• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر سورۂ اخلاص

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
امر اللہ کی تشریح

علی ھٰذا القیاس جب مخلوق کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ وہ ’’امر الله‘‘ ہے تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے امر سے پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
أَتَىٰ أَمْرُ اللَّـهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُ (سورة النحل)
اللہ کا حکم یعنی روزِ آخرت آ کر رہے گا تم اس کے لیے جلدی نہ کرو۔
فَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهَا حِجَارَةً مِّن سِجِّيلٍ (سورة هود)
سو جب ہمارا امر یعنی عذاب آیا تو ہم نے اسے زیرو زبر کر دیا اور اس پر کھڑنجے کے پتھر برسائے۔
سو یاد رکھنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ ’’احد‘‘ اور ’’صمد‘‘ ہے۔ اس کی تقسیم و تجزی غیر ممکن ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ اس کا کچھ حصہ اس کے غیر میں تبدیل ہو جائے خواہ اس حصے کا نام روح ہو یا کچھ اور۔ اس کا حکم ایک ہی ہے، اس لیے نصاریٰ کا یہ وہم باطل ہے کہ ’’عیسیٰ اللہ کا بیٹا ہے‘‘۔ اور یہ امر واضح ہو گیا کہ وہ اللہ کے بندوں میں سے ایک بندہ ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے، کہ قوم نصاریٰ اس طرح گمراہ ہو گئی کہ ہم سے پہلے ایک لغت تھی، جو لفظِ ’’رب‘‘ (پروردگار) کو "اب" (باپ) سے اور ’’عبد مربی‘‘ (تربیت یافتہ بندہ) کو جو رب سے تربیت پاتا اور اس کی خدمت کرتا ہو۔ ’’ابن‘‘ (بیٹا) سے تعبیر کی گئی تھی۔ چنانچہ مسیح علیہ اسلام نے کہا کہ ’’لوگو! باپ، بیٹے اور روح القدس کا قصد کرو‘‘ یہ کہہ کر مسیح علیہ السلام نے لوگوں کو حکم دیا، کہ وہ اللہ پر ایمان لائیں، اس کے بندے اور رسول یعنی مسیح علیہ السلام کو مانیں اور روح القدس یعنی جبرئیل پر بھی ایمان لائیں۔ یہ نام اللہ کے اور اس کے ملکی رسول (جبریل) اور بشری رسول (عیسیٰ) کے لیے مخصوص تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اللَّـهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ (سورة الحج)
اللہ تعالیٰ فرشتوں اور آدمیوں میں سے پیغمبر کا انتخاب کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بہت سی آیات میں یہ خبر دی ہے کہ اس نے مسیح علیہ السلام کو روح القدس کی تائید عطا فرمائی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
روح القدس کی تعبیرات

روح القدس، جمہور مفسرین کے نزدیک حضرت جبرئیل ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَقَفَّيْنَا مِن بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ ۖ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ (سورة البقرة)
اور البتہ ہم نے موسٰی علیہ السلام کو کتاب دی، اس کے بعد پے در پے پیغمبر بھیجے۔ اور ہم نے عیسٰی ابن مریم کو کھلے کھلے معجزے دیے اور پاک روح یعنی جبرئیل علیہ السلام کے ذریعے سے ہم نے اس کی تائید کی۔
جمہور مفسرین کے نزدیک ’’روح القدس ‘‘ حضرت جبرئیل ہیں، ابن عباس رضی اللہ عنہ، قتادہ، ضحاک سدی وغیرہ کا قول یہی ہے، اور اس قول کی دلیل یہ ہے :
وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً مَّكَانَ آيَةٍ ۙ وَاللَّـهُ أَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ قَالُوا إِنَّمَا أَنتَ مُفْتَرٍ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿١٠١﴾ قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ مِن رَّبِّكَ بِالْحَقِّ لِيُثَبِّتَ الَّذِينَ آمَنُوا وَهُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ (سورة النحل)
اور جب ہم کسی آیت کی جگہ کوئی دوسری آیت بدل کر لاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اپنے منزلات کی حکمت و مصلحت سے خوب واقف ہوتا ہے مگر وہ کہتے ہیں کہ تو افترا پرداز ہے۔ حق بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر خود بے علم ہیں۔ اے رسول ان سے کہو کہ اسے روح القدس نے تیرے پروردگار کی طرف سے حق کے ساتھ نازل کیا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ مومنوں کو مضبوط کرے اور یہ مسلمانوں کے لیے ہدایت و بشارت ہے۔
ضحاک نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، کہ ’’روح القدس‘‘ ایک ’’اسم‘‘ ہے جس سے عیسٰی علیہ السلام مردوں کو زندہ کیا کرتے تھے"۔ عبدالرحمٰن ابن زید بن اسلم سے مروی ہے کہ ’’وہ انجیل ہے ‘‘۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
أُولَـٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ (سورة المجادلة)
یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان نقش کر دیا اور اپنی روح سے ان کی تائید کی۔
وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا ۚ مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَـٰكِن جَعَلْنَاهُ نُورًا نَّهْدِي بِهِ مَن نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا (سورة الشورى)
اور اسی طرح ہم نے تیری طرف اپنے حکم سے ایک روح وحی کی۔ تجھے تو اتنا بھی معلوم نہ تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کس حقیقت کا نام ہے؟ لیکن ہم نے اس روح یعنی قرآن کو ایک نور بنایا جس کے ذریعے سے ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں، راہ ہدایت دکھاتے ہیں۔
يُنَزِّلُ الْمَلَائِكَةَ بِالرُّوحِ مِنْ أَمْرِهِ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ (سورة النحل)
وہ اپنے حکم سے فرشتوں کو وحی دے کر اپنے بندوں میں سے جس کے پاس چاہتا ہے بھیجتا ہے۔
سو اللہ تعالیٰ جو چیز اپنے انبیاء کے قلوب میں نازل کرتا ہے اور جو ایمان خالص سے ان کے دلوں کو زندہ کرتی ہے اس کا نام اس بزرگ و برتر ذات نے ’’روح‘‘ رکھا ہے، اور یہ وہ چیز ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی تائید بھی کرتا ہے تو پھر مرسلین اور مسیح جیسے اولوالعزم بندوں کی تائید کیوں نہ کرتا اور مسیح علیہ السلام تو جمہور انبیاء و رسل کی نسبت اس تائید کے زیادہ مستحق ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۘ مِّنْهُم مَّن كَلَّمَ اللَّـهُ ۖ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ ۚ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ (سورة البقرة)
ان رسولوں میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی، ان میں سے بعض کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے کلام کیا اور بعض کے درجات بلند کیے اور عیسٰی ابن مریم کو ہم نے کھلے کھلے معجزے دیے اور پاک روح کے ساتھ اس کی تائید کی۔
زجاج نے اس تائید کی تین صورتیں بیان کیں، ایک یہ کہ اس نے اپنے امر اور اپنے دین کے اظہار کے لیے مسیح علیہ السلام کی تائید کی۔ دوسرے یہ کہ جب بنی اسرائیل نے مسیح علیہ السلام کے قتل کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان سے بچانے میں مدد کی۔ تیسرے یہ کہ مسیح علیہ السلام کے جمیع حالات میں اس کی تائید فرمائی۔
یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ ’’ابن‘‘ کا لفظ ان کی نسبت میں مسیح علیہ السلام کے ساتھ مختص نہیں ہے۔ بلکہ ان کی رائے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے توراۃ میں اسرائیل سے بھی کہا ہے، کہ تو میرا اولین بیٹا ہے، اور مسیح علیہ السلام فرمایا کرتے تھے، ’’میرا باپ اور تمہارا باپ‘‘۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو سارے لوگوں کا باپ بناتے تھے اور جس طرح اپنے آپ کو اللہ کا بیٹا کہتے تھے، اسی طرح دوسروں کو بھی کہتے تھے۔ سو معلوم ہوا کہ مسیح علیہ السلام کو اس باب میں کوئی خصوصیت حاصل نہیں ہے لیکن نصارٰی تو یہ کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا طبعی بیٹا ہے اور دوسرا جو شخص بھی ہے، وہ اس کا وضعی بیٹا ہے۔ حالانکہ ان کے پاس یہ فرق قائم کرنے کے لیے کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ مزید براں مسیح علیہ السلام کو طبعی بیٹا قرار دینے سے بعض محالات عقلی و سمعی لازم آتے ہیں جن سے اس قول کا بطلان بالصراحت معلو م ہو جاتا ہے۔
 
Top