• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فَإِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِي الْحَرْ‌بِ فَشَرِّ‌دْ بِهِم مَّنْ خَلْفَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُ‌ونَ ﴿٥٧﴾
پس جب کبھی تو لڑائی میں ان پر غالب آجائے انہیں ایسی مار مار کہ ان کے پچھلے بھی بھاگ کھڑے ہوں (١) ہو سکتا ہے کہ وہ عبرت حاصل کریں۔
٥٧۔١ شَرِّدْبِھِمْ کا مطلب ہے کہ ان کو ایسی مار مار کہ جس سے ان کے پیچھے، ان کے حمایتوں اور ساتھیوں میں بھگدڑ مچ جائے، حتٰی کہ وہ آپ کی طرف اس اندیشے سے رخ ہی نہ کریں کہ کہیں ان کا بھی وہی حشر نہ ہو جو ان کے پیش رؤوں کا ہوا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِن قَوْمٍ خِيَانَةً فَانبِذْ إِلَيْهِمْ عَلَىٰ سَوَاءٍ ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِينَ ﴿٥٨﴾
اور اگر تجھے کسی قوم کی خیانت کا ڈر ہو تو برابری کی حالت میں ان کا عہد نامہ توڑ دے (١) اللہ تعالٰی خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا (٢)۔
٥٨۔١ خیانت سے مراد ہے معاہد قوم سے نقص عہد کا خطرہ، اور (برابری کی حالت میں) کا مطلب ہے کہ انہیں با قاعدہ مطلع کیا جائے کہ آئندہ ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی معاہدہ نہیں۔ تاکہ دونوں فریق اپنے اپنے طور پر اپنی حفاظت کے ذمہ دار ہوں، کوئی ایک فریق لا علمی اور مغالطے میں نہ مارا جائے۔
٥٨۔٢ یعنی یہ نقص عہد اگر مسلمانوں کی طرف سے بھی ہو تو یہ خیانت ہے جسے اللہ پسند نہیں فرماتا۔ حضرت معاویہ اور رومیوں کے درمیان معاہدہ تھا جب معاہدے کی مدت ختم ہونے کے قریب آئی تو حضرت معاویہ نے روم کی سرزمین کے قریب اپنی فوجیں جمع کرنی شروع کر دیں۔ مقصد یہ تھا کہ معاہدے کی مدت ختم ہو تے ہی رومیوں پر حملہ کر دیا جائے اور عمر بن عبسہ کے علم میں یہ بات آئی تو انہوں نے ایک حدیث رسول بیان فرمائی اور اسے معاہدہ کی خلاف ورزی قرار دیا جس پر حضرت معاویہ نے اپنی فوجیں واپس بلا لیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا سَبَقُوا ۚ إِنَّهُمْ لَا يُعْجِزُونَ ﴿٥٩﴾
کافر یہ خیال نہ کریں کہ وہ بھاگ نکلے۔ یقیناً وہ عاجز نہیں کر سکتے۔
وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّ‌بَاطِ الْخَيْلِ تُرْ‌هِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّـهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِ‌ينَ مِن دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّـهُ يَعْلَمُهُمْ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ ﴿٦٠﴾
تم ان کے مقابلے کے لئے اپنی طاقت بھر قوت کی تیاری کرو اور گھوڑوں کے تیار رکھنے کی (١) کہ اس سے تم اللہ کے دشمنوں کو خوف زدہ رکھ سکو اور ان کے سوا اوروں کو بھی، جنہیں تم نہیں جانتے اللہ انہیں خوب جان رہا ہے جو کچھ بھی اللہ کی راہ میں صرف کرو گے وہ تمہیں پورا پورا دیا جائے گا اور تمہارا حق نہ مارا جائے گا۔
٦٠۔١ فُوَّۃِ کی تفسیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے یعنی تیر اندازی کیونکہ اس دور میں یہ بہت بڑا جنگی ہتھیار تھا اور نہایت اہم فن تھا جس طرح گھوڑے جنگ کے لئے ناگزیر ضرورت تھے، جیسا کہ آیت سے وَاضح ہے۔ لیکن اب تیر اندازی اور گھوڑوں کی جنگی اہمیت اور افادیت و ضرورت باقی نہیں رہی اس لئے (وَاَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْـتَـطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ) 8۔ الانفال:60) کے تحت آجکل کے جنگی ہتھیار (مثلًا میزائل،ٹینک، بم اور جنگی جہاز اور بحری جنگ کے لئے آبدوزیں وغیرہ) کی تیاری ضروری ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَإِن جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴿٦١﴾
اگر وہ صلح کی طرف جھکیں تو بھی صلح کی طرف جھک جا اور اللہ پر بھروسہ رکھ (١) یقیناً وہ سننے جاننے والا ہے
٦١۔١ اگر حالات جنگ کے بجائے صلح کے متقاضی ہوں اور دشمن بھی مائل بہ صلح ہو تو صلح کر لینے میں کوئی حرج نہیں۔ اگر صلح سے دشمن کا مقصد دھوکا اور فریب ہو تب بھی گھبرانے کی ضرورت نہیں اللہ پر بھروسہ رکھیں، یقینا اللہ دشمن کے فریب سے بھی محفوظ رکھے گا، اور وہ آپ کو کافی ہے۔ لیکن صلح کی یہ اجازت ایسے حالات میں ہے جب مسلمان کمزور ہوں اور صلح میں اسلام اور مسلمان کا مفاد ہو لیکن جب اس کے برعکس ہوں، مسلمان قوت و وسائل میں ممتاز ہوں اور کافر کمزور تو اس صورت میں صلح کے بجائے کافروں کی قوت کو توڑنا ضروری ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَإِن يُرِ‌يدُوا أَن يَخْدَعُوكَ فَإِنَّ حَسْبَكَ اللَّـهُ ۚ هُوَ الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِ‌هِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ ﴿٦٢﴾
اگر وہ تجھ سے دغا بازی کرنا چاہیں گے تو اللہ تجھے کافی ہے، اسی نے اپنی مدد سے اور مومنوں سے تیری تائید کی ہے۔
وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ ۚ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الْأَرْ‌ضِ جَمِيعًا مَّا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿٦٣﴾
ان کے دلوں میں باہمی الفت بھی اسی نے ڈالی ہے، زمین میں جو کچھ ہے تو اگر سارا کا سارا بھی خرچ کر ڈالتا تو بھی ان کے دل آپس میں نہ ملا سکتا۔ یہ تو اللہ ہی نے ان میں الفت ڈال دی ہے (١) وہ غالب حکمتوں والا ہے۔
٦٣۔١ ان آیات میں اللہ تعالٰی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں پر جو احسانات فرمائے، ان میں سے ایک بڑے احسان کا ذکر فرمایا گیا ہے وہ یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مومنین کے ذریعے سے مدد فرمائی، وہ آپ کے دست بازو اور محافظ و معاون بن گئے۔ مومنین پر یہ احسان فرمایا کہ ان کے درمیان پہلے جو عداوت تھی، اسے محبت و الفت میں تبدیل فرما دیا، پہلے وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، اب ایک دوسرے کے جانثار بن گئے، پہلے ایک دوسرے کے دلی دشمن تھے اب آپس میں رحیم و شفیق ہوگئے صدیوں پرانی باہمی عداوتوں کو اس طرح ختم کر کے، باہم پیار اور محبت پیدا کر دینا یہ اللہ تعالٰی کی خاص مہربانی اور اس کی قدرت و مشیت کی کارفرمائی تھی، ورنہ یہ ایساکام تھا کہ دنیا بھر کے خزانے بھی اس پر خرچ کر دیئے جاتے تب بھی یہ گوہر مقصود حاصل نہ ہوتا اللہ تعالٰی نے اپنے اس احسان کا ذکر اس آیت کریمہ میں فرمایا ہے:( اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِھٖٓ اِخْوَانًا) 3۔ آل عمران:103) میں بھی فرمایا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی غنائم حنین کے موقع پر انصار سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا"اے جماعت انصار! کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ تم گمراہ تھے اللہ نے میرے ذریعے سے تمہیں ہدایت نصیب فرمائی۔ تم محتاج تھے اللہ نے تمہیں میرے ذریعے سے خوش حال کر دیا اور تم ایک دوسرے سے الگ الگ تھے اللہ نے میرے ذریعے سے تمہیں آپس میں جوڑ دیا "نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو بات کہتے انصار اس کے جواب میں یہی کہتے اللہ ورسولہ امن "۔ اللہ اور اس کے رسول کے احسانات اس سے کہیں زیادہ ہیں"(صحیح بخاری)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللَّـهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ﴿٦٤﴾
اے نبی! تجھے اللہ کافی ہے اور ان مومنوں کو جو تیری پیروی کر رہے ہیں۔
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّ‌ضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ ۚ إِن يَكُن مِّنكُمْ عِشْرُ‌ونَ صَابِرُ‌ونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ۚ وَإِن يَكُن مِّنكُم مِّائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفًا مِّنَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُونَ ﴿٦٥﴾
اے نبی! ایمان والوں کو جہاد کا شوق دلاؤ (١) اگر تم میں بیس بھی صبر والے ہونگے، تو وہ سو پر غالب رہیں گے۔ اور اگر تم ایک سو ہونگے تو ایک ہزار کافروں پر غالب رہیں گے (٢) اس واسطے کہ وہ بےسمجھ لوگ ہیں۔
٦٥۔١ تحریض کے معنی ہیں ترغیب میں مبالغہ کرنا یعنی خوب رغبت دلانا اور شوق پیدا کرنا۔ چنانچہ اس کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم جنگ سے قبل صحابہ کو جہاد کی ترغیب دیتے اور اس کی فضیلت بیان فرماتے۔ جیسا کہ بدر کے موقع پر، جب مشرکین اپنی بھاری تعداد اور بھرپور وسائل کے ساتھ میدان میں آموجود ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ' ایسی جنت میں داخل ہونے کے لئے کھڑے ہو جاؤ، جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے ' ایک صحابی عمیر بن حمام نے کہا ' اس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر؟ ' رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ' ہاں ' اس پر بخ بخ کہا یعنی خوشی کا اظہار کیا اور یہ امید ظاہر کی کہ میں جنت میں جانے والوں میں سے ہونگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ' تم اس میں جانے والوں میں سے ہوگے، چنانچہ انہوں نے اپنی تلوار کی میان توڑ ڈالی اور کھجوریں نکال کر کھانے لگے، پھر جو بچیں ہاتھ سے پھینک دیں اور کہا ان کے کھانے تک میں زندہ رہا تو یہ طویل زندگی ہوگی، پھر آگے بڑھے اور داد شجاعت دینے لگے، حتٰی کہ عروس شہادت سے ہمکنار ہوگئے۔ رضی اللہ عنہ (صحیح مسلم)
٦٥۔٢ یہ مسلمانوں کے لئے بشارت ہے کہ تمہارے ثابت قدمی سے لڑنے والے بیس مجاہد دو سو اور ایک ہزار پر غالب رہیں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
الْآنَ خَفَّفَ اللَّـهُ عَنكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا ۚ فَإِن يَكُن مِّنكُم مِّائَةٌ صَابِرَ‌ةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ۚ وَإِن يَكُن مِّنكُمْ أَلْفٌ يَغْلِبُوا أَلْفَيْنِ بِإِذْنِ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ مَعَ الصَّابِرِ‌ينَ ﴿٦٦﴾
اچھا اب اللہ تمہارا بوجھ ہلکا کرتا ہے، وہ خوب جانتا ہے کہ تم میں ناتوانی ہے، پس اگر تم میں سے ایک سو صبر کرنے والے ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب رہیں گے اور اگر تم میں سے ایک ہزار ہونگے تو وہ اللہ کے حکم سے دو ہزار پر غالب رہیں گے (١) اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے (٢)
٦٦۔١ پچھلا حکم صحابہ رضی اللہ عنہم پر گراں گزرا، کیونکہ اس کا مطلب تھا ایک مسلمان دس کافروں کے لئے بیس دو سو کے لئے اور سو ایک ہزار کے لئے کافی ہیں اور کافروں کے مقابلے میں مسلمانوں کی اتنی تعداد ہو تو جہاد فرض اور اس سے گریز ناجائز ہے، چنانچہ اللہ تعالٰی نے اس میں تخفیف فرما کر ایک اور دس کا تناسب کم کرکے ایک اور دو کا تناسب کر دیا (صحیح بخاری)، تفسیر سورہ الا نفال، اب اس تناسب پر جہاد ضروری اور اس سے کم پر غیر ضروری ہے۔
٦٦۔٢ یہ کہہ کر صبر و ثبات قدمی کی اہمیت بیان فرما دی کہ اللہ کی مدد حاصل کرنے کے لئے اس کا اہتمام ضروری ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَكُونَ لَهُ أَسْرَ‌ىٰ حَتَّىٰ يُثْخِنَ فِي الْأَرْ‌ضِ ۚ تُرِ‌يدُونَ عَرَ‌ضَ الدُّنْيَا وَاللَّـهُ يُرِ‌يدُ الْآخِرَ‌ةَ ۗ وَاللَّـهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿٦٧﴾
نبی کے ہاتھ میں قیدی نہیں چاہییں جب تک کہ ملک میں اچھی خون ریزی کی جنگ نہ ہو جائے۔ تم تو دنیا کے مال چاہتے ہو اور اللہ کا ارادہ آخرت کا ہے (١) اور اللہ زور آور باحکمت ہے۔
٦٧۔١ جنگ بدر میں ستر کافر مارے گئے اور ستر ہی قیدی بنا لئے گئے، یہ کفر و اسلام کا چونکہ پہلا معرکہ تھا۔ اس لئے قیدیوں کے بارے میں کیا طرز عمل اختیار کیا جائے؟ ان کی بابت احکام پوری طرح واضح نہیں تھے چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ستر قیدیوں کے بارے میں مشورہ کیا کہ کیا کیا جائے؟ ان کو قتل کر دیا جائے یا فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے؟ جواز کی حد تک دونوں ہی باتوں کی گنجائش تھی۔ اس لئے دونوں ہی باتیں زیر غور آئیں۔ لیکن بعض دفعہ جواز اور عدم جواز سے قطع نظر حالات و ظروف کے اعتبار سے زیادہ بہتر صورت اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن جواز کو سامنے رکھتے ہوئے کم تر صورت اختیار کر لی گئی، جس پر اللہ تعالٰی کی طرف سے عتاب نازل ہوا۔ مشورے میں حضرت عمر وغیرہ نے مشورہ دیا کہ کفر کی قوت و شوکت توڑنے کے لئے ضروری ہے کہ ان قیدیوں کو قتل کر دیا جائے، کیونکہ یہ کفر اور کافروں کے سرغنے ہیں، یہ آزاد ہو کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زیادہ سازشیں کریں گے۔ جبکہ حضرت ابو بکر کی رائے اس سے برعکس تھی کہ فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دیا جائے اور اس مال سے آئندہ جنگ کی تیاری کی جائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی رائے کو پسند فرمایا جس پر یہ اور اس کے بعد کی آیات نازل ہوئیں۔ جب کفر کا غلبہ ختم ہوگیا تو قیدیوں کے بارے میں امام وقت کو اختیار دے دیا گیا کہ وہ چاہے تو قتل کردے، فدیہ لے کر چھوڑ دے یا مسلمان قیدیوں کے ساتھ تبادلہ کرلے اور چاہے تو ان کو غلام بنا لے، حالات کے مطابق کوئی بھی صورت اختیار کرنا جائز ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
لَّوْلَا كِتَابٌ مِّنَ اللَّـهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴿٦٨﴾
اگر پہلے ہی سے اللہ کی طرف سے بات لکھی ہوئی نہ ہوتی (١) تو جو کچھ تم نے لے لیا ہے اس بارے میں تمہیں کوئی بڑی سزا ہوتی۔
٦٨۔١ اس میں مفسرین کا اختلاف ہے کہ یہ لکھی ہوئی بات کیا تھی ْ بعض نے کہا اس سے مال غنیمت کی حلت مراد ہے یعنی چونکہ یہ نوشتہ تقدیر تھا کہ مسلمانوں کے لئے مال غنیمت حلال ہوگا، اس لئے تم نے فدیہ لے کر ایک جائز کام کیا ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو فدیہ لینے کی وجہ سے تمہیں عذاب عظیم پہنچتا۔ بعض نے اہل بدر کی مغفرت اس سے مراد لی ہے، بعض نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی کو عذاب میں مانع ہونا مراد لیا ہے وغیرہ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلَالًا طَيِّبًا ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿٦٩﴾
پس جو کچھ حلال اور پاکیزہ غنیمت تم نے حاصل کی ہے، خوب کھاؤ پیو (١) اور اللہ سے ڈرتے رہو، یقیناً اللہ غفور و رحیم ہے۔
٦٩۔١ اس میں مال غنیمت کی حلت و پاکیزگی کو بیان کر کے فدیے کا جواز بیان فرما دیا گیا ہے۔ جس سے اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ ' لکھی ہوئی بات ' سے مراد شاید یہی حلت غنائم ہے
 
Top