• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ‌ الْحُرُ‌مُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِ‌كِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُ‌وهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْ‌صَدٍ ۚ فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿٥﴾
پھر حرمت والے مہینوں (١) کے گزرتے ہی مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو (٢) انہیں گرفتار کرو، (٣) ان کا محاصرہ کرو اور ان کی تاک میں ہر گھاٹی میں جا بیٹھو، (٤) ہاں اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز کے پابند ہو جائیں اور زکوۃ ادا کرنے لگیں تو تم ان کی راہیں چھوڑ دو۔ (٥) یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔
٥۔١ ان حرمت والے مہینوں سے مراد کیا ہے؟ اس میں اختلاف ہے۔ ایک رائے تو یہ ہے اس سے مراد وہی چار مہینے ہیں جو حرمت والے ہیں۔ یعنی رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم۔ اور اعلان براءت دس ذوالحجہ کو کیا گیا۔ اس اعتبار سے گویا یہ اعلان کے بعد پچاس دن کی مہلت انہیں دی گئی، کیونکہ حرمت والے مہینوں کے گزرنے کے بعد مشرکین کو پکڑنے اور قتل کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ لیکن امام ابن کثیر نے کہا کہ یہاں أَشْهُرٌ حُرُمٌ سے مراد حرمت والے مہینے نہیں بلکہ دس ذوالحجہ سے لے کر دس ربیع الثانی تک کے چار مہینے مراد ہیں۔ انہیں أَشْهُرٌ حُرُمٌ اس لیے کہا گیا ہے کہ اعلان براءت کی رو سے ان چار مہینوں میں ان مشرکین سے لڑنے اور ان کے خلاف کسی اقدام کی اجازت نہیں تھی۔ اعلان براءت کی رو سے یہ تاویل مناسب معلوم ہوتی ہے (واللہ اعلم بالصواب)۔٥۔٢ بعض مفسرین نے اس حکم کو عام رکھا یعنی حل یا حرم میں، جہاں بھی پاؤ قتل کرو۔ اور بعض مفسرین نے ﴿وَلا تُقَاتِلُوهُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّى يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ فَإِنْ قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ﴾ ( البقرة ۔191) ”مسجد حرام کے پاس مت لڑو! یہاں تک کہ وہ خود تم سے لڑیں، اگر وہ لڑیں تو پھر تمہیں بھی ان سے لڑنے کی اجازت ہے“۔ اس آیت سے تخصیص کی ہے اور صرف حدود حرم سے باہر حل میں قتل کرنے کی اجازت دی ہے۔ (ابن کثیر)
٥۔٣ یعنی انہیں قیدی بنا لو یا قتل کر دو۔
٥۔٤ یعنی اس بات پر اکتفا کرو کہ وہ تمہیں کہیں ملیں تو تم کاروائی کرو، بلکہ جہاں جہاں ان کے حصار، قلعے اور پناہ گاہیں ہیں وہاں وہاں ان کی گھات میں رہو، حتٰی کہ تمہاری اجازت کے بغیر ان کے لیے نقل و حرکت ممکن نہ رہے۔
٥۔٥ یعنی کوئی کارروائی ان کے خلاف نہ کی جائے، کیونکہ وہ مسلمان ہو گئے ہیں۔ گویا قبول اسلام کے بعد اقامت صلٰوۃ اور ادائے زکوۃ کا اہتمام ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص ان میں سے کسی ایک کا بھی ترک کرتا ہے تو وہ مسلمان نہیں سمجھا جائے گا۔ جس طرح حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ نے مانعین زکوۃ کے خلاف اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے جہاد کیا اور فرمایا: والله لأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلاة وَالزَّكَاةِ (متفق عليه، بحوالہ مشكاة كتاب الزكاة، فصل ثالث) ”اللہ کی قسم میں ان لوگوں سے ضرور لڑوں گا جو نماز اور زکوۃ کے درمیان فرق کریں گے“۔ یعنی نماز تو پڑھیں لیکن زکوۃ ادا کرنے سے گریز کریں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَإِنْ أَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِ‌كِينَ اسْتَجَارَ‌كَ فَأَجِرْ‌هُ حَتَّىٰ يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّـهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْلَمُونَ ﴿٦﴾
اگر مشرکوں میں سے کوئی تجھ سے پناہ طلب کرے تو تو اسے پناہ دے دے یہاں تک کہ وہ کلام اللہ سن لے پھر اسے اپنی جائے امن تک پہنچا دے۔ (١) یہ اس لیے کہ یہ لوگ بے علم ہیں۔
٦۔١ اس آیت میں مذکورہ حربی کافروں کے بارے میں ایک رخصت دی گئی ہے کہ اگر کوئی کافر پناہ طلب کرے تو اسے پناہ دے دو، یعنی اسے اپنی حفظ و امان میں رکھو تاکہ کوئی مسلمان اسے قتل نہ کر سکے اور تاکہ اسے اللہ کی باتیں سننے اور اسلام کے سمجھنے کا موقعہ ملے، ممکن ہے اس طرح اسے توبہ اور قبول اسلام کی توفیق مل جائے۔ لیکن اگر وہ کلام اللہ سننے کے باوجود مسلمان نہیں ہوتا تو اسے اس کی جائے امن تک پہنچا دو، مطلب یہ ہے کہ اپنی امان کی پاسداری آخر تک کرنی ہے، جب تک وہ اپنے مستقر تک بخیریت واپس نہیں پہنچ جاتا، اس کی جان کی حفاظت تمہاری ذمہ داری ہے۔
٦۔٢ یعنی پناہ کے طلبگاروں کو پناہ کی رخصت اس لیے دی گئی ہے کہ یہ بے علم لوگ ہیں، ممکن ہے اللہ اور رسول کی باتیں ان کے علم میں آئیں اور مسلمانوں کا اخلاق و کردار وہ دیکھیں تو اسلام کی حقانیت و صداقت کے وہ قائل ہو جائیں۔ اور اسلام قبول کر کے آخرت کے عذاب سے بچ جائیں۔ جس طرح صلح حدیبیہ کے بعد بہت سے کافر امان طلب کر کے مدینہ آتے جاتے رہے تو انہیں مسلمانوں کے اخلاق و کردار کے مشاہدے سے اسلام کے سمجھنے میں بڑی مدد ملی اور بہت سے لوگ مسلمان ہو گئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِ‌كِينَ عَهْدٌ عِندَ اللَّـهِ وَعِندَ رَ‌سُولِهِ إِلَّا الَّذِينَ عَاهَدتُّمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ ۖ فَمَا اسْتَقَامُوا لَكُمْ فَاسْتَقِيمُوا لَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ ﴿٧﴾
مشرکوں کے لیے عہد اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک کیسے رہ سکتا ہے سوائے ان کے جن سے تم نے عہد و پیمان مسجد حرام کے پاس کیا ہے، (١) جب تک وہ لوگ تم سے معاہدہ نبھائیں تم بھی ان سے وفاداری کرو، اللہ تعالیٰ متقیوں سے محبت رکھتا ہے۔ (٢)
٧۔١ یہ استہفام نفی کے لیے ہے، یعنی جن مشرکین سے تمہارا معاہدہ ہے، ان کے علاوہ اب کسی سے معاہدہ باقی نہیں رہا ہے۔
٧۔٢ یعنی عہد کی پاسداری، اللہ کے ہاں بہت پسندیدہ امر ہے۔ اس لیے معاملے میں احتیاط ضروری ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
كَيْفَ وَإِن يَظْهَرُ‌وا عَلَيْكُمْ لَا يَرْ‌قُبُوا فِيكُمْ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً ۚ يُرْ‌ضُونَكُم بِأَفْوَاهِهِمْ وَتَأْبَىٰ قُلُوبُهُمْ وَأَكْثَرُ‌هُمْ فَاسِقُونَ ﴿٨﴾
ان کے وعدوں کا کیا اعتبار ان کا اگر تم پر غلبہ ہو جائے تو نہ یہ قرابت داری کا خیال کریں نہ عہد و پیمان کا، (١) اپنی زبانوں سے تمہیں پرچا رہے ہیں لیکن ان کے دل نہیں مانتے ان میں سے اکثر فاسق ہیں۔
٨۔١ كَيْفَ، پھر بطور تاکید، نفی کے لیے ہے۔ الَّ کے معنی قرابت (رشتہ داری) اور ذِمَّہ کے معنی عہد کے ہیں۔ یعنی ان مشرکین کی زبانی باتوں کا کیا اعتبار، جب کہ ان کا یہ حال ہے کہ اگر تم پر غالب آ جائیں تو کسی قرابت اور عہد کا پاس نہیں کریں گے۔ بعض مفسرین کے نزدیک پہلا کیف مشرکین کے لیے ہے اور دوسرے سے یہودی مراد ہیں، کیونکہ ان کی صفت بیان کی گئی ہے کہ اللہ کی آیتوں کو کم قیمت پر بیچ دیتے ہیں۔ اور یہ وطیرہ یہودیوں کا ہی رہا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
اشْتَرَ‌وْا بِآيَاتِ اللَّـهِ ثَمَنًا قَلِيلًا فَصَدُّوا عَن سَبِيلِهِ ۚ إِنَّهُمْ سَاءَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿٩﴾
انہوں نے اللہ کی آیتوں کو بہت کم قیمت پر بیچ دیا اور اس کی راہ سے روکا۔ بہت برا ہے جو یہ کر رہے ہیں۔

لَا يَرْ‌قُبُونَ فِي مُؤْمِنٍ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُعْتَدُونَ ﴿١٠﴾
یہ تو کسی مسلمان کے حق میں کسی رشتہ داری کا یا عہد کا مطلق لحاظ نہیں کرتے، یہ ہیں ہی حد سے گزرنے والے۔ (١)
١٠۔١ بار بار وضاحت سے مقصود مشرکین اور یہود کی اسلام دشمنی اور ان کے سینوں میں مخفی عداوت کے جذبات کو بے نقاب کرنا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ ۗ وَنُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ﴿١١﴾
اب بھی اگر یہ توبہ کر لیں اور نماز کے پابند ہو جائیں اور زکٰوۃ دیتے رہیں، تو تمہارے دینی بھائی ہیں۔ (١) ہم تو جاننے والوں کے لیے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کر رہے ہیں۔
١١۔١ نماز، توحید و رسالت کے اقرار کے بعد، اسلام کا سب سے اہم رکن ہے جو اللہ کا حق ہے، اس میں اللہ کی عبادت کے مختلف پہلو ہیں۔ اس میں دست بستہ قیام ہے، رکوع و سجود ہے، دعا و مناجات ہے، اللہ کی عظمت و جلالت کا اور اپنی عاجزی و بے کسی کا اظہار ہے۔ عبادت کی یہ ساری صورتیں اور قسمیں صرف اللہ کے لیے خاص ہیں، نماز کے بعد دوسرا اہم فریضہ زکٰوۃ ہے، جس میں عبادتی پہلو کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بھی شامل ہیں، زکٰوۃ سے معاشرے کے اور زکٰوہ دینے والے کے قبیلے کے ضرورت مند، مفلس نادار اور معذور و محتاج لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں، اسی لیے حدیث میں بھی شہادت کے بعد ان ہی دو چیزوں کو نمایاں کر کے بیان کیا گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں، یہاں تک کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں، اور نماز قائم کریں اور زکٰو ۃ دیں“۔ (صحيح بخاری كتاب الإيمان باب فإن تابوا وأقاموا الصلاة مسلم، كتاب الإيمان، باب الأمر بقتال الناس)۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی الله عنہ کا قول ہے: مَنْ لَمْ يُزَكِّ، فَلَا صَلَاةَ لَهُ (حوالہ مذکورہ) ”جس نے زکوۃ نہیں دی اس کی نماز بھی نہیں“۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَإِن نَّكَثُوا أَيْمَانَهُم مِّن بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ‌ ۙ إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنتَهُونَ ﴿١٢﴾
اگر یہ لوگ عہد و پیمان کے بعد بھی اپنی قسمیں توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعنہ زنی کریں تو تم بھی ان سرداران کفر سے بھڑ جاؤ۔ ان کی قسمیں (١) کوئی چیز نہیں، ممکن ہے کہ اس طرح وہ بھی باز آ جائیں۔
١٢۔١ أَيْمَانٌ، يَمِينٌ کی جمع ہے جس کے معنی قسم کے ہیں۔ ائمہ امام کی جمع ہے۔ مراد پیشوا اور لیڈر ہیں مطلب یہ ہے کہ اگر یہ لوگ عہد توڑ دیں اور دین میں طعن کریں، تو ظاہری طور پر یہ قسمیں بھی کھائیں تو ان قسموں کا کوئی اعتبار نہیں۔ کفر کے ان پیشواؤں سے لڑائی کرو، ممکن ہے اس طرح اپنے کفر سے باز آ جائیں۔ اس سے احناف نے استدلال کیا ہے کہ ذمی (اسلامی مملکت میں رہائش پذیر غیر مسلم) اگر نقض عہد نہیں کرتا، البتہ دین اسلام میں طعن کرتا ہے تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا کیونکہ قرآن نے اس سے قتال کے لیے دو چیزیں ذکر کی ہیں اس لیے جب تک دونوں چیزوں کا صدور نہیں ہو گا وہ قتال کا مستحق نہیں ہو گا۔ لیکن امام مالک، امام شافعی اور دیگر علماء طعن فی الدین کو نقض عہد بھی قرار دیتے ہیں اس لیے ان کے نزدیک اس میں دونوں ہی چیزیں آ جاتی ہیں لہذا اس ذمی کا قتل جائز ہے اسی طرح نقض عہد کی صورت میں بھی قتل جائزہے۔ (فتح القدیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
أَلَا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَّكَثُوا أَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوا بِإِخْرَ‌اجِ الرَّ‌سُولِ وَهُم بَدَءُوكُمْ أَوَّلَ مَرَّ‌ةٍ ۚ أَتَخْشَوْنَهُمْ ۚ فَاللَّـهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَوْهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿١٣﴾
تم ان لوگوں کی سرکوبی کے لیے کیوں تیار نہیں ہوتے (١) جنہوں نے اپنی قسموں کو توڑ دیا اور پیغمبر کو جلا وطن کرنے کی فکر میں ہیں (٢) اور خود ہی اول بار انہوں نے تم سے چھیڑ کی ہے۔ (٣) کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ اللہ ہی زیادہ مستحق ہے کہ تم اس کا ڈر رکھو بشرطیکہ تم ایمان والے ہو۔
١٣۔١ أَلا‌ حرف تحضیض ہے، جس سے رغبت دلائی جاتی ہے، اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دے رہا ہے۔
١٣۔٢ اس سے مراد دارالندوہ کی مشاورت ہے جس میں رؤسائے مکہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلا وطن کرنے، قید کرنے یا قتل کرنے کی تجویزوں پر غور کیا۔
١٣۔٣ اس سے مراد یا تو بدر کی جنگ میں مشرکین مکہ کا رویہ ہے کہ وہ اپنے تجارتی قافلے کی حفاظت کے لیے گئے، لیکن اس کے باوجود کہ انہوں دیکھ لیا کہ وہ قافلہ بچ کر نکل گیا ہے وہ بدر کے مقام پر مسلمانوں سے لڑنے کی تیاری کرتے اور چھیڑ خانی کرتے رہے، جس کے نتیجے میں بالآخر جنگ ہو کر رہی۔ یا اس سے مراد قبیلہ بنی بکر کی وہ امداد ہے جو قریش نے ان کی کی، جب کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیف قبیلے خزاعہ پر چڑھائی کی تھی دراں حالیکہ قریش کی یہ امداد معاہدے کی خلاف ورزی تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّـهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنصُرْ‌كُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ‌ قَوْمٍ مُّؤْمِنِينَ ﴿١٤﴾
ان سے تم جنگ کرو اللہ تعالیٰ انہیں تمہارے ہاتھوں عذاب دے گا، انہیں ذلیل و رسوا کرے گا، تمہیں ان پر مدد دے گا اور مسلمانوں کے کلیجے ٹھنڈے کرے گا۔

وَيُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوبِهِمْ ۗ وَيَتُوبُ اللَّـهُ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴿١٥﴾
اور ان کے دل کا غم و غصہ دور کرے گا، (١) اور وہ جس کی طرف چاہتا ہے رحمت سے توجہ فرماتا ہے۔ اللہ جانتا بوجھتا حکمت والا ہے۔
١٥۔١ یعنی جب مسلمان کمزور تھے تو یہ مشرکین ان پر ظلم و ستم کرتے تھے جس کی وجہ سے مسلمانوں کے دل ان کی طرف سے بڑے دکھی اور مجروح تھے، جب تمہارے ہاتھوں وہ قتل ہوں گے اور ذلت و رسوائی ان کے حصے میں آئے گی تو فطری بات ہے کہ اس سے مظلوم اور ستم رسیدہ مسلمانوں کے کلیجے ٹھنڈے اور دلوں کا غصہ فرو ہو گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تُتْرَ‌كُوا وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّـهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنكُمْ وَلَمْ يَتَّخِذُوا مِن دُونِ اللَّـهِ وَلَا رَ‌سُولِهِ وَلَا الْمُؤْمِنِينَ وَلِيجَةً ۚ وَاللَّـهُ خَبِيرٌ‌ بِمَا تَعْمَلُونَ ﴿١٦﴾
کیا تم یہ سمجھ بیٹھے ہو کہ تم چھوڑ دیئے جاؤ گے (١) حالانکہ اب تک اللہ نے تم میں سے انہیں ممتاز نہیں کیا جو مجاہد ہیں (٢) اور جنہوں نے اللہ کے اور رسول کے اور مومنوں کے سوا کسی کو دلی دوست نہیں بنایا۔ (٣) اللہ خوب خبردار ہے جو تم کر رہے ہو۔ (٤)
١٦۔١ یعنی بغیر امتحان اور آزمائش کے۔
١٦۔٢ گویا جہاد کے ذریعے امتحان لیا گیا۔
١٦۔ ٣ ”وَلِيجَةٌ“، گہرے اور دلی دوست کو کہتے ہیں مسلمانوں کو چونکہ اللہ اور رسول کے دشمنوں سے محبت کرنے اور دوستانہ تعلقات رکھنے سے منع کیا گیا تھا لہذا یہ بھی آزمائش کا ایک ذریعہ تھا، جس سے مخلص مومنوں کو دوسروں سے ممتاز کیا گیا۔
١٦۔ ٤ مطلب یہ ہے کہ اللہ کو پہلے ہی ہر چیز کا علم ہے۔ لیکن جہاد کی حکمت یہ ہے کہ اس سے مخلص اور غیر مخلص، فرماں بردار اور نافرمان بندے نمایاں ہو کر سامنے آ جاتے، جنہیں ہر شخص دیکھ اور پہچان لیتا ہے۔
 
Top