں کوئی انسانی آنکھ اللہ کو دیکھنے پر قادر نہیں ہے۔ لیکن آخرت میں اللہ تعالٰی ان آنکھوں میں اتنی قوت پیدا فرما دے گا کہ وہ اللہ کے جلوے کو برداشت کر سکے۔
١٤٣۔٢ یعنی وہ پہاڑ بھی رب کی تجلی کو برداشت نہ کرسکا اور موسیٰ علیہ السلام بےہوش ہو کر گر پڑے۔ حدیث میں آتا ہے کہ قیامت والے دن سب لوگ بےہوش ہونگے، (یہ بےہوشی امام ابن کثیر کے بقول میدان محشر میں اس وقت ہوگی جب اللہ تعالٰی فیصلے کرنے کے لئے نزول اجلال فرمائے گا) اور جب ہوش میں آئیں گے تو میں (نبی صلی اللہ علیہ وسلم) ہوش میں آنے والوں میں سب سے پہلا شخص ہوں گا، میں دیکھوں گا کہ موسیٰ علیہ السلام عرش کا پایہ تھامے کھڑے ہیں، مجھے نہیں معلوم کہ وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آئے یا انہیں کوہ طور کی بےہوشی کے بدلے میں میدان محشر کی بےہوشی سے مستثنٰی رکھا گیا۔ (صحیح بخاری)
١٤٣۔٣ تیری عظمت و جلالت کا اور اس بات کا کہ میں تیرا عاجز بندہ ہوں، دنیا میں تیرے دیدار کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قَالَ يَا مُوسَىٰ إِنِّي اصْطَفَيْتُكَ عَلَى النَّاسِ بِرِ‌سَالَاتِي وَبِكَلَامِي فَخُذْ مَا آتَيْتُكَ وَكُن مِّنَ الشَّاكِرِ‌ينَ ﴿١٤٤﴾
ارشاد ہوا اے موسیٰ! میں نے پیغمبری اور اپنی ہمکلامی سے اور لوگوں پر تم کو امتیاز دیا ہے تو جو کچھ تم کو میں نے عطا کیا ہے اس کو لو اور شکر کرو (١)۔
١٤٤۔١ یہ ہم کلامی کا دوسرا موقع تھا جس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مشرف کیا گیا۔ اس سے قبل جب آگ لینے گئے تھے تو اللہ نے ہم کلامی سے نوازا تھا اور پیغمبری عطا فرمائی تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَكَتَبْنَا لَهُ فِي الْأَلْوَاحِ مِن كُلِّ شَيْءٍ مَّوْعِظَةً وَتَفْصِيلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَأْمُرْ‌ قَوْمَكَ يَأْخُذُوا بِأَحْسَنِهَا ۚ سَأُرِ‌يكُمْ دَارَ‌ الْفَاسِقِينَ ﴿١٤٥﴾
اور ہم نے چند تختیوں پر ہر قسم کی نصیحت اور ہرچیز کی تفصیل ان کو لکھ کر دی (١) تم ان کو پوری طاقت سے پکڑ لو اور اپنی قوم کو حکم کرو کہ ان کے اچھے اچھے احکام پر عمل کریں (٢) اب بہت جلد تم لوگوں کو ان بےحکموں کا مقام دکھلاتا ہوں (٣)۔
١٤٥۔١ گویا تورات تختیوں کی شکل میں عطا فرمائی گئی جس میں ان کے لئے دینی احکام، امر و نہی تر غیب و ترتیب کی پوری تفصیل تھی۔
١٤٥۔٢ یعنی رخصتوں کی ہی تلاش میں نہ رہیں جیسا کہ سہولت پسندوں کا حال ہوتا ہے۔
١٤٥۔٣ مقام (دار) سے مراد تو انجام یہی ہلاکت ہے یا اس کا مطلب ہے کہ فاسقوں کے ملک پر تمہیں حکمرانی عطا کروں گا اور اس سے مراد ملک شام ہے۔ جس پر اس وقت عمالقہ کی حکمرانی تھی۔ جو اللہ کے نافرمان تھے۔ (ابن کثیر)
 
Top