• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّمَن فِي أَيْدِيكُم مِّنَ الْأَسْرَ‌ىٰ إِن يَعْلَمِ اللَّـهُ فِي قُلُوبِكُمْ خَيْرً‌ا يُؤْتِكُمْ خَيْرً‌ا مِّمَّا أُخِذَ مِنكُمْ وَيَغْفِرْ‌ لَكُمْ ۗ وَاللَّـهُ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿٧٠﴾
اے نبی! اپنے ہاتھ تلے کے قیدیوں سے کہہ دو کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں نیک نیتی دیکھے گا (١) تو جو کچھ تم سے لیا گیا ہے اس سے بہتر تمہیں دے گا (٢) اور پھر گناہ بھی معاف فرمائے گا اور اللہ بخشنے والا ہے ہی۔
٧٠۔١ یعنی ایمان واسلام لانے کی نیت اور اسے قبول کرنے کا جذبہ۔
٧٠۔٢ یعنی جو فدیہ تم سے لیا گیا ہے، اس سے بہتر تمہیں اللہ تعالیٰ قبول اسلام کے بعد عطا فرما دے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، حضرت عباس رضی الله عنہ وغیرہ جو ان قیدیوں میں تھے، مسلمان ہو گئے تو اس کے بعد اللہ نے انہیں دنیوی مال و دولت سے بھی خوب نوازا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَإِن يُرِ‌يدُوا خِيَانَتَكَ فَقَدْ خَانُوا اللَّـهَ مِن قَبْلُ فَأَمْكَنَ مِنْهُمْ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴿٧١﴾
اور اگر وہ تجھ سے خیانت کا خیال کریں گے تو یہ تو اس سے پہلے خود اللہ کی خیانت کر چکے ہیں آخر اس نے انہیں گرفتار کرا دیا، (١) اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔
٧١۔١ یعنی زبان سے تو اظہار اسلام کر دیں لیکن مقصد دھوکہ دینا ہو، تو اس سے قبل انہوں نے کفر و شرک کا ارتکاب کر کے کیا حاصل کیا ؟ یہی کہ وہ مسلمانوں کے قیدی بن گئے، اس لیے آئندہ بھی اگر وہ شرک کے راستے پر قائم رہے تو اس سے مزید ذلت و رسوائی کے سوا انہیں کچھ اور حاصل نہیں ہو گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُ‌وا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَالَّذِينَ آوَوا وَّنَصَرُ‌وا أُولَـٰئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يُهَاجِرُ‌وا مَا لَكُم مِّن وَلَايَتِهِم مِّن شَيْءٍ حَتَّىٰ يُهَاجِرُ‌وا ۚ وَإِنِ اسْتَنصَرُ‌وكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ‌ إِلَّا عَلَىٰ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُم مِّيثَاقٌ ۗ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ‌ ﴿٧٢﴾
جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اپنے مالوں اور جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا (١) اور جن لوگوں نے ان کو پناہ دی اور مدد کی، (٢) یہ سب آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں، (٣) اور جو ایمان تو لائے ہیں لیکن ہجرت نہیں کی تمہارے لیے ان کی کچھ بھی رفاقت نہیں جب تک کہ وہ ہجرت نہ کریں۔ (٤) ہاں اگر وہ تم سے دین کے بارے میں مدد طلب کریں تو تم پر مدد کرنا ضروری ہے، (٥) سوائے ان لوگوں کے کہ تم میں اور ان میں عہد و پیمان ہے، (٦) تم جو کچھ کر رہے ہو اللہ خوب دیکھتا ہے۔
٧٢۔١ یہ صحابہ مہاجرین کہلاتے ہیں جو فضیلت کے اعتبار سے صحابہ میں اول نمبر پر ہیں۔
٧٢۔٢ یہ انصار کہلاتے ہیں۔ یہ فضیلت میں دوسرے نمبر پر ہیں۔
٧٢۔٣ یعنی ایک دوسرے کے حمایتی اور مددگار ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ ایک دوسرے کے وارث ہیں۔ جیسا کہ ہجرت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایک مہاجر اور ایک ایک انصاری کے درمیان رشتۂ اخوت قائم فرما دیا تھا حتیٰ کہ وہ ایک دوسرے کے وارث بھی بنتے تھے (بعد میں وراثت کا حکم منسوخ ہو گیا)
٧٢۔٤ یہ صحابہ کی تیسری قسم ہے جو مہاجرین و انصار کےعلاوہ ہیں۔ یہ مسلمان ہونے کے بعد اپنے ہی علاقوں اور قبیلوں میں مقیم رہے۔ اس لیے فرمایا کہ تمہاری حمایت یا وراثت کے وہ مستحق نہیں۔
٧٢۔٥ مشرکین کے خلاف اگران کو تمہاری مدد کی ضرورت پیش آ جائے تو پھر ان کی مدد کرنا ضروری ہے۔
٧٢۔ ٦ ہاں اگر وہ تم سے ایسی قوم کے خلاف مدد کے خواہش مند ہوں کہ تمہارے اور ان کے درمیان صلح اور جنگ نہ کرنے کا معاہدہ ہے تو پھر ان مسلمانوں کی حمایت کے مقابلے میں، معاہدے کی پاسداری زیادہ ضروری ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَالَّذِينَ كَفَرُ‌وا بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ إِلَّا تَفْعَلُوهُ تَكُن فِتْنَةٌ فِي الْأَرْ‌ضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ‌ ﴿٧٣﴾
کافر آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو ملک میں فتنہ ہو گا اور زبردست فساد ہو جائے گا۔ (١)
٧٣۔١ یعنی جس طرح کافر ایک دوسرے کے دوست اور حمایتی ہیں اسی طرح اگر تم بھی ایمان کی بنیاد پر ایک دوسرے کی حمایت اور کافروں سے عدم موالات نہ کی، تو پھر بڑا فتنہ اور فساد ہو گا۔ اور وہ یہ کہ مومن اور کافر کے باہمی اختلاط اور محبت و موالات سے دین کے معاملے میں اشتباہ اور مداہنت پیدا ہو گی۔ بعض نے ﴿بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ﴾ سے، وارث ہونا مراد لیا ہے ۔ یعنی کافر ایک دوسرے کے وارث ہیں۔ اور مطلب یہ ہے کہ ایک مسلمان کسی کافر کا اور کافر کسی مسلمان کا وارث نہیں ہے۔ جیسا کہ احادیث میں اسے وضاحت سے بیان کر دیا گیا ہے۔ اگر تم وراثت میں کفر و ایمان کو نظر انداز کر کے محض قرابت کو سامنے رکھو گے تو اس سے بڑا فتنہ اور فساد پیدا ہو گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُ‌وا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَالَّذِينَ آوَوا وَّنَصَرُ‌وا أُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا ۚ لَّهُم مَّغْفِرَ‌ةٌ وَرِ‌زْقٌ كَرِ‌يمٌ ﴿٧٤﴾
جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جنہوں نے پناہ دی اور مدد پہنچائی۔ یہی لوگ سچے مومن ہیں، ان کے لیے بخشش ہے اور عزت کی روزی۔ (١)
٧٤۔١ یہ مہاجرین و انصار کے انہی دو گروہوں کا تذکرہ ہے، جو پہلے بھی گزرا ہے۔ یہاں دوبارہ ان کا ذکر ان کی فضیلت کے سلسلے میں ہے۔ جب کہ پہلے ان کا ذکر ہے جو ایک دوسرے کی حمایت و نصرت کا وجوب بیان کرنے کے لیے تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَالَّذِينَ آمَنُوا مِن بَعْدُ وَهَاجَرُ‌وا وَجَاهَدُوا مَعَكُمْ فَأُولَـٰئِكَ مِنكُمْ ۚ وَأُولُو الْأَرْ‌حَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّـهِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴿٧٥﴾
اور جو لوگ اس کے بعد ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمہارے ساتھ ہو کر جہاد کیا۔ پس یہ لوگ بھی تم میں سے ہی ہیں (١) اور رشتے ناطے والے ان میں سے بعض بعض سے زیادہ نزدیک ہیں اللہ کے حکم میں، (٢) بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔
٧٥۔١ یہ ایک چوتھے گروہ کا ذکر ہے جو فضیلت میں پہلے دو گروہوں کے بعد اور تیسرے گروہ سے، (جنہوں نے پہلے ہجرت نہیں کی تھی) پہلے ہے۔
٧٥۔٢ اخوت یا حلف کی بنیاد پر وراثت میں جو حصہ دار بنتے تھے، اس آیت سے اس کو منسوخ کر دیا گیا اب وارث صرف وہی ہوں گے جو نسبی اور سسرالی رشتوں میں منسلک ہوں گے۔ اللہ کی کتاب یا اللہ کے حکم سے مراد یہ ہے کہ لوح محفوظ میں اصل حکم یہی تھا۔ لیکن اخوت کی بنیاد پر صرف عارضی طور پر ایک دوسرے کا وارث بنا دیا گیا، جو اب ضرورت ختم ہونے پرغیر ضروری ہو گیا اور اصل حکم نافذ کر دیا گیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
سورة التوبہ

(سورہ توبہ* مدنی ہے اور اس میں ایک سو انتیس آیتیں اور سولہ رکوع ہیں۔)​
بَرَ‌اءَةٌ مِّنَ اللَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ إِلَى الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِ‌كِينَ ﴿١﴾
اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے بیزاری کا اعلان ہے۔ (١) ان مشرکوں کے بارے میں جن سے تم نے عہد و پیمان کیا تھا۔
*وجہ تسمیہ: اس کے مفسرین نے متعدد نام ذکر کئے ہیں لیکن زیادہ مشہور دو ہیں۔ ایک توبہ، اس لیے کہ اس میں بعض مومنین کی توبہ قبول ہونے کا ذکر ہے۔ دوسرا براءت ہے۔ اس لیے کہ اس میں مشرکوں سے براءت کا اعلان عام ہے۔ یہ قرآن مجید کی واحد سورت ہے جس کے آغاز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم درج نہیں ہے۔ اس کی بھی متعدد وجوہات کتب تفسیر میں درج ہیں۔ لیکن زیادہ صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ سورہ انفال اور سورہ توبہ ان دونوں کے مضامین میں بڑی یکسانیت پائی جاتی ہے یہ سورت گویا سورہ انفال کا تتمہ یا بقیہ ہے۔ یہ سات بڑی سورتوں میں ساتویں بڑی سورت ہے جنہیں سبع طوال کہا جاتا ہے۔
۱۔١ فتح مکہ کے بعد نو ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ، حضرت علی رضی الله عنہ اور دیگر صحابہ کو قرآن کریم کی یہ آیت اور یہ احکام دے کر بھیجا تاکہ وہ مکے میں ان کا عام اعلان کر دیں۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق اعلان کر دیا کہ کوئی شخص بیت اللہ کا عریاں طواف نہیں کرے گا، بلکہ آئندہ سال سے کسی مشرک کو بیت اللہ کے حج کی ہی اجازت نہیں ہو گی (صحيح بخاری، كتاب الصلاة، باب ما يستر من العورة، مسلم كتاب الحج باب لا يحج البيت مشرك)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَسِيحُوا فِي الْأَرْ‌ضِ أَرْ‌بَعَةَ أَشْهُرٍ‌ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ‌ مُعْجِزِي اللَّـهِ ۙ وَأَنَّ اللَّـهَ مُخْزِي الْكَافِرِ‌ينَ ﴿٢﴾
پس (اے مشرکو!) تم ملک میں چار مہینے تک تو چل پھر لو، (١) جان لو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو، اور یہ (بھی یاد رہے) کہ اللہ کافروں کو رسوا کرنے والا ہے۔ (٢)
٢۔١یہ اعلان براءت ان مشرکین کے لیے تھا جن سے غیر مؤقت معاہدہ تھا یا چار مہینے سے کم تھا یا چار مہینوں سے زیادہ ایک خاص مدت تک تھا لیکن ان کی طرف سے عہد کی پاسداری کا اہتمام نہیں تھا۔ ان سب کو چار مہینے مکہ میں رہنے کی اجازت دی گئی۔ اس کا مطلب یہ تھا اس مدت کے اندر اگر وہ اسلام قبول کر لیں تو انہیں یہاں رہنے کی اجازت ہو گی۔ بصورت دیگر ان کے لیے ضروری ہو گا کہ وہ چار مہینے کے بعد جزیرہ، عرب سے نکل جائیں، اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی بھی اختیار نہیں کریں گے تو حربی کافر شمار ہوں گے، جن سے لڑنا مسلمانوں کے لیے ضروری ہو گا تاکہ جزیرہ عرب کفر و شرک کی تاریکیوں سے صاف ہو جائے۔
٢۔٢ یعنی یہ مہلت اس لیے نہیں دی جا رہی ہے کہ فی الحال تمہارے خلاف کاروائی ممکن نہیں ہے بلکہ اس سے مقصد صرف تمہاری بھلائی اور خیر خواہی ہے تاکہ جو توبہ کر کے مسلمان ہونا چاہے، وہ مسلمان ہو جائے، ورنہ یاد رکھو کہ تمہاری بابت اللہ کی جو تقدیر و مشیت ہے، اسے ٹال نہیں سکتے اور اللہ کی طرف سے مسلط ذلت و رسوائی سے تم بچ نہیں سکتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَأَذَانٌ مِّنَ اللَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ‌ أَنَّ اللَّـهَ بَرِ‌يءٌ مِّنَ الْمُشْرِ‌كِينَ ۙ وَرَ‌سُولُهُ ۚ فَإِن تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ‌ لَّكُمْ ۖ وَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ‌ مُعْجِزِي اللَّـهِ ۗ وَبَشِّرِ‌ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿٣﴾
اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے لوگوں کو بڑے حج کے دن (١) صاف اطلاع ہے کہ اللہ مشرکوں سے بیزار ہے، اور اس کا رسول بھی، اگر اب بھی تم توبہ کر لو تو تمہارے حق میں بہتر ہے، اور اگر تم روگردانی کرو تو جان لو کہ تم اللہ کو ہرا نہیں سکتے، اور کافروں کو دکھ کی مار کی خبر پہنچا دیجئے۔
٣۔١ صحیحین (بخاری و مسلم) اور دیگر صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ یوم حج اکبر سے مراد یوم النحر (دس ذوالحجہ) کا دن ہے۔ (ترمذي نمبر:957، بخاري نمبر:4655، مسلم نمبر:982)، اسی دن منیٰ میں اعلان براءت سنایا گیا۔ دس ذوالحجہ کو حج اکبر کا دن اسی لیے کہا گیا کہ اس دن حج کے سب سے زیادہ اور اہم مناسک ادا کئے جاتے ہیں، اور عوام عمرے کو حج اصغر کہا کرتے تھے۔ اس لیے عمرے سے ممتاز کرنے کے لیے حج کو حج اکبر کہا گیا، عوام میں جو یہ مشہور ہے کہ جو حج جمعہ والے دن آئے، وہ حج اکبر ہے، یہ بے اصل بات ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
إِلَّا الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِ‌كِينَ ثُمَّ لَمْ يَنقُصُوكُمْ شَيْئًا وَلَمْ يُظَاهِرُ‌وا عَلَيْكُمْ أَحَدًا فَأَتِمُّوا إِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلَىٰ مُدَّتِهِمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ ﴿٤﴾
بجز ان مشرکوں کے جن سے تمہارا معاہدہ ہو چکا ہے اور انہوں نے تمہیں ذرا سا بھی نقصان نہیں پہنچایا نہ کسی کی تمہارے خلاف مدد کی ہے تو تم بھی ان کے معاہدے کی مدت ان کے ساتھ پوری کرو، (١) اللہ پرہیز گاروں کو دوست رکھتا ہے۔
٤۔١ یہ مشرکین کی چوتھی قسم ہے ان سے جتنی مدت کا معاہدہ تھا، اس مدت تک انہیں رہنے کی اجازت دی گئی، کیونکہ انہوں نے معاہدے کی پاسداری کی اور اس کے خلاف کوئی حرکت نہیں کی، اس لیے مسلمانوں کے لیے بھی اس کی پاسداری کو ضروری قرار دیا گیا۔
 
Top