• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
سَأَصْرِ‌فُ عَنْ آيَاتِيَ الَّذِينَ يَتَكَبَّرُ‌ونَ فِي الْأَرْ‌ضِ بِغَيْرِ‌ الْحَقِّ وَإِن يَرَ‌وْا كُلَّ آيَةٍ لَّا يُؤْمِنُوا بِهَا وَإِن يَرَ‌وْا سَبِيلَ الرُّ‌شْدِ لَا يَتَّخِذُوهُ سَبِيلًا وَإِن يَرَ‌وْا سَبِيلَ الْغَيِّ يَتَّخِذُوهُ سَبِيلًا ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَكَانُوا عَنْهَا غَافِلِينَ ﴿١٤٦﴾
میں ایسے لوگوں کو اپنے احکام سے برگشتہ ہی رکھوں گا جو دنیا میں تکبر کرتے ہیں، جس کا ان کو کوئی حق حاصل نہیں اور اگر تمام نشانیاں دیکھ لیں تب بھی وہ ان پر ایمان نہ لائیں، (١) اور اگر ہدایت کا راستہ دیکھیں تو اس کو اپنا طریقہ نہ بنائیں اور اگر گمراہی کا راستہ دیکھ لیں تو اس کو اپنا طریقہ بنا لیں۔ (٢) یہ اس سبب سے ہے کہ انہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے غافل رہے۔ (٣)
١٤٦۔١ تکبر کا مطلب ہے اللہ کی آیات و احکام کے مقابلے میں اپنے آپ کو بڑا سمجھنا اور لوگوں کو حقیر گرداننا۔ یہ تکبر، انسان کے لیے زیبا نہیں۔ کیونکہ اللہ خالق ہے اور وہ اس کی مخلوق۔ مخلوق ہو کر، خالق کا مقابلہ کرنا اور اس کے احکام و ہدایات سے اعراض و غفلت کرنا کسی طرح بھی جائز نہیں۔ اسی لیے تکبر اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے۔ اس آیت میں تکبر کا نتیجہ بتلایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں آیات الٰہی سے دور ہی رکھتا ہے اور پھر وہ اتنے دور ہو جاتے ہیں کہ کسی طرح کی بھی نشانی انہیں حق کی طرف لانے میں کامیاب نہیں ہوتی ۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ وَلَوْ جَاءَتْهُمْ كُلُّ آيَةٍ حَتَّى يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ﴾ [يونس:96-97] ”جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہو گئی وہ ایمان نہیں لائیں گے، چاہے ان کے پاس ہر طرح کی نشانی آ جائے۔ حتیٰ کہ وہ درد ناک عذاب دیکھ لیں“۔
١٤٦۔٢ اس میں احکام الٰہیٰ سے اعراض کرنے والوں کی ایک اور عادت یا نفسیات کا بیان ہے کہ ہدایت کی کوئی بات ان کے سامنے آئے تو اسے تو نہیں مانتے، البتہ گمراہی کی کوئی چیز دیکھتے ہیں تو اسے فوراً اپنا لیتے اور راہ عمل بنا لیتے ہیں۔ قرآن کریم کی بیان کردہ اس حقیقت کا ہر دور میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ آج ہم بھی ہر جگہ اور ہر معاشرے میں حتیٰ کہ مسلمان معاشروں میں بھی یہی کچھ دیکھ رہے ہیں کہ نیکی منہ چھپائے پھر رہی ہے اور بدی کو ہر کوئی لپک لپک کر اختیار کر رہا ہے۔
١٤٦۔٣ یہ اس بات کا سبب بتلایا جا رہا ہے کہ لوگ نیکی کے مقابلے میں بدی کو اور حق کے مقابلے میں باطل کو کیوں زیادہ اختیار کرتے ہیں؟ یہ سبب ہے آیات الٰہی کی تکذیب اور ان سے غفلت و اعراض کا۔ یہ ہر معاشرے میں عام ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَلِقَاءِ الْآخِرَ‌ةِ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ ۚ هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٤٧﴾
اور یہ لوگ جنہوں نے ہماری آیتوں کو اور قیامت کے پیش آنے کو جھٹلایا ان کے سب کام غارت گئے۔ ان کو وہی سزا دی جائے گی جو کچھ یہ کرتے تھے۔ (١)
١٤٧۔١ اس میں آیات الٰہی کی تکذیب اور آخرت کا انکار کرنے والوں کا انجام بتلایا گیا ہے کہ چونکہ ان کے عمل کی اساس عدل و حق نہیں، ظلم و باطل ہے۔ اس لیے ان کے نامۂ اعمال میں شر ہی شر ہو گا جس کی کوئی قیمت اللہ کے ہاں نہ ہو گی۔ ہاں اس شر کا بدلہ ان کو وہاں ضرور دیا جائے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
اتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَىٰ مِن بَعْدِهِ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهُ خُوَارٌ‌ ۚ أَلَمْ يَرَ‌وْا أَنَّهُ لَا يُكَلِّمُهُمْ وَلَا يَهْدِيهِمْ سَبِيلًا ۘ اتَّخَذُوهُ وَكَانُوا ظَالِمِينَ ﴿١٤٨﴾
اور موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے ان کے بعد اپنے زیوروں کا ایک بچھڑا معبود ٹھہرا لیا جو کہ ایک قالب تھا جس میں ایک آواز تھی۔ کیا انہوں نے یہ نہ دیکھا کہ وہ ان سے بات نہیں کرتا تھا اور نہ کوئی راہ بتلاتا تھا اس کو انہوں نے معبود قرار دیا اور بڑی بے انصافی کا کام کیا۔ (١)
١٤٨۔١ موسیٰ عليہ السلام جب چالیس راتوں کے لیے کوہ طور پر گئے تو پیچھے سے سامری نامی شخص نے سونے کے زیورات اکٹھے کر کے ایک بچھڑا تیار کیا جس میں اس نے جبریل عليہ السلام کے گھوڑے کے سموں کے نیچے کی مٹی بھی، جو اس نے سنبھال کر رکھی ہوئی تھی شامل کر دی، جس میں اللہ نے زندگی کی تاثیر رکھی تھی، جس کی وجہ سے بچھڑا کچھ کچھ بیل کی آواز نکالتا تھا۔ (گو واضح کلام کرنے اور رہنمائی کرنے سے عاجز تھا جیسا کہ قرآن کے الفاظ واضح کر رہے ہیں) اس میں اختلاف ہے کہ وہ فی الواقع گوشت پوست کا بچھڑا بن گیا تھا، یا تھا وہ سونے کا ہی۔ لیکن کسی طریقے سے اس میں ہوا داخل ہوتی تو گائے، بیل کی سی آواز اس میں سے نکلتی۔ (ابن کثیر) اس آواز سے سامری نے بنی اسرائیل کو گمراہ کیا کہ تمہارا معبود تو یہ ہے، موسیٰ عليہ السلام بھول گئے ہیں اور وہ معبود کی تلاش میں کوہ طور پر گئے ہیں۔ (یہ واقعہ سورۂ طٰہ میں آئے گا)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَلَمَّا سُقِطَ فِي أَيْدِيهِمْ وَرَ‌أَوْا أَنَّهُمْ قَدْ ضَلُّوا قَالُوا لَئِن لَّمْ يَرْ‌حَمْنَا رَ‌بُّنَا وَيَغْفِرْ‌ لَنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِ‌ينَ ﴿١٤٩﴾
اور جب نادم ہوئے (١) اور معلوم ہوا کہ واقعی وہ لوگ گمراہی میں پڑ گئے تو کہنے لگے کہ اگر ہمارا رب ہم پر رحم نہ کرے اور ہمارا گناہ معاف نہ کرے تم ہم بالکل گئے گزرے ہو جائیں گے۔
١٤٩۔١ سُقِطَ فِي أَيْدِيهِمْ محاورہ ہے جس کے معنی نادم ہونا ہیں، یہ ندامت موسیٰ عليہ السلام کی واپسی کے بعد ہوئی، جب انہوں نے آ کر اس پر ان کی زجر و توبیخ کی، جیسا کہ سورۂ طٰہ میں ہے۔ یہاں اسے مقدم اس لیے کر دیا گیا ہے کہ ان کا فعل اور قول اکٹھا ہو جائے۔(فتح القدیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَلَمَّا رَ‌جَعَ مُوسَىٰ إِلَىٰ قَوْمِهِ غَضْبَانَ أَسِفًا قَالَ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُونِي مِن بَعْدِي ۖ أَعَجِلْتُمْ أَمْرَ‌ رَ‌بِّكُمْ ۖ وَأَلْقَى الْأَلْوَاحَ وَأَخَذَ بِرَ‌أْسِ أَخِيهِ يَجُرُّ‌هُ إِلَيْهِ ۚ قَالَ ابْنَ أُمَّ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي وَكَادُوا يَقْتُلُونَنِي فَلَا تُشْمِتْ بِيَ الْأَعْدَاءَ وَلَا تَجْعَلْنِي مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴿١٥٠﴾
اور جب موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کی طرف واپس آئے غصہ اور رنج میں بھرے ہوئے تو فرمایا کہ تم نے میرے بعد یہ بڑی بری جانشینی کی؟ کیا اپنے رب کے حکم سے پہلے ہی تم نے جلد بازی کر لی، اور جلدی سے تختیاں ایک طرف رکھیں (١) اور اپنے بھائی کا سر پکڑ کر ان کو اپنی طرف گھسیٹنے لگے۔ ہارون (علیہ السلام) نے کہا کہ اے میرے ماں جائے! (٢) ان لوگوں نے مجھ کو بے حقیقت سمجھا اور قریب تھا کہ مجھ کو قتل کر ڈالیں (٣) تو تم مجھ پر دشمنوں کو مت ہنساؤ (٤) اور مجھ کو ان ظالموں کے ذیل میں مت شمار کرو۔ (٥)
١٥٠۔١ جب حضرت موسیٰ عليہ السلام نے آ کر دیکھا کہ وہ بچھڑے کی عبادت میں لگے ہوئے ہیں تو سخت غضب ناک ہوئے اور جلدی میں تختیاں بھی، جو کوہ طور سے لائے تھے، ایسے طور پر رکھیں کہ دیکھنے والوں کو محسوس ہوا کہ انہوں نے نیچے پھینک دی ہیں، جسے قرآن نے ”ڈال دیں“ سے تعبیر کیا ہے۔ تاہم اگر پھینک بھی دی ہوں تو اس میں سوء ادبی نہیں کیونکہ مقصد ان کا تختیوں کی بے ادبی نہیں تھا، بلکہ دینی غیرت و حمیّت میں بے خود ہو کر غیر اختیاری طور پر ان سے یہ فعل سرزد ہوا۔
١٥٠۔٢ حضرت ہارون و موسیٰ علیہما السلام آپس میں سگے بھائی تھے، لیکن یہاں حضرت ہارون عليہ السلام نے (ماں جائے) اس لیے کہا کہ اس لفظ میں پیار اور نرمی کا پہلو زیادہ ہے۔
١٥٠۔٣ حضرت ہارون عليہ السلام نے یہ اپنا عذر پیش کیا جس کی وجہ سے وہ قوم کو شرک جیسے جرم عظیم سے روکنے میں ناکام رہے۔ ایک اپنی کمزوری اور دوسرا، بنی اسرائیل کا عناد اور سرکشی کہ وہ انہیں قتل تک کر دینے پر آمادہ ہو گئے تھے اور انہیں اپنی جان بچانے کے لیے خاموش ہونا پڑا، جس کی اجازت ایسے موقعوں پر اللہ نے دی ہے۔
١٥٠۔٤ میری ہی سرزنش کرنے سے دشمن خوش ہوں گے، جب کہ یہ موقع تو دشمنوں کی سرکوبی اور ان سے اپنی قوم کو بچانے کا ہے۔
١٥٠۔٥ اور ویسے بھی عقیدہ و عمل میں مجھے کس طرح ان کے ساتھ شمار کیا جا سکتا ہے؟ میں نے نہ شرک کا ارتکاب کیا، نہ اس کی اجازت دی، نہ اس پر خوش ہوا، صرف خاموش رہا اور اس کے لیے بھی میرے پاس معقول عذر موجود ہے، پھر میرا شمار ظالموں (مشرکوں) کے ساتھ کس طرح ہو سکتا ہے؟ چنانچہ حضرت موسیٰ عليہ السلام نے اپنے اور اپنے بھائی ہارون عليہ السلام کے لیے مغفرت و رحمت کی دعا مانگی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قَالَ رَ‌بِّ اغْفِرْ‌ لِي وَلِأَخِي وَأَدْخِلْنَا فِي رَ‌حْمَتِكَ ۖ وَأَنتَ أَرْ‌حَمُ الرَّ‌احِمِينَ ﴿١٥١﴾
موسٰی (علیہ السلام) نے کہا کہ اے میرے رب! میری خطا معاف فرما اور میرے بھائی کی بھی اور ہم دونوں کو اپنی رحمت میں داخل فرما اور تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔

إِنَّ الَّذِينَ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ سَيَنَالُهُمْ غَضَبٌ مِّن رَّ‌بِّهِمْ وَذِلَّةٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُفْتَرِ‌ينَ ﴿١٥٢﴾
بے شک جن لوگوں نے گو سالہ پرستی کی ہے ان پر بہت جلد ان کے رب کی طرف سے غضب اور ذلت اس دنیاوی زندگی ہی میں پڑے گی (١) اور ہم افترا پردازوں کو ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں۔ (٢)
١٥٢۔١ اللہ کا غضب یہ تھا کہ توبہ کے لیے قتل ضروری قرار پایا۔ اور اس سے قبل جب تک جیتے رہے، ذلت و رسوائی کے وہ مستحق قرار پائے۔
١٥٢۔٢ اور یہ سزا ان ہی کے لیے خاص نہیں ہے، جو بھی اللہ پر افترا کرتا ہے، اس کو ہم یہی سزا دیتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَالَّذِينَ عَمِلُوا السَّيِّئَاتِ ثُمَّ تَابُوا مِن بَعْدِهَا وَآمَنُوا إِنَّ رَ‌بَّكَ مِن بَعْدِهَا لَغَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿١٥٣﴾
اور جن لوگوں نے گناہ کے کام کئے اور پھر وہ ان کے بعد توبہ کر لیں اور ایمان لے آئیں تو تمہارا رب اس توبہ کے بعد گناہ معاف کر دینے والا، رحمت کرنے والا ہے۔ (١)
١٥٣۔١ ہاں جنہوں نے توبہ کر لی، ان کے لیے اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔ معلوم ہوا کہ توبہ سے ہر گناہ معاف ہو جاتا ہے بشرطیکہ خالص توبہ ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَلَمَّا سَكَتَ عَن مُّوسَى الْغَضَبُ أَخَذَ الْأَلْوَاحَ ۖ وَفِي نُسْخَتِهَا هُدًى وَرَ‌حْمَةٌ لِّلَّذِينَ هُمْ لِرَ‌بِّهِمْ يَرْ‌هَبُونَ ﴿١٥٤﴾
اور جب موسیٰ (علیہ السلام) کا غصہ فرو ہوا تو ان تختیوں کو اٹھا لیا اور ان کے مضامین میں (١) ان لوگوں کے لیے جو اپنے رب سے ڈرتے تھے ہدایت اور رحمت تھی۔ (٢)
١٥٤۔١ ”نُسْخَةٌ“ فُعْلَةٌ کے وزن پر بمعنی مفعول ہے۔ یہ اس اصل کو بھی کہتے ہیں جس سے نقل کیا جائے اور نقل شدہ کو بھی نسخہ کہہ دیا جاتا ہے۔ یہاں نسخہ سے مراد یا تو وہ اصل الواح ہیں جن پر تورات لکھی گئی تھی، یا اس سے مراد وہ دوسرا نسخہ ہے جو تختیاں زور سے پھینکنے کی وجہ سے ٹوٹ جانے کے بعد اس سے نقل کر کے تیار کیا گیا تھا۔ تاہم صحیح بات پہلی ہی لگتی ہے۔ کیونکہ آگے چل کر آتا ہے کہ حضرت موسیٰ عليہ السلام نے ان ”تختیوں کو اٹھا لیا“ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تختیاں ٹوٹی نہیں تھیں۔ بہرحال اس کا مرادی مفہوم ”مضامین“ ہے جو ترجمہ میں اختیار کیا گیا ہے۔
١٥٤۔٢ تورات کو بھی، قرآن کریم کی طرح، انہی لوگوں کے لیے ہدایت اور رحمت قرار دیا گیا ہے جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں، کیونکہ اصل فائدہ آسمانی کتابوں سے ایسے ہی لوگوں کو ہوتا ہے۔ دوسرے لوگ تو چونکہ اپنے کانوں کو حق کے سننے سے، آنکھوں کو حق کے دیکھنے سے بند کئے ہوئے ہوتے ہیں، اس چشمۂ فیض سے وہ بالعموم محروم ہی رہتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَاخْتَارَ‌ مُوسَىٰ قَوْمَهُ سَبْعِينَ رَ‌جُلًا لِّمِيقَاتِنَا ۖ فَلَمَّا أَخَذَتْهُمُ الرَّ‌جْفَةُ قَالَ رَ‌بِّ لَوْ شِئْتَ أَهْلَكْتَهُم مِّن قَبْلُ وَإِيَّايَ ۖ أَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَهَاءُ مِنَّا ۖ إِنْ هِيَ إِلَّا فِتْنَتُكَ تُضِلُّ بِهَا مَن تَشَاءُ وَتَهْدِي مَن تَشَاءُ ۖ أَنتَ وَلِيُّنَا فَاغْفِرْ‌ لَنَا وَارْ‌حَمْنَا ۖ وَأَنتَ خَيْرُ‌ الْغَافِرِ‌ينَ ﴿١٥٥﴾
اور موسیٰ (علیہ السلام) نے ستر آدمی اپنی قوم میں سے ہمارے وقت معین کے لیے منتخب کئے، سو جب ان کو زلزلہ نے آ پکڑا (١) تو موسیٰ (علیہ السلام) عرض کرنے لگے کہ اے میرے پروردگار! اگر تجھ کو یہ منظور ہوتا تو اس سے قبل ہی ان کو اور مجھ کو ہلاک کر دیتا۔ کیا تو ہم میں سے چند بے وقوفوں کی حرکت پر سب کو ہلاک کر دے گا؟ یہ واقعہ محض تیری طرف سے ایک امتحان ہے، ایسے امتحانات سے جس کو تو چاہے گمراہی میں ڈال دے اور جس کو چاہے ہدایت پر قائم رکھے۔ تو ہی تو ہمارا کارساز ہے پس ہم پر مغفرت اور رحمت فرما اور تو سب معافی دینے والوں سے زیادہ اچھا ہے۔ (٢)
١٥٥۔١ ان ستر آدمیوں کی تفصیل اگلے حاشیے میں آ رہی ہے۔ یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ عليہ السلام نے اپنی قوم کے ستر آدمی چنے اور انہیں کوہ طور پر لے گئے، جہاں بطور عذاب انہیں ہلاک کر دیا گیا، جس پر حضرت موسیٰ عليہ السلام نے کہا۔
١٥٥۔٢ بنی اسرائیل کے یہ ستر آدمی کون تھے؟ اس میں مفسرین کا اختلاف ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ عليہ السلام نے تورات کے احکام انہیں سنائے تو انہوں نے کہا ہم کیسے یقین کر لیں کہ یہ کتاب واقعی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی نازل شدہ ہے؟ ہم تو جب تک خود اللہ تعالیٰ کو کلام کرتے ہوئے نہ سن لیں، اسے نہیں مانیں گے۔ چنانچہ انہوں نے ستر برگزیدہ آدمیوں کا انتخاب کیا اور انہیں کوہ طور پر لے گئے۔ وہاں اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ عليہ السلام سے ہمکلام ہوا جسے ان لوگوں نے بھی سنا لیکن وہاں انہوں نے ایک نیا مطالبہ کر دیا کہ ہم تو جب تک اللہ کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ لیں گے، ایمان نہیں لائیں گے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ یہ ستر آدمی وہ ہیں جو پوری قوم کی طرف سے بچھڑے کی عبادت کے جرم عظیم کی توبہ اور معذرت کے لیے کوہ طور پر لے جائے گئے تھے اور وہاں جا کر انہوں نے اللہ کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ تیسری رائے یہ ہے کہ یہ ستر آدمی وہی ہیں کہ جنہوں نے بنی اسرائیل کو بچھڑے کی عبادت کرتے ہوئے دیکھا لیکن انہیں اس سے منع نہیں کیا۔ ایک چوتھی رائے یہ ہے کہ یہ ستر آدمی وہ ہیں جنہیں اللہ کے حکم سے کوہ طور پر لے جانے کے لیے چنا گیا تھا، وہاں جا کر انہوں نے اللہ سے دعائیں کیں۔ جن میں ایک دعا یہ بھی تھی کہ ”یا اللہ، ہمیں تو وہ کچھ عطا فرما، جو اس سے قبل تو نے کسی کو عطا نہیں کیا اور نہ آئندہ وہ کسی کو عطا کرنا“۔ اللہ تعالیٰ کو یہ دعا پسند نہیں آئی، جس پر وہ زلزلے کے ذریعے سے ہلاک کر دیئے گئے۔ زیادہ مفسرین دوسری رائے کے قائل ہیں اور انہوں نے وہی واقعہ قرار دیا ہے جس کا ذکر سورہ بقرہ آیت 56 میں آیا ہے۔ جہاں ان پر صاعقہ بجلی کی کڑک سے موت وارد ہونے کا ذکر ہے اور یہاں رَجْفَةٌ (زلزلے) سے موت کا ذکر ہے۔ اس کی توجیہ میں کہا گیا ہے کہ ممکن ہے دونوں ہی عذاب آئے ہوں اوپر سے بجلی کی کڑک اور نیچے سے زلزلہ۔ بہرحال حضرت موسیٰ عليہ السلام کی اس دعا و التجا کے بعد کہ اگر ان کو ہلاک ہی کرنا تھا تو اس سے قبل اس وقت ہلاک کرتا جب یہ بچھڑے کی عبادت میں مصروف تھے، اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ کر دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَاكْتُبْ لَنَا فِي هَـٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَ‌ةِ إِنَّا هُدْنَا إِلَيْكَ ۚ قَالَ عَذَابِي أُصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاءُ ۖ وَرَ‌حْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ۚ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُم بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ ﴿١٥٦﴾
اور ہم لوگوں کے نام دنیا میں بھی نیک حالی لکھ دے اور آخرت میں بھی، ہم تیری طرف رجوع کرتے ہیں۔ (١) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں اپنا عذاب اسی پر واقع کرتا ہوں جس پر چاہتا ہوں اور میری رحمت تمام اشیا پر محیط ہے۔ (٢) تو وہ رحمت ان لوگوں کے نام ضرور لکھوں گا جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور زکوۃ دیتے ہیں اور جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں۔
١٥٦۔١ یعنی توبہ کرتے ہیں۔
١٥٦۔ ٢ یہ اس کی وسعت رحمت ہی ہے کہ دنیا میں صالح و فاسق اور مومن و کافر دونوں ہی اس کی رحمت سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ حدیث میں آتا ہے "اللہ تعالٰی کی رحمت کے ١٠٠ حصے ہیں۔ یہ اس کی رحمت کا ایک حصہ ہے کہ جس سے مخلوق ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے اور وحشی جانور اپنے بچوں پر شفقت کرتے ہیں اور اس نے اپنی رحمت کے ٩٩ حصے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔ (صحيح مسلم، نمبر2108 وابن ماجہ، نمبر4293)
 
Top