• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَإِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِي الْحَرْ‌بِ فَشَرِّ‌دْ بِهِم مَّنْ خَلْفَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُ‌ونَ ﴿٥٧﴾
پس جب کبھی تو لڑائی میں ان پر غالب آ جائے انہیں ایسی مار مار کہ ان کے پچھلے بھی بھاگ کھڑے ہوں (١) ہو سکتا ہے کہ وہ عبرت حاصل کریں۔
٥٧۔١ شَرِّدْ بِهِمْ کا مطلب ہے کہ ان کو ایسی مار مار کہ جس سے ان کے پیچھے، ان کے حمایتیوں اور ساتھیوں میں بھگدڑ مچ جائے، حتیٰ کہ وہ آپ کی طرف اس اندیشے سے رخ ہی نہ کریں کہ کہیں ان کا بھی وہی حشر نہ ہو جو ان کے پیش روؤں کا ہوا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِن قَوْمٍ خِيَانَةً فَانبِذْ إِلَيْهِمْ عَلَىٰ سَوَاءٍ ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِينَ ﴿٥٨﴾
اور اگر تجھے کسی قوم کی خیانت کا ڈر ہو تو برابری کی حالت میں ان کا عہد نامہ توڑ دے، (١) اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ (٢)
٥٨۔١ خیانت سے مراد ہے معاہد قسم سے نقض عہد کا خطرہ - اور عَلَى سَوَاءٍ (برابری کی حالت میں) کا مطلب ہے کہ انہیں باقاعدہ مطلع کیا جائے کہ آئندہ ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی معاہدہ نہیں۔ تاکہ دونوں فریق اپنے اپنے طور پر اپنی حفاظت کے ذمہ دار ہوں، کوئی ایک فریق لاعلمی اور مغالطے میں نہ مارا جائے۔
٥٨۔٢ یعنی یہ نقض عہد اگر مسلمانوں کی طرف سے بھی ہو تو یہ خیانت ہے جسے اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا۔ حضرت معاویہ رضی الله عنہ اور رومیوں کے درمیان معاہدہ تھا۔ جب معاہدے کی مدت ختم ہونے کے قریب آئی تو حضرت معاویہ رضی الله عنہ نے روم کی سرزمین کے قریب اپنی فوجیں جمع کرنا شروع کر دیں۔ مقصد یہ تھا کہ معاہدے کی مدت ختم ہوتے ہی رومیوں پر حملہ کر دیا جائے۔ ایک صحابی حضرت عمرو بن عبسہ رضی الله عنہ کے علم میں حضرت معاویہ رضی الله عنہ کی یہ تیاری آئی تو انہوں نے اسے غدر سے تعبیر فرمایا اور ایک حدیث رسول بیان فرما کر اسے معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا، جس پر حضرت معاویہ رضی الله عنہ نے اپنی فوجیں واپس بلا لیں۔ (مسند أحمد جلد 5، ص - 111، أبو داود كتاب الجهاد، باب في الإمام يكون بينه وبين العدو عهد فيسير نحوه (إليه)، ترمذي، أبواب السير، باب ما جاء في الغدر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا سَبَقُوا ۚ إِنَّهُمْ لَا يُعْجِزُونَ ﴿٥٩﴾
کافر یہ خیال نہ کریں کہ وہ بھاگ نکلے۔ یقیناً وہ عاجز نہیں کر سکتے۔

وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّ‌بَاطِ الْخَيْلِ تُرْ‌هِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّـهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِ‌ينَ مِن دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّـهُ يَعْلَمُهُمْ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ ﴿٦٠﴾
تم ان کے مقابلے کے لیے اپنی طاقت بھر قوت کی تیاری کرو اور گھوڑوں کے تیار رکھنے کی (١) کہ اس سے تم اللہ کے دشمنوں کو خوف زدہ رکھ سکو اور ان کے سوا اوروں کو بھی، جنہیں تم نہیں جانتے، اللہ انہیں خوب جان رہا ہے جو کچھ بھی اللہ کی راہ میں صرف کرو گے وہ تمہیں پورا پورا دیا جائے گا اور تمہارا حق نہ مارا جائے گا۔
٦٠۔١ قُوَّةٍ کی تفسیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے یعنی تیر اندازی (صحيح مسلم، كتاب الإمارة، باب فضل الرمي والحث عليه- و ديگر كتب حديث) کیونکہ اس دور میں یہ بہت بڑا جنگی ہتھیار اور نہایت اہم فن تھا، جس طرح گھوڑے جنگ کے لیے ناگزیر ضرورت تھے، جیسا کہ اس آیت سے بھی واضح ہے۔ لیکن اب تیر اندازی اور گھوڑوں کی یہ جنگی اہمیت و افادیت و ضرورت باقی نہیں رہی۔ اس لیے ﴿وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴾ کے تحت آج کل کے جنگی ہتھیاروں (مثلاً میزائیل، ٹینک، بم اور جنگی جہاز اور بحری جنگ کے لیے آبدوزیں وغیرہ) کی تیاری ضروری ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَإِن جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴿٦١﴾
اگر وہ صلح کی طرف جھکیں تو تو بھی صلح کی طرف جھک جا اور اللہ پر بھروسہ رکھ، (١) یقیناً وہ سننے جاننے والا ہے۔
٦١۔١ یعنی اگر حالت جنگ کے بجائے صلح کے متقاضی ہوں اور دشمن بھی مائل بہ صلح ہو تو صلح کر لینے میں کوئی حرج نہیں ۔ اگر صلح سے دشمن کا مقصد دھوکہ اور فریب ہو، تب بھی گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ اللہ پر بھروسہ رکھیں، یقیناً اللہ دشمن کے فریب سے بھی محفوظ رکھے گا، اور وہ آپ کو کافی ہے۔ لیکن صلح کی یہ اجازت ایسے حالات میں ہے جب مسلمان کمزور ہوں اور صلح میں اسلام اور مسلمانوں کا مفاد ہو۔ لیکن جب معاملہ اس کے برعکس ہو، مسلمان قوت و وسائل میں ممتاز ہوں اور کافر کمزور اورہزیمت خوردہ تو اس صورت میں صلح کے بجائے کافروں کی قوت و شوکت کو توڑنا ضروری ہے۔ (سورۂ محمد: 35) ﴿وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ﴾ (الأنفال: 39)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَإِن يُرِ‌يدُوا أَن يَخْدَعُوكَ فَإِنَّ حَسْبَكَ اللَّـهُ ۚ هُوَ الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِ‌هِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ ﴿٦٢﴾
اگر وہ تجھ سے دغا بازی کرنا چاہیں گے تو اللہ تجھے کافی ہے، اسی نے اپنی مدد سے اور مومنوں سے تیری تائید کی ہے۔

وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ ۚ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الْأَرْ‌ضِ جَمِيعًا مَّا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿٦٣﴾
ان کے دلوں میں باہمی الفت بھی اسی نے ڈالی ہے۔ زمین میں جو کچھ ہے تو اگر سارا کا سارا بھی خرچ کر ڈالتا تو بھی ان کے دل آپس میں نہ ملا سکتا۔ یہ تو اللہ ہی نے ان میں الفت ڈال دی ہے (١) وہ غالب حکمتوں والا ہے۔
٦٣۔١ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں پر جو احسانات فرمائے، ان میں سے ایک بڑے احسان کا ذکرفرمایا ہے۔ وہ یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مومنین کے ذریعے سے مدد فرمائی، وہ آپ کے دست و بازو اور محافظ و معاون بن گئے۔ مومنین پر یہ احسان فرمایا کہ ان کے درمیان پہلے جو عداوت تھی، اسے محبت و الفت میں تبدیل فرما دیا۔ پہلے وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، اب ایک دوسرے کے جانثار بن گئے، پہلے ایک دوسرے کے دلی دشمن تھے، اب آپس میں رحیم و شفیق ہو گئے۔ صدیوں پرانی باہمی عداوتوں کو اس طرح ختم کر کے، باہم پیار اور محبت پیدا کر دینا، یہ اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی اور اس کی قدرت و مشیت کی کار فرمائی تھی، ورنہ یہ ایسا کام تھا کہ دنیا بھر کے خزانے بھی اس پر خرچ کر دیئے جاتے تب بھی یہ گوہر مقصود حاصل نہ ہوتا اللہ تعالیٰ نے اپنے اس احسان کا ذکر سورۂ آل عمران 103 ﴿إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ﴾ میں بھی فرمایا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غنائم حنین کے موقع پر انصار سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے جماعت انصار! کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ تم گمراہ تھے، اللہ نے میرے ذریعے سے تمہیں ہدایت نصیب فرمائی تم محتاج تھے، اللہ نے تمہیں میرے ذریعے سے خوشحال کر دیا اور تم ایک دوسرے سے الگ الگ تھے، اللہ نے میرے ذریعے سے تمہیں آپس میں جوڑ دیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو بات کہتے، انصار اس کے جواب میں یہی کہتے ’’اللهُ وَرَسُولُهُ أَمَنّ‘‘ اللہ اور اس کے رسول کے احسانات اس سے کہیں زیادہ ہیں“۔ (صحيح بخاری، كتاب المغازي، باب غزوة الطائف- صحيح مسلم، كتاب الزكاة باب إعطاء المؤلفة قلوبهم على الإسلام)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللَّـهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ﴿٦٤﴾
اے نبی! تجھے اللہ کافی ہے اور ان مومنوں کو جو تیری پیروی کر رہے ہیں۔

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّ‌ضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ ۚ إِن يَكُن مِّنكُمْ عِشْرُ‌ونَ صَابِرُ‌ونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ۚ وَإِن يَكُن مِّنكُم مِّائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفًا مِّنَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُونَ ﴿٦٥﴾
اے نبی! ایمان والوں کو جہاد کا شوق دلاؤ (١) اگر تم میں بیس بھی صبر والے ہوں گے، تو وہ سو پر غالب رہیں گے۔ اور اگر تم ایک سو ہوں گے تو ایک ہزار کافروں پر غالب رہیں گے (٢) اس واسطے کہ وہ بے سمجھ لوگ ہیں۔
٦٥۔١ تَحْرِيضٌ کے معنی ہیں ترغیب میں مبالغہ کرنا یعنی خوب رغبت دلانا اور شوق پیدا کرنا۔ چنانچہ اس کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم جنگ سے قبل صحابہ کو جہاد کی ترغیب دیتے اور اس کی فضیلت بیان فرماتے۔ جیسا کہ بدر کے موقعے پر، جب مشرکین اپنی بھاری تعداد اور بھرپور وسائل کے ساتھ میدان میں آ موجود ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسی جنت میں جانے کے لیے کھڑے ہو جاؤ جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے“، ایک صحابی عمیر بن حمام رضی الله عنہ نے کہا اس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اس پر بخ بخ کہا یعنی خوشی کا اظہار کیا اور یہ امید ظاہر کی کہ میں بھی جنت میں جانے والوں میں سے ہوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اس میں جانے والوں میں سے ہو گے“۔ چنانچہ انہوں نے اپنی تلوار کی میان توڑ ڈالی اور کھجوریں نکال کر کھانے لگے، پھر جو بچیں، ہاتھ سے پھینک دیں اور کہا۔ ان کے کھانے تک میں زندہ رہا تو یہ تو طویل زندگی ہو گی پھر آگے بڑھے اور داد شجاعت دینے لگے، حتیٰ کہ عروس شہادت سے ہمکنار ہو گئے (رضی الله عنہ) (صحيح مسلم، كتاب الإمارة، باب ثبوت الجنة للشهيد)
٦٥۔٢ یہ مسلمانوں کے لیے بشارت ہے کہ تمہارے ثابت قدمی سے لڑنے والے بیس مجاہد دو سو پر اور سو ایک ہزار پر غالب رہیں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
الْآنَ خَفَّفَ اللَّـهُ عَنكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا ۚ فَإِن يَكُن مِّنكُم مِّائَةٌ صَابِرَ‌ةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ۚ وَإِن يَكُن مِّنكُمْ أَلْفٌ يَغْلِبُوا أَلْفَيْنِ بِإِذْنِ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ مَعَ الصَّابِرِ‌ينَ ﴿٦٦﴾
اچھا اب اللہ تمہارا بوجھ ہلکا کرتا ہے، وہ خوب جانتا ہے کہ تم میں ناتوانی ہے، پس اگر تم میں سے ایک سو صبر کرنے والے ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب رہیں گے اور اگر تم میں سے ایک ہزار ہوں گے تو وہ اللہ کے حکم سے دو ہزار پر غالب رہیں گے، (١) اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (٢)
٦٦۔١ پچھلا حکم صحابہ رضی الله عنہم پر گراں گزرا، کیونکہ اس کا مطلب تھا، ایک مسلمان دس کافروں کے لیے، بیس دو سو کے لیے اور سو ایک ہزار کے لیے کافی ہیں اور کافروں کے مقابلے میں مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد ہو تو جہاد فرض اور اس سے گریز ناجائز ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس میں تخفیف فرما کر ایک اور دس کا تناسب کم کر کے ایک اور دو کا تناسب کر دیا (صحیح بخاری، تفسیر سورۂ الانفال) اب اس تناسب پر جہاد ضروری اور اس سے کم پر غیر ضروری ہے۔
٦٦۔٢ یہ کہہ کر صبر و ثبات قدمی کی اہمیت بیان فرما دی کہ اللہ کی مدد حاصل کرنے کے لیے اس کا اہتمام ضروری ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَكُونَ لَهُ أَسْرَ‌ىٰ حَتَّىٰ يُثْخِنَ فِي الْأَرْ‌ضِ ۚ تُرِ‌يدُونَ عَرَ‌ضَ الدُّنْيَا وَاللَّـهُ يُرِ‌يدُ الْآخِرَ‌ةَ ۗ وَاللَّـهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿٦٧﴾
نبی کے ہاتھ میں قیدی نہیں چاہییں جب تک کہ ملک میں اچھی خونریزی کی جنگ نہ ہو جائے۔ تم تو دنیا کے مال چاہتے ہو اور اللہ کا ارادہ آخرت کا ہے (١) اور اللہ زور آور باحکمت ہے۔
٦٧۔١ جنگ بدر میں ستر کافر مارے گئے اور ستر ہی قیدی بنا لیے گئے۔ یہ کفر و اسلام کا چونکہ پہلا معرکہ تھا۔ اس لیے قیدیوں کے بارے میں کیا طرز عمل اختیار کیا جائے؟ ان کی بابت احکام پوری طرح واضح نہیں تھے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ستر قیدیوں کے بارے میں مشورہ کیا کہ کیا کیا جائے؟ ان کو قتل کر دیا جائے یا فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے ؟ جواز کی حد تک دونوں ہی باتوں کی گنجائش تھی۔ اسی لیے دونوں ہی باتیں زیر غور آئیں۔ لیکن بعض دفعہ جواز و عدم جواز سے قطع نظر حالات و ظروف کے اعتبار سے زیادہ بہتر صورت اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں بھی ضرورت زیادہ بہتر صورت اختیار کرنے کی تھی۔ لیکن جواز کو سامنے رکھتے ہوئے کم تر صورت اختیار کر لی گئی، جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عتاب نازل ہوا۔ مشورے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ نے یہ مشورہ دیا کہ کفر کی قوت و شوکت توڑنے کے لیے ضروری ہے کہ ان قیدیوں کو قتل کر دیا جائے، کیونکہ یہ کفر اور کافروں کے سرغنے ہیں، یہ آزاد ہو کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زیادہ سازشیں کریں گے۔ جبکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ وغیرہ کی رائے اس کے برعکس یہ تھی کہ فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دیا جائے اس مال سے آئندہ جنگ کی تیاری کی جائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی رائے کو پسند فرمایا جس پر یہ اور اس کے بعد کی آیات نازل ہوئیں، ﴿حَتَّى يُثْخِنَ فِي الأَرْضِ﴾ کا مطلب ہے کہ اگر ملک میں کفر کا غلبہ ہے (جیسا کہ اس وقت عرب میں کفر کا غلبہ تھا) تو کافروں کی خوں ریزی کر کے کفر کی قوت کو توڑنا ضروری ہے۔ اس نکتے کو نظر انداز کر کے تم نے جو فدیہ قبول کیا ہے تو گویا، زیادہ بہتر صورت کو چھوڑ کر کم تر صورت کو اختیار کیا ہے جو تمہاری غلطی ہے۔ بعد میں جب کفر کا غلبہ ختم ہو گیا تو قیدیوں کے بارے میں امام وقت کو اختیار دے دیا گیا کہ وہ چاہے تو قتل کر دے، فدیہ لے کر چھوڑ دے یا مسلمان قیدیوں کے ساتھ تبادلہ کر لے اور چاہے تو ان کو غلام بنا لے، حالات و ظروف کے مطابق کوئی بھی صورت اختیار کرنا جائز ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
لَّوْلَا كِتَابٌ مِّنَ اللَّـهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴿٦٨﴾
اگر پہلے ہی سے اللہ کی طرف سے بات لکھی ہوئی نہ ہوتی (١) تو جو کچھ تم نے لے لیا ہے اس بارے میں تمہیں کوئی بڑی سزا ہوتی۔
٦٨۔١ اس میں مفسرین کا اختلاف ہے کہ یہ لکھی ہوئی بات کیا تھی؟ بعض نے کہا کہ اس سے مال غنیمت کی حلت مراد ہے یعنی چونکہ یہ نوشتۂ تقدیر تھا کہ مسلمانوں کے لیے مال غنیمت حلال ہو گا، اس لیے تم نے فدیہ لے کر ایک جائز کام ہی کیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو فدیہ لینے کی وجہ سے تمہیں عذاب عظیم پہنچتا۔ بعض نے اہل بدر کی مغفرت اس سے مراد لی ہے، بعض نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی کو عذاب سے مانع ہونا مراد لیا ہے وغیرہ۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے فتح القدیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلَالًا طَيِّبًا ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿٦٩﴾
پس جو کچھ حلال اور پاکیزہ غنیمت تم نے حاصل کی ہے، خوب کھاؤ پیو (١) اور اللہ سے ڈرتے رہو، یقیناً اللہ غفور و رحیم ہے۔
٦٩۔١ اس میں مال غنیمت کی حلت و پاکیزگی کو بیان کر کے فدیے کا جواز بیان فرما دیا گیا۔ جس سے اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ لکھی ہوئی بات سے مراد شاید یہی حلت غنائم ہے۔
 
Top